رسولؐ اللہ کا پیغامِ امن

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنی قوم کی لسان (ابراہیم ۴) میں کلام کیا۔ مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود نے کہا:کلم الناس علی قدر عقولہم (لوگوں سے ان کے عقلی درجہ کے مطابق بات کرو)۔ اس بات کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتاہے کہ داعی کا کلام ایسا ہونا چاہئے جو مدعو کے ذہن کو ایڈرس (address) کرے۔ جس میں مدعو اپنے سوالات کا جواب پارہا ہو۔ ایسا کلام جو داعی کے خود اپنے ذہن کی نمائندگی کرے، اس میں مدعو کے ذہن کی رعایت نہ ہو، داعیانہ کلام نہیں ہے۔ اس معاملہ کی وضاحت کے لیے یہاں ایک سادہ مثال درج کی جاتی ہے۔

کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میں مسلمانوں کے ایک جلسہ میں ان کی دعوت پر شریک ہوا۔ اس کا موضوع سیرت رسول تھا۔ میں نے وہاں سیرت کے موضوع پر کسی قدرتفصیلی تقریر کی۔ تقریر کے بعد ایک باریش بزرگ مجھ سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ سیرت پر تو آپ کچھ بولے نہیں۔ میں نے تعجب کے ساتھ جواب دیاکہ میری ساری تقریر تو سیرت ہی پر تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں صرف رسول اللہ کے اقوال اور آپ کے واقعات بیان کئے، یہی تو سیرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ کو معجزات اور کرامات اور فضائل اور فتوحات جیسی چیزیں بیان کرنا چاہئے۔

اپنے اس تجربہ سے میں نے ایک بہت بڑی حقیقت دریافت کی۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں سیرت کے جلسے ہو رہے ہیں مگر لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الأحزاب ۲۱) کے معیار پر جانچا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس پہلو سے سیرت کے جلسوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس قرآنی آیت کے مطابق، سیرت کی تقریروں کا یہ فائدہ ہونا چاہئے کہ لوگ رسول کے اسوہ کو جانیں اور اُس کو اپنی زندگی میں اختیار کریں۔مگرمیں نے اب تک ایساکوئی شخص نہیں دیکھا جو یہ کہے کہ اس نے ان جلسوں سے اسوۂ رسول کا سبق پایا ہے اور اس کو اپنی زندگی میں اپنا لیا ہے۔ ان جلسوں میں بس مخصوص روایتی ذہن کے مسلمان شریک ہوتے ہیں اور ان سے فخر کی غذا لے کر اپنے گھروں کو واپس ہو جاتے ہیں۔ جب کہ سیرت کے جلسوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان سے اسوہ اخذ کریں،نہ کہ فخر۔ظاہر ہے کہ جب سیرت کی تقریروں میں فخر کی غذا دی جارہی ہو تو لوگ اُن سے فخر ہی لیں گے، نہ کہ اُسوہ۔ کیوں کہ اُنہیں اُسوہ کی خوراک تو دی ہی نہیں گئی۔

موجودہ انسان جن خیالات میں جیتا ہے وہ مذکورہ ذہن سے بالکل مختلف ہے۔ آج کا تعلیم یافتہ انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ موجودہ حالات میں پیغمبر اسلام کا ریلیوینس (relevance) کیا ہے۔ آج کے مسائل کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ مثلاً آج تمام سوچنے والے ذہن تشدد کے مسئلہ سے پریشان ہیں۔ جنگ اور امن کاموضوع آج کا سب سے بڑا فکری چیلنج بنا ہواہے۔ ایسی حالت میں لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معاملہ میں پیغمبر اسلام کی زندگی سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔ مگر مذکورہ قسم کی تقریروں میں اس کا کوئی جواب نہیں۔اس پہلو سے یہاں میں چند باتیں عرض کروں گا۔

