انسان کی نار سائی

یہ سوالات ہم کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ، وہ اندر سے بھی ابل رہے ہیں اور باہر سے بھی ہمیں گھیرے ہوئے ہیں ، مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا جواب کیا ہے ۔ یہ زندگی کی حقیقت معلوم کرنے کا سوال ہے ، مگر کس قدر عجیب بات ہے کہ ہمیں زندگی تو مل گئی مگر اس کی حقیقت ہمیں نہیں بتائی گئی۔

اس حقیقت کی دریافت کے لیے جب ہم اپنی عقل اور اپنے تجربات کی طرف دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا صحیح اور قطعی جواب معلوم کرنا ہماری عقل اور ہمارے تجربہ کے بس سے باہر ہے ۔ اس سلسلہ میں اب تک ہم نے جو رائیں قائم کی ہیں وہ اٹکل سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں ۔ جس طرح ہماری نظر کا دائرہ محدود ہے اور ہم ایک مخصوص جسامت سے چھوٹی چیز کا مشاہدہ نہیں کر سکتے اور ایک مخصوص فاصلے سے آگے کے اجسام کو نہیں دیکھ سکتے، اسی طرح کائنات کے متعلق ہمارا علم بھی ایک تنگ دائرہ میں محدود ہے ۔ جس کے آگے یا پیچھے کی ہمیں کوئی خبر نہیں ۔ ہمارا علم نا مکمل ہے ، ہمارے حواس خمسہ ناقص ہیں ۔ ہم حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے ۔ میدہ اور کالک کو اگر ملایا جائے تو بھورے خاکستری رنگ کا ایک سفوف سا بن جاتا ہے ، لیکن اس سفوف کا باریک کیڑا جو سفوف کے ذروں ہی کے برابر ہوتا ہے اور صرف خوردبین کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے وہ اس کو کچھ سیاہ اور کچھ سفید رنگ کی چٹا ن سمجھتا ہے اس کے مشاہدہ کے پیمانہ میں خاکستری سفوف کوئی چیز نہیں ۔

نوعِ انسانی کی زندگی اس زمانہ کے مقابلہ میں جب کہ یہ کرۂ ارض وجود میں آیا اس قدر مختصر ہے کہ کسی شمار میں نہیں آتی ، اور خود کرۂ ارض کائنات کے اتھاہ سمندر میں ایک قطرہ کے برابر بھی نہیں ۔ ایسی صورت میں انسان کائنات کی حقیقت کے بارے میں جو خیال آرائی کرتا ہے ، اس کو اندھیرے میں ٹٹولنے سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہماری انتہائی لا علمی فوراً ظاہر ہو جاتی ہے جب ہم کائنات کی وسعت کا تصور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اگر آپ اس بات کو سامنے رکھیں کہ آفتاب اسّی کھرب سال سے موجود ہے اس زمین کی عمر جس پر ہم بستے ہیں دو ارب سال ہے ، اور زمین پر زندگی کے آثار نمایا ں ہوئے تین کرور سال گذر چکے ہیں مگر اسکے مقابلہ میں زمین پر ذی عقل انسان کی تاریخ چند ہزار سال سے زیادہ نہیں تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ چند ہزار سال کا زمانہ جس میں انسان نے اپنی معلومات فراہم کی ہیں ، اس طویل زمانہ کا ایک بہت حقیر جزء ہے جو کہ دراصل کائنات کے اسرار کو معلوم کرنے کے لیے درکار ہے ۔ کائنات کے بے حد طویل ماضی اور نا معلوم مستقبل کے درمیان انسانی زندگی محض ایک لمحہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہمارا وجود ایک نہایت حقیر قسم کا درمیانی وجود ہے جس کے آگے اور پیچھے کی ہمیں کوئی خبر نہیں ۔ ہماری عقل کو عاجزی کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس کائنات کی وسعت لا محدود ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے ہماری عقل اور ہمارا تجربہ بالکل ناکافی ہیں ۔ ہم اپنی محدود صلاحیتوں کے ذریعہ کبھی بھی اس کو سمجھ نہیں سکتے ۔ اب تک کی کوششوں کی ناکامی اس کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی ہے ۔

اس طرح ہمارا علم اور ہمارا مطالعہ ہم کو ایک ایسے مقام پر لا کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ جہاں ہمارے سامنے بہت سے سوالات ہیں ، ایسے سوالات جو لازمی طور پر اپنا جواب چاہتے ہیں ۔ جن کے بغیر انسانی زندگی بالکل لغو اور بے کار نظر آتی ہے ۔ مگر جب ہم ان پر سوچنے بیٹھتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے ذہن سے ان کا جواب معلوم نہیں کر سکتے ۔ ہم کو وہ آنکھ ہی نہیں ملی جس سے حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکے ۔ اور وہ ذہن ہمیں حاصل نہیں ہے جو براہِ راست حقیقت کا ادراک کر سکے ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom