قرآن اپنی دلیل آپ

1۔      قرآن ایک غیر معمولی کلام ہے ۔ اس کو پڑھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مصنف ایک ایسے بلند مقام سے بول رہا ہے جو کسی بھی انسان کو حاصل نہیں ۔ اس کی عبارتوں کا شکوہ ، اس کی بے پناہ روانی اور اس کا فیصلہ کن انداز بیان اتنا حیرت انگیز طور پر انسانی کلام سے مختلف ہے کہ صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مالک کائنات کی آواز ہے کسی انسان کی آواز نہیں ۔ اس کا پر یقین اور با عظمت کلام خود ہی بول رہا ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے جس میں خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہوا ہے ۔ قرآن میں کائنات کی حقیقت بتائی گئی ہے ۔ انسان کے انجام کی خبر دی گئی ہے اور زندگی سے متعلق تمام کھلے اور چھپے حالات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ مگر یہ سب کچھ اس قدر قطعی انداز میں بیان ہوا ہے کہ واقعہ کا اظہار واقعہ کا مشاہدہ معلوم ہونے لگتا ہے ۔قرآن کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا آدمی کو حقیقت کا علم نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ اس کو حقیقت کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا گیا ہے ۔ وہ واقعہ کو کتاب کے صفحات میں نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ اسکرین کے اوپر اس کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ کلام کی یہ قطعیت صاف ظاہر کر رہی ہے کہ یہ ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جس کو حقیقتوں کا براہ راست علم ہے ۔ کوئی انسان جو حقیقتوں کا ذاتی علم نہ رکھتا ہو ، وہ اپنے کلام میں ہر گز ایسا زور پیدا نہیں کر سکتا۔ یہاں میں نمونہ کے طور پر قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت نقل کروں گا :

إِذَالسَّمَاءُ انْفَطَرَتْ۔  وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ۔ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ۔ وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ۔ يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ۔ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ۔وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ۔كِرَامًا كَاتِبِينَ۔  يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ۔ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ۔ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ۔ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ۔ وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِينَ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ۔ ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ۔ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِله (82:1-19)۔ یعنی، جب آسمان پھٹ جائے گا، جب ستارے بکھر جائیں گے، جب دریا ابل پڑیں گے، جب قبریں الٹ دی جائیں گی،اس دن ہر شخص جان لے گا جو اس نے آگے بھیجا اور جو اس نے پیچھے چھوڑا اے انسان تجھ کو خدائے عظیم کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ جس نے تجھے خلق کیا تیرا تسویہ فرمایا اور پھر مناسبت قائم کی ہے۔

(who created you, fashioned you and proportioned you)

اس نے جیسا چاہا ویسا تم کو بنایا، نہیں بلکہ تم فیصلہ (کے دن) کا انکار کرتے ہو۔ حالاں کہ تمہارے اوپر نگہبان مقرر ہیں صحیح صحیح لکھنے والے۔ وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔ یقیناً اچھے لوگوں کے لیے نعمتیں ہیں اور یقیناً برے لوگوں کے لیے جہنم ہے۔ وہ فیصلہ کے روز اس میں ڈالے جائیں گے اور وہ ہرگز اس سے بھاگ نہیں سکتے اور کیا تم جانتے ہو کہ فیصلہ کا دن کیا ہے پھر کیا تم جانتے ہو کہ فیصلہ کا دن کیا ہے وہ ایک ایسا دن ہے جب کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لیے کچھ نہ کر سکے گا اور اس دن اقتدارصرف خدا کے لیے ہو گا۔

کس قدر یقین سے بھرا ہوا ہے یہ کلام جس میں زندگی کی ابتدا اور انتہا سب کچھ بیان کر دی گئی ہے ۔ کوئی بھی انسانی کتاب جو زندگی اور کائنات کے موضوع پر لکھی گئی ہو، اس یقین کی مثال پیش نہیں کر سکتی ۔ سیکڑوں سال سے انسان کائنات کی حقیقت پر غور کر رہا ہے ۔ بڑے بڑے فلسفی اور سائنس داں پیدا ہوئے ، مگر کوئی اس یقین کے ساتھ بولنے کی جرأت نہ کر سکا ۔ سائنس آج بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ کسی قطعی اور صحیح علم سے ابھی بہت دور ہے جب کہ قرآن اس قدر یقین کے ساتھ بات کہتا ہے گویا وہ علم کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور حقیقت سے آخری حد تک واقف ہے۔

2۔      قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس نے مابعد الطبیعی حقائق سے لے کر تمدنی مسائل تک تمام اہم امور پر گفتگو کی ہے مگر کہیں بھی اس کے بیانات میں تضاد نہیں پایا جاتا۔ اس کلام کے اوپر تقریباً ڈیڑھ ہزار برس پورے ہو رہے ہیں۔ اس دوران میں بہت سی نئی نئی باتیں انسان کو معلوم ہوئی ہیں مگر اس کی باتوں میں اب بھی کوئی تضاد ظاہر نہ ہو سکا ، حالاں کہ انسانوں میں سے کسی ایک فلسفی کا بھی اس حیثیت سے نام نہیں لیا جا سکتاکہ اس کا کلام تضاد اور اختلاف سے پاک ہے ۔ اس دوران میں ہزاروں فلسفی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی عقل سے زندگی اور کائنات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی مگر بہت جلد ان کے کلام کا تضاد ظاہر ہو گیا اور زمانہ نے انھیں رد کر دیا۔

کسی کلام کا تضاد سے پاک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حقیقت سے کلی مطابقت رکھتا ہے ۔ جو شخص حقیقتوں کا علم نہ رکھتا ہو یا صرف جزئی علم اسے حاصل ہو وہ جب بھی حقیقت کو بیان کرنے بیٹھے گا لازمی طور پر تضادات کا شکار ہو جائے گا ۔ وہ ایک پہلو کی تشریح کرتے ہوئے دوسرے پہلو کی رعایت نہ کر سکے گا ۔ وہ ایک رخ کو کھولے گا تو دوسرے رخ کو بند کر دے گا ۔ زندگی اور کائنات کی توجیہ کا سوال ایک ہمہ گیر سوال ہے ۔ اس کے لیے ساری حقیقتوں کا علم ہونا ضروری ہے ۔ اور چونکہ انسان اپنی محدود صلاحیتوں کی بنا پر ساری حقیقتوں کا علم حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لیے وہ سارے پہلوؤں کی رعایت بھی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے فلسفوں میں تضاد کا پایا جانا لازمی ہے ۔ قرآن کی یہ خصوصیت کہ وہ اس قسم کے تضادات سے پاک ہے اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ وہ حقیقت کی صحیح ترین تعبیر ہے ، اس کے سوا تمام تعبیریں غلط ہیں ، اس واقعہ کو میں مثال کے ذریعہ واضح کروں گا ۔

1۔       زندگی کے موضوع پر جو کتاب لکھی جائے اس کا ایک ضروری باب زندگی کے فرائض متعین کرنا ہے ۔ یہ فرائض متعین کرنے میں ضروری ہے کہ ان کے مختلف پہلوؤں کی ٹھیک ٹھیک رعایت کی جائے ۔ ایسا نہ ہو کہ ایک پہلو سے کوئی ایسا حکم دیا جائے جو دوسرے پہلو سے ٹکراتا ہو۔ مثلاً عورت اور مرد کی حیثیت متعین کرنا تمدنی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور نے یہ قرار دیا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان مساوات ہونی چاہیے اور زندگی کے ہر شعبہ میں دونوں کو یکساں طور پر کام کرنے کا موقع دینا چاہیے ، مگر یہاں انسانی ساخت کا یہ تمدنی اصول ایک نہایت اہم صورتِ واقعی سے ٹکرا رہا ہے ۔ یعنی اس حقیقت سے کہ حیاتیات (Biology)کے اعتبار سے دونوں صنفوں کے درمیان مساوات نہیں،اور یہ ممکن نہیں کہ دونوں یکساں طور پر زندگی کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اس کے بر عکس قرآن نے تمدنی زندگی میں عورت اور مرد کا جو مقام متعین کیا ہے وہ دونوں کی پیدائشی ساخت کے عین مطابق ہے اور قانون اور حقیقت کے درمیان کوئی تضاد پیدا نہیں ہوتا۔

2۔       مارکس نے انقلاب کا فلسفہ یہ بتایا ہے کہ جس طرح ایک عالم گیر قانون کشش سے ستارے حرکت کر رہے ہیں اسی طرح کچھ ناگزیر تاریخی قوانین ہیں جو سماجی تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں ۔ یہ قوانین مسلسل طور پر اپنا کام کر رہے ہیں اور اسی کے مطابق انسانی زندگی میں انقلابات آتے ہیں مگر اس فلسفہ کو مرتب کرنے کے ساتھ ہی اس نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ

’’دنیا کے مزدورو! متحد ہو جاؤ ‘‘

ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ اگر سماجی تبدیلیوں کا کوئی نا گزیر تاریخی قانون ہے تو سیاسی جدوجہد کی ضرورت نہیں اور اگر سیاسی جدوجہد کے ذریعہ انقلاب آتا ہے تو پھر ناگزیر تاریخی قانون کے کیا معنیٰ۔

اس کے بر عکس قرآن انسانی ارادہ کو تسلیم کرتا ہے ۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ زندگی میں جو واقعات پیش آتے ہیں وہ انسان کی اپنی کوششوں کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ مادی دنیا کی طرح ان واقعات کی کوئی لازمی منطق نہیں ہے ۔ بلکہ انسانی کوشش انھیں کوئی بھی شکل دے سکتی ہے ۔ یقیناً فطرت کے کچھ قوانین ہیں اور اس سلسلہ میں وہ اہم کام کرتے ہیں مگر ان کے کام کی نوعیت یہ ہے کہ وہ انسانی کوششوں کا ساتھ دے کر اسے منزل تک پہنچا دیتے ہیں نہ کہ خود انسانی کوششیںان قوانین کا خارجی ظہور ہیں ۔ اس طرح قرآن کے نظریہ اور اس کی دعوت میں کوئی تضاد نہیں۔ وہ جب اپنے نظریہ کو قائم کرنے کے لیے لوگوں کو پکارتا ہے تو وہ اپنے فلسفہ کی تصدیق کرتا ہے نہ کہ اس کی تردید ۔ اس کے بر عکس مارکسی فلسفہ اس کے عملی پروگرام سے صاف ٹکرا رہا ہے ، کمیونسٹ پارٹیوں کا وجود حقیقی معنوں میں مارکسی فلسفہ کی تردید ہے ، کمیونسٹ مینی فسٹو کا آخری فقرہ اس کے پہلے فقرہ کو رد کر دیتا ہے ۔

قرآن کی تعلیمات کو اگر آپ انسانی فلسفوں کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھیں تو اس قسم کی بہت مثالیں پائیں گے ۔

3۔       قرآن کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ تقریباً ڈیڑھ ہزار برس سے زمین پر موجود ہے۔ اس زمانے میں کتنے انقلابات آئے ہیں ، تاریخ میں کتنی الٹ پلٹ ہوئی ہے، زمانہ نے کتنی کروٹیں بدلی ہیں ، مگر اب تک اس کی کوئی بات غلط ثابت نہیں ہوئی ۔ وہ ہر زمانہ کے عقلی امکانات اور تمدنی ضروریات کا مسلسل ساتھ دیتا چلا جا رہا ہے ۔ اس کی تعلیمات کی ہمہ گیری کسی مقام پر بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر زمانہ کے مسائل پر حاوی ہوتی چلی جاتی ہے ۔ یہ اس کتاب عظیم کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی بھی انسانی کتاب کو اب تک حاصل نہیں ہو سکی ہے ۔ انسان کا بنایا ہوا ہر فلسفہ چند ہی دنوں بعد اپنی غلطی ظاہر کر دیتا ہے ، مگر صدیوں پر صدیاں گزرتی جا رہی ہیں اور اس کتاب کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آتا۔

یہ قانون اس قت بنایا گیا تھا جب عرب کے غیر متمدن اور منتشر قبائل میں اسلامی ریاست قائم کرنے کا مسئلہ درپیش تھا ، مگر اس کے بعد صدیوں تک وہ اسلامی حکومتوں کی تمام ضرورتیں پوری کرتا رہا اور موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی نہ صرف یہ کہ وہ زمانہ کا ساتھ دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے بلکہ صرف وہی ایک ایسا نظام ہے جو حقیقی معنوں میں زندگی کے مسائل کو حل کر سکتا ہے ۔ ڈیڑھ ہزار برس پہلے جس طرح اس نے اپنی برتری ثابت کی تھی آج بھی وہ اسی طرح تمام فلسفوں پر فوقیت رکھتا ہے ۔

یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ زندگی کے بارے میں اس نے جو نظریات پیش کیے تھے اور فرد اور جماعت کے عمل کے لیے جو خاکہ تجویز کیا تھا وہ آج بھی نہ تو پرانا ہوا ہے اور نہ اس میں کسی نقص کی نشاندہی کی جا سکتی ہے ۔ اس دوران میں کتنے فلسفے پیدا ہوئے اور مر گئے کتنے نظام بنے اور بگڑ گئے مگر قرآن کے نظریہ کی صداقت اور اس کے عملی نظام کی افادیت آج بھی مسلم ہے ۔ وہ ہوا اور پانی کی طرف زمانہ کی قید سے آزاد ہے ۔