اہل علم امن کی تعریف عدم جنگ (absence of war) کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ تعریف خالص فنّی اعتبار سے درست ہوسکتی ہے مگر وہ آج کے انسان کو بہت زیادہ اپیل نہیں کرتی۔ آج کے انسان کے نزدیک اس قسم کا امن صرف ایک انفعالی امن (passive peace) ہے۔ امن کی اس تعریف میں اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ تشدد کے بغیر اپنے مسائل کا حل کس طرح نکالا جائے۔ اس اعتبار سے یہ انسان کے لیے پیغمبر اسلام کی بہت بڑی دین ہے۔ انہوں نے ربّانی ہدایت کے تحت یہ کیا کہ انفعالی امن کو فعّال امن (active peace) میں تبدیل کردیا۔اُنہوں نے امن برائے امن کے اصول کو امن برائے عمل کے اصول کی حیثیت دے دی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اُنہوں نے امن کو ایک وقفۂ تعمیر (constructive interlude)کے طورپر استعمال کرنا سکھایا:

The policy of the Prophet in bilateral matters was based on the principle of buying time.

پیغمبر اسلام نے ربّانی ہدایت کے تحت یہ دریافت کیا کہ جنگ اور ٹکراؤ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کام کے مواقع یکسر ختم ہوجاتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں امن سے کام کے تمام مواقع کھلتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ فارمولا دیا کہ یکطرفہ تحمل کے ذریعہ جنگ سے اوائڈ کرو اور امن کی حالت میں پیدا ہونے والے مواقع کو اپنی تعمیر اور استحکام کے لیے استعمال کرو۔

پیغمبر اسلام کی پوری زندگی اسی اعلیٰ حکمت کی مثال ہے۔ مکہ کے ابتدائی زمانہ میں کعبہ (بیت اللہ) میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام نے بت کے سوال پر عملی ٹکراؤ سے بچتے ہوئے پرامن انداز میں دعوت توحید کا کام شروع کردیا۔ مکہ کے آخری زمانہ میں جب کہ وہاں کے سردار آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے تب بھی آپ نے اُن سے ٹکراؤ نہیں کیا بلکہ خاموشی کے ساتھ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے اور وہاں اپنا دعوتی مرکز قائم کیا۔ ہجرت کے بعد قریشِ مکہ نے آپ کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ دی مگر آپ نے حسن تدبیر کے ذریعہ اُن سے دس سال کا ناجنگ معاہدہ کرلیا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔اس صلح نے آپ کو اپنے دعوتی کام کے لیے وسیع مواقع دے دیے۔

پیغمبر اسلام نے اس طرح امن کو ایک مستقل پالیسی کی حیثیت دے دی۔ اس حکیمانہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ۲۳ سال میں پورے عرب میں اسلامی انقلاب آگیا۔ یہ انقلاب اتنا زیادہ پرامن تھا کہ اس کو بجا طور پر غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔

اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت کا سائنٹفک اسلوب کیا ہے، وہ ہے بات کو اس انداز میں کہنا کہ آج کا انسان محسوس کرے کہ اُس کے ذہن کو ایڈرس کیا جارہا ہے۔ اُس میں اُس کو اپنے سوال کا جواب ملنے لگے۔ وہ سوال دیگر، جواب دیگر کا مصداق نہ ہو بلکہ سائل کے ذہن میں جو سوال ہو، عین اُسی کا جواب اُس کو سننے کو ملے۔

اس مقصد کے لیے بیک وقت دو باتوں کی گہری واقفیت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ داعی دین کی حقیقی تعلیمات سے بخوبی طورپر واقف ہو اور دوسرے یہ کہ اُس نے مدعو کے ذہن کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ کہ داعی کے دل میں مدعو کے لیے سچی خیر خواہی موجود ہو۔ ان شرطوں کی کامل یکجائی کے بعد داعی کے اندر کلام کا جو اُسلوب بنے اُسی کا نام سائنٹفک اسلوب ہے۔ (۱۴ مئی ۲۰۰۳)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom