سوال وجواب
سوال
جون ۲۰۰۳ء کا الرسالہ ملا۔ اس الرسالہ میں میرے نام ایک خط شائع ہوا ہے۔ آپ کا اصرار ہے کہ میں اپنا نقطۂ نظر تحریری طورپر بھیجوں آپ ضرور اس پر غور کریں گے۔ آپ ہمیشہ تنقید کو wel come کرتے ہیں۔ آپ کی اس یقین دہانی کے پیش نظر آپ کو اپنا opinion لکھ رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں آپ اس پر positive یا negative جو بھی آپ کی رائے ہوگی اس سے مجھے ضرور باخبر کریں گے۔
قبولیت تنقید کی بنیادی شرط ہے، فرد کو معاملہ سمجھنے کے لیے اپنے آپ کو خود فریبی کے حصار سے نکالنا، جو بات کہی جارہی ہے اس پر اپنے کامن سنس کو اپلائی کرنا، ورنہ خود فریبی معاملہ میں پیچیدگی پیدا کردیتی ہے اور فرد سمپل لاجک کو سمجھنے سے محروم ہوجاتاہے۔
الرسالہ جون ۲۰۰۳ء کے سرِ ورق پر حسب معمول آپ کے قلم سے نکلا ہوا حسب ذیل جملہ نقل کیا گیا ہے۔
“کوئی آدمی کیا ہے، اس کو جاننے کا ذریعہ یہ نہیں ہے کہ وہ کیا باتیں کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اس کا حقیقی کردار کیا ہے۔‘‘ یہ جملہ منفی سوچ کا آئینہ ہے۔ اس جملہ میں منفی سوچ ہے یہ کیسے معلوم کیا جائے۔ اس لیے ہم ایک تجربہ کرتے ہیں آپ بھی غور کریں۔
کوئی آدمی یہ کہے کہ ’’مولانا وحید الدین خاں کیا ہے، اس کو جاننے کا ذریعہ یہ نہیں ہے کہ وہ کیا باتیں کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ مولانا وحید الدین خان کا حقیقی کردار کیا ہے‘‘۔ یہ یقینا منفی سوچ negative thinking ہے۔
با اخلاق انسان کے لیے منفی سوچ سے پرہیز لازم ہے۔ الرسالہ جیسے تعمیری جریدہ میں منفی سوچ کو کیسے جگہ مل گئی حیرت ہے؟ الرسالہ جون ۲۰۰۳ کے صفحہ نمبر ۳۳ اور ۳۴ پر آپ کا میرے نام لکھا ہوا جو خط شائع ہوا ہے اس کے پہلے پیراگراف میں آپ نے آگے آنے والی بحث کے لیے ایک ڈسپلن مقرر کیا ہے کہ:
“بنیادی سوال یہ ہے کہ کس کو کس کے تابع کیا جائے۔ حوصلہ کو برداشت کے تابع کیا جائے یا برداشت کو حوصلہ کے تابع۔ اسی راز کو جاننے کا نام کامیابی ہے‘‘۔
اس کے بعد پیراگراف نمبر ۲۔۳۔۴ اور ۵ میں بحث کو پوری کرتے ہوئے نتیجہ نکالا ہے۔ اس پوری بحث کو میں انٹلکچول ڈس اونسٹی (intellectual dishonesty) کا کیس کہوں گا، کیوں کہ لفظ کی شکل بگاڑ کر بات کرنا اور اپنی بات ثابت کرنا intellectual dishonesty کے سوا کچھ بھی نہیں۔
حوصلہ زندگی کی ایک اہم قدر ہے، یہ آپ مانتے ہیں۔ لیکن پوری بحث میں لفظ حوصلہ کی شکل بگاڑ کر بات کرتے ہیں۔ مثلاً انگریزی کا لفظ confidence جو ایک نفسیاتی علامت ہے اس کی تشریح کوئی شخص لفظ over confidence کا استعمال کرکے لفظ confidence کی نفسیاتی علامت کی اہمیت گھٹائے کیا آپ اسے علمی تجزیہ کہیں گے؟ اردو لفظ حوصلہ کی ٹرم: پختہ ارادہ، احساس یافت، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی جدو جہد میں مدد گار نفسیات کے لیے لفظ حوصلہ کی ٹرم (term) استعمال کی جاتی ہے۔ اورہمیشہ مثبت (positive) نفسیات کے لیے بولا جاتا ہے۔
اس کے برخلاف منفی (negative) نفسیات کے لئے لفظ حوصلہ کی شکل بگاڑ کر نہیں بولا جاتا بلکہ اس کے لیے خود فریبی، مایوسی، اندھی چھلانگ، انتقام، ظلم، تکبر وغیرہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
لفظ کو اس کے مقام سے ہٹانا یا اس کی شکل بگاڑنا intellectual dishonesty کا کیس ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے چند مثالیں نقل کر رہا ہوں۔ آپ بھی غور کریں۔ مثلاً:
سوسائیڈائیکر کو شہید کہنا یا لکھنا
معصوم لوگوں کے قاتل کو مجاہد کہنا یا لکھنا
ڈاکو کو بہادر کہنا یا لکھنا
چور کو عقل مند کہنا یا لکھنا
سود کو تجارت کہنا یا لکھنا
ان تمام مثالوں میں خط کشیدہ الفاظ کو اس کے مقام سے ہٹا یا گیا ہے جو صد فی صد intellectual dishonesty کا کیس ہے۔
آپ اپنی تحریر کی خامی کو پرکھنے کے لیے پرائمری اسکول کا بنیادی سبق ’’جملہ بنانے کی مشق کرو‘‘ اس سے رجوع کریں۔اس مشق سے جملہ میں استعمال کیے گئے الفاظ کا فہم طالب علم کے ذہن پر نقش ہوتاہے جس کی وجہ سے طالب علم لفظ کو سن کر یا پڑھ کر اس کے صحیح ادراک کو پالیتا ہے۔ اگر آپ لفظ حوصلہ کا استعمال کرتے ہوئے جملہ بنائیں گے تو آپ جان لیں گے کہ حوصلہ اس نفسیات کا نام ہے جس کے تابع برداشت۔ سچ بولنا، در گزر، اخلاق، سخاوت، انصاف، رواداری وغیرہ۔ ایسی کئی مثبت سوچ و عمل پر انسان کو ٹھہرائے رکھنے کی وجہ حوصلہ کی نفسیات ہے۔
میں نے آپ سے جو بات ٹیلی فون پر کہی تھی وہ قرآن شریف کی عربی لغت میں لفظ صبر کے فہم کے متعلق تھی۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ قرآنک عربک لغت میں لفظ صبر کا فہم اردو لفظ حوصلہ میں پورا ہوتا ہے۔ اردو کا لفظ برداشت قرآن شریف کے لفظ صبر کا کمزور ترین مفہوم ہے۔ ایک صاحب نے کہا کہ آڑ میں آپ نے خط میں پورے معاملہ کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس خط میں آپ نے پہلے پیراگراف میں جن انگریزی الفاظ) courage حوصلہ(، patience (برداشت) کو نقل کیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہاں پر بھی آپ سے سہو ہوا ہے۔
انگریزی لفظ courage کے لیے اردو لفظ جرأت، ہمت، بہادری قریب ترین لفظ ہیں۔ اردو لفظ برداشت کے لیے صحیح انگریزی لفظ tolerate یا tolerance ہیں۔ آپ اکثر اپنی تحریروں میں لفظ برداشت کے لیے ان ہی انگریزی لفظوں کا استعمال کرتے ہیں۔
انگریزی کا لفظ patience فہم کے اعتبار سے اردو لفظ برداشت سے بہت بلند ہے۔ اردو لفظ برداشت اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔
انگریزی لفظ confidence + patience کا فہم قرآنک عربک لغت کے لفظ صبر سے قریب ترین ہے اور اردو لفظ حوصلہ کے بھی۔
یہ الفاظ انسانی نفسیات کی علامت کے بطور بولے اور لکھے جاتے ہیں اور یہی نفسیات انسان کی سوچ میں مددگار ہوتی ہے اوراسی سے انسانی نفسیات کو تولا اور پرکھا جاتا ہے۔ (عبد السلام اکبانی، ناگپور، ۴ جون ۲۰۰۳)
جواب
۱۔ خود فریبی کیا ہے اور کون شخص خود فریبی میں مبتلا ہے۔ اس کا تحقق کسی شخص کے مدعیانہ ریمارک سے نہیں ہوسکتا۔ اس کو معلوم استدلالی اصول کے مطابق موضوعی طورپر ثابت کیا جانا چاہئے۔ اس سے پہلے کسی کو خود فریبی کا شکار بتانا ایک غیر ذمّہ دارانہ بیان ہے نہ کہ کوئی علمی بیان۔ میں نے آپ کی تحریر کو کئی بار پڑھا مگر میراا حساس ہے کہ آپ نے اس سلسلہ میں اپنے بیان کی کوئی بھی علمی دلیل نہیں دی۔
۲۔ الرسالہ ماہ جون ۲۰۰۳ میں سرِورق پر جو جملہ نقل کیا گیا ہے وہ در اصل مؤطا الامام مالک کی ایک روایت کا تقریباً ترجمہ ہے۔ یہ روایت حدیث کے اس مشہور مجموعہ میں کتاب الجامع کے تحت آئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال مالک وبلغنی ان القاسم بن محمّدٍ کان یقول: ادرکت الناس وما یعجبون بالقول، قال مالک: یُرید بذلک العملَ، إنما یُنظر إلی عملہ ولا ینظر إلی قولہ (ص ۷۰۲) آپ نے الرسالہ کے جس شائع شدہ جملہ کو منفی سوچ کا آئینہ بتایا ہے اس کی زَد ان مقدّس لوگوں تک جاتی ہے جوثابت شدہ طور پر پوری امت کے لیے قُدوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر کیا آپ اپنے مذکورہ تبصرہ کی اس توسیع کو پسند کریں گے۔
۳۔ آپ نے الرسالہ جون ۲۰۰۳ میں میری چھپی ہوئی ایک عبارت کو انٹیلکچول ڈس اونسٹی intellectual dishonesty) (قرار دیا ہے مگرآپ نے اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ بات صرف اتنی تھی کہ صبر کا لغوی مفہوم کیا ہے اوراس کا استعمالی مفہوم کیا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ صبر کا لغوی مفہوم برداشت یا اپنے آپ کو روکنا ہے۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں صبر کا مفہوم ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: اصَلُ الصبر الحبسُ، الصبر نقیض الجزع (۴؍۴۳۸) جس طرح بیش تر الفاظ کے استعمالی مفہوم میں توسیع ہوتی ہے اسی طرح صبر کے استعمالی مفہوم میں بھی توسیع ہوئی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ خالص علمی اعتبار سے میرے اس نقطۂ نظر میں اعتراض کا پہلو کیا ہے۔
آپ نے جس چیز کو انٹلکچول ڈس اونسٹی کہا ہے وہ میرے لیے ناقابل فہم ہے۔ میں الرسالہ میں اکثر اس طرح کی مثالیں دیتا رہا ہوں کہ تاریخ کی کئی بڑی شخصیتوں میں حوصلہ اور ہمت کی زبردست صلاحیت تھی مگر وہ ناکام ہوگئے کیوں کہ انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ جس صورت حال کے مقابلہ میں وہ اپنے حوصلہ کا استعمال کررہے ہیں وہ در اصل برداشت کا معاملہ ہے۔
مثال کے طورپر ہندستان کی دو شخصیتوں کو لیجئے—سبھاش چندر بوس اور مہاتما گاندھی۔ دونوں یکساں طورپر با حوصلہ شخص تھے۔ دونوں نے برٹش ایمپائر کے خلاف اقدام کیا۔ اس اقدام میں سبھاش چندر بوس مبینہ طورپر ناکام رہے اور مہاتما گاندھی کامیاب۔ اس کا سبب یہی تھا کہ سبھاش چندر بوس کے پاس حوصلہ تھا مگر ان کے پاس صابرانہ منصوبہ بندی نہ تھی۔ جب کہ گاندھی کے پاس حوصلہ کے ساتھ صابرانہ منصوبہ بندی بھی موجود تھی۔ اس فرق نے ایک کو ناکام بنا دیا اور دوسرے کوکامیاب کردیا۔ میں نے اپنی تحریر میں حوصلہ کے مفہوم کو بگاڑا نہیں بلکہ یہ لکھا ہے کہ حوصلہ کو برداشت کے تابع رکھا جائے نہ کہ برداشت کو حوصلہ کے تابع بنا یا جائے۔ یہ واضح طورپر تدبیر کار کا معاملہ ہے نہ کہ انٹلکچول ڈس آنسٹی کا معاملہ۔
۴۔ آپ نے جو مثالیں نقل کی ہیں وہ سب فرضی مثالیں ہیں۔ کسی ڈسکشن میں اسی مثال کا تجزیہ کرنا چاہئے جو پیش کرنے والے نے پیش کی ہے۔ مفروضہ مثال سے ڈسکشن میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ مثلاً آپ نے confidence اور over confidence کا تقابل کیا ہے۔ اسی طرح آپ نے ڈاکو کو بہادر اور چور کو عقلمند کہنے کی مثالیں دے کر اپنا نقطۂ نظر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو میری تحریر میں موجود نہیں۔ آپ کو میری تحریر میں وارد شدہ الفاظ یا مثال کا تجزیہ کرکے اپنی بات ثابت کرنا چاہئے، نہ یہ کہ آپ کچھ مفروضہ مثالوں کو لے کر اپنا نقطۂ نظر ثابت کریں۔ اس قسم کی مثالیں اصل بحث کی نسبت سے ارریلیوینٹ(irrelevant) ہیں۔
۵۔ آپ نے اپنی تحریر میں ایک عجیب وغریب نصیحت مجھے یہ کی ہے کہ ’’آپ اپنی تحریر کی خامی کو پرکھنے کے لیے پرائمری اسکول کے بنیادی سبق کی مشق کریں ‘‘۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کی ان سطروں کا زیر بحث مسئلہ سے کیا تعلق ہے۔یہ ایک مجرّد ریمارک ہے اور مجرّد انداز میں منفی ریمارککسی بھی شخص کے بارے میں کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس قسم کے ریمارک سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔
۶۔ آپ کی کچھ سطریں لسانیات سے متعلق ہیں۔ مثلاً آپ نے لکھا ہے کہ انگریزی لفظ پیشنس (patience) فہم کے اعتبار سے اردو لفظ برداشت سے بہت بلند ہے۔ آپ کا یہ بیان صرف ایک دعویٰ ہے جس کے لیے آپ نے کوئی دلیل نہیں دی۔ انگریزی کے مشہور لغت ویبسٹر (Webster's) میں پیشنس (patience) کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
The will or ability to wait or endure without complaint. (p. 1314)
ٹھیک یہی مفہوم برداشت کا بھی ہے، پھر دونوں میں کیا فرق۔
۷۔ آپ نے پورے خط میں ایک عجیب و غریب انداز اختیار کیا ہے۔ آپ نے میرے خلاف کئی سخت بیانات دئے ہیں۔ مگر آپ نے اپنی تائید میں کوئی دلیل نہیں دی اور نہ کسی بات کا علمی اصول کے مطابق تجزیہ کیا۔ آپ نے صرف خود اپنے بیان پر انحصار کیا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ شعر و شاعری میں ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کا انداز تو ضرور چل سکتا ہے مگر علمی بحث میں یہ انداز بالکل بے فائدہ ہے۔آپ کو مدعیانہ کلام کے بجائے مدلّل کلام کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
۸۔ آپ کے خط میں ایک اور بڑی عجیب بات ہے اور وہ ہے مجھ پر انٹلکچول ڈس آنسٹی کا الزام لگانا۔ آپ کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ متعین اور مشخص طورپر کسی پر اس قسم کا ذاتی الزام لگانا بے حد سنگین بات ہے۔ایسے الزام کے لئے ناقابل تردید دلائل درکار ہیں۔محض قیاسی اندازہ اس کے لیے کافی نہیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اس قسم کی باتوں کو اختلاف رائے کے خانہ میں ڈالیں نہ کہ انٹلکچول ڈس آنسٹی کے خانہ میں۔ انٹلکچول ڈس آنسٹی کا تعلق نیت سے ہے اور نیت کا علم صرف خدا کوہے۔ یہ بے حد غیر ذمہ دارانہ بات ہے کہ قطعی دلائل کے بغیر کسی متعین شخص پر انٹلکچول ڈس آنسٹی کا الزام لگایا جائے۔
۹۔ آپ کا ایک ارشاد یہ ہے کہ میں نے لفظ حوصلہ کی شکل بگاڑ کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک غیر علمی بات ہے۔ اگر میں کہوں کہ زندگی میں کامیابی کے لیے صرف حوصلہ کافی نہیں ہے بلکہ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی اپنے جذبات کو تھام کر اپنے اقدام کی دوراندیشانہ منصوبہ بندی کرے تو یہ حوصلہ کے مفہوم کو بگاڑنا نہیں ہوا بلکہ یہ زندگی کی وسیع تر حقیقتوں کو سامنے رکھ کر اس کا مفہوم متعین کرنا ہے۔ آپ کو غالباً معلوم ہوگا کہ حضرت عمر نے خالد بن ولید کو سپہ سالار کے مقام سے ہٹایا تھا تو اس کا ایک خاص سبب یہ تھا کہ حضرت خالد ایک بے حد حوصلہ مند آدمی تھے اوراپنے اس جذبہ کے تحت ایسا اقدام کردیتے تھے جو حضرت عمر فاروق کے نزدیک سنگین رسک لینے کے ہم معنیٰ تھا۔
۱۰۔ تنقید کو قبول کرنے کی شرط وہ نہیں ہے جو آپ نے اپنے خط میں تحریر فرمائی ہے۔ آپ کی زیر نظر تحریر کی نسبت سے اس کی شرط یہ ہوگی کہ تنقید علمی طورپر درست ہے۔ جیسا کہ اوپر کے تجزیہ سے واضح ہوتاہے، آپ کی تنقید علمی اعتبار سے درست ہی نہیں۔ ایسی حالت میں اس کو کس طرح قبول کرلیا جائے گا۔
یہاں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تنقید ایک بے حد مشکل کام ہے۔ صحیح تنقید کے لیے کئی ضروری شرطیں درکار ہیں۔ مثلاً ناقد متعلقہ موضوع پر عالمانہ نظر رکھتا ہو۔ اس کو معلوم ہو کہ علمی فریم ورک کیا چیز ہے۔ وہ ریلیوینٹ (relevant) اور ارریلیونٹ (irrelevant) کے فرق کو بخوبی جانتا ہو۔ وہ عقل پر مبنی استدلال (reason based argument) سے بخوبی طورپر واقف ہو۔ وہ جانتا ہو کہ لفظی الزام اور مدلّل تنقید میں کیا فرق ہے، وغیرہ۔ جس آدمی کو ان باتوں کا گہرا علم نہ ہو اس کو اس حدیث رسول کو اپنا رہنما بنانا چاہئے: من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیراً أو لیصمت۔
سوال
آپ سے الرسالہ کے متعلق دو سوال عرض کرتاہوں، شاید آپ جواب دے سکیں۔ کیوں کہ آپ کی تو عادت ہے جواب سے کترانا اور ایسا جواب دینا جس سے سائل متفق نہ ہوسکے۔
۱۔ آپ نے الرسالہ فروری ۲۰۰۳ء کے صفحہ ۳۵ پر لکھا ہے کہ میں ملحد ہوگیا۔ اور پھر ۱۹۴۹ء میں دوبارہ اعظم گڑھ کی جامع مسجد میں ماسٹر عبد الحکیم انصاری کے سامنے کلمۂ شہادت ادا کیا۔ آپ کو کس خیال نے منکر بنایا؟ اور آپ نے پھر دوبارہ اسلام قبول کیسے اور کیوں کیا؟ دوسرا سوال اسی سے متعلق یہ ہے کہ آپ نے الرسالہ ستمبر ۱۹۹۹ ء میں لکھا ہے کہ میری شادی ۱۹۴۲ ء میں ہوئی۔ یعنی منکر کی حالت میں آپ نے شادی کی تو کیا اسلام لانے کے بعد دوبارہ نکاح کیا؟ جب کہ آپ نے نکاح حرام کیا تھا؟
۲۔ آپ نے ’’صدام حسین کے لیے انتخاب‘‘ کے تحت الرسالہ جون ۲۰۰۳ء میں لکھا ہے صدام حسین کو وہاں سے ہٹ جانا چاہئے۔ یہ ایک ایسا پاگل پن مشورہ ہے جسے کوئی بھی با شعور انسان قبول نہیں کرسکتا۔ اگر آپ کے ساتھ امیریکا کہے کہ آپ اپنے مشن کو ختم کرڈالیں اور ہندستان سے نکل جائیں ورنہ آپ کو تباہ کر ڈالا جائے گا تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟ شاید آپ جواب دیں مجھے تو امید نہیں ہے۔ (شاہ عمران حسن، دلاورپور، مونگیر)
جواب
سائل کا سوال یہاں سائل کے اپنے الفاظ میں پورا نقل کردیا گیا ہے۔ مذکورہ سوالات کا جواب مختصر طورپر عرض ہے۔
۱۔ الرسالہ فروری ۲۰۰۳ میں جس معاملہ کا ذکر ہے وہ وقتی طورپر اسلام کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات کا ذہن میں پیداہونا ہے۔ اس قسم کے شکوک و شبہات ہمیشہ ان لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جو تخلیقی فکر کے مالک ہوں۔ یہ شکوک و شبہات کسی سنجیدہ انسان کے لیے عظیم تر یقین تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ کی توفیق سے میرے ساتھ پیش آیا۔ شکوک و شبہات کا یہ وقتی معاملہ تاریخ میں بہت سے بڑے بڑے علماء کو پیش آیا ہے۔ مثلاً امام ابو الحسن اشعری، امام الغزالی، امام الرّازی، مولانا عبد الماجد دریا آبادی، مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ۔ اس قسم کا مرحلہ پیش آنا کوئی عیب کی بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ روایتی عقیدہ سے گزر کر اعلیٰ معرفتِ حق تک پہنچنے کا ایک مرحلہ ہے۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہیں جن کو اللہ کی رحمت سے یہ مرحلہ پیش آئے۔
۲۔ میرے ساتھ جو مذکورہ مرحلہ پیش آیا وہ خدا نخواستہ ترک اسلام یا انکار اسلام کا مرحلہ نہ تھا۔ وہ صرف تحقیق مزید کا معاملہ تھا۔ چنانچہ ان سالوں میں بھی میں مسلسل اللہ سے دعا کرتا تھا۔ میں حسب معمول دوسرے مسلمانوں کی طرح نماز و روزہ اداکرتا تھا۔ اور خصوصیت سے قرآن کے ان الفاظ پر غور کیاکرتا تھا جو ایک پیغمبر کے حوالہ سے آئے ہیں: قال اَو لم تُؤمن قال بلیٰ ولکن لیطمئن قلبی (البقرہ ۳۶۰)
۳۔ جہاں تک صدّام حسین کے بارے میں میرے مشورہ کا معاملہ ہے تو اس میں سائل کی حیثیت ایک فارسی مقولہ کے مطابق، مدّعی سست گواہ چست کی مانند ہے۔ صدام حسین صاحب کویہ مشورہ میں نے آغاز جنگ سے تقریباً ایک مہینہ پہلے دیا تھا۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، صدّام حسین صاحب نے یہ مشورہ اس وقت نہیں مانا مگر جب امریکہ نے شدید بمباری کے ذریعہ صدّام حسین کے محلوں اور بنکروں اور پناہ گاہوں کو تباہ کردیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا مشورہ میں نے پہلے دیا تھا۔ یعنی وہ خاموشی کے ساتھ اپنی سیاسی گدّی کو چھوڑ کر بغداد سے باہر چلے گئے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ صدّام حسین صاحب کا یہ فعل فارسی شاعر کے اس شعر کا مصداق ہے کہ جو دانشمند کرتا ہے وہی نادان بھی کرتاہے لیکن کافی تباہی کے بعد:
آنچہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار
۴۔ کلمہ شہادت کو بار بار ادا کرنا ایک اہم اسلامی تعلیم ہے اور وہ تمام علماء صالحین کا طریقہ رہا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جدِّدوا ایمانکم بقول لا الٰہ الا اللہ (تم لاالہ الا اللہ کہہ کر اپنے ایمان کی تجدید کیا کرو)۔
سوال
یہاں دو سوالات درج کرتا ہوں۔میرے نزدیک یہ دونوں سوال بہت اہم ہیں۔ براہِ کرم دونوں سوالوں کے واضح جواب عنایت فرمائیں۔ایک یہ کہ جماعت اسلامی کے ایک سینئر عالم نے اپنے ایک مقالہ میں لکھا ہے کہ ’’اس امت کی ایک تاریخ ہے، عظیم الشان تاریخ، ایسی تاریخ کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اس تاریخ پر ہم فخر کرتے ہیں اور بجا طورپر کرتے ہیں ‘‘۔ (سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڈھ، جنوری۔ مارچ ۲۰۰۳، صفحہ ۶) کیا تاریخ پر فخر کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر کا ایک تفصیلی انٹرویو چھپا ہے۔ انٹرویور کا ایک سوال یہ تھا کہ ملک کی فسطائی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو کیسے روکا جائے۔ اس سلسلہ میں امت کے لئے جماعت کی رہنمائی کیا ہے۔ امیر جماعت نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ’’جماعت مسلمانوں سے کہتی ہے کہ انہیں آگے بڑھ کر اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔ جو لوگ جمہوری فضا کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جو مذہبی آزادی پر قدغن لگانا چاہتے ہیں، انہیں ہر قیمت پر اقتدار میں آنے سے روکیں۔ اس کا مشورہ ہم مسلمانوں کو دیتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ افکار ملّی، نئی دہلی، مئی ۲۰۰۳، صفحہ ۲۶) کیا آپ کے خیال سے ہندستانی مسلمانوں کے لیے یہ سیاسی پالیسی درست ہے۔ (ڈاکٹر ایس اے صدیقی، نئی دہلی)
جواب
۱۔ پہلے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ تاریخ پر فخرکرنا ایک بدعت ہے۔ صالحین امت میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں سے کوئی بھی شخص نہیں ہے جس نے یہ کہا ہو کہ مجھے امت کی تاریخ پر فخر ہے۔ اسی طرح محدثین اور فقہاء اور مفسرین نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ امت کی مشہور شخصیتوں میں سے کسی نے بھی کبھی ایسی بات نہیں کہی۔ مثلاً حسن بصری، عمر بن عبد العزیز، الغزالی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ وغیرہ۔ان میں سے کسی نے بھی ایسا نہیں لکھا۔ یہ بلا شبہہ ایک مبتدعانہ کلام ہے۔ یہ قوم پرستی کے مزاج کے تحت نکلے ہوئے الفاظ ہیں، نہ کہ خدا پرستی کے تحت نکلے ہوئے الفاظ۔ امت کی تاریخ بالفرض عظیم الشان تاریخ ہو تب بھی وہ ہمارے لیے شکر کی بات ہے نہ کہ فخر کی بات۔
تاریخ چونکہ کبھی معیاری نہیں ہوتی اس لیے تاریخ کو فخر کا موضوع بنانے کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ اس سے قومی تعصب کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ فخر کی نفسیات یہ چاہتی ہے کہ جس چیز پر فخر کیا جارہا ہے وہ نقص سے پاک ہو۔ اس لیے ایسے لوگوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مزاج بن جاتا ہے کہ میری قوم ہر حال میں صحیح ہے اور دوسری قوم ہر حال میں غلط۔ اپنی قوم کے خلاف تنقید سن کر اُنہیں ایسا محسوس ہوتاہے کہ اُن کا فخر ٹوٹ رہا ہے۔ اس لیے نزاعی معاملات میں وہ ہمیشہ دوسری قوم پر الزام دیتے ہیں اور اپنی قوم کو بری الذمہ ثابت کرتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایسے لوگوں میں ایک شدید تر برائی پیدا ہوجاتی ہے، وہ ہے اپنے قومی احتساب سے محروم ہوجانا۔
۲۔ دوسرے سوال کے بارہ میں عرض ہے کہ یہ کوئی نیا فارمولا نہیں۔ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد مسلمانوں نے اپنے رہنماؤں کی پیروی میں بار بار ایسا کیا ہے کہ ہر الیکشن کے موقع پر وہ مفروضہ فُسطائی پارٹیوں کے خلاف ووٹ دے کر اُنہیں ہرائیں اور اُنہیں اقتدار میں آنے نہ دیں۔ اس سیاسی طریقِ کا ر کی پشت پر ماضی میں بڑی بڑی مسلم شخصیتوں کے نام شامل رہے ہیں۔
مگر یہ تجربہ مکمل طورپر ناکام ثابت ہوا۔ مسلمانوں کی یہ ہرانے کی پالیسی مسلسل طورپر ’’فُسطائی طاقتوں ‘‘ کو جِتاتی رہی۔ آزادی کے بعد مفروضہ فُسطائی پارٹی کے صرف دو ممبر مرکزی پارلیمنٹ میں ہوتے تھے۔آج یہ لوگ مرکز میں حکمراں کی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ کئی ریاستوں میں اُن کی حکومت قائم ہے۔ حتیٰ کہ پچھلے سال گجرات میں اسی قسم کی ہرانے کی پالیسی کے نتیجہ میں مفروضہ فسطائی پارٹی کو ایسی جیت حاصل ہوئی کہ ریاست میں اُس کی حکومت قائم ہوگئی۔
اس تجربہ کی روشنی میں اب اصل مسئلہ سیاسی پالیسی پر نظر ثانی کا ہے، نہ کہ اس کو مزید جاری رکھنے کا۔ مذکورہ سیاسی پالیسی کو جاری رکھنے کا مشورہ دینا، فارسی مثل کے مطابق، آزمودہ را آزمودن جہل است کے ہم معنٰی ہے۔ یعنی آزمائے ہوئے کو آزمانا صرف ایک نادانی ہے۔
ایسی حالت میں آدمی کو یہ کرنا چاہئے کہ اگر اُس کے پاس مسئلہ کا کوئی واقعی حل نہیں ہے تو وہ کم ازکم یہ کرے کہ وہ اس سوال پرچپ ہوجائے۔
ایک اور پہلو سے دیکھئے تو مفروضہ فسطائی طاقتوں کو ہرانے کی پالیسی سراسر غیر اسلامی ہے۔ مسلمان اس ملک میں داعی ہیں اور تمام ہندو اُن کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ داعی اور مدعو کا یہ تعلق مذکورہ قسم کی تفریقی پالیسی کا تحمل نہیں کرسکتا۔ داعی کی حیثیت سے ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم تمام ہندوؤں کو یکساں طورپر امتِ دعوت کی نظر سے دیکھیں۔
سہ ماہی السّلام (نئی دہلی) کے سوال نامہ ۱۲؍جون ۲۰۰۳ کا جواب
۱۔ مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے سماج میں ہم آہنگی کیسے لائی جائے۔ اس کا ایک فارمولا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس قسم کے اختلافات کو بلڈوز کر کے پورے سماج کو ایک مذہب اور ایک کلچر کا سماج بنایا جائے۔ مگر یہ کوئی فارمولا نہیں۔ کیوں کہ ایسا ہونا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ فطرت کا نظام جو خالق نے بنایا ہے وہ یکسانیت کے اصول پر نہیں بنایا بلکہ تعدد اور تنوع کے اصول پربنایا ہے۔ یہی تعدد اورتنوع مذہبی اور تہذیبی دنیا میں بھی موجود ہے۔ یہ خالق کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے اور جو چیز خود خالق کے تخلیقی نقشہ کا حصہ ہو اس کو مٹانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں انسانی دنیا میں مذہبی یکسانیت یا کلچرل یکسانیت کی بات کرنا اتنا ہی بے معنٰی ہے جتنا کہ مادّی دنیا کے تنوع کو ختم کرکے یکساں مادّی نظام قائم کرنے کا منصوبہ بنانا۔
اس سلسلہ میں دوسرا فارمولا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تمام مذاہب یکساں ہیں۔ اس نظریہ کے حامی، لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مختلف مذاہب میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ فرق اور اختلاف کے ذہن کو ختم کردیں، اس طرح اپنے آپ اتحاد قائم ہوجائے گا۔ یہ بات بھی سراسر بے معنٰی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مختلف مذہبوں اور مختلف تہذیبوں میں فرق اور اختلاف اتنا زیادہ حتمی صورت میں موجود ہے کہ کسی بھی دلیل سے اس کو غیر موجود ثابت کرنا ممکن نہیں۔ یہ فارمولا یقینی طورپر ایک غیر حقیقی فارمولا ہے۔ وہ عملی طورپر نہ کبھی ممکن ہوا اور نہ آئندہ وہ کبھی ممکن ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ فرق کوئی عیب نہیں، بلکہ وہ ایک خوبی ہے۔ وہ مذہبی فکر میں ارتقاء کا ذریعہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں صرف ایک ہی فارمولا ہے جو مفید اور قابل عمل ہے، اور وہ فارمولا وہ ہے جو رواداری(tolerance) کے اصول پر مبنی ہے۔ اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ — ایک کی پیروی کرو اور سب کا احترام کرو:
Follow one and respect all.
۲۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو غلط فہمیاں موجود ہیں ان کی ذمہ داری ہندو اور مسلمان دونوں طرف کے رہنماؤں کے اوپر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ مختلف اسباب کے تحت دونوں طرف کے رہنماؤں نے اپنے اپنے عوام کو وہ ذہن دیا جس کو شناخت(identity) کہا جاتا ہے۔ دونوں ہی نے اپنے قومی وجود کے لیے شناخت کو اہم ترین مسئلہ قرار دیا۔ اس کو پختہ کرنے کے لیے ہندو رہنماؤں نے یہ نظریہ بنایا کہ مسلمان مَلچھ ہیں اور مسلم رہنماؤں نے یہ نظریہ وضع کیا کہ ہندو کافر ہیں۔ میرے نزدیک یہ دونوں نظریے یکساں طورپر غلط ہیں۔ ہندو کو دل سے یہ ماننا چاہئے کہ مسلمان انہی کی طرح انسان ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو دل سے یہ ماننا چاہئے کہ ہندو انہی کی طرح انسان ہیں۔ جب تک سوچ میں یہ تبدیلی نہ آئے ہماری سماجی زندگی میں معتدل تعلقات کا ماحول قائم نہیں ہوسکتا۔
اس معاملہ کا ایک اور پہلو ہے، اور اس کا تعلق زیادہ تر مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان اپنے عقیدہ کی رو سے داعی ہیں اورہندو ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ داعی۔مدعو کے اس رشتہ کا تقاضہ ہے کہ مسلمان یک طرفہ طورپر یہ ذمہ داری لیں کہ انہیں شرعی حکم کے مطابق، تالیف قلب کے اصول پر عمل کرنا ہے۔ انہیں یہ کرنا چاہئے کہ وہ ہندوؤں کی شکایتوں کو یک طرفہ طورپر اپنے آپ پر لے لیں تاکہ دونوں فرقوں کے درمیان وہ معتدل ماحول قائم ہو جو دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے۔
یہاں میں یہ اضافہ کروں گا کہ ہندوؤں کی کئی شکایتیں جن کو مسلمان’’ غلط فہمی‘‘ قرار دیتے ہیں اور غلط فہمی دور کرنے کے نام پر ایک غیر مؤثر مہم لمبی مدت سے چلارہے ہیں۔ اس کو انہیں مکمل طورپر ترک کردینا چاہئے۔ کیوں کہ جو معاملہ ہندوؤں کے نزدیک صحیح فہمی کاہو اس کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوسکتا کہ ہم اس کو غلط فہمی کہہ کر نظر انداز کردیں۔ مثال کے طور پر مسلم بادشاہوں کی کئی کارروائیوں پر ہندوؤں کو بجا طورپر شکایت ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کھلے طورپر ان کارروائیوں کی مذمّت کریں۔ وہ کھلے طورپر یہ کہیں کہ ہندستان کی مسلم حکومتیں خاندانی حکومتیں تھیں نہ کہ اسلامی حکومتیں۔ اس کے سوا کسی اور طریقہ سے اس معاملہ کا خاتمہ ممکن نہیں۔
۳۔ اقلیت و اکثریت کے تعلقات کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں پہل مسلمانوں کو کرناچاہئے۔ مثلاً مسلمانوں کے اندر دو قومی نظریے کے بجائے ایک قومی نظریہ کو فروغ دینا۔ مسلمانوں کے اندر فرقہ وارانہ سوچ کو ختم کرکے قومی سوچ (national thinking) پیدا کرنا، اسی طرح مسلمانوں کے اندر سے اس ذہن کو مکمل طورپر ختم کرنا کہ وہ ہندوؤں کے ایک طبقہ کو دشمن ہندو اور دوسرے طبقہ کو سیکولر ہندو سمجھتے ہیں۔ وہ الیکشن میں دھوم مچاتے ہیں کہ مفروضہ دشمن ہندو ہاریں اور سیکولر ہندو جیتیں۔ اس قسم کی سیاست دین اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ مسلمان اس قسم کی تفریقی سیاست کا تحمّل نہیں کرسکتے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اس غیر دانشمندانہ سیاست کا مکمل طورپر خاتمہ کردیا جائے۔
اس سلسلہ میں دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان میل ملاپ (interaction) زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ قدیم زرعی دور میں یہ میل ملاپ فطری طورپر موجود تھا۔ مگر اب صنعتی دور میں یہ خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں۔ وہ ہندو اسکول اور مسلم اسکول کی تفریق کے بغیر ہر تعلیمی ادارہ میں داخلہ لے کر پڑھیں۔
مسلمانوں میں اگر بھر پور طور پر اس قسم کی تعلیمی سرگرمیاں جاری ہو جائیں تو اس کا دو یقینی فائدہ حاصل ہوگا۔ اوّل یہ کہ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے دوران ہندوؤں سے ان کاinteraction بڑھے گا اور interaction اپنے آپ میں ہر مسئلہ کا حل ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمان جب تعلیم میں آگے بڑھیں گے تو اس کے بعد فطری طورپر وہ دفتروں اور کمپنیوں اور تجارتی اداروں میں بڑی تعداد میں پہنچیں گے۔ اس طرح وہ بُعداپنے آپ ختم ہوجائے گا جو زمانی تبدیلی کے نتیجہ میں پیدا ہوگیاہے۔
۴۔ پُر امن بقائے باہم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ لازم کردیاگیا کہ وہ یک طرفہ قربانی کے ذریعہ پر امن بقائے باہم کا ماحول سماج میں قائم رکھیں۔اسی قربانی کا نام صبر ہے۔
صبر کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی طرف سے اشتعال انگیزی ہو تب بھی مشتعل نہ ہونا۔ دوسرے اگر نادانی کریں تب بھی اس سے اعراض کرنا۔ دوسرے اگر ستائیں تب بھی اس کو برداشت کرلینا۔ دوسرے اگر نزاع کھڑی کریں تو پہلے ہی مرحلے میں صلح کرکے اس کا خاتمہ کردینا۔ دوسرے اگر نقصان پہنچائیں تو دوسروں سے لڑنے کے بجائے خدا سے اس کی تلافی کی امید رکھنا۔ دوسرے اگر فساد کریں تب بھی ان کے لیے اصلاح کی دعائیں کرنا۔ دوسرے اگر کاٹنے کی کوشش کریں تب بھی ان سے جڑے رہنا۔ دوسرے اگر نہ دیں تب بھی ان کو دینے کی کوشش کرنا۔ دوسرے اگر ظلم کریں تب بھی انہیں معاف کردینا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں اس آخری حد تک گئے کہ ہجرت کے بعد مدینہ میں آپ تقریباً سولہ ماہ تک کعبہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے تاکہ وہاں بسنے والے یہودیوں سے غیر ضروری ٹکراؤ نہ پیش آئے۔ قرآن میں اس معاملہ میں یہ اصول مقرر کیا گیا کہ تمہارے لیے تمہارا دین اورہمارے لیے ہمارا دین۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد پیغمبر اسلام نے جو منشور جاری کیا اس میں آپ نے یہ درج فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے مسلمان کا دین اور یہود کے لیے یہود کا دین(للیہود دینہم وللمسلمین دینہم) وغیرہ۔
اس مقصد کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ تمام انسان ایک ہی جوڑے کی اولادہیں۔ تمام انسان آپس میں بھائی اور بہن ہیں۔ تمام انسان خدا کی عیال ہیں۔ ایک انسان اور دوسرے انسان میں دنیوی تعلقات کے اعتبارسے کوئی فرق نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی مسدّس میں اس طرح نظم کیا ہے:
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
۲۵ جون، ۲۰۰۳