ذہنی تناؤ کا مسئلہ

آج کل ساری دنیا میں ایک نئی انڈسٹری وجود میں آئی ہے۔ اس کو ڈی اسٹرسنگ (de-stressing) کہاجاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک ہر ملک میں ایسے ادارے قائم ہوئے ہیں، اور ایسے ماہرین پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کے ذہنی تناؤ یا اسٹریس کو ختم کرنے کا کام بطور پروفیشن کررہے ہیں۔ یہ دَور جدید کا ایک کامیاب پروفیشن بن چکا ہے، اور ساری دنیا میں کروروں لوگ اِس سے وابستہ ہیں۔

ذہنی تناؤ یا اسٹریس کیا ہے، یہ دراصل خواہش اور واقعے کے درمیان پیدا ہونے والے بُعد (gap) کے نتیجے کانام ہے۔ یعنی آدمی جو کچھ چاہتا ہے، اور جو کچھ اس کو ملا ہوا ہے دونوں کے درمیان یکسانیت نہ ہونا۔ آدمی چاہتا ہے کہ اس کو اپنی خواہش کے مطابق، تمام چیزیں مل جائیں۔ لیکن عملاً ایسا ہوتا ہے کہ اس کو جو چیز ملتی ہے وہ اس کی خواہش سے بہت کم ہوتی ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اِسی احساسِ محرومی کا دوسرانام ذہنی تناؤ یا اسٹریس ہے۔

یہ تناؤ یا اسٹریس موجودہ زمانے کا ایک ظاہرہ ہے۔ قدیم زمانے میں انسان عام طورپر خوش رہتا تھا پھر کیوں ایسا ہوا کہ موجودہ زمانے میں وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوگیا۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جب سائنس کا ظہور ہوا اور جدید صنعت اور ٹکنالوجی کے ذریعے بہت سی ایسی نئی چیزیں ظہور میں آئیں جن کا انسان نے پہلے تصور نہیں کیا تھا۔ مثلاً قدیم کہانیوں میں اُڑن کھٹولہ ایک خیالی سواری کے طور پر بتایا جاتا تھا۔ اب ہوائی جہازکی صورت میں ہر آدمی کے لیے مشینی اڑن کھٹولے پر بیٹھنا ممکن ہوگیا، وغیرہ۔

جدید صنعتی دَور کے ظہور کے بعد انسان یہ سمجھنے لگا کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب کہ وہ اپنی تمام خواہشوں کو مکمل طورپر پورا کرسکے۔ چنانچہ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ کمانے کے لیے دوڑنے لگا۔ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ سامانِ حیات اکھٹا کرنے میں لگ گیا۔ مگر سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی اس کی خواہشیں پوری نہ ہوسکیں۔اب بھی اس کے لیے بورڈم کا سوال باقی تھا۔ بیماری، حادثہ اور موت جیسے مسائل بدستور اس کی پریشانی کے لیے موجود تھے۔ یہ احساس اب بھی اس کو ستارہا تھا کہ واقعات اس کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ اس کی ہر خواہش صرف جُزئی طورپر پوری ہورہی تھی، کُلّی طورپر نہیں۔

اس کا سبب یہ تھا کہ انسان فطری طورپر لامحدود خواہشیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن وہ دنیا جس کے اندر وہ اپنی زندگی گذارتاہے وہ صرف ایک محدود دنیا ہے۔ انسان پیدائشی طورپر ایک معیار پسند (perfectionist) مخلوق ہے، لیکن یہ دنیا جس کے اندر وہ اپنی زندگی گذارتا ہے وہ ایک غیر معیاری دنیا ہے۔ طلب اور واقعے کے درمیان یہی فرق ہے جو ذہنی تناؤ کا سبب بنتا ہے۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے حقیقت کا اعتراف۔

اصل یہ ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کو صرف مقام امتحان کے طور پر بنایا ہے۔ اس بنا پر موجودہ دنیا کی ہر چیز محدود ہے، وہ اعلیٰ معیار سے کم ہے۔ کوئی بھی صنعتی ترقی محدود خواہشوں کو پورا نہیں کرسکتی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسان اپنی خواہش کے اعتبار سے کامل ہے، لیکن موجودہ دنیا ایک غیر کامل دنیا ہے۔ انسان سب کچھ چاہتا ہے لیکن اس کو صرف کچھ ملتا ہے۔ محرومی کی یہی صورت حال، ذہنی تناؤ کا اصل سبب ہے۔

اِس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو جانے کہ کوئی بھی ترقی یا کوئی بھی کامیابی اپنی محدودیت کی بنا پر اس کو وہ سب کچھ نہیں دے سکتی جس کو وہ پانا چاہتا ہے۔ غیر کامل دنیا میں کامل یافت ممکن ہی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اگلی دنیا کو اپنی طلب کی منزل بنائے۔ وہ یہ جانے کہ جو کچھ وہ آج کی دنیا میں پانا چاہتا ہے وہ صرف کَل کی دنیا میں ملنے والی ہے۔ کسی طالبِ علم کو امتحان ہال میں جاب نہیں مل سکتا۔ اِسی طرح کسی انسان کو موجودہ امتحانی دنیا میں اس کا تمام مطلوب حاصل نہیں ہوسکتا۔

ذہنی تناؤ کو دور کرنے کا راز صرف یہ ہے کہ آدمی خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوجائے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق جینے کے بجائے خدا کے منصوبے کے مطابق جینے لگے۔ وہ اپنی سوچ کو خدا کی سوچ کے تابع کردے۔ یہی ڈی اسٹریسنگ کا واحد کامیاب فارمولا ہے۔ یہی وہ واحدتصور ہے جو ذہنی تناؤ کو مکمّل طورپر ختم کرنے والا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom