حقیقت کی تلاش
کائنات ایک بہت بڑی کتاب کی مانند ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے مگر یہ ایک ایسی انوکھی کتاب ہے جس کے کسی صفحے پر اس کا موضوع اور اس کے مصنف کا نام تحریر نہیں، اگرچہ اس کتاب کا ایک ایک حرف بول رہا ہے کہ اس کا موضوع کیا ہو سکتا ہے اور اس کا مصنف کون ہے ۔
جب کوئی شخص آنکھ کھولتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ ایک وسیع وعریض کائنات کے درمیان کھڑا ہے تو بالکل قدرتی طور پر اس کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ—’’میں کیا ہوں اور یہ کائنات کیا ہے ‘‘ وہ اپنے آپ کو اور کائنات کو سمجھنے کے لیے بے چین ہوتا ہے ۔ اپنی فطرت میں سموئے ہوئے اشارات کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ دنیا میں وہ جن حالات سے دو چار ہو رہا ہے ، چاہتا ہے کہ ان کے حقیقی اسباب معلوم کرے ۔ غرض اس کے ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں جن کا جواب معلوم کرنے کے لیے وہ بے قرار ہوتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ ان کا جواب کیا ہے ۔
یہ سوالات محض فلسفیانہ قسم کے سوالات نہیں ہیں بلکہ یہ انسان کی فطرت اور اس کے حالات کا قدرتی نتیجہ ہیں ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن سے دنیا میں تقریباً ہر شخص کو ایک بار گزرنا ہوتا ہے ۔ جن کا جواب نہ پانے کی صورت میں کوئی پاگل ہو جاتا ہے ، کوئی خود کشی کر لیتا ہے، کسی کی ساری زندگی بے چینیوں میں گذر جاتی ہے ، اور کوئی اپنے حقیقی سوال کا جواب نہ پا کر نشہ آور چیزوں یا ظاہر فریب تماشوں میں کھو جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان میں گم ہو کر اس ذہنی پریشانی سے نجات حاصل کر لے وہ جو کچھ حاصل کر سکتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش میں اس کو بھلا دیتا ہے جس کو وہ حاصل نہ کر سکا۔
اس سوال کو ہم ایک لفظ میں ’’حقیقت کی تلاش ‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن اگر اس کا تجزیہ کریں تو یہ بہت سے سوالات کا مجموعہ نکلے گا ۔ یہ سوالات کیا ہیں ان کو مختلف الفاظ میں ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔ مگر میں آسانی کے لیے ان کو مندرجہ ذیل تین عنوانات کے تحت بیان کروں گا۔
1۔ خالق کی تلاش
2۔ معبود کی تلاش
3۔ اپنے انجام کی تلاش
حقیقت کی تلاش دراصل نام ہے ان ہی تینوں سوالات کا جواب معلوم کرنے کا ۔ آپ خواہ جن الفاظ میں بھی اس سوال کی تشریح کریں مگر حقیقۃً وہ اسی کی بدلی ہوئی تعبیر ہو گی اور ان ہی تین عنوانات کے تحت انھیں اکٹھا کیا جا سکے گا۔
بظاہر یہ سوالات ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ، اور نہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایسا کوئی بورڈ لگا ہوا نظر آتا ہے جہاں ان کا جواب لکھ کر رکھ دیا گیا ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جو سوال ہے اسی کے اندر اس کا جواب موجود ہے ۔ کائنات اپنی حقیقت کی طرف آپ اشارہ کرتی ہے ، اگرچہ وہ ہم کو یقینی علم تک نہیں لے جاتی ۔ لیکن یہ اشارہ اتنا واضح اور قطعی ہے کہ اگر ہم کو کسی ذریعہ سے حقیقت کا علم حاصل ہو جائے تو ہمارا ذہن پکار اٹھتا ہے کہ یقینا یہی حقیقت ہے ، اس کے سوا کائنات کی کوئی اور حقیقت نہیں ہو سکتی۔