پیغمبر ِ اسلام — استثنائی شخصیت

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 570ء میں مکہ میں ہوئی۔ 610ء میں آپ کو نبوت ملی۔ 632ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت تھے۔ آپ کا استثنائی شخصیت ہونا اپنے آپ میں اِس بات کا ایک ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالی کے نمائندہ تھے۔ آپ کو اللہ تعالی کی خصوصی نصرت حاصل تھی۔ خداوندِ کائنات کی خصوصی نصرت کے بغیر کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت بن جائے۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس استثنائی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ اِس موضوع کی تفصیل کے لیے ایک مکمل کتاب درکار ہے۔ یہاں آپ کی استثنائی شخصیت کے چند پہلو مختصر طورپر درج کیے جاتے ہیں:

اظہارِ دین

قرآن کی سورہ الفتح میں پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (48:28)۔یعنی یہ اللہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اُس کو تمام دین پر غالب کردے۔ اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے۔قرآن کے اِس بیان میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دینِ خداوندی کے اعلان کے لیے بہت سے لوگ اٹھے، لیکن اُن کا کام اعلان کے درجے تک محدود رہا، وہ انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا۔ پیغمبرِ اسلام کا مشن اللہ کی خصوصی نصرت سے نظریاتی انفجار (ideological explosion) تک پہنچ گیا۔ آپ کے ذریعے افکار کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا کہ آپ کو تاریخ ساز پیغمبر (epoch-making prophet) کی حیثیت حاصل ہوگئی۔

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس انقلابی صفت کا اعتراف مختلف مورخین نے کھلے طورپر کیا ہے۔ فرانس کا مورخ ہنری پرین (Henri Pirenne) 1862 میں پیدا ہوا، اور 1935 میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے اسلام اور پیغمبر ِاسلام کے موضوع پر کئی کتابیں شائع کی ہیں۔ اُس نے لکھا ہے کہ — اسلام نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ اس کے بعد روایتی دورِ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا:

It (Islam) had sufficed to change the face of the globe. Wherever it had passed the ancient States, which were deeply rooted in the centuries, were overturned as by a cyclone; the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne: A History of Europe, London, 1939, p. 46).

کارِ نبوت کا تسلسل

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو انقلاب آیا، اُس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبر کے بغیر کارِ نبوت کا تسلسل جاری رہے۔ پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں ایسا ہوتا تھاکہ پیغمبر پر نازل ہونے والی وحی پیغمبر کے بعد محفوظ نہیں رہتی تھی، اِس لیے بار بار خدا کی طرف سے پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔ لیکن پیغمبر اسلام کے ذریعے یہ ہوا کہ آپ کے اوپر نازل ہونے والی وحی (قرآن) پوری طرح محفوظ ہوگئی۔ آپ کی زندگی بھی تاریخی طورپر مدوّن ہوگئی۔ اِس لیے آپ کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص جو گہرے طورپر پیغمبر کے مشن سے اپنے آپ کو وابستہ کرے، وہ اپنے زمانے میں پیغمبر کا نمائندہ بن جائے۔

یہی بات حدیثِ رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے: إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِیَاءِ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2682)۔یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: عُلَمَاءُ أُمَّتِی کَأَنْبِیَاءِ بَنِی إِسْرَائِیلَ(المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر 702)۔یعنی میری امت کے علماءبنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں۔

پیغمبرِ اسلام صلی للہ علیہ وسلم کے ذریعے دینِ خداوندی کے تمام اجزا محفوظ ہوگئے، جو دین پہلے زندہ شخصیتوں کی سطح پر ہوتا تھا، وہ اب مستند کتابوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا، اِس طرح امت کی بعد کی نسلوں میں اٹھنے والے افراد کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ کارِ نبوت کا تسلسل دوبارہ زندہ حالت میں جاری کرسکیں:

Without being a prophet, one can play the prophetic role.

خالق کا تخلیقی پلان

یہ ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ جانے کہ پیدا کرنےوالے نے اُس کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ اُس کا مقصدِ تخلیق کیا ہے۔ اس کے لیے کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا۔ ہر عورت اور مرد اِس سوال سے لازمی طور پر دوچار ہوتے ہیں، خواہ شعوری طورپر یا غیر شعوری طورپر۔

اِس سوال کا معتبر جواب صرف خالق دے سکتا ہے۔ یہ صرف خالق ہے جو یہ بتا سکتا ہے کہ انسان اور کائنات کو پیدا کرنے سے اُس کا منصوبۂ تخلیق(creation plan) کیا ہے۔ قرآن اور پیغمبرقرآن کے ذریعے خدا نے اِس سوال کا معتبر جواب فراہم کیا ہے۔اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان کو جانے:

It became possible for everyone to know the creation plan of God.

پہلے زمانے میں حنفاء ہوا کرتے تھے، یعنی متلاشیٔ حق۔پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص اپنی تلاشِ حق کو دریافت ِحق بناسکے:

Truth-seekers no longer need to live in bewilderment.

نشانیوں کا ظہور

قرآن کی سورہ حم السجدہ میں بعد کی تاریخ کے لیے ایک پیشین گوئی اِن الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ( 41:53)۔ یعنی مستقبل میں ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات میں بھی اور انسان کے اندر بھی، یہاں تک کہ اُن پر پوری طرح یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔

قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، انھوں نے خرقِ عادت معجزے دکھائے۔ یہ معجزے اُن کے معاصرین کے لیے اُن کے پیغمبر ہونے کی دلیل تھے۔ حسّی معجزہ معاصرین کے لیے دلیل ہوتا ہے، بعد کے لوگوں کے لیے وہ دلیل نہیں ہوتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری پیغمبر تھے، یعنی قیامت تک کے لیے پیغمبر۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے پیغام کی پیغام رسانی اہلِ عالم کے لیے جاری رہے گی۔

یہ کام اِس طرح انجام پایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے تاریخ میں ایک ایسا عمل جاری ہوا جس کے نتیجے میں فطرت کے قوانین دریافت ہوئے۔ یہ قوانین ِ فطرت معجزہ کا بدل بن گئے۔ اِن قوانین کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ بعد کے زمانے میں سائنسی دلائل کی طاقت سے وہ دعوتی کام انجام دیا جاسکے جو پہلے معجزہ کی طاقت سے انجام دیا جاتا تھا، گویا کہ پیغمبر اسلام سے پہلے دعوت بذریعہ معجزہ (dawah through miracle)کا زمانہ تھا۔ اور اب دعوت بذریعہ علمی دلائل (dawah through scientific argument) کا زمانہ ہے۔

قرآن کی سورہ الاسراء میں پیغمبر اسلام کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ: عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(17:79) یعنی قریب ہے کہ تمھارا رب تم کومقامِ محمود پر کھڑا کرے۔ اِس آیت میں مقامِ محمود کسی پُراسرار واقعے کا نام نہیں ہے۔ اُس سے مراد ایک معلوم واقعہ ہے جو تاریخ میں مسلّمہ طورپر پیش آیا۔ پیغمبر اسلام سے پہلے جو پیغمبر آئے، وہ مستند تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے۔ پیغمبروں کی فہرست میں پیغمبر اسلام پہلے پیغمبر ہیں جو مستند تاریخ میں درج کیے گئے۔ ایک مغربی مؤرخ نے اِس کا اقرار اِن الفاظ میں کیا ہے — محمد تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:

Muhammad was born within the full light of history.

حقیقت یہ ہے کہ نبیٔ محمود سے مرادنبیٔ معتَرَف(acknowledged Prophet) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی میں آپ کو اتنا کم سمجھا گیا کہ مکہ کے مخالفین آپ کو مذمّم (condemned person) کہنے لگے۔ لیکن آخر کار تاریخ آپ کے موافق ہوگئی۔ عام طور پر مؤرخین اور مبصرین آپ کی عظمت کا اعتراف کرنے لگے۔اِن میں سے ایک مثال امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ(Michael H. Hart) کی ہے۔ انھوں نے تمام دنیا کی مشہور شخصیتوں کا مطالعہ کرکے ایک ضخیم کتاب تیار کی۔ اُس کا عنوان ایک سو (The Hundred) ہے۔ اِس کتاب میں پوری انسانی تاریخ کی ایک سو بڑی شخصیتوں کا تذکرہ ہے۔ مصنف نے اِس کتاب میں پیغمبر اسلام کو اِس فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے — محمد تاریخ کے پہلے شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:

He [Mohammad] was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels (Michael H, Hart: The 100, Carol, 1993, p. 3).

اخوانِ رسول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قول میں یہ پیشین گوئی کی کہ بعد کے زمانے میں آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوانِ رسول قرار پائیں گے(صحیح مسلم، حدیث نمبر 249)۔یہ وہ لوگ ہوں گےجنھوں نے پیغمبر اسلام کو دیکھا نہیں ہوگا، مگر اصحابِ رسول کی طرح انھوں نےمعرفتِ دین حاصل کیا:

Ikhwan-e-Rasool are those who share Sahaba-like experiences due to their deep realization.

