سادہ فارمولا
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔نماز کا وقت ہواتو وہ ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوگیے۔ نماز کے دَوران ان کے موبائل ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ نماز ختم ہونے تک بار بار گھنٹی بجتی رہی۔ اس کی وجہ سے نمازی ڈسٹرب ہوتے رہے۔معلوم ہوا کہ یہ اُن کے نوجوان بیٹے کا ٹیلی فون تھا۔ وہ کہیں باہر گیے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو انھوں نے اپنے باپ کو گھرپرنہ پایا۔ انھیں پریشانی ہوئی کہ والد صاحب کہاں چلے گیے۔ اِس پریشانی میں وہ بار بار ٹیلی فون کی گھنٹی بجاتے رہے۔ انھوں نے ٹیلی فون کرکے اپنے بیٹے کو بتایا کہ میں اِس وقت یہاں ہوں اور کچھ دیر کے بعد آؤں گا۔
میں نے کہا کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر آپ کے صاحب زادے بار بار آپ کو ٹیلی فون کریں اور اِس طرح اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کریں۔ آپ نے اپنے صاحب زادے کو لاڈ پیار تو خوب کیا ہوگا لیکن ان کو زندگی کا اصول نہیں بتایا۔میں نے کہا کہ انگریزی کا ایک مقولہ ہے۔ یہ مقولہ لمبے انسانی تجربے کے بعد بنا ہے۔ وہ مقولہ یہ ہے کہ—خبر نہ ہونا اچھی خبر ہے:
No news is good news.
میں نے کہا کہ میں نے زندگی میں بار بار سفر کیے ہیں۔ مگر میرے گھر والے کبھی ایسا نہیں کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے اپنے گھر والوں کو بہت پہلے یہ مقولہ بتادیا تھا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ اگر میرے بارے میں کوئی خبر نہ آئے تو سمجھ لو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی حادثہ پیش آئے تو فوراً اس کی خبر یہاں آجائے گی۔میری اِس بات پر مذکورہ بزرگ صرفمسکرا دیے۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ٹیلی فون کرکے بتائیں کہ آج ایک بہت قیمتی اصول مجھ کومعلوم ہوا ہے۔ اس کو تم پکڑ لو۔ وہ اصول یہ کہ جب تک کوئی بُری خبر نہ آئے سمجھ لو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔
انھوں نے کیوں اپنے بیٹے کو یہ بات نہیں بتائی۔اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی محبت میں اتنا زیادہ سرشار تھے کہ وہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ میرے بیٹے نے کوئی غلطی کی ہے۔ اِس قسم کی محبت کوئی سادہ چیز نہیں۔ وہ محبت کرنے والے کے لیے ایک عظیم نقصان کا باعث ہے۔ اِس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر واضح فکر پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ کنفیوژن میں مبتلا رہتا ہے۔
فکری وُضوح اور کنفیوژن کیا ہے۔ وہ دراصل سارٹنگ کا عمل ہے، یعنی ایک چیز سے دوسری چیز کو الگ کرنا۔ اسی سے ذہن کے اندر فکری وضوح آتا ہے۔ جب آدمی کسی وجہ سے سارٹنگ کا یہ کام نہ کرسکے تو اسی کے نتیجے کا نام وہ چیز ہے جس کو کنفیوژن کہاجاتا ہے۔
موصوف کو ’’نو نیوز از گڈ نیوز‘‘ کا فارمولا بظاہر پسندآیا۔ مگر بیٹے کی محبت کی وجہ سے وہ یہ نہ کرسکے کہ وہ دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کریں۔ یعنی اپنے بیٹے کی روش کو غلط قرار دیں اور میں نے جو فارمولا بتایا اس کو صحیح سمجھیں۔ اِس عدم سارٹنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ذہن کنفوژن میں پڑا رہا۔ انھوں نے شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مان لیا کہ—یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک۔
پھر میں نے کہا کہ یہ کمیونیکیشن کا زمانہ ہے۔ آدمی کو تھوڑی دیر میں دور دور کی خبریں مل جاتی ہیں۔ اِس لیے موجودہ زمانے میں یہ فارمولا ہمیشہ سے زیادہ درست بن گیا ہے۔ اب تو منٹوں میں کوئی خبر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ فلاں شخص کے ساتھ دور کے شہر میں ایک حادثہ پیش آیا۔ وہ دو دن تک اسپتال میں رہا مگر ہمارے پاس اس کی خبر اس وقت آئی جب کہ اس کا انتقال ہوچکا تھا۔
میں نے کہا کہ آپ کی یہ سوچ ہمیشہ آپ کو کنفوژن میں مبتلا رکھے گی۔ کیوں کہ آپ خیالات کی سارٹنگ کاکام کرنا نہیں جانتے۔ میں نے کہا کہ اس معاملے میں آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ ایک استثناء (exception) کو جنرلائز کررہے ہیں۔ ہر دن ہزاروں خبریں منٹوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ رہی ہیں۔ آپ نے اس کو چھوڑ کر ایک استثنائی واقعہ لے لیا اور اسی سے اپنی رائے بنانے لگے۔
یہی بیش تر لوگوں کا حال ہے۔ لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ایسا کرتے ہیں کہ وہ خیالات کی سارٹنگ کا کام نہیں کرتے۔ اِس بنا پر ان کا ذہن مختلف قسم کے خیالات کا جنگل بنا رہتا ہے۔ ان کے اندر نہ وضوحِ فکر پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ اِس قابل ہوتے ہیں کہ تجزیہ وتحلیل کا کام انجام دے سکیں۔