خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۹
۱ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) میں ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں دہلی کے ۱۲ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ ونود دوا اس کے اینکر تھے۔ موضوع یہ تھا کہ بحران کے وقت کیوں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ لوٹ پاٹ شروع کردیتے ہیں۔ یہ واقعہ نیویارک، لاس اینجلیز، گجرات، بغداد، دہلی، وغیرہ میں بڑے پیمانہ پر پیش آیا ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اس موقع پر جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ـتھا کہ یہ انسان کی انا والی نفسیات کا نتیجہ ہوتاہے۔ لوگ اس بنا پر اتھارٹی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ پہلا موقع پاتے ہی بغاوت کردیتے ہیں۔ اس کا علاج دو چیز ہے۔ اچھا ایڈمنسٹریشن اور اچھی ایجوکیشن۔
۲ ای۔ ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۳ اپریل ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کا موضوع تھا— امن، انسانیت اور توہم پرستی کے بارہ میں مذہب کی تعلیمات۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور اس موضوع پر اسلام کی روشنی میں کلام کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ اسلام امن اور انسانیت کا مذہب ہے۔ جہاں تک توہم پرستی کا تعلق ہے، اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔اسلام کے مطابق، موثر حقیقی صرف خدا ہے۔ نفع کا ملنا یا نقصان کا پہنچنا دونوں صرف خدا کے اختیار سے ہوتا ہے۔ خدا کے سوا کسی اورکو نافع یا ضار سمجھنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
۳ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۷ اپریل ۲۰۰۳ کی شام کو توسیعی لکچر کاایک پروگرام تھا۔ اس میں دہلی کی خاتون چیف منسٹرمسز شیلا دکشت چیف گیسٹ تھیں اور صدر اسلامی مرکز اُس کے واحد اسپیکر تھے۔ وسیع ہال پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ اس میں تقریر کاعنوان یہ تھا:
Spirituality and Spiritual Power
تقریر میں تفصیل سے بتایا گیا کہ اسپریچولٹی ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ اسپریچولٹی آدمی کو ذہنی سکون دیتی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ایک عظیم طاقت ہے۔ یہ پروگرام انگریزی میں تھا اور اُس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ سامعین بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ چیف گیسٹ مسز شیلادکشت نے آخر میں کہا کہ میں بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ مولانا صاحب کی تقریر نے ہم لوگوں کو اتنا زیادہ مسحور کردیا ہے کہ ہمارے پاس اب بولنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
۴ جین ٹی وی میں ۲ مئی ۲۰۰۳ کو ایک پروگرام تھا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کی تقریر ریکارڈ کی گئی۔ اس کا موضوع تھا: پیغمبر اسلام کی سیرت اور تعلیم۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی گئی۔
۵ ہندی ہفت روزہ پَروکتا کے نمائندہ مسٹر راجیو شرما (Tel. 26711954/955) نے ۴ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ کشمیر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ ۱۹۶۸ سے جو بات کہتے رہے ہیں وہ اب بعد از خرابیٔ بسیار پاکستانی لیڈروں کی سمجھ میں آئی ہے۔ وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ اس معاملہ میں ڈی لنکنگ (delinking) پالیسی اختیار کی جائے۔ یعنی کشمیر کے سوال کو الگ رکھ کر اس کو شملہ ایگریمنٹ کے تحت پر امن گفت و شنید کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جائے اور اسی کے ساتھ تجارت، سیاحت اور اس طرح کے دوسرے معاملات میں دونوں ملکوں کے درمیان نارمل تعلق قائم کر لیا جائے۔ اب پاکستانی لیڈر اس پر راضی ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی اس پر عمل ہوگا اور دھیرے دھیرے انشاء اللہ کشمیر کا جھگڑا ختم ہو جائے گا۔
۶ اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی اسپیشل کرسپانڈنٹ اَپرنا دویدی (Aparna Dwivedi) نے ۵ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکزکا انٹرویو لیا۔ اُ ن کے سوالات کا تعلق زیادہ تر مدرسہ کے ماڈرنائزیشن سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ مدرسہ میں بلا شبہہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اُس کو ماڈرنائزیشن کہنا درست نہیں۔ مثلاً مدرسہ میں ضرورت ہے کہ قدیم منطق کی جگہ جدید منطق پڑھائی جائے۔ عربی زبان کے ساتھ انگریزی زبان کو باقاعدہ طورپر داخل نصاب کیا جائے۔ کمپیوٹر کی تعلیم دی جائے۔ نئے طریقہ سے کام کرنے کی تربیت دی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ مدرسہ میں جنگجوئی سکھائی جاتی ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مدرسہ میں ٹالرنس اور ایڈجسٹمنٹ کا مزاج بنانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، حالاں کہ ایسا کرنا چاہئے (Tel: 91 11 51502000)۔
۷ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۱۰ مئی ۲۰۰۳ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس پروگرام میں مختلف اصحاب نے حصہ لیا۔ مسلمان بھی، ہندو بھی اور سکھ بھی۔ اس کا موضوع سیرتِ رسول کا عالمی پیغام تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اُس کی دعوت پر اُس میں شرکت کی۔ اُنہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات ساری انسانیت کے لیے ہیں۔ اس کے مطابق، سارے انسان ایک خاندان کی مانند ہیں۔ ہر ایک دوسرے کے لیے بھائی اور بہن کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ دنیا میں انسان دوسروں کے ساتھ جو معاملہ کرے گا اُس کے بارہ میں خدا کے یہاں اُس سے باز پرس ہوگی۔ یہ دو چیزیں پیغمبر کی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
۸ ادھیاتمک جاگرتی منچ کے زیر اہتمام ۱۳،ساؤتھ اوینیو، نئی دہلی میں ۱۳ مئی ۲۰۰۳ کو ایک میٹنگ ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک میں تبدیلی لانے کے لیے صرف سیاسی طریقِ کار کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ روحانی انقلاب لانے کے لیے باقاعدہ کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک سیاسی مقصد کے حصول کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ مگر تعمیری سماج بنانے کے لیے فرد فرد میں اخلاقی اور روحانی تبدیلی لانا ضروری ہے۔ اس میٹنگ میں ہندو، عیسائی، سکھ اور مسلمان شریک ہوئے۔
۹ نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ۱۸ مئی ۲۰۰۳ کو محفل میلاد کا پروگرام ہوا۔ اس پروگرام کا اہتمام ایک خاتون تنظیم نے کیا تھا۔ یہ ایک سالانہ پروگرام ہے جو ہر سال بڑے پیمانہ پر کیا جاتا ہے۔ اس میں دہلی کے ممتاز اور تعلیم یافتہ مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور سیرت کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ بقیہ مقررین یہ تھے: سفیر ایران، سفیر عرب امارات، ڈاکٹر نجمہ ہبت اللہ، رفیعہ حسین۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔
۱۰ نئی دہلی کا مشہور تعلیمی ادارہ این سی ای آر ٹی (NCERT) نے اپنے ہال میں ایک پروگرام منعقد کیا جس میں ادارہ کے تمام ٹیچر، پروفیسر اور کارکن بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ ڈاکٹر جے ایس راجپوت (ڈائرکٹر این سی ای آر ٹی) نے اس کی صدارت کی۔ اس میں ایکسٹنشن لکچر کے پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز کوتقریر کرنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے روحانیت کے موضوع پر ایک گھنٹہ خطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر انسان پیدائشی طورپر الفطرۃ پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ روحانیت کا آغاز ہے۔ اس کے بعد وہ نیچر میں غور وفکر سے اپنی روحانیت کو بڑھاتا ہے۔ اور پھر خدا سے تعلق قائم کرکے اس سے انسپریشن (inspiration) لیتا ہے۔ اس طرح انسان کی روحانی شخصیت ترقی کرتی رہتی ہے۔ یہ پروگرام ۲۱ مئی ۲۰۰۳ کو منعقد کیا گیا۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر راجپوت نے اپنے صدارتی کلمات کے درمیان یہ تجویز پیش کی کہ میں تقریباً سو صفحہ کی ایک کتاب انگریزی میں تیار کرکے اُنہیں دوں جس کو وہ بڑی تعداد میں چھاپ کر پورے ملک کے تمام اسکول ٹیچروں تک پہنچائیں گے۔ حاضرین نے پر جوش طورپر اس تجویز سے اتفاق کیا۔ ڈاکٹر راجپوت نے اس کتاب کا نام یہ تجویز کیا:
The Basics of Islam
۱۱ جین ٹی وی (نئی دہلی)کے تحت ۲۱ مئی ۲۰۰۳ کو پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ ڈسکشن کا موضوع یہ تھا کہ مسلمانوں کی یہ تصویر ساری دنیا میں کیوں بن گئی ہے کہ وہ لڑنے بھڑنے والی قوم ہیں۔ وہ دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے نہیں رہ سکتے۔ اس سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اس کا سبب مسلم رہنماؤں کا دیا ہوا سیاسی ذہن ہے۔ اس بنا پر مسلمان اپنے آپ کو پولیٹکل پاور کے ساتھ آئڈنٹفائی (identify) کرنے لگے ہیں۔ ان کا ماڈل مسلمانوں کا دور اقتدار بن گیا ہے جس کو وہ دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ تصور غلط ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک جارحیت نہ ہو اس وقت تک ہر ماحول میں وہ امن کے ساتھ رہیں خواہ وہاں مسلم اقتدار ہو یا غیر مسلم اقتدار۔
۱۲ نئی دہلی کے انگریزی ہفت روزہ آرگنائزر نے ۲۱ مئی ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ دہلی کی خاتون فرزانہ کے کیس کی روشنی میں یہ سوال تھا کہ جہیز کے بارے میں اسلامی شریعت کا حکم کیا ہے۔ جواب میں کہا گیاکہ اسلام میں موجودہ قسم کا جہیز ہر گز جائز نہیں۔ علماء یہ فتوے دیتے رہے ہیں کہ انگریزی مال کا بائیکاٹ کرو، یہودی مال کا بائیکاٹ کرو اور امریکی مال کا بائکاٹ کرو۔ اس کے بجائے ان علماء کو یہ فتویٰ دینا چاہئے کہ جو آدمی اپنی بیوی کو ستائے اس کا بائیکاٹ کرو، جو مرد جہیز کے لیے اپنی بیوی کو اور اس کے خاندان کو پریشان کرے اس کا بائیکاٹ کرو، جوآدمی اپنی بیوی کے حقوق ادا نہ کرے اس کا بائیکاٹ کرو، وغیرہ۔
۱۳ موونگ پکچر کمپنی (نئی دہلی) نے آستھاٹی وی چینل کے لیے ۲۲ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کی بابری مسجد سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کا ڈھایا جانا نااہل مسلم لیڈروں کی ناعاقبت اندیشانہ سیاست کا نتیجہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس اشو کو جلسوں اور تقریروں کا موضوع نہ بنایا جاتا اور خاموش تدبیر کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو یقینی طورپر بابری مسجد نہ ڈھائی جاتی۔ اب مسلم عوام اس اشو سے اپنا انٹرسٹ کھو چکے ہیں۔اب عدالت جو بھی فیصلہ دے گی مسلم عوام اس کو قبول کرلیں گے۔ اس لیے اب عدالت کو مزید تاخیر کے بغیر اپنا فیصلہ دے دینا چاہئے۔
۱۴ ایران نیوز ایجنسی (IRNA) نے ۲۵ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر میلاد النبی سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ میلاد النبی نماز روزہ کی طرح کوئی شرعی فریضہ نہیں۔ یہ مسلم کلچر کا ایک حصہ ہے جو بعد کے زمانہ میں شروع ہوا۔ تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ میلاد النبی کے موقع پر مسلمان بڑی تعداد میں اکٹھا ہوتے ہیں اور علماء کو یہ موقع ملتاہے کہ وہ اس موقع پر لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالہ سے اسلام کا پیغام پہنچائیں۔
۱۵ ہندی ماہنامہ سرو شانتی (نئی دہلی) کے ایڈیٹر مسٹر اعجاز شاہین نے ۲۸ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کاتعلق زیادہ تر موجودہ سماج میں عورتوں کے مسائل سے تھا۔جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ سماج میں عورتوں کو جو مسائل در پیش ہیں وہ زیادہ تر مساوات مرد وزن کے غیر فطری اصول کی بنا پر ہیں۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ عوئرت اور مرد کا دائرہ کار الگ الگ ہو۔ دوسری بات یہ کہ آزادیٔ نسواں کے نام پر برہنگی کا جو کلچر چلایا گیا ہے اس کو بند ہونا چاہئے ورنہ عورتوں کے مسائل کبھی ختم نہ ہوں گے۔
۱۶ ۳۱ مئی ۲۰۰۳ کی رات کو ایک خصوصی پروگرام ہوا۔ سویڈن کی راجدھانی اسٹاک ہام میں مقیم جناب رشید شمس الحسن زیدی اور ان کے ساتھیوں کے تعاون سے ٹیلی فون پر خطاب کا یہ پروگرام رکھا گیا۔ یہ پروگرا م اسٹاک ہام کے ایک ہال میں تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے دہلی میں اپنے دفتر سے ساڑھے بارہ بجے رات کو ٹیلی فون پرآدھ گھنٹہ کی تقریر کی جس کو پانچ ہزار کیلومیٹر دور اسٹاک ہام کے مسلمانوں نے سنا۔ یہ تقریر سیرت رسول کے موضوع پر تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور واقعات کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ہال میں جمع شدہ حاضرین بہت متاثر ہوئے۔ بہت سے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان لوگوں کی فرمائش ہے کہ اس تقریر کو لکھ کر انہیں دیا جائے تاکہ وہ اسے سویڈش زبان میں چھاپ سکیں۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اہل اسلام کے لیے قابلِ اتباع نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہے۔
۱۷ نئی دہلی میں انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انکسی) میں انٹرنیشنل فیڈریشن فار ورلڈپیس کے تحت ۵ جون ۲۰۰۳ کی شام کو ایک خصوصی فنکشن ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو فیڈریشن کی طرف سے امبیسڈر فارپیس (Ambassador for Peace) کا ایوارڈ دیا گیا۔اس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے پیس اور اسلام کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں ہوا۔ غیر ملکی افراد بھی اس فنکشن میں شریک تھے۔
۱۸ ایک فرانسیسی تنظیم (Latitude de Paix) کی طرف سے ایک بین اقوامی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ یہ سیمینار ۲۷۔۲۸ جون ۲۰۰۳ کو ہوا۔ اس کا مقام سوئزر لینڈ کے ایک قدیم محل (Chateau de Coux) میں تھا۔ اس کا موضوع فلسطین کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا تھا:
Reconciliation between Israelies and Palestinian People.
اس سیمینار میں شرکت کے لیے صدر اسلامی مرکز کے نام دعوت نامہ موصول ہواتھا اور سفر کا انتظام بھی ہوچکا تھا۔ مگر بعض اسباب سے وہ اس میں شرکت نہ کر سکے۔ البتہ انہوں نے موضوع کے بارے میں اپنے خیالات تحریری طورپر لکھ کر سیمینار کے منتظمین کو بھیج دئے۔
۱۹ دھروفلمس (Dhruv Filams) نے دور درشن کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ۲۱ جون ۲۰۰۳ کو ریگل اسٹوڈیو (نوئڈا) میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس پروگرام کااہتمام مسٹر او۔پی۔سہگل (Tel. 7658100) نے کیا تھا۔ اس کا موضوع تھا— کشمیر کی خواتین کے مسائل اور کشمیر کی تعمیر و ترقی میں ان کا حصہ۔ اس پروگرام کے تحت چھ ایپی سوڈ(Episode) تیار کیے گیے۔ اس موقع پر جو کچھ کہا گیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ کشمیر اور دوسرے مقامات پر پر جوش مسلمان جوکچھ کر رہے ہیں وہ اسلامائزیشن نہیں ہے۔ مثال کے طورپر اسلام لرننگ پر زور دیتا ہے اور یہ لوگ (de-learning)کاکام کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ موجودہ حالات میں سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ کشمیر کی خواتین کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ تعلیم کے بغیر تعمیر و ترقی کا کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا۔
۲۰ سہارا گروپ (اردو، ہندی، انگریزی) کے نمائندہ مسٹر سونیل تیواری نے ۲۰ مئی ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پرصدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس قسم کے انٹرویو تینوں زبان کے سہارا میں بیک وقت چھپتے ہیں۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ ہندستان میں مذہب کی پکڑ سماج سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ صرف جزئی طورپر یہ بات درست ہے۔ آج بھی ہندستانی سماج پر مذہب اور روحانیت کی پکڑ کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کٹرواد یہاں زیادہ بڑھ نہیں پاتا۔ ۷۵ سال کی کوشش کے باوجود ابھی تک وہ مین اسٹریم نہ بن سکا۔
۲۱ مسٹر ودود ساجد نے ۱۳ جون ۲۰۰۳ کو نئی دہلی کے روز نامہ راشٹریہ سہارا (اردو) کے لیے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویولیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیاکی بابری مسجد کے مسئلہ سے تھا۔ سوالات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس اشو کو نام نہاد مسلم لیڈروں نے بگاڑا ہے ورنہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔
۲۲ مسٹر وید ویاس اور ان کے ساتھیوں نے ۱۷ جون ۲۰۰۳ کو گاندھی سمیتی(نئی دہلی)کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ مہاتما گاندھی نے اخلاقی افکار پر مبنی صحافت کی وکالت کی تھی۔ مگر آزادی کے بعد اس قسم کی صحافت وجود میں نہ آسکی۔ اس کا سبب کیاہے۔جوا ب میں کہا گیا کہ صحافت ریڈر شپ کے تابع ہوتی ہے۔ جیسی ریڈر شپ ویسی صحافت۔ اخلاق پر مبنی صحافت کو وجود میں لانے کے لیے پہلے اس کے مطابق ریڈر شپ تیار کرنا ہوگا۔
۲۳ نئی دہلی کے آؤٹ لک میگزین کے نمائندہ مسٹر بھودیپ کانگ (Bhavdeep Kang)نے ۱۷ جون ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بابری مسجد کو گفٹ میں ہندوؤں کو دے دیں۔ یہ ایک خیالی تجویز ہے۔ مسلمان مسجد کے مالک نہیں، پھر وہ گفٹ کیسے کر سکتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ سب سے پہلے اس معاملہ میں ایک فریم ورک بنانا چاہئے۔ فریم ورک بنائے بغیر غیر متعلق باتیں ہوتی رہیں گی اور مسئلہ حل نہ ہوگا۔
۲۴ گاندھی سمیتی کے تحت انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن (نئی دہلی) میں ۱۱ جون ۲۰۰۳ کو ایک ریڈیو پروگرام ہوا۔ یہ امن کے موضوع پر تھا۔ مختلف اسکول کے تقریباً ۲۰ طلبہ اور طالبات اس میں شریک ہوئے۔ اینکر (Anchor) کے فرائض ایک طالبہ نے انجام دیے۔ ایر کموڈور جگجیت سنگھ اور راہل دیو جی نے تقریریں کیں۔قرآن و حدیث کی روشنی میں صدر اسلامی مرکز نے اسلام میں امن پر ایک تقریر کی۔ اس کے بعد طلبہ اور طالبات نے موضوع سے متعلق سوالات کئے۔ اس کے جوابات دیے گیے۔ یہ پروگرام تقریباً دو گھنٹہ جاری رہا۔