پچھلے پیغمبروں کے یہاں صرف اصحاب (Companions) ہوا کرتے تھے۔ یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی استثنائی صفت ہے کہ آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوان (brothers) کا درجہ پائیں گے۔ ایسا صرف اِس لیے ممکن ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے بعد خدا کا دین نظریہ اور عمل دونوں اعتبار سے پوری طرح محفوظ ہوگیا۔

خاتم النبیین

قرآن کی سورہ الاحزاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ (33:40)۔یعنی محمد، اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے متعدد پہلو ہیں۔ اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ نبوت اب شخصی عمل کے طور پر باقی نہ رہی، البتہ کارِ نبوت اب دعوتی عمل کے طورپر مسلسل جاری ہے۔ یہ پیغمبر اسلام کی ایک استثنائی صفت ہے۔ دوسرے پیغمبروں کے معاملے میں یہ ہوا کہ پیغمبر کا نام لینے والوں کا ایک گروہ تو ضرور باقی رہا، لیکن پیغمبر کی حقیقی دعوت کسی تبدیلی کے بغیر اپنی اصل صورت میں جاری رہنے کا امکان ختم ہوگیا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد یہ ہوا کہ ایک نیا دورِ دعوت وجود میں آیا، وہ تھا — براہِ راست پیغمبر کی ذات کے ذریعے دعوت کے دورکا خاتمہ، اور پیغمبر کے ماننے والوں کے ذریعے دعوت کے دور کا آغاز:

End of Dawah through the Prophet, beginning of Dawah through the followers of the Prophet, continuation of prophetic role through the followers of the Prophet.

فتحِ مبین

قرآن کی سورہ نمبر 48 معاہدۂ حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ معاہدۂ حدیبیہ امن کا معاہدہ تھا۔ معاہدہ حدیبیہ کیا تھا۔ معاہدہ حدیبیہ کا مقصد تھا — جنگ کے حالات کو ختم کرکے امن کے حالات پیدا کرنا۔ اِس معاہدے کے بعد پیغمبر اسلام اور آپ کے مخالفین کے درمیان مکمل طورپر جنگ بندی ہوگئی اور طرفین کے درمیان امن کی حالت قائم ہوگئی۔ اِس کے بعد معتدل حالات میں دعوتی کام کرنا ممکن ہوگیا۔امن کا یہ معاہدہ پوری تاریخ کا ایک انوکھا معاہدہ تھا۔ یہ فریقِ ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر انجام پایا تھا۔ بظاہر وہ پسپائی کا ایک معاہدہ تھا، لیکن معاہدے کی تکمیل کے بعد قرآن میں یہ آیت اتری:اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَ نْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِیْمًا۔ وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَــصْرًا عَزِیْزًا (48:1-3)۔یعنی بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی، تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے، اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے، اور تم کو سیدھا راستہ دکھائے، اور تم کو زبردست مدد عطا کرے۔

تاریخ کے مطابق، معاہدۂ حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سیاسی فتح حاصل نہیں ہوئی۔ یہ معاہدہ بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلے میں شکست کا واقعہ تھا، نہ کہ فتح کا واقعہ۔ اِس کے باوجود قرآن میں کیوں اُس کو فتح ِ مبین کہاگیا۔ ایسا اِس لیے ہوا کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد دعوت کے تمام مواقع کھل گئے۔ یہ مواقع اتنے غیر معمولی تھے کہ معاہدے کے بعد صرف دو سال کے اندر پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کی تعداد پانچ گنا زیادہ ہوگئی۔ اور جنگ کے بغیر صرف زیادہ تعداد فیصلے کے لیے کافی ہوگئی۔

حدیبیہ دراصل ایک عظیم پالیسی کا نام ہے۔ یہ پالیسی تاریخ میں پہلی بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو بتائی، یعنی حالتِ موجودہ کو مان کر ٹکراؤ ختم کردو، تاکہ مواقع (opportunities) کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے:

Hudaybiyah means the policy of positive status quoism. And positive status quoism is the key to super achievement.

صلح بہتر ہے

قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: الصُّلْحُ خَیْرٌ(4:128) یعنی صلح بہتر ہے۔ گویاامن کا طریقہ سب سے زیادہ کار گر طریقہ ہے:

Peace is the most successful policy.

فلاسفہ اور مفکرین ہمیشہ امن کی بات کرتے رہے ہیں۔ امن کے مطالعے کے لیے ایک مستقل شعبۂ علم وضع ہوا ہے جس کو پیسفزم (pacifism) کہا جاتاہے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک مکمل نظریۂ امن (ideology of peace) دنیا کو دیا۔ اِس اعتبار سے آپ کو پیغمبر امن (prophet of peace) کہا جاسکتاہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom