پیغمبر کی صداقت
1۔ اس کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی نفسیات کے عین مطابق ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی پیدائش جس فطرت پر ہوئی ہے وہی فطرت اس توجیہ کی بھی ہے ۔ اس توجیہ کی بنیاد ایک خدا کے وجود پر رکھی گئی ہے ، اور ایک خدا کا شعور انسان کی فطر ت میں شامل ہے ۔ اس کے دو نہایت مضبوط قرینے ہیں ۔ ایک یہ کہ انسانی تاریخ کے تمام معلوم زمانوں میں انسانوں کی اکثریت بلکہ تقریباً ان کی تمام تعداد نے خدا کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ انسان پر کبھی بھی ایسا کوئی دور نہیں گزرا ہے جب اس کی اکثریت خدا کے شعور سے خالی رہی ہو۔ قدیم ترین زمانوں سے لے کر آج تک انسانی تاریخ کی متفقہ شہادت یہی ہے کہ خدا کا شعور انسانی فطرت کا نہایت طاقت ور شعور ہے ۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ انسان پر جب کوئی نازک وقت آتا ہے تو اس کا دل بے اختیار خدا کو پکار اٹھتا ہے ، جہاں کوئی سہارا نظر نہیں آتا ، وہاں وہ خدا کا سہارا ڈھونڈتا ہے ۔ جاہل ہو یا عالم ۔ خدا پرست ہو یا ملحد ، روشن خیال ہو یا تاریک خیال جب بھی اس پر کوئی ایسا وقت گزرتا ہے جہاں عام انسانی قوتیں جواب دیتی ہوئی نظر آتی ہیں تو وہ ایک ایسی ہستی کو پکارتا ہے جو تمام طاقتوں سے بڑھ کر طاقتور ہے اور جو تمام طاقتوں کا خزانہ ہے ۔ انسان اپنے نازک ترین لمحات میں خدا کو یاد کر نے پر مجبور ہے ۔ اس کی ایک دلچسپ مثال ہمیں اسٹالن کی زندگی میں ملتی ہے جس کا ذکر مسٹر چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے حالات کے متعلق اپنی کتاب کی چوتھی جلد صفحہ 433میں کیا ہے ۔ 1942ءکے نازک حالات میں جب کہ ہٹلر سارے یورپ کے لیے خطرہ بنا ہوا تھا ، چرچل نے ماسکو کا سفر کیا تھا ، اس موقع پر چرچل نے سٹالن کو اتحادی فوجی کارروائی کے متعلق اپنی اسکیم کی تفصیلات بتائیں ۔ چرچل کا بیان ہے کہ اسکیم کی تشریح کے ایک خاص مرحلہ پر جب کہ اسٹالن کی دلچسپیاں اس سے بہت بڑھ چکی تھیں ، اس کی زبان سے نکلا — خدا اس مہم کو کامیاب کرے ‘ ‘۔
''May God prosper this undertaking"
(Winston S. Churchill, The Second World War, (Abridgement) Cassell & Company, London, 1965, p.603)
اسی کے ساتھ نبی کی آواز کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ وہ ان تمام سوالات کی مکمل توجیہ ہے جو انسان معلوم کرنا چاہتا ہے اور جو کائنات کے مطالعہ سے ہمارے ذہنوں میں ابھرتے ہیں ۔ کائنات کے مطالعہ نے ہمیں اس نتیجہ پر پہنچا یا تھا کہ یہ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہو سکتی،ضرور اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا چاہیے ۔ اس توجیہ میں اس سوال کا جواب موجود ہے ۔ ہم کو نظر آرہا تھا کہ کائنات محض ایک مادی مشین نہیں ہے اس کے پیچھے کوئی غیر معمولی ذہن ہونا اکٹھاجو اسے چلا رہا ہو۔ اس توجیہ میں اس سوال کا جواب بھی موجود ہے ۔ ہم کو اپنے محسن کی تلاش تھی اور ایک ایسی ہستی کی تلاش تھی جو ہمارا سہارا بن سکے ۔ اس توجیہ میں اس کا جواب بھی موجود ہے ۔ ہم کو یہ بات بہت عجیب معلوم ہو رہی تھی یہ انسانی زندگی اتنی مختصر کیوں ہے ۔ ہم اس کو لا محدود دیکھنا چاہتے تھے ۔ ہم اپنے لیے ایک ایسے وسیع میدان کی تلاش میں تھے جہاں ہماری امنگوں کی تکمیل ہو سکے ۔ اس توجیہ میں اس کا جواب بھی موجود ہے۔ پھر انسانی حالات کا شدید تقاضا تھا کہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح ہو اور اچھے اور بُرے الگ الگ کر دیے جائیں ۔ ہر ایک کو اس کا صحیح مقام دیا جائے ۔ اس سوال کا جواب بھی اس توجیہ میں موجود ہے ۔ غرض زندگی سے متعلق سارے سوالات کا مکمل جواب ہے اور اتنا بہتر جواب ہے کہ اس سے بہتر جواب کا ہم تصور نہیں کر سکتے ۔ اس سے وہ سارے سوالات حل ہو جاتے ہیں جو کائنات کے مطالعہ سے ہمارے ذہن میں پیدا ہوئے تھے ۔
2۔ اس کی دعوت کی دوسری نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ زندگی کے انجام کے بارے میں وہ جو نظریہ پیش کرتا ہے اس کا ایک واقعاتی نمونہ خود اپنی زندگی میں ہمیں دکھائی دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا اسی طرح ظالم اور مظلوم کو لیے ہوئے ختم نہیں ہو جائیگی بلکہ اسکے انجام پر کائنات کا رب ظاہر ہو گا اور سچوں اور جھوٹوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ کر دے گا ۔ اس دن کے آنے میں جو دیر ہے وہ صرف اس مہلتِ کار کے ختم ہونے کی ہے جو تمہارے لیے مقدر ہے ۔
یہ بات وہ صرف کہہ کر نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ اسی کے ساتھ اس کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں اس کے صحیح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اس عدالت کا ایک نمونہ مالک کائنات میرے ذریعہ سے اسی دنیا میں تم کو دکھائے گا ۔ میرے ذریعہ سے وہ حق کو غالب اور باطل کو مغلوب کرے گا ، اپنے فرماں برداروں کو عزت دے گا اور اپنے نافرمانوں کو ذلیل کر کے انھیں عذاب میں مبتلا کر ے گا ۔ یہ واقعہ بہر حال ظہور میں آئے گا خواہ دنیا کے لوگ کتنی ہی مخالفت کریں اور ساری طاقت اس کے مٹانے پر لگا دیں جس طرح آخرت کا ہونا قطعی طور پر مقدر ہے اور کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ اسی طرح میری زندگی میں اس کا نمونہ دکھایا جانا بھی لازمی ہے ، یہ ایک نشان ہو گا آنے والے دن کا اور یہ دلیل ہو گی اس بات کی کہ کائنات کی تعمیر عدل پر ہوئی ہے اور یہ کہ میں جس طاقت کا نمائندہ ہوں وہ ایک ایسی طاقت ہے جس کی طاقت سب پر بالا ہے یہ طاقت ایک روز تم کو اپنے سامنے کھڑا کر کے تمام اگلے پچھلے انسانوں کا فیصلہ کرے گی ۔
یہ چیلنج وہ اس وقت دیتا ہے جب کہ وہ تنہا ہے ، پوری قوم اس کی دشمن ہو گئی ہے ، خود اپنا ملک اس کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں، اس کے قریب ترین اعزا نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ، اس کے پاس مادی وسائل وذرائع میں سے کچھ بھی نہیں ۔ ایسا ایک شخص پورے یقین کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ میں غالب ہوں گا اور میرے ذریعہ سے خدا کی عدالت زمین پر قائم ہو گی ۔ سننے والے اس کا مذاق اڑاتے ہیں مگر وہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ اپنا کام کرتا چلا جا رہا ہے ملک کی اکثریت اس کے قتل کا فیصلہ کرتی ہے ، اس کی معاشیات تباہ کر دیتی ہے ، اس کو جلا وطنی پر مجبور کرتی ہے ۔ اس کو مٹانے پر اپنا سارا زور صرف کر دیتی ہے ، مگر اس کے مقابلہ میں یہ سب کچھ بے اثر ثابت ہوتا ہے ۔ اگرچہ بہت تھوڑے لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں ، ایک طرف معمولی اقلیت ہوتی ہے اور دوسری طرف زبردست اکثریت ۔ ایک طرف سازو سامان ہوتا ہے اور دوسری طرف بے سروسامانی ۔ ایک طرف ملکی باشندوں اور ہمسایہ قوموں کی حمایت ہوتی ہے اور دوسری طرف اپنوں اور غیروں کی متفقہ مخالفت حالات کی انتہائی ناساز گاری سے اس کے ساتھی اکثر گھبرا اٹھتے ہیں مگر وہ ہر بار یہی کہتا ہے کہ انتظار کرو خدا کا فیصلہ آکر رہے گا ، اس کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی ۔
اس کے چیلنج پر چوتھائی صدی بھی گزرنے نہیں پاتی کہ وہ مکمل شکل میں پورا ہو جاتا ہے اور تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ظہور میں آتا ہے کہ ایک شخص نے جن دعووں کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا تھا ٹھیک اسی شکل میں اس کا دعویٰ پورا ہوا اور اس کے مخالفین اس میں کوئی کمی بیشی نہ کر سکے ۔ حق اور باطل الگ الگ ہو گیا ۔ خدا کے فرماں برداروں کو عزت اور غلبہ حاصل ہوا ، اور خدا کے نافرمانوں کا زور توڑ کر انھیں محکوم بنا دیا گیا۔
اس طرح اس دعوت نے انسانوں کے لیے جب انجام کی خبر دی تھی اس کا ایک نمونہ دنیا میں قائم کر دیا گیا جو قیامت تک کے لیے عبرت کا نشان ہے ، اس نمونہ کی تکمیل آخرت میں ہو گی جب سارے انسانوں کو خدا کی عدالت میں حاضر کر کے ان کا آخری فیصلہ کیا جائے گا۔
3۔ اس شخص کے دعوے کے بر حق ہونے کا تیسرا ثبوت وہ کلام ہے جس کو وہ کلام الٰہی کہہ کر پیش کرتا ہے ۔ اس کلام کے اوپر کتنی ہی صدیاں گذر چکی ہیں مگر اس کی عظمت ، اس کی سچائی اور حقیقت کے بارے میں اس کے بیان کا ایک حرف بھی غلط ثابت نہ ہوسکا جب کہ کوئی بھی انسانی کتاب ایسی نہیں ہے جو ان نقائص سے پاک ہو۔
دوسرے لفظوں میں قرآن بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا کی کتاب ہے ، اس کے بہت سے پہلو ہیں مگر میں یہاں صرف تین پہلوؤں کا ذکر کروں گا ، ایک اس کا غیر معمولی انداز بیان ، دوسرے اس کے معانی کا تضاد سے پاک ہونا ، تیسرے اس کی ابدیت۔