ایک خط

برادر محترم و مکرم ڈاکٹر عزیز احمد خاں ایڈوکیٹ   السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا خط مورخہ ۲۸ جون ۲۰۰۳ ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحتِ کامل عطا فرمائے۔آپ کو ہر طرح امن اور عافیت کے ساتھ رکھے اور تمام اہل خانہ کا ہر طرح مددگار ہو۔

آپ نے لکھا ہے کہ عزیزہ شاذان کی شادی ۶ جولائی ۲۰۰۳ کو ہونے والی ہے۔ اس خبر سے خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے اورکامیاب زندگی عطا فرمائے۔ میری طرف سے عزیزہ کو دعا اور مبارک باد۔

شادی زندگی کا ایک ایسا مرحلہ ہے جو ہر مرد اور عورت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اور جب شادی خود فطرت کا قانون ہو تو خود فطرت کے اندر یہ انتظام ہونا چاہئے کہ شادی طرفین کے لیے پُر سکون زندگی کی ضمانت بنے۔

میرے نزدیک شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا راز صرف ایک ہے اور وہ ایڈجسٹمنٹ ہے۔ ایڈجسٹمنٹ شادی شدہ زندگی کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ اصل یہ ہے کہ خالق نے ہر مرد اور عورت کو مسٹر ڈفرنٹ اور مِز ڈفرنٹ کے روپ میں پیدا کیا ہے۔ ڈفرینس خود فطرت کالازمی حصہ ہے اور جب دو ڈفرنٹ پرسن باہم ملیں تو کامیاب زندگی کی ضمانت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈ جسٹ کرکے زندگی گذاریں۔ اس معاملہ میں فریقین کے لیے ایڈجسٹمنٹ کے سوا کوئی اورآپشن نہیں۔

یہ ڈفرینس ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی ڈفرینس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو اور تبادلۂ خیال کے ذریعہ ذہنی ارتقاء کا عمل جاری رہے۔ میرے تصور میں بہترین بیوی اور بہترین شوہر وہ ہے جو ایک دوسرے کے لیے انٹیلکچول پارٹنر بن سکے۔ اگر فریقین میں مثبت مزاج ہو تو ڈفرینس سے انٹلیکچول ایکسچینج پیداہوگا اور انٹیلیکچول ایکسچینج سے انٹیلیکچول ڈیولپمنٹ کا عمل جاری رہے گا۔

قدیم روایتی تصور کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے ہاؤس پارٹنر سمجھے جاتے تھے۔ موجودہ زمانہ میں اس میں توسیع ہوئی تو یہ سمجھا جانے لگا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے جاب پارٹنر ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ شادی شدہ زندگی کی ایک تصغیر ہے کہ اس کو ہاؤس پارٹنر یا جاب پارٹنر کے دائرہ میں محدود کردیا جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ شادی شدہ زندگی کا زیادہ بڑا پہلو یہ ہے کہ اس طرح عورت اور مرد دونوں کو اپنے لیے ایک قابل اعتماد انٹیلکچول پارٹنر مل جاتاہے، ایک ایسا ساتھی جس کے ذریعہ وہ اپنے ذہنی ارتقاء کا سامان کرسکیں۔

کسی انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل مسلسل جاری رہے۔ یہ ذہنی ارتقاء مطالعہ اور مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ بھی جاری رہتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی کے ذہن میں جو بات آئے اُس پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے اُس کے پاس ایک قریبی معاون موجود ہو۔ اُس پر وہ اس سے ڈسکشن کرے۔ ڈسکشن کے دوران غیر واضح افکار واضح ہوتے ہیں۔ اُس سے ذہنی سفر کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ ڈسکشن کے دوران نئے افکار ایمرج کرتے ہیں جو کسی اور طریقہ سے ممکن نہیں ہوتے۔

اس تبادلۂ خیال کے لیے عورت اورمرد دونوں کو ایسا ساتھی چاہیے جو مسلسل طورپر اُنہیں حاصل رہے۔ جس سے اعتماد کے ساتھ گفتگو کی جاسکتی ہو۔ جس سے رزرویشن کے بغیر ڈسکشن ہوسکے۔ اس قسم کا ساتھی صرف شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے ہوسکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کی سب سے بڑی منزل ذہنی ارتقاء ہے، اس ذہنی ارتقاء کے لیے بیوی اور شوہر دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین انٹلیکچول پارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح دونوں کے اندر تھنکنگ پراسس بلا روک جاری رہے گا،اور بلاشبہہ کسی مرد یا عورت کے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں کہ اس کا تھنکنگ پراسس کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ عزیزہ شاذان کواُن کی زندگی کا یہ نیا دور مبارک ہو۔

یکم جولائی ۲۰۰۳    دعا گو    وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom