ٹیم کی اہمیت

اقبال (وفات ۱۹۳۸ء) نے اپنی آخری عمر میں کہا تھا:

سُرودِ رفتہ باز آید کہ ناید    نسیمے از حجاز آید کہ ناید

سرآمد روزگارِ ایں فقیرے    دگر دانائے راز آید کہ ناید

اقبال اپنے آپ کو دانائے راز سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے مشن کو آئندہ جاری رکھنے کے لیے ضرورت ہے کہ اقبال کی طرح ایک اور دانائے راز پیدا ہو۔ مگر یہ ایک خیالی بات ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق نہیں۔ فطرت کے قانون کے مطابق، کوئی تخلیقی انسان ایک ہی بار پیدا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں سعودی عرب میں تھا۔ شیوخ کی ایک مجلس تھی۔ اس میں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ نے عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر اور دعوت کا جو کام شروع کیا ہے وہ بہت قابلِ قدر ہے۔ لیکن آپ کے بعد اس کام کو کون جاری رکھے گا۔ ایک اور عرب شیخ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: وحیدالدین لا یکون إلا وحیداً(یعنی وحید الدین صرف ایک ہی ہوتا ہے) یہی بات اقبال اور اِس قسم کے دوسرے لوگوں کے لیے درست ہے۔

اِس دنیا میں کسی مشن کو جاری رکھنے کا فطری طریقہ یہ نہیں ہے کہ اقبال کے بعد ایک اور اقبال پیدا ہو۔ اِس قسم کی سوچ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ اِس دنیا میں صحیح طریقہ وہ ہے جس کو سورہ صف کی آخری آیت میں بتایا گیا ہے۔ یعنی اپنی زندگی میں ایک ایسی ٹیم تیار کرنا جو آدمی کے بعد اس کے مشن کے تسلسل کو جاری رکھ سکے۔ اِس ٹیم کو حضرت مسیح کے یہاں حواری کہاگیا ہے اور پیغمبر اسلام کے یہاں انصار۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں مثالوں میں دراصل صاحبِ مشن کی تیار کی ہوئی ٹیم تھی جس نے ان کے بعد ان کے مشن کو زندہ رکھا۔

میں خدا کی توفیق سے یہی کام کررہا ہوں۔میں نے اِس غیر عملی فارمولے کو اختیار نہیں کیا کہ ایک دانائے راز کے بعد دوسرے دانائے رازکا فرضی خواب دیکھوں۔ میں نے مسلسل جدوجہد کے ذریعے ایک ٹیم تیار کرنے کی کوشش کی۔ جو میرے بعدالرسالہ مشن کو آئندہ جاری رکھے۔ یہ ٹیم اللہ کے فضل سے تقریباً تیار ہوچکی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ٹیم میرے بعد مزید متحرک ہو کر حواریین اور انصاراللہ کی تاریخ کو زندہ کرے گی اور الرسالہ مشن کو ساری دنیا میں پہنچا دے گی۔

انصار اللہ جیسی ٹیم کو بنانا بلا شبہہ ممکن ہے۔ البتہ اس کو بنانے کے لیے ایک قیمت درکار ہے۔ وہ قیمت یہ ہے کہ ٹیم کو بنانے والا اپنے آپ کو قربانی کی اعلیٰ سطح پر پہنچائے۔ وہ اِس محرومی پَر راضی ہو کہ اس کو عوامی مقبولیت نہ ملے۔ اس کی زندگی میں اس کے گِرد بھیڑ اکھٹا نہ ہو۔ وہ دنیا میں شہرت اور ترقی کے مواقع کو رد کرکے ٹیم بنانے میں پوری طرح لگارہے۔

ٹیم بنانے کا یہ کام افراد سازی کا کام ہے۔ یہ کام اِس طرح نہیں ہوسکتا کہ عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے اسٹیج سے اس کے سامنے تقریریں کی جائیں۔ یہ طریقہ ٹیم بنانے کے لیے بالکل غیر مفید ہے۔ ٹیم بنانے کا کام فرد فرد کو مخاطب کرکے ہوتا ہے۔ ایک ایک فرد سے محبت کرنا، ایک ایک فرد کے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرنا، ایک ایک فرد پر لگاتار ذہنی تعمیر کی کوشش کرنا، ایک ایک فرد کو نشانہ بنا کر خاموش جدوجہد کرنا۔ اِس طرح کا کام بلاشبہہ ایک مشکل ترین قربانی کا طالب ہے۔ مگر اِس قربانی کے ذریعے ہی کوئی ٹیم تیار ہوتی ہے۔

اصل یہ ہے کہ یہ فطرت کا ایک نظام ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں، پھر وہ جوان ہوتے ہیں اور پھر بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر وہ مرجاتے ہیں۔ اِس طرح نسل درنسل یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ نظام اِس لیے ہے کہ پچھلی نسل کا تجربہ اگلی نسل کے لوگوں تک پہنچتا رہے۔ زیادہ عمر کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ صرف اپنی اولاد کے لیے زندہ نہ رہیں بلکہ وسیع تر معنوں میں وہ انسانیت کے لیے زندہ رہیں۔ وہ انسانیت کے خیر خواہ بن کر لوگوں کو اپنے علم اور اپنے تجربے کا سرمایہ منتقل کرتے رہیں۔ دوسری طرف نئی نسل کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ بے جا خود اعتمادی میں مبتلا نہ ہوں بلکہ پچھلے لوگوں سے زندگی کا درس لے کر اپنے سفرِ حیات کو زیادہ با معنٰی بنائیں۔

رواں دریامیں یہی عمل فطری قانون کے تحت ہوتا ہے۔ رواں دریا میں ہر لمحہ پہاڑیوں کی بلندی سے نیا پانی آتا ہے۔ پُرانا پانی بہہ کر آگے چلا جاتا ہے اور نیا پانی آکر اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہ روانی مسلسل جاری رہتی ہے۔ اس لیے دریا کا پانی ٹھیرے ہوئے پانی کی طرح خراب نہیں ہوتا۔ یہی عمل شعوری طورپر انسانی نسل کے اندر انجام پانا ہے۔ دریا میں یہ عمل فطری قانون کے تحت خود بخود انجام پاتا ہے۔ انسانی زندگی میں یہ عمل شعوری منصوبہ بندی کے تحت انجام پائے گا۔

قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں ایک آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:

اور یہ ممکن نہ تھا کہ اہلِ ایمان سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا، تاکہ وہ دین میں گہری سمجھ پیدا کرتا، اور واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا، تاکہ وہ بھی پر ہیز کرنے والے بنتے۔‘‘ (التوبہ ۱۲۲)

قرآن کی اِس آیت سے پیغمبرانہ عمل کی ایک حکمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ ہر مشن کی ایک کورٹیم (core team)ہوتی ہے۔ یہی کورٹیم بعد میں مشن کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔ عوام کی بھیڑ یہ کورٹیم نہیں بناتی۔ کورٹیم بنانے کی صورت صرف یہ ہے کہ کچھ افراد کو منتخب کرکے ان کے اوپر خصوصی محنت کی جائے۔ ان کی فکری تطہیر کرکے انھیں تیار کیا جائے۔

یہی لوگ ہیں جو بعد کو تربیت یافتہ گروپ کا درجہ حاصل کریں گے اور کام کو آگے بڑھائیں گے۔ میں اللہ کے فضل سے سی پی ایس کی ٹیم کی صورت میں یہی کام کررہا ہوں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom