سب کچھ امتحان
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولنبلونکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات وبشّر الصابرین (البقرہ: ۱۵۵)
اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ خدا ہر انسان کو خوف، بھوک، جانی ومالی نقصان، اور فوائد میں گھاٹے کے ذریعہ آزماتا ہے۔ ایسی حالت میں اُن لوگوں کے لیے بشارت ہے جو ان نقصانات پر صبر کریں اور یہ کہہ دیں کہ ہم خدا کے لیے ہیں اور ہم کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ نقصانات براہِ راست طورپر آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے موجودہ دنیا کو امتحان کے مقصد سے بنایا ہے۔ اِس بنا پر انسان کو آزادی دی ہے۔ یہ انسانی آزادی طرح طرح کے مسائل پیدا کرتی ہے۔ اسی آزادی کی بنا پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن تجربات کے دوران اپنے آپ کو مؤمنانہ حالت پر برقر ار رکھنا، یہی امتحان پر پورا اترنا ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اس امتحان میں بیش تر لوگ ناکام ہوجاتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ پیش آنے والا ناخوش گوار تجربہ بظاہر کسی انسان کی طرف سے پیش آتا ہے۔ اِس ظاہری مشاہدے کی بنا پر آدمی اس کو کسی انسان کی طرف منسوب کردیتا ہے جس کی طرف سے اس کو یہ تجربہ پیش آیا تھا۔ اِس غلط انتساب کی بنا پر وہ اِس تجربے سے صرف غصہ وانتقام اور نفرت کی غذا لیتا ہے۔ وہ ساری عمر منفی نفسیات میں مبتلا رہتا ہے۔
اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ آدمی پیش آنے والے ناپسندیدہ واقعے کو خدا کی طرف منسوب کرے۔ وہ اس کو خدا کے قائم کردہ تخلیقی نظام کا نتیجہ قرار دے۔ ایسا کرنے کی صورت میں آدمی منفی نفسیات کا شکار نہ ہوگا۔ وہ اس کو نظامِ فطرت کا نتیجہ سمجھ کر اس پر راضی رہے گا، اور اِسی راضی رہنے کا دوسرا نام صبر ہے۔
کوئی شخص راستہ چل رہا ہو اور اچانک بارش آجائے جس میں اولے ہوں تو وہ کبھی اس پر غصہ نہیں ہوگا بلکہ وہ فوراً کسی قریبی جگہ میں جاکر پناہ لے گا۔ لیکن اسی انسان کو اگر کوئی شخص پـتھر مار دے تو وہ فوراً غصہ، انتقام اور نفرت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ آدمی اولے کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور پـتھر کو انسان کی طرف سے۔ یہی فرق اِس طرح کے معاملے میں انسان کی نفسیات کو بدل دیتا ہے۔ وہ اولے کے معاملے میں مثبت رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور پتھر کے معاملے میں منفی رد عمل کا مظاہرہ۔
اِس مثال سے زندگی کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کامیاب اسلامی زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی ہر نقصان یا ہر ناخوش گوار تجربے کو خدا کی طرف سے سمجھے۔ ایسا سمجھنا اس کے اندر مثبت احساسات کی تعمیرکرے گا۔ وہ اس کو منفی نفسیات میں مبتلا ہونے سے بچائے گا۔ ایسے ہی لوگ خدا کے نزدیک صبر کرنے والے لوگ ہیں، یعنی خدا کے قائم کردہ نظام پر راضی رہنے والے۔ ایسے ہی انسان کو قرآن میں نفسِ مطمئنہ کہاگیا ہے، اور جنت انھیں لوگوں کے لیے مقدر ہے جونفس مطمئن کے ساتھ آخرت تک پہنچیں۔
ایک حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ: أنا عند المنکسرۃ قلوبہم۔ میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس رہتا ہوں۔ کون لوگ ہیں جو اِس ٹوٹے ہوئے دل کا شکار ہوتے ہیں— یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ مصیبتیں پیش آتی ہیں۔ جو نقصان اور محرومی کا تجربہ کرتے ہیں۔ جن کی زندگی غم میں گذرتی ہے۔ اِس صورت حال کی روشنی میں اِس حدیث پر اور غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ مصیبت اپنی حقیقت کے اعتبار سے مصیبت نہیں ہے بلکہ وہ ایک رحمت ہے۔ یہ زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا معاملہ ہے۔
اِس پہلو سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ چیز جس کو فلاسفہ اور مفکرین خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں، وہ در اصل غلط تسمیہ (wrong nomenclature) کا معاملہ ہے۔ لوگ جس چیزکو خرابی کہتے ہیں وہ در اصل اِس لیے ہے تاکہ انسان سب سے بڑی حقیقت کا تجربہ کرے، یہ سب سے بڑی حقیقت عجز ہے۔ خدا کے مقابلے میں بندے کی حیثیت ایک عاجز مخلوق کی ہے۔ لیکن ہر آدمی کے چھپی ہوئی انا(ego) اس کو اپنے بارے میں دھوکے میں رکھتی ہے۔ مصیبت کا مقصد یہ ہے کہ آدمی انا کے فرضی خول سے باہر آئے اور اِس حقیقت کی دریافت کرے کہ وہ صرف ایک عاجز مخلوق ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
عجز کا یہی احساس انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ عجز کا احساس آدمی کو متواضع (modest) بناتا ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ پیدا ہوتی ہے۔ وہ مفروضات سے باہر آکر حقائق کا ادارک کرنے لگتا ہے۔ گویا کہ مصیبت ہی وہ چیز ہے جو اِس دنیا میں اعلیٰ انسانی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔ اعلیٰ انسانی شخصیت کی تعمیر کا دوسرا کوئی کورس یہاں موجود نہیں۔
انسانی زندگی کو سمجھنے کا اصل سرا یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق‘ انسان کی پوزیشن موجود ہ دنیا میں کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اِس دنیا میں امتحان کے لیے آباد کیاگیا ہے۔ اِس دنیا کی خوشی اور غم‘ کامیابی اور ناکامیابی‘ پانا اور کھونا‘ سب کچھ امتحان کے لیے ہے۔ یہاں طاقت ور آدمی بھی امتحان کی حالت میں ہے، اور کمزور آدمی بھی امتحان کی حالت میں۔
اِس دنیا میں کامیابی کا راز یہ نہیں ہے کہ آدمی مادّی سازوسامان اپنے گرد اکھٹا کرلے۔ یہاں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی کو امتحان کاجو پرچہ دیاگیا ہے اس پرچے کو حل کرنے میں وہ کامیاب ٹھہرے۔
یہ نظریہ آدمی کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔ وہ اس کو صبر و تحمل والا آدمی بنادیتا ہے۔ زندگی کا یہ نظریہ جس کے دل میں بیٹھ جائے وہ ہر قسم کی منفی نفسیات سے خالی ہوجائے گا۔ اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچنے کے بجائے خود اپنے بارے میں سوچے۔ وہ دوسروں کی غلطیاں بتانے کے بجائے خود اپنی غلطی پر دھیان دینے لگے۔ فخر و غرورکی نفسیات کا اس کے اندر مکمل خاتمہ ہوجائے۔ سچائی کا اعتراف کرنے میں اس کے لیے کوئی چیز روک نہ بن سکے۔ وہ مصنوعی انسان کے بجائے ایک حقیقی انسان بن جائے۔