معبود کی تلاش
یہ خالق کی تلاش کا مسئلہ تھا ۔ اس کے بعد دوسری چیز جو انسان جاننا چاہتا ہے وہ یہ کہ ’’میرا معبود کون ہے ‘‘ہم اپنی زندگی میں صریح طور پر ایک خلا محسوس کرتے ہیں مگر ہم نہیں جانتے کہ اس خلا کو کیسے پر کریں ۔ یہی خلا کا احساس ہے جس کو میں نے ’’معبود کی تلاش ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ احساس دو پہلوؤں سے ہوتا ہے ۔
اپنے وجود اور باہر کی دنیا پر جب ہم غور کرتے ہیں تو دو نہایت شدید جذبے ہمارے اندر پیدا ہوتے ہیں ۔ پہلا شکر اور احسان مندی کا اور دوسرا کمزوری اور عجز کا۔
ہم اپنی زندگی کے جس گوشہ میں بھی نظر ڈالتے ہیں ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہماری زندگی کسی کے احسانات سے ڈھکی ہوئی ہے یہ دیکھ کر دینے والے کے لیے ہمارے اندر بے پناہ جذبۂ شکرا منڈتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اپنی بہترین عقیدتوں کو اپنے محسن پر قربان کر سکیں ۔ یہ تلاش ہمارے لیے محض ایک فلسفیانہ نوعیت کی چیز نہیں ہے بلکہ ہماری نفسیات سے اس کا گہرا تعلق ہے یہ سوال محض ایک خارجی مسئلہ کو حل کرنے کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ ہماری ایک اندرونی طلب ہے اور ہمارا پورا وجود اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے ۔
غور کیجیے ، کیا کوئی شریف آدمی اس حقیقت کو نظر انداز کر سکتا ہے کہ وہ کائنات میں ایک مستقل واقعہ کی حیثیت سے موجود ہے حالانکہ اس میں اس کی اپنی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہے وہ اپنے آپ کو ایک ایسے جسم میں پا رہا ہے جس سے بہتر جسم کا وہ تصور نہیں کر سکتا حالانکہ اس جسم کو اس نے خود نہیں بنایا ہے ۔ اس کو ایسی عجیب وغریب قسم کی ذہنی قوتیں حاصل ہیں جو کسی بھی دوسرے جاندار کو نہیں دی گئی ہیں حالاں کہ ان قوتوں کو حاصل کرنے کے لیے اس نے کچھ بھی نہیں کیا ہے اور نہ وہ کچھ کر سکتا ہے ۔ ہمارا وجود ذاتی نہیں ہے بلکہ عطیہ ہے ۔ یہ عطیہ کس نے دیا ہے ، انسانی فطرت اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے اس عظیم محسن کا شکر ادا کر سکے ۔
پھر اپنے جسم کے باہر دیکھئے۔ دنیا میں ہم اس حال میں پیدا ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا، نہ ہم کو کائنات کے اوپر کوئی اختیار حاصل ہے کہ ہم اس کو اپنی ضرورت کے مطابق بنا سکیں ۔ ہماری ہزاروں ضرورتیں ہیں ۔ مگر کسی ایک ضرورت کو بھی ہم خود سے پورا نہیں کر سکتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں حیرت انگیز طور پر ہماری تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ اس بات کی منتظر ہے کہ انسان پید اہو اور وہ اس کی خدمت میں لگ جائے ۔
مثال کے طور پر آواز کو لیجیے جس کے ذریعہ سے ہم اپنا خیال دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات زبان کا ارتعاش بن کر دوسرے کے کان تک پہنچیں اور وہ ان کو قابل فہم آوازوں کی صورت میں سن سکے ۔ اس کے لیے ہمارے اندر اور باہر بیشمار انتظامات کیے گئے ہیں جن میں سے ایک وہ درمیانی واسطہ ہے جس کو ہم ہوا کہتے ہیں ۔ ہم جو الفاظ بولتے ہیں وہ بے آواز لہروں کی صورت میں ہوا پر اسی طرح سفر کرتے ہیں جس طرح پانی کی سطح پر موجیں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ میرے منھ سے نکلی ہوئی آواز کے آپ تک پہنچنے کے لیے درمیان میں ہوا کا موجود ہونا ضروری ہے ۔ اگر یہ درمیانی واسطہ نہ ہو تو آپ میرے ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھیں گے مگر میری آواز نہ سنیں گے ۔ مثال کے طور پر ایک بند فانوس کے اندر برتی گھنٹی رکھ کر اسے بجایا جائے تو اس کی آواز صاف سنائی دے گی ۔ لیکن اگر فانوس کے اندر کی ہوا کو پوری طرح نکال دیا جائے اور اس کے بعد گھنٹی بجائی جائے تو آپ شیشہ کے اندر گھنٹی کو بجتا ہوا دیکھیں گے مگر اس کی آواز بالکل سنائی نہ دے گی ۔ کیوں کہ گھنٹی کے بجنے سے جو ارتعاش پیداہوتا ہے اس کو قبول کر کے آپ کے کانوں تک پہنچانے کے لیے فانوس کے اندر ہوا موجود نہیں ہے ۔
مگر یہ ذریعہ بھی ناکافی ہے کیونکہ ہوا کے ذریعہ ہماری آواز پانچ سکنڈ میں صرف ایک میل کا فاصلہ طے کرتی ہے ۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہوا کا ذریعہ صرف قریبی ما حول میں گفتگو کے لیے کارآمد ہے ، وہ ہماری آواز کو دور تک نہیں پہنچا سکتا۔ اگر آواز صرف ہوا کے ذریعہ پھیلتی تو اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ممکن نہ ہوتا ۔ مگر قدرت نے اس کے لیے ہمیں ایک اور انتہائی تیز رفتار ذریعہ مہیا کیا ہے ، یہ روشنی یا برتی روہے جس کی رفتار ایک سکنڈمیں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل ہے ۔ لا سلکی پیغامات میں اسی ذریعہ سے کام لیا جاتا ہے ۔ جب کوئی مقرر ریڈیو اسٹیشن میں لگے ہوئے مائکروفون کے قریب آواز نکالتا ہے تو مائکرو فون آواز کو جذب کر کے اسے برتی رو میں تبدیل کر دیتا ہے اور تار کے ذریعہ اس کو آلہ نشر یا ٹرانس میٹر تک بھیج دیتا ہے ۔
آلات نشر آواز کے پہنچتے ہی مرتعش ہو کر فضا میں وہی ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں ۔ اس طرح پانچ سکنڈ میں ایک میل چلنے والی آواز برقی لہروں میں تبدیل ہو کر ایک سکنڈ میں دو لاکھ میل کی رفتار حاصل کر لیتی ہے ۔ اور دم بھر میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے ۔ یہی لا سلکی موجیں ہیں جن کو ہمارے ریڈیوسٹ کی آواز گیر مشین قبول کر کے بلند آواز میں ان کا اعادہ کر دیتی ہے اور پھر ہزاروں میل دور بولی ہوئی آواز کو ہم کسی تاخیر کے بغیر سننے لگتے ہیں ۔
یہ ان بیشمار انتظامات میں سے ایک ہے جس کو میں نے بیان کیا ہے بلکہ اس کا صرف نام لیا ہے ۔ اگر اس کا اور دوسری چیزوں کا تفصیلی ذکر کیا جائے تو اس کے لیے کروروں صفحے درکار ہوں گے اور پھر بھی ان کا بیان ختم نہ ہو گا۔
یہ عطیات جن سے ہر آن آدمی دو چار ہو رہا ہے اور جن کے بغیر اس زمین پر انسانی زندگی اورتمدن کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا، انسان جاننا چاہتا ہے کہ یہ سب کس نے اس کے لیے مہیا کیا ہے ہرآن جب وہ کسی نعمت سے دو چار ہوتا ہے تو اس کے دل میں بے پناہ جذبۂ شکر امنڈتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے محسن کو پائے اور اپنے آپ کو اس کے قدموں میں ڈال دے ۔ محسن کے احسانات کو ماننا، اس کو اپنے دل کی گہرائیوں میں جگہ دینا اور اس کی خدمت میں اپنے بہترین جذبات کو نذر کرنا یہ انسانی فطرت کا شریف ترین جذبہ ہے ۔ ہرآدمی جو اپنی زندگی اور کائنات پر غور کرتا ہے اس کے اندر نہایت شدت سے یہ جذبہ ابھرتا ہے ۔ پھر کیا اس جذبہ کا کوئی جواب نہیں ۔ کیا انسان اس کائنات کے اندر ایک یتیم بچہ ہے جس کے اندر امنڈتے ہوئے جذبات محبت کی تسکین کے لیے کوئی ہستی موجود نہ ہو ۔ کیا یہ ایک ایسی کائنات ہے جہاں احسانات ہیں مگر محسن کا پتہ نہیں ۔ جہاں جذبہ ہے مگر جذبہ کی تسکین کا کوئی ذریعہ نہیں ۔
یہ معبود کی تلاش کا ایک پہلو ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کے حالات فطری طور پر تقاضا کرتے ہیں کہ کائنات کے اندر اس کا کوئی سہارا ہو۔ اگر ہم آنکھ کھول کر دیکھیں تو ہم اس دنیا میں ایک انتہائی عاجز اور بے بس مخلوق ہیں ۔ ذرا اس خلا کا تصور کیجئے جس میں ہماری یہ زمین سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ زمین کی گولائی تقریباً 25 ہزار میل ہے ۔ اور وہ ناچتے ہوئے لٹو کے مانند اپنے محور پر مسلسل اس طرح گھوم رہی ہے کہ ہر 24 گھنٹے میں ایک چکر پورا ہو جاتا ہے ۔ گویا اس کی رفتار تقریباً ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے ۔ اسی کے ساتھ وہ سورج کے چاروں طرف اٹھارہ کرور ساٹھ لاکھ میل کے لمبے دائرہ میں نہایت تیزی سے دوڑ رہی ہے ۔
خلا کے اندر اس قدر تیز دوڑتی ہوئی زمین پر ہمارا وجود قائم رکھنے کے لیے زمین کی رفتار کو ایک خاص اندازہ کے مطابق رکھا گیا ہے اگر ایسا نہ ہو تو زمین کے اوپر انسان کی حالت ان سنگ ریزوں کی مانند ہو جائے جو کسی متحرک پہیہ پر رکھ گئے ہوں ، اسی کے ساتھ مزید انتظام یہ ہے کہ زمین کی کشش ہم کو کھینچے ہوئے ہے اور اوپر سے ہوا کا زبردست دباؤ پڑتا ہے ۔ ہوا کے ذریعہ جو دباؤ پڑ رہا ہے وہ جسم کے ہر مربع انچ پر پندرہ پونڈ تک معلوم کیا گیا ہے ، یعنی ایک اوسط آدمی کے سارے جسم پر تقریباً 280 من کا دباؤ ۔ ان حیرت انگیز انتظامات نے ہم کو خلا میں مسلسل دوڑتی ہوئی زمین کے چاروں طرف قائم کر رکھا ہے۔
پھر ذرا سورج پر غور کیجیے ۔ سورج کی جسامت آٹھ لاکھ 65 ہزار میل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری زمین سے دس لاکھ گنا بڑا ہے۔ یہ سورج آگ کا دہکتا ہوا سمند ر ہے جس کے قریب کوئی بھی چیز ٹھوس حالت میں نہیں رہ سکتی ۔ زمین اور سورج کے درمیان اس وقت تقریباً ساڑھے نوکرورمیل کا فاصلہ ہے ، اگر اس کے بجائے وہ اس کے نصف فاصلہ پر ہو تو سورج کی گرمی سے چیزیں جلنے لگیں ۔ اور اگر وہ چاند کی جگہ یعنی دو لاکھ چالیس ہزار میل کے فاصلہ پر آجائے تو زمین پگھل کر بخارات میں تبدیل ہو جائے ۔ یہی سورج ہے جس سے زمین پر زندگی کے تمام مظاہر قائم ہیں ۔ اس مقصد کے لیے اس کو ایک خاص فاصلہ پر رکھا گیا ہے ۔ اگر وہ دور چلا جائے تو زمین برف کی طرح جم جائے اور اگر قریب آجائے تو ہم سب لوگ جل بھن کر خاک ہو جائیں ۔
پھر ذرا اس کائنات کی وسعت کو دیکھیے اور اس قوتِ کشش پر غور کیجیے جو اس عظیم کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ۔ کائنات ایک بے انتہا وسیع کارخانہ ہے ، اس کی وسعت کا اندازہ ماہرین فلکیات کے نزدیک یہ ہے کہ روشنی جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ ہے ، اس کو کائنات کے گرد ایک چکر طے کر نے میں کئی ارب برس درکار ہوں گے۔ یہ نظام شمسی جس کے اندر ہماری زمین ہے ، بظاہر بہت بڑا معلوم ہوتا ہے مگر پوری کائنات کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ کائنات میں اس سے بہت بڑے بڑے بے شمار ستارے لا محدود وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں بہت سے اتنے بڑے ہیں کہ ہمارا پورا نظام شمسی اس کے اوپر رکھا جا سکتا ہے ۔ جو قوت کشش ان بیشمار دنیاؤں کو سنبھالے ہوئے ہے ، اس کی عظمت کا تصور اس سے کیجئے کہ سورج جس بے پناہ طاقت سے زمین کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور اس کو وسیع ترین فضا میں گر کر برباد ہو جانے سے روکتا ہے ، یہ غیر مرئی طاقت اس قدر قوی ہے کہ اگر اس مقصد کے لیے کسی مادی شے سے زمین کو باندھنا پڑتا تو جس طرح گھاس کی پتیاں زمین کو ڈھانکے ہوئے ہیں ، اسی طرح دھاتی تاروں سے کرۂ ارض ڈھک جاتا ۔
ہماری زندگی بالکلیہ ایسی طاقتوں کے رحم وکرم پر ہے جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ۔ انسان کی زندگی کے لیے دنیامیں جو انتظامات ہیں اور جن کی موجودگی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا، وہ اتنے بلند پیمانہ پر ہو رہے ہیں اور ان کو وجود میں لانے کے لیے اتنی غیر معمولی قوت تصرف درکار ہے کہ انسان خود سے انھیں وجود میں لانے کا تصور نہیں کر سکتا موجودات کے لیے جو طریق عمل مقرر کیا گیا ہے ، اس کا مقرر کرنا تو درکنا ر اس پر کنٹرول کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں ۔ وہ دیکھتا ہے کہ اگر کائنات کی غیر معمولی قوتیں میرے ساتھ ہم آہنگی نہ کریں تو میں زمین پر ٹھہر بھی نہیں سکتا، اس کے اوپر ایک متمدن زندگی کی تعمیر تو بہت دور کی بات ہے ۔
ایسی ایک کائنات کے اندر جب انسان اپنے حقیرو جود کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے بھی زیادہ بے بس محسوس کرنے لگتا ہے جتنا کہ سمندر کی موجوں کے درمیان ایک چیونٹی اپنے آپ کو بچانے کی جدوجہد کر رہی ہو۔ وہ بے اختیار چاہتا ہے کہ کوئی ہو جو اس اتھاہ کائنات میں اس کا سہارا بن سکے ۔ وہ ایک ایسی ہستی کی پناہ ڈھونڈھنا چاہتا ہے جو کائنات کی قوتوں سے بالاتر ہو اور جس کی پناہ میں آجانے کے بعد وہ اپنے آپ کو محفوظ ومامون تصورکر سکے ۔
یہ دو جذبے ہیں جن کو میں نے معبود کی تلاش کا عنوان دیا ہے ۔ معبود کی تلاش در اصل ایک فطری جذبہ ہے جس کا مطلب ایک ایسی ہستی کی تلاش ہے جو آدمی کی محبت اور اس کے اعتماد کا مرکز بن سکے ۔ موجودہ زمانہ میں قوم ، وطن اور ریاست کو انسان کی اس طلب کا جواب بنا کر پیش کیا گیا ہے ۔ جدید تہذیب یہ کہتی ہے کہ اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنی ریاست کو یہ مقام دو کہ وہ تمہاری عقیدتوں کا مرکز بنے اور اس سے وابستگی کو اپنا سہارا بناؤ۔ ان چیزوں کو معبود کے نام پر پیش نہیں کیا جاتا مگر زندگی میں ان کو جو مقام دیا گیا ہے وہ تقریباً وہی ہے جو دراصل ایک معبود کا ہونا چاہیے۔ مگر ان چیزوںکو معبود کی جگہ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کو ایک رفیق زندگی کی ضرورت ہو تو اس کی خدمت میں آپ پتھر کی ایک سل پیش کر دیں ۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان کے اندر تلاش کا یہ جذبہ جو ابھرتا ہے اس کے اسباب انسانی نفسیات میں بہت گہرائی تک پھیلے ہوئے ہیں ، وہ ایک ایسی ہستی کی تلاش میں ہے جو ساری کائنات پر محیط ہو۔ اس طلب کا جواب کسی جغرافیائی خطہ میں نہیں مل سکتا۔ یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ ایک سماج کی تعمیر میں کچھ مدد دے سکتی ہیں مگر وہ انسان کے تلاش معبود کے جذبے کی تسکین نہیں بن سکتیں ، اس کے لیے ایک کائناتی وجود درکار ہے ۔ انسان کو اپنی محبتوں کے مرکز کے لیے ایک ایسا وجود چاہیے جس نے زمین وآسمان کو بنایا ہو۔ اپنے سہارے کے لیے اسے ایک ایسی طاقت کی تلاش ہے جو کائنات کے اوپر حکمراں ہو۔ جب تک انسان ایسے ایک وجود کو نہیں پائے گا اس کا خلا بد ستور باقی رہے گا، کوئی دوسری چیز اسے پُر کرنے والی نہیں بن سکتی ۔