اسلامک تھنک ٹینک
مولانا اقبال اعظمی قاسمی (۶۵ سال) لِسٹر (برطانیہ) میں رہتے ہیں۔ ۳۱ مئی ۲۰۰۳ کو ان سے اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ کیا وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل (directionless) قوم بن گئے ہیں۔ آخر اس کا سبب کیا ہے۔ اس سوال کا جواب میں نے قرآن کی ایک آیت کی روشنی میں دینے کی کوشش کی۔ پھر یہی موضوع یکم جون ۲۰۰۳ کو ہمارے ہفتہ وار درس میں بھی زیر بحث رہا۔ اس گفتگو کاخلاصہ یہاں درج کیا جاتاہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں ایک نہایت اہم ہدایت دی گئی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور یہ تو نہ تھا کہ سارے اہل ایمان نکلتے تو ایسا کیو ں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرتا اور واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا تاکہ وہ بھی پرہیز کرنے والے بنتے (التوبہ ۱۲۲)
اس آیت کا مصداق بوقت نزول یہ تھا کہ مختلف قبیلوں سے منتخب افراد نکل کر مدینہ آئیں اور کچھ دن پیغمبر کی صحبت میں رہ کر تفقہ فی الدین کا ملکہ پیدا کریں۔ پھر واپس جاکر وہ اپنے لوگوں میں دعوت و اصلاح کا کام کریں۔
اس قرآنی ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک غیر سیاسی قسم کی مرکزی دینی شخصیت یا غیر سیاسی مرکزی ادارہ موجود ہو۔ یہ شخصیت یا ادارہ لوگوں کے لیے تفقہ فی الدین کا مرجع ہو۔ لوگ اس سے رجوع ہو کر دینی بصیرت حاصل کریں۔ اور یہ کہ اس کے تحت تربیت پا کر ایسے اصحاب بصیرت تیار ہوں جو پیش آمدہ امور میں مسلمانوں کی صحیح دینی رہنمائی کریں۔ اس قرآنی آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ امت کے درمیان ایک فقیہ المسلمین ہونا چاہئے۔ فقیہ المسلمین کا یہ تصور گویا کہ زیادہ بہتر طورپر اس اجتماعی مقصد کو حاصل کرنا ہے جو دوسرے مذہبوں میں پوپ یا گرو یا امام معصوم کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ پوپ یا گرو یا امام معصوم کی تعلیم کو مقدس عقیدہ کی حیثیت دے دی گئی ہے، جب کہ قرآن کے مطابق، فقیہ المسلمین کے ادارہ کی اہمیت عقیدہ کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت عملی ضرورت کے اعتبار سے ہے۔
فقیہ المسلمین کا یہ ادارہ اہل اسلام کے لیے فکری اعتبار سے ابدی رہنما کی حیثیت رکھتا تھا مگر بعد کے زمانہ میں یہ سیاسی غلطی ہوئی کہ فقیہ المسلمین کے بجائے خلیفۃ المسلمین کو اجتماعی ادارہ سمجھ لیا گیا۔ اور جب خلیفۃ المسلمین کا سیاسی ادارہ مسلمانوں میں موجود نہ رہا تو خلیفۃ المسلمین کے ادارہ کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے لڑائی شروع کر دی گئی جو آج تک ختم نہ ہوئی۔
اس سلسلہ میں دوسری غلطی یہ ہوئی کہ عباسی خلافت کے زمانہ میں علماء نے تفقہ کا عمل شروع کیا تو تفقہ کے تصور کو گھٹا کر اس کو جزئی شرعی مسائل کی تحقیق کے ہم معنٰی بنا دیا گیا۔ جزئی مسائل کی یہ بحث بجائے خود اہم ہوسکتی ہے مگر وہ تفقہ فی الدین کے مدعا کی تکمیل ہر گز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تفقہ فی الدین کے اسی ادارہ کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل اور بے نشان قوم بن گئے ہیں۔ ہر جگہ وہ بے مقصد جدال و قتال میں مصروف ہیں۔ ان کے درمیان کوئی ایسا فکری ادارہ نہیں جو انہیں ان کے مسائل میں صحیح اور بروقت رہنمائی دے اور ان کی سرگرمیوں کو نتیجہ خیز رخ کی طرف موڑ دے۔ تفقہ فی الدین کے ادارہ کو دوسرے لفظوں میں اسلامک تھنک ٹینک کہا جاسکتا ہے۔
مثال کے طورپر ۲۰۰ سال پہلے مسلمانوں کو نو آبادیاتی قوموں کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔ اس وقت اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ حالت میں موجود ہوتا تو وہ انہیں بتاتا کہ یہ سازش اور دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ طاقت کا توازن بدل جانے کا مسئلہ ہے اس لیے تم نئے معیار کے مطابق اپنے آپ کو مستحکم بنانے کی کوشش کرو۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں جہاد کے نام پر بہت سی تباہ کن سرگرمیاں جاری ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ جہاد حکومت کا کام ہے وہ عوام کا کام نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان دوسری قوموں کو دشمن قرار دے کر ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ مسلمانوں کو بتاتا کہ یہ غیر مسلم تمہارے مدعو ہیں اور مدعو سے نفرت کرنا جائز ہی نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان مغربی تہذیب کو اسلام کے حریف کے طورپر دیکھتے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کاادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ مغربی تہذیب اسلام کی حریف نہیں، وہ نئے مواقع کی نقیب ہے۔ تم ان مواقع کو پہچانو اور ان کو اسلام کے حق میں استعمال کرو۔
ضرورت ہے کہ فقیہ المسلمین کے ادارہ کو ایک غیر سیاسی ادارہ کی حیثیت سے دوبارہ زندہ کیا جائے اور خلیفۃ المسلمین کے سیاسی ادارہ سے الگ کرکے اس کو ڈیولپ (develop) کیا جائے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے احیاء (revival) کا یہی واحد نقطۂ آغاز ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۴ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جب اُن کو کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو وہ اُس کو پھیلادیتے ہیں۔ اور اگر وہ اُس کو رسول تک یا اپنے ذمّہ دار لوگوں تک پہنچاتے تو اُن میں سے جو لوگ تحقیق کرنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت جان لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے (النساء ۸۳)
قرآن کی اس ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہم اجتماعی امور میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہر آدمی اُن پر اظہار خیال کرنا شروع کردے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملہ کو ذمہ دار افراد تک پہنچایا جائے اور وہ غور و فکر کرنے کے بعداُس پر اپنے فیصلہ کا اعلان کریں۔ یہی معاملات کی درستگی اور اصلاح کا واحد یقینی طریقہ ہے۔
قرآن کے مطابق، خلافت یا سیاسی اقتدار ایک امتحان کی چیز ہے، وہ کسی ایک گروہ کے پاس ہمیشہ نہیں رہتا اورنہ رہ سکتا۔ اس لیے مذکورہ قسم کی فکری تنظیم کے لیے سیاسی ادارہ پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ اس کے لیے غیر سیاسی ادارہ ہو جو مستقل طورپر اور ہر حال میں باقی رہے۔ فقیہ المسلمین کا ادارہ اسی قسم کاایک مستقل ادارہ ہے۔ وہ ہمیشہ اورہر حال میں مسلمانوں کی فکری رہنمائی کا ضامن ہے۔ اس لیے فقیہ المسلمین کے ادارے کے قیام کی کوشش سیاسی ادارہ کے قیام سے بھی زیادہ کی جانی چاہئے۔ (۲جون ۲۰۰۳)