خالق کی تلاش
کائنات کو دیکھتے ہی جو سب سے پہلا سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ اس کا بنانے والا کون ہے اور وہ کون ہے جو اس عظیم کارخانے کو چلا رہا ہے ۔ پچھلے زمانوں میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ بہت سی اَن دیکھی طاقتیں اس کائنات کی مالک ہیں ۔ ایک بڑے خدا کے تحت بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا اس کا انتظام کر رہے ہیں ۔ اب بھی بہت سے لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ مگر علمی دنیا میں عام طور پر اب یہ نظریہ ترک کیا جا چکا ہے ۔ آج یہ ایک مردہ نظر یہ ہے نہ کہ زندہ نظریہ۔ موجودہ زمانہ کے وہ لوگ جوا پنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ وہ جدید دور کے انسان ہیں ۔ وہ شرک کے بجائے الحاد کے قائل ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ کائنات کسی ذی شعور ہستی کی کار فرمائی نہیں ہے بلکہ ایک اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے اور جب کوئی واقعہ وجود میں آجائے تو اس کے سبب سے کچھ دوسرے واقعات بھی وجود میں آئیں گے ۔ اس طرح اسباب وواقعات کا ایک لمبا سلسلہ قائم ہو جاتا ہے اور یہی سلسلۂ اسباب ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے ۔ اس توجیہہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے ۔ ایک اتفاق اور دوسرے قانون علت (Law of Causation)۔
یہ توجیہ بتاتی ہے کہ اب سے تقریباً دو لاکھ ارب سال (20 نیل سال ) پہلے کائنات کا وجود نہ تھا۔ اس وقت ستارے تھے اور نہ سیارے ، مگر فضا میں مادہ موجود تھا۔ یہ مادہ اس وقت جمی ہوئی ٹھوس حالت میں نہ تھا، بلکہ اپنے ابتدائی ذرے یعنی برقیے اور پروٹونوں کی شکل میں پوری فضائے بسیط میں یکساں طور پر پھیلا ہوا تھا ۔ گویا انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرات کا ایک غبار تھا جس سے کائنات بھری ہوئی تھی ۔ اس وقت مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا، اس میں کسی قسم کی حرکت نہ تھی ۔ ریاضی کے نقطہ گاہ سے یہ توازن ایسا تھا کہ اگر اس میں کوئی ذرا سا بھی خلل ڈال دے تو پھر یہ قائم نہیں رہ سکتا ، یہ خلل بڑھتا ہی چلا جائے گا ۔ اگر اس ابتدائی خلل کو مان لیجیے تو ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد کے تمام واقعات علمِ ریاضی کے ذریعہ ثابت ہو جاتے ہیں ۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ مادے کے اس بادل میں خفیف سا خلل واقع ہوا جیسے کسی حوض کے پانی کو کوئی ہاتھ ڈال کر ہلا دے ۔ کائنات کی پر سکون دنیا میں یہ اضطراب کس نے پیدا کیا، اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ۔ لیکن خلل ہوا اور یہ خلل بڑھتا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادہ سمٹ سمٹ کر مختلف جگہوں میں جمع ہونا شروع ہو گیا۔ یہی وہ جمع شدہ مادہ ہے جس کو ہم ستارے ،سیارے اور سحابیے کہتے ہیں۔
کائنات کی یہ توجیہ سائنس کی طرف سے پیش کی گئی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اس قدر بودی اور کمزور توجیہ ہے کہ خود سائنس دانوں کو بھی اس پر کبھی شرحِ صدر حاصل نہ ہو سکا ۔ یہ توجیہ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ کائنات کو پہلی بار کس نے حرکت دی مگر اس کے باوجود اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے کائنات کے محرکِ اول کو معلوم کر لیا ہے ، اور اس محرکِ اول کا نام اس کے نزدیک اتفاق ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب کائنات میں صرف غیر متحرک مادہ تھا، اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی تو یہ عجیب وغریب قسم کا اتفاق کہاں سے وجود میں آگیا جس نے ساری کائنات کو حرکت دے دی ۔ جس واقعہ کے اسباب نہ مادہ کے اندر موجود تھے اور نہ مادہ کے باہر۔ وہ واقعہ وجود میں آیاتو کیسے ۔ اس توجیہ کا یہ نہایت دل چسپ تضاد ہے کہ وہ ہر واقعہ سے پہلے ایک واقعہ کا موجود ہونا ضروری قرار دیتی ہے جو بعد کو ظاہر ہونے والے واقعہ کا سبب بن سکے مگر اس توجیہ کی ابتدا ایک ایسے واقعہ سے ہوتی ہے جس سے پہلے اس کا سبب موجود نہیں۔ یہی وہ بے بنیاد مفروضہ ہے جس پر کائنات کی اتفاقی پیدائش کے نظریہ کی پوری عمارت کھڑی کر دی گئی ہے ۔
پھر یہ کائنات اگر محض اتفاق سے وجود میں آئی ہے تو کیا واقعات لازمی طور پر وہی رخ اختیار کرنے پر مجبور تھے جو انھوں نے اختیار کیا۔کیا اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا ۔ کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ ستارے آپس میں ٹکرا کر تباہ ہو جائیں ۔ مادہ میں حرکت پیدا ہونے کے بعد کیا یہ ضروری تھا کہ یہ محض حرکت نہ رہے بلکہ ایک ارتقائی حرکت بن جائے اور حیرت انگیز تسلسل کے ساتھ موجود کائنات کو وجود میں لانے کی طرف دوڑنا شروع کر دے ۔ آخر وہ کون سی منطق تھی جس نے ستاروں کے وجود میں آتے ہی ان کو لامتناہی خلا میں نہات باقاعدگی کے ساتھ پھرانا شروع کر دیا۔ پھر وہ کون سی منطق تھی جس نے کائنات کے ایک بعید ترین گوشہ میں نظامِ شمسی کو وجوددیا ۔ پھر وہ کون سی منطق تھی جس سے ہمارے کرۂ زمین پر وہ عجیب وغریب تبدیلیاں ہوئیں جن کی وجہ سے یہاں زندگی کا قیام ممکن ہو سکا اور جن تبدیلیوں کا سراغ آج تک کائنات کی بیشمار دنیاؤں میں سے کسی ایک دنیا میں بھی معلوم نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ پھر وہ کون سی منطق تھی جو ایک خاص مرحلہ پر بے جان مادہ سے جاندار مخلوق پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ کیا اس بات کی کوئی معقول توجیہ کی جا سکتی ہے کہ زمین پر زندگی کس طرح اور کیوں وجود میں آئی اور کس قانون کے تحت مسلسل پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے ۔
پھر وہ کون سی منطق تھی جس نے کائنات کے ایک چھوٹے سے رقبہ میں حیرت انگیز طور پر وہ تمام چیزیں پیدا کر دیں جو ہماری زندگی اور ہمارے تمدن کے لیے درکار تھیں ، پھر وہ کون سی منطق ہے جو ان حالات کو ہمارے لیے باقی رکھے ہوئے ہے ۔ کیا محض ایک اتفاق کا پیش آجانا اس بات کی کافی وجہ تھی کہ یہ سارے واقعات اس قدر حسنِ ترتیب کے ساتھ مسلسل پیش آتے چلے جائیں اور اربوں اور کھربوں سال تک ان کا سلسلہ جاری رہے اور پھر بھی ان میں کوئی فرق نہ آنے پائے ۔ کیا اس بات کی کوئی واقعی توجیہ کی جا سکتی ہے کہ محض اتفاق سے پیش آنے والے واقعہ میں لزوم کی صفت کہاں سے آگئی اور اتنے عجیب وغریب طریقہ پر مسلسل ارتقاء کرنے کا رجحان اس میں کہا ں سے پیدا ہو گیا۔
یہ اس سوال کا جواب تھا کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی ۔ اس کے بعد یہ سوال اٹھا کہ اس کا چلانے والا کون ہے ۔ وہ کون ہے جو اس عظیم کارخانے کو اس قدر منظم طریقہ پر حرکت دے رہا ہے ۔ اس توجیہ میں جس کو کائنات کا خالق قرار دیا گیا ہے اسی کو کائنات کا حاکم نہیں قرار دیا جاسکتا یہ توجیہ عین اپنی ساخت کے اعتبار سے دو خدا چاہتی ہے ۔ کیوں کہ حرکتِ اول کی توجیہ کے لیے تو اتفاق کا نام لیا جا سکتا ہے مگر اس کے بعد کی مسلسل حرکت کو کسی حال میں بھی اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی توجیہ کے لیے دوسرا خدا تلاش کرنا پڑے گا۔
اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اصول تعلیل (Principle of Causation) پیش کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حرکت اول کے بعد کائنات میں علت اور معلول کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہو گیا ہے کہ ایک کے بعد ایک تمام واقعات پیش آتے چلے جا رہے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے بچے بہت سی اینٹیں کھڑی کر کے کنارے کی ایک اینٹ گرا دیتے ہیں تو اس کے بعد کی تمام اینٹیں خود بخود گرتی چلی جاتی ہیں ۔ جو واقعہ ظہور میں آتا ہے اس کا سبب کائنات کے باہر کہیں موجود نہیں ہے بلکہ ناقابل تسخیر قوانین کے تحت حالات ما قبل کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے ۔ اور یہ سابقہ حالات بھی اپنے سے پہلے واقعات کا لازمی نتیجہ تھے۔ اس طرح کائنات میں علت اور معلول کا ایک لا متناہی سلسلہ قائم ہو گیا ہے ۔ حتی کہ جس صورت میں تاریخِ عالم کا آغاز ہوا ، اس نے آئندہ سلسلہ واقعات کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے ۔ جب ابتدائی صورت ایک دفعہ معین ہو گئی تو قدرت صرف ایک ہی طریق سے منزل مقصود تک پہنچ سکتی تھی ۔ گویا کائنات جس روز پیدا ہوئی اس کی آئندہ تاریخ بھی اسی دن متعین ہو چکی ہے ۔
اس اصول کو قدرت کا اساسی قانون مقرر کرنا سترہویں صدی کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ چنانچہ یہ تحریک شروع ہوئی کہ تمام کائنات کو ایک مشین ثابت کیا جائے ۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یہ تحریک اپنے پورے عروج پر آگئی ۔ یہ زمانہ سائنس داں انجینیروں کا تھا جن کی دلی خواہش تھی کہ قدرت کے مشینی ماڈل بنائے جائیں ۔ اسی زمانہ میں ہیلم ہولٹز (Helm Holtz) نے کہا تھا کہ تمام قدرتی سائنسوں کا آخری مقصد اپنے آپ کو میکانکس میں منتقل کر لینا ہے ۔ اگرچہ اس اصول کے مطابق کائنات کے تمام مظاہر کی تشریح کرنے میں ابھی سائنسدانوں کو کامیابی نہیں ہوئی تھی مگر ان کا یقین تھا کہ کائنات کی تشریح میکانکی پیرائے میں ہو سکتی ہے وہ سمجھتے تھے کہ صرف تھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے اور بالآخر تمام عالم ایک مکمل چلتی ہوئی مشین ثابت ہو جائے گا۔
ان باتوں کا انسانی زندگی سے تعلق صاف ظاہر تھا ۔ اصولِ تعلیل کی ہر توسیع اور قدرت کی ہر کامیابی میکانکی تشریح نے اختیار انسانی پر یقین کر نا محال بنا دیا ، کیوں کہ اگر یہ اصول تمام قدرت پر حاوی ہے تو زندگی اس سے کیوں مستثنیٰ ہو سکتی ہے ۔ اس طرز فکر کے نتیجہ میں سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے میکانکی فلسفے وجود میں آئے ۔ جب یہ دریافت ہوا کہ (Living Cell)جاندار خلیہ بھی بے جان مادہ کی طرح محض کیمیاوی جوہروں سے بنا ہے تو فوراً سوال پیدا ہوا کہ وہ خاص اجزاء جن سے ہمارے جسم ودماغ بنے ہوئے ہیں کیوں کر اصول تعلیل کے دائرہ سے باہر ہو سکتے ہیں چنانچہ یہ گمان کیا گیا بلکہ بڑے جوش کے ساتھ دعویٰ کر دیا گیا کہ زندگی بھی ایک خالص مشین ہے یہاں تک کہا گیا کہ نیوٹن ، باخ (Bach)اور مائیکل انجلو(Michel Angelo)کے دماغ کسی پرنٹنگ مشین سے صرف پیچیدگی میں مختلف تھے اور ان کا کام صرف یہ تھا کہ بیرونی محرکات کا مکمل جواب دیں۔
مگر سائنس اس سخت اور غیر معتدل قسم کے اصولِ علیت کی اب قائل نہیں ہے ۔ نظریۂ اضافیت اصول تعلیل کو دھوکے (Elusion) کے لفظ سے یاد کرتا ہے ۔ انیسویں صدی کے آخر ہی میں سائنس پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ کائنات کے بہت سے مظاہر ، بالخصوص روشنی اور قوت کشش، میکانکی تشریح کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں ۔ یہ بحث ابھی جاری تھی کہ کیا ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے جو نیوٹن کے افکار، باخ کے جذبات اور مائیکل انجلو کے خیالات کا اعادہ کر سکے مگر سائنس دانوں کو بڑی تیزی سے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ شمع کی روشنی اور سیب کا گرنا کوئی مشین نہیں دہرا سکتی ۔ قدیم سائنس نے بڑے وثوق سے اعلان کیا تھا کہ قدرت صرف ایک ہی راستہ اختیار کر سکتی ہے جو اول روز سے علت اور معلول کی مسلسل کڑی کے مطابق ابد تک کے لیے معین ہو چکا ہے ۔ مگر بالآخر سائنس کو خود یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کائنات کا ماضی اس قدر اٹل طور پر اس کے مستقبل کا سبب نہیں ہے جیسا کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا ۔ موجودہ معلومات کی روشنی میں سائنس دانوں کی ایک بڑی اکثریت کا اب اس بات پر اتفاق ہے کہ علم کا دریا ہمیں ایک غیر میکانکی حقیقت(Non-mechanical Reality)کی طرف لیے جا رہا ہے ۔
کائنات کی پیدائش اور اس کی حرکت کے بارے میں یہ دونوں نظرئیے جو سائنسی ترقیوں کے ساتھ وجود میں آئے تھے اب تک یقین کی دولت سے محروم ہیں ۔ جدید تحقیقات ان کی بنیاد کو مضبوط نہیں بناتی بلکہ اور کمزور کر دیتی ہے ۔ اس طرح گویا سائنس خود ہی اس نظریہ کی تردید کر رہی ہے ، اب انسان دوبارہ اسی منزل پر پہنچ گیا ہے جس کو چھوڑ کر اس نے اپنانیا سفر شروع کیا تھا۔