نظریاتی تشدّد
تشدد ایک جذباتی عمل ہے۔ یہ بُرائی ہمیشہ انسانی زندگی میں پائی جاتی رہی ہے، مگر کمیونسٹ مفکر کارل مارکس (وفات: 1883) پہلا شخص تھا جس نے تشدد کو ایک باقاعدہ نظریہ بنایا۔ کارل مارکس نے اپنے اِس نظریاتی تشدد کو تاریخی ناگُزیریت(historical determinism) قرار دیا اور اُس کو جَدلیاتی مادّیت(dilectical materialism) کا نام دیا۔
موجودہ زمانے میں کچھ مسلم مفکرین پیدا ہوئے، جنھوں نے اِس نظریاتی تشدد کو اسلامائز کیا اور اُس کو جہاد کے نام سے اسلام میں داخل کردیا۔اِس معاملے میں وہ اِس انتہا تک گیے کہ انھوں نے کہا کہ باطل سے اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کے لیے ہتھیار کا استعمال ضروری ہے، اور یہ کہ گردن کٹانا، اسلام میں خیرِ اعلیٰ(summum bonum) کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ متشددانہ فلسفہ اتنا لغو ہے کہ وہ اسلام جیسے مذہب کے لیے اِزالۂ حیثیتِ عُرفی کا درجہ رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاد پُر امن جدوجہد کا نام ہے۔ جہاد کے نام پر تشدد کرنا بلا شبہہ فساد ہے، نہ کہ جہاد۔
تشدد ایک منفی کارروائی ہے اور منفی کارروائی کے ذریعے کوئی مثبت نتیجہ کبھی نہیں نکلتا۔ چناں چہ موجودہ زمانے میں مسلم ملکوں میں یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ اِس نظریے کے حاملین نے پہلے خود ساختہ طورپر ’’باطل‘‘ کو ہٹانے کے نام پر متشددانہ جہاد کیا اور جب قانونِ فطرت کے مطابق، اُن کا مفروضہ باطل نظام نہیں ہٹا تو اِس کے بعد وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف تشدد کرنے لگے۔ گویا کہ اُن کا وہ حال ہوا جس کی پیشین گوئی حدیث میں اِن الفاظ میں کی گئی تھی: لا ترجعوا بَعدی کُفّاراً، یضرب بعضکم رقابَ بعض۔(صحیح البخاری، کتاب المغازی)
مسلمانوں کے متشددانہ جہاد کا یہ آخری انجام کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو مارنے لگیں، یہ اپنے آپ میں اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کا جہاد جہاد نہ تھا، بلکہ وہ جہاد کے نام پر فساد تھا۔ ورنہ اُس کا یہ الٹا نتیجہ کبھی نہ نکلتا۔