جنت کس کے لیے
ایک تعلیم یافتہ غیر مسلم نے کہا کہ میں لوگوں کے درمیان اچھے اخلاق کے ساتھ رہتا ہوں، کبھی کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ میری کوشش یہ رہتی ہے کہ میں اپنے سماج کا اچھا ممبر بنوں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ موت کے بعد مجھ کو جنت ملے گی۔ جب میں ایک اچھا انسان ہوں تو خدا مجھے جہنم میں کیوں ڈال دے گا۔
میں نے کہا کہ صرف اچھے اخلاق کی بنا پر کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا۔ جنت کیا ہے، جنت دراصل خدا کے پڑوس کا نام ہے۔ خدا اپنے پڑوس میں صرف ان لوگوں کو رہنے کی جگہ دے گا جو خدائی اخلاقیات کے حامل ہوں، صرف سماجی اخلاقیات کی بنا پر کوئی شخص جنت میں داخلے کا مستحق نہیں بن سکتا۔
اصل یہ ہے کہ ایک اخلاق وہ ہے جو انسان بمقابلہ انسان (man versus man) کی نسبت سے پیداہوتا ہے، اور دوسرا اخلاق وہ ہے جو انسان بمقابلہ خدا (man versus God) کی نسبت سے پیدا ہوتا ہے۔ دونوں قسم کے اخلاق کا محرّک بالکل الگ الگ ہے۔ انسان کی نسبت سے جو اخلاق کسی کے اندر پیدا ہوتا ہے وہ دراصل سماجی اخلاق ہوتا ہے۔ اس کا محرّک یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے سماج کے اندر بے ضرر زندگی حاصل کرسکے۔ وہ لوگوں کی نظر میں اچھا بنا ہوا ہو۔ لوگ اس کو سماج کا اچھا ممبر سمجھیں۔
اس کے مقابلے میں خدا کی نسبت سے جو اخلاق پیدا ہوتا ہے اس کا سرچشمہ دراصل معرفتِ خداوندی ہوتا ہے۔ ایک آدمی جب اپنے خالق کو دریافت کرتا ہے،تو یہ دریافت اس کے ذہن کو بالکل بدل دیتی ہے۔ اس کی ربّانی فطرت جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر وہ تمام صفات پیدا ہوجاتی ہیں جن کواعلیٰ انسانی اخلاق کہاجاتا ہے۔
انسان کی نسبت سے جواخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ سماجی محرک کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے سماج سے رشتہ ٹوٹنے کے بعد ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ایسا اخلاق وقتی مقصد کے لیے ہوتا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ہی وہ ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خدا کی نسبت سے جو اخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ ابدی محرک کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا رشتہ خدا کی ابدیت کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اِس لیے ایسا انسان اِس قابل ٹھیرتا ہے کہ وہ خدا کی ابدی جنت میں جگہ پائے۔
خدائی اخلاقیات دراصل خدا کی معرفت سے پیدا ہونے والے کردار کا نام ہے۔ مثلاً خدا خالق ہونے کی حیثیت سے اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اس لیے ایسا انسان دوسرے انسانوں سے محبت کرنے لگتا ہے۔ خدا یوم الحساب کا جج ہے۔ یہ عقیدہ ایسے آدمی کے اندر شدید محاسبہ (accountability) کا احساس پیدا کردیتا ہے۔ وہ ہر ایسے قول یا فعل سے بچنے لگتا ہے جس میں یہ اندیشہ ہو کہ خدا اس کو پکڑے گا اور اس کو سخت سزا دے گا۔ ایسے انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ دینے والا بھی خدا ہے اور چھیننے والا بھی خدا۔ یہ احساس اس کے اندر کبر کی نفسیات کو مکمل طورپر ختم کردیتا ہے۔ کسی انسان کو کم سمجھنا اس کے لیے ایک ایسی روش بن جاتی ہے جس کا وہ تحمل نہ کرسکے۔
پہلی قسم کے انسان کا اخلاق آزادانہ اخلاق ہوتا ہے، جب کہ دوسری قسم کے انسان کا اخلاق خدا کے ساتھ عبدیت کا تعلق قائم کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ پہلی قسم کے انسان کا اخلاق دُنیوی اخلاق ہوتا ہے، اور دوسری قسم کے انسان کا اخلاق جنّتی اخلاق۔ سماجی اخلاق ہمیشہ ایک حد پر پہنچ کر ختم ہوجاتا ہے۔ جب کہ خدائی اخلاق کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی کبھی اور کسی حال میں کوئی حد نہیں آتی۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور جنت کی قیمت خدا کی معرفت ہے۔ معرفتِ خداوندی سے کم تر درجے کی کوئی چیز جنت کی قیمت نہیں بن سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنت کی تصغیر ہے کہ معرفتِ اعلیٰ سے کم تر کسی چیز کو جنت کی قیمت سمجھا جائے۔
معرفت کیا ہے، معرفت (realization) دراصل خدا کی دریافت (discovery) کا نام ہے۔ یہ نہ دکھائی دینے والے خدا کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھ لینا ہے۔ یہ اعلیٰ شعور کا ایک ایسا درجہ ہے جب کہ آدمی کے لیے خدا کے سوا ہر چیز غیر اہم بن جائے، جب کہ خدا کے سوا ہر چیز اپنی کشش کھودے۔ جب کہ خدا ہی انسان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بن جائے۔
یہ معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفت کے اوپر شبہات (doubts) کے ہزاروں پردے پڑے ہوئے ہیں۔ جو آدمی شبہات کے اِن پردوں کو پھاڑ سکے وہی اُس اعلیٰ یقین کے درجے تک پہنچتا ہے جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔ معرفت کے متلاشی کو بہر حال اس امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جو آدمی شبہات کے پردے کو پھاڑنے کے اِس امتحان میں پورا اُترے وہی معرفتِ خداوندی کا تجربہ کرسکتا ہے۔
حصولِ معرفت کی حقیقی پہچان صرف ایک ہے، اور وہ داخلی ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی خدا کو اِس طرح پائے کہ وہ کامل طورپر اس کی فطرت کی آواز بن جائے۔ آدمی پیدائشی طورپر ایک متلاشی انسان ہے۔ آدمی پیدائشی طورپر حقیقتِ اعلیٰ کو دریافت کرنا چاہتا ہے۔ معرفت اسی تلاش کا جواب ہے۔ ایک بچّہ اپنی ماں کی تلاش میں ہو تو اپنی ماں کو پاکر وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اُس سے لپٹ جاتا ہے۔ یہی معاملہ صاحبِ معرفت کا ہے۔ جب کسی انسان کو حقیقی معنوں میں خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو وہ اس کو پانے کے بعد اِس طرح کامل طورپر اپنے خدا کے ساتھ جُڑ جاتا ہے جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں کے ساتھ۔
معرفت کے معاملے میں کوئی بھی عُذر (excuse) قابلِ قبول نہیں۔ جوآدمی موجودہ دنیا میں معرفت کے حصول میں اندھا ثابت ہو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ معرفت جب اپنے دلائل اور اپنی نشانیوں کے ساتھ سامنے آتی ہے تو کسی بینا انسان کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو نہ پہچانے۔ اس کے وجود میں چھپا ہوا احساسِ معرفت کافی ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو پہچاننے سے محروم نہ رہے۔
ایک بچے کی ماں غائب ہو اور پھر وہ اس کے سامنے آجائے تو یہ ناممکن ہوتا ہے کہ بچہ اپنی ماں کو پہچاننے میں ناکام رہ جائے۔ بچّے کے اندر ماں کی معرفت اتنی زیادہ قوی ہوتی ہے کہ اس کے لیے یہ ناممکن ہوجاتا ہے کہ اس کی ماں اس کے سامنے آجائے اور وہ اس کو پہچاننے سے قاصر رہے۔ اسی طرح جب دلائل اور نشانیوں کے ذریعے خدا کی معرفت کسی آدمی کے سامنے کھل جائے تو وہ اس کا تحمّل نہیں کرسکتا کہ وہ اس کو نہ پہچانے۔ جو بچہ اپنی ماں کو نہ پہچانے وہ بلا شبہہ اندھا ہے، وہ اپنی باہر کی آنکھ سے بھی محروم ہے اور اپنی اندر کی آنکھ سے بھی محروم۔