میں یہاں دونوں پہلوؤں سے ایک ایک مثال پیش کروں گا ۔

قرآن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کائنات کا محرک ایک ذہن ہے جو بالا رادہ اسے حرکت دے رہا ہے ۔ قرآن نے یہ دعویٰ یورپ کی نشاۃ ثانیہ سے بہت پہلے کیا تھا ۔ اس کے بعد بہت سے فلسفی اور سائنس داں اٹھے جنھوں نے بڑے زور شور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ کائنات محض ایک مادی مشین ہے جو خود بخود حرکت کر رہی ہے ۔ یہ نظریہ دو سو برس تک انسانی ذہنوں پر حکومت کر تا رہا ۔ ایسا معلوم ہو اکہ علم کی ترقی نے قرآن کے دعویٰ کو رد کر دیا ہے ۔ مگر اس کے بعد خود کائنات کے مطالعہ سے سائنس دانوں پر یہ منکشف ہوا کہ زندگی اور کائنات کی توجیہ محض مادی قوانین کے ذریعہ نہیں کی جا سکتی اب سائنس دن بہ دن قرآن کے اس نظریہ کی طرف لوٹ رہی ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک ذہن ہے جو اپنے ارادہ سے اس کو چلا رہا ہے ۔ مشہور سائنس داں سر جیمز جینز اس تبدیلی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

علم کے دریا نے پچھلے چند برسوں میں نہایت تیزی سے ایک نیا موڑ اختیار کیا ہے ۔ تیس سال پہلے ہمارا خیال تھا یا ہم نے فرض کر لیا تھا کہ ہم ایک ایسی آخری حقیقت کی طرف بڑھ رہے ہیں جو اپنی نوعیت میں مشینی ہے ۔ ایسا نظر آتا تھا کہ کائنات ایٹموں کے ایک ایسے بے ترتیب انبار پر مشتمل ہے جو اتفاقی طور پر اکٹھا ہو گئے ہیں اور جن کا کام یہ ہے کہ بے مقصد اور اندھی طاقتوں کے عمل کے تحت جو کوئی شعور نہیں رکھتیں ، کچھ زمانے کے لے ایک بے معنی رقص کریں جس کے ختم ہونے پر محض ایک مردہ کائنات باقی رہ جائے ۔ اس خالص مشینی دنیا میں ، مذکورہ بالا اندھی طاقتوں کے عمل کے دوران میں ، زندگی ایک حادثہ کے طور پر بالکل اتفاق سے آپہنچی ہے ۔ کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا گوشہ یا امکان کے طور پر اس طرح کے کئی گوشے کچھ عرصے کے لیے اتفاقی طور پر ذی شعور ہو گئے ہیں ۔ مگر موجودہ معلومات کی روشنی میں طبعییا ت کی حد تک سائنس کا اب اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ علم کا دریا ہمیں ایک غیر مشینی حقیقت(Non-Mechanical Reality) کی طرف لے جا رہا ہے ۔

اسی مضمون میں آگے چل کر انھوں نے لکھا ہے:جدید معلومات ہم کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنے پچھلے خیالات پر نظر ثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کر لیے تھے ۔ یعنی یہ کہ ہم اتفاق سے ایک ایسی کائنات میں آپڑے ہیں جس کو خود زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے یا وہ باقاعدہ طور پر زندگی سے عداوت رکھتی ہے ۔ اب ہم نے دریافت کر لیا ہے کہ کائنات ایک ایسی خالق یا مدبر طاقت (Designing or Controlling Power) کا ثبوت فراہم کر رہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے ۔

(ماڈرن سائنٹفک تھاٹ ، صفحہ 104)

یہ نظری پہلو کی مثال تھی ، اب عملی پہلو سے متعلق ایک مثال لیجئے ۔ اسلام نے معاشرتی زندگی کا جو قانون بنایا ہے اس میں ایک مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ چار عورتوں تک سے شادی کر سکتا ہے ۔ اسلام کے بعد جب مغربی تہذیب اٹھی تو اس نے اس قانون کا بہت مذاق اڑایا اور اس کو جاہلیت کے زمانہ کا وحشی قانون قرار دیا ۔ اس کے نزدیک یہ قانون عورتوں کے ساتھ سراسر نا انصافی تھی اور اس بنیاد پر کبھی بھی کوئی ترقی یافتہ تمدن تعمیر نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ چنانچہ مسیحیت میں اگرچہ اس کی گنجایش موجو د تھی مگر مغربی تہذیب نے اس کو یک قلم اپنے یہاں سے خارج کر دیا اور اس کو ایک نہایت ذلیل فعل قرار دیا کہ کوئی شخص ایک عورت رکھتے ہوئے دوسری عورت سے شادی کرے ۔ اس کی تبلیغ اس زور شور سے کی گئی کہ اب یہ حال ہے کہ نہ کوئی مرد اس کی جرأت کر سکتا ہے اور نہ کوئی عورت اپنے بارے میں ایسا سوچ سکتی ہے کہ وہ کسی شخص کی دوسری یا تیسری بیوی بنے ۔

مگر حالات نے،اور خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے حالات نے ،اب یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دراصل زندگی کی ایک عملی ضرورت ہے ۔ کبھی بعض افراد کی زندگی میں اور کبھی پوری جماعت کے لیے ایسے غیر معمولی حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ دو میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ یا تو فواحش اور بد کاری کو قبول کیا جائے جس کا مطلب پورے تمدن کو ہولناک خطرہ میں مبتلا کر دینا ہے یا تعددازواج کو اختیار کیا جائے جس سے مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اور کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد ان تمام ملکوں میں جو جنگ میں شریک تھے ، یہ صورت حال پیش آئی کہ عورتیں زندہ رہیں اور مرد کثرت سے ہلاک ہو گئے ۔ چنانچہ مردوں کی تعداد کم اور عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی جس کا اثر ابھی تک باقی ہے ۔

1955ءکے اعداد وشمار کے مطابق جاپان میں ہر ایک مرد کے مقابلہ میں آٹھ عورتیں تھیں ۔ اس جنگ کا سب سے زیادہ اثر جرمنی پر پڑا جہاں بے شمار عورتیں بیوہ اور کتنے بچے یتیم ہو گئے اور لڑکیوں کے لیے شوہر ملنا مشکل ہو گیا۔ اس کی وجہ سے ان ملکوں میں لا وارث اور ناجائز بچوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ۔ جو یتیم ہو گئے تھے ان کا کوئی وارث نہیں رہا اور جو عورتیں شوہر سے محروم ہو گئی تھیں انھوں نے فطری تقاضے سے مجبور ہو کر اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے ناجائز طریقے اختیار کرنے شروع کر دیے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جرمنی میں بعض عورتوں کے گھروں پر اس قسم کا بورڈ نظر آنے لگا کہ :

Wanted an Evening Guest

یعنی ،رات گزارنے کے لیے ایک مہمان چاہیے ۔

دوسری جنگ عظیم میں لڑنے والے ملکوں کے بیشمار مرد مارے گئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عورتیں شادی شدہ زندگی سے مایوس ہو کر طوائف کی زندگی گزارنے لگیں ۔ جیمز کیمروں (James Cameron)دوسری جنگ عظیم میں جرمنی میں نامہ نگا ر تھے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنی یادداشت شائع کی ہے ۔ یہ برطانی نامہ نگار اس میں لکھتا ہے کہ جنگ کے خاتمہ پر جب میں برلن گیا تو شکست خوردہ شہر بنیادی طور پر بھوکی طوائفوں (Hungry Whores) سے بھرا ہو اتھا ۔ میں نے اس کو اپنے ذہن سے نکالنا چاہا مگر میں نہ نکال سکا ۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں :

It is not so much that I have no stomach for the fight, I had no stomach for the victory.

ایسا نہ تھا کہ جنگ کی برداشت کی طاقت مجھ میں نہ ہو ۔ مگر فتح کو برداشت کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں تھی (گارجین، 10 اکتوبر 1982ء)۔

اگرچہ مغربی ذہن نے ابھی تک اس معاملہ میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کی ہے مگر واقعات نے صریح طور پر اس کا غلط ہونا ثابت کر دیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب زبان سے بھی اس کو تسلیم کر لیا جائے گا ۔ اس وقت معلوم ہو گاکہ نکاح کے معاملہ میں جس اصول کو مغرب نے اختیار کیا تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کو فحاشی میں مبتلا کر کے بے شمار جرائم کا دروازہ کھول دیا جائے ۔ جب کہ اسلام کا اصول اصل مسئلہ کو بہترین طریقہ پر حل کرتا ہے اور سماج کو بہت شدید نقصانات سے بچا لیتا ہے ۔

قرآن کے نظریات اور اس کے قوانین کی ابدیت کی یہ دو مثالیں تھیں جن سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انسانی ساخت کے نظریے اور قوانین بن بن کر بگڑتے رہے مگر قرآن نے پہلے دن جو کچھ کہا تھا آخر دن تک اس کی سچائی میں کوئی فرق نہیں آیا وہ پہلے جس طرح حق تھا آج بھی اسی طرح حق ہے ۔ قرآن کی یہ خصوصیت ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایک ایسے ذہن سے نکلا ہے جس کا علم ماضی اور مستقبل پر محیط ہے ۔ قرآن کی ابدیت قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom