بدلتی ہوئی دنیا میں  مسلمانوں  کا لائحۂ عمل

5 اگست 2007 کی شام کو راقم الحروف نے ایک کشمیری اجتماع کو خطاب کیا۔ یہ ٹیلی فون پر ہونے والا ایک خطاب تھا۔ میں نے دہلی سے اپنے ٹیلی فون پر تقریر کی اور سری نگر میں  اکھٹا ہونے والے کشمیری مسلمانوں  نے اسپیکر ٹیلی فون پر اُس کو سنا۔ یہ خطاب کسی قدر اضافے کے ساتھ یہاں  نقل کیا جاتاہے۔

مجھ سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں  کے لیے لائحۂ عمل کیا ہے۔ میں  کہوں  گا کہ اُن کے لائحۂ عمل کا پہلا نکتہ ری اسیس مینٹ(re-assessment) ہے، یعنی ماضی میں  اپنی کوششوں  کا تنقیدی جائزہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں  نے اپنے ماضی میں  جان ومال کی غیرمعمولی قربانیاں  دی ہیں۔ یہ قربانیاں  اب تک جاری ہیں۔ ایسی حالت میں  پہلا سوال یہ ہے کہ ان کوششوں  کے نتیجے میں  مسلمانوں  نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ میں  سمجھتا ہوں  کہ یہ کہنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں  کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں  نے مسلّح جدوجہد کے باوجود اپنے مقصد کو کسی بھی درجے میں  نہیں  پایا، بلکہ انھوں نے صرف اپنی تباہی میں  مزید اضافہ کیا ہے۔

ایسی حالت میں  موجودہ مسلمانوں  کے لیے کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ جہاد کے نام پر کی جانے والی موجودہ مسلّح جدوجہد کو فوراً بند کردیں، تاکہ کم ازکم ایسا ہو کہ وہ اپنے آپ کو مزید تباہی سے بچالیں۔ جہاد (بمعنیٰ قتال) کا مقصد اپنے آپ کو ہلاک کرنا نہیں  ہے، بلکہ کسی مطلوب فائدے کو حاصل کرنا ہے۔ جب مطلوب فائدہ حاصل نہ ہو رہا ہو تو ٹکراؤ کی سیاست حرام کے درجے میں  قابلِ ترک ہوجاتی ہے۔ یہی اب مسلمانوں  کو کرنا چاہیے۔

میں  جون1989 میں  سری نگر گیا تھا۔ وہاں  میں  نے اپنی ایک تقریر میں  کہا کہ اگر آپ شہر سے باہر جائیں  تو آپ دیکھیں  گے کہ پہاڑ سے گھری ہوئی وادیوں  میں  ہر طرف پانی کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ یہ چشمے آپ کو خدا کا ایک پیغام دے رہے ہیں۔ اِن چشموں  کا حال یہ ہے کہ وہ مسلسل بہہ رہے ہیں۔ اُن کے راستے میں  بار بار پتھر آتے ہیں۔ یہ پتھر بظاہر چشمے کے لیے ایک رکاوٹ ہیں، لیکن چشمہ پتھروں  سے نہیں  ٹکراتا، بلکہ وہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرتے ہوئے پتھر کے دائیں  یا بائیں  سے نکل جاتا ہے اور اِس طرح وہ اپنے سفر کو آگے کی طرف مسلسل جاری رکھتا ہے۔

میں  نے کہا تھا کہ کشمیریوں  کو اپنے قریب بہتے ہوئے چشموں  سے سبق لینا چاہیے۔ انھوں  نے انڈیا سے یا انڈیا کی آرمی سے غیر ضروری ٹکراؤ کار استہ اختیا رکیا ہے۔ یہ ٹکراؤ اُنھیں  تباہی کے سوا کچھ اور دینے والا نہیں۔ میرا یہ انتباہ اب آخری طورپر درست ثابت ہو چکا ہے۔ اب کشمیری مسلمانوں  کے لیے آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے جب کہ وہ ٹکراؤ یا مسلّح جدوجہد کا طریقہ مکمل طورپر چھوڑ دیں۔ وہ پُرامن میدان میں  اپنی تعمیر کے کام میں  لگ جائیں۔

آج کل نہ صرف کشمیر کے مسلمان، بلکہ ہر جگہ کے مسلمان ٹکراؤ کی سیاست کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ عملاً ٹکراؤ کی سیاست چلارہے ہیں۔ جو لوگ ٹکراؤ کی سیاست میں  عملاً شامل نہیں  ہیں، وہ بھی اِسی انداز میں  سوچتے ہیں۔ اُن کے پاس بھی سوچنے کاکوئی اور فریم ورک موجود نہیں۔

اِس معاملے پر غور کرنے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان بد قسمتی سے اُس چیز سے محروم ہیں  جس کو بصیرتِ زمانہ کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ ایک نیا زمانہ تھا۔ اب ہر چیزبدل چکی تھی۔ ایسی حالت میں  ضروری تھا کہ سب سے پہلے زمانے کو سمجھا جائے اور پھر زمانے کی رعایت سے اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کی جائے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ہمارے تمام رہ نما ردّ ِعمل کی نفسیات کا شکار ہوگیے۔ انھوں  نے ردّ عمل کے تحت، مفروضہ دشمنوں  کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اِس قسم کی جنگ زمانے سے بے خبری کا نتیجہ تھی، اِس لیے وہ مکمل طورپر ناکام ہو کر رہ گئی۔

قدیم زمانے کو زرعی دَور کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں  ہر جگہ بادشاہت کا رواج تھا۔ اِس نظام کے تحت سب سے زیادہ اہمیت پالٹکس کی ہوگئی تھی۔ اِس طرزِ فکر کے تحت لوگوں  کے پاس سوچنے کا فریم ورک صرف ایک تھا، اور وہ تھا پولٹکل ایکٹوزم۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں  کا ذہن اِسی فکری تسلسل کے تحت بنا، چناں چہ جب موجودہ زمانے میں  مسلمانوں  کے لیے مسائل پیدا ہوئے تو انھوں نے اپنے متاثّر ذہن (conditioned mind) کے تحت، فوراً پولٹکل ایکٹوزم کا طریقہ اختیار کرلیا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں  بصیرتِ زمانہ کی ضرورت تھی۔ ہمارے رہ نماؤں  کو جاننا چاہیے تھا کہ اب پولٹکل ایکٹوزم کا دور ختم ہوگیا۔ اب مکمل معنوں  میں  پیس فُل ایکٹوزم کا زمانہ آچکا ہے۔ اب ایسے مواقع پیدا ہوچکے ہیں  کہ پُرامن طریقِ کار کے ذریعے وہ سب کچھ مزید اضافے کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کی امید پہلے صرف سیاسی جدوجہد سے کی جاسکتی تھی۔

موجودہ زمانے میں  جو تبدیلیاں  پیدا ہوئی ہیں، اُس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اُس نے مواقع (opportunities) کو ہر ایک کے لیے یکساں  طورپر کھول دیا ہے۔ قدیم زمانے میں  مواقعِ کار صرف اونچے طبقے کے کچھ لوگوں  کو حاصل ہوتے تھے، اب مواقعِ کار عام انسانوں  کی دست رس تک پہنچ گیے ہیں۔ پچھلا زمانہ ہر اعتبار سے محدودیت کا زمانہ تھا، اب جدید اسباب نے تمام حد بندیاں  توڑ دی ہیں۔ اب ہر آدمی ہر کام کرنے کی پوزیشن میں  ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں  علم کے نام سے آدمی بہت کم چیزوں  کو جانتا تھا، اب علمی انفجار(knowledge explosion) کا زمانہ ہے۔ پہلے زمانے میں  سیاسی طاقت سب سے بڑی طاقت سمجھی جاتی تھی، اب تعمیری اداروں  اور غیر سیاسی تنظیموں  نے سب سے بڑی طاقت کا درجہ حاصل کرلیا ہے، وغیرہ۔

موجودہ زمانے میں  سیکولرازم نے حکومتوں  کو پابند کردیا ہے کہ وہ لوگوں  کے معاملات میں  عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کریں۔ اب دنیا میں  جمہوریت کا زمانہ ہے، جو عوام کی سیاسی حصے داری (power sharing) پر مبنی ہے۔ پہلے اقتصادیات کا تعلق صرف زراعت سے تھا، اب جدید صنعت نے اقتصادیات کو ہر ایک کی دست رس تک پہنچا دیا ہے۔ پہلے مذہبی جبر کا زمانہ تھا، اب دنیا میں  مکمل طورپر مذہبی آزادی کا زمانہ ہے۔ پہلے کوئی بڑا کام صرف بادشاہ کرسکتا تھا، اب اِداروں  (institutions) اور غیر سیاسی تنظیموں  کے ذریعے ہر کام کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں  صرف پولٹکل ایمپائر بن سکتا تھا، اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ غیر سیاسی سطح پر عالمی دعوہ ایمپائر بنایا جاسکے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف تلوار میں  طاقت ہے، اب پُرامن ذرائع کا دائرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ آج تقریباً ہر چیز پُرامن ذرائع سے حاصل کی جاسکتی ہے، وغیرہ۔

اِن حالات میں  متشددانہ طریقِ کار یا لڑائی کا طریقہ اختیار کرنا، ایک قسم کا خلافِ زمانہ عمل (anachronism) بن چکا ہے۔جدید اصولوں  کے مطابق، آدمی اگر تشدد نہ کرے تو وہ ہر کام کے لیے آزاد ہے۔ ایسی حالت میں  اب تشدد کا طریقہ اختیار کرنا، ایک قسم کی دیوانگی ہے۔ کیوں  کہ تشدد کا طریقہ اختیار کرتے ہی آدمی غیر ضروری طور پر اپنے آپ کو محروم بنا لیتا ہے۔ وہ اِس قابل نہیں  رہتا کہ وہ جدید مواقع کار سے فائدہ اٹھائے اور اپنے مستقبل کی عظیم تعمیر کرے۔

یہاں  یہ سوال ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں  نے یہ تباہ کُن طریقہ کیوں  اختیار کیا کہ انھوں نے سیاسی غلبے کو اپنا نشانہ بنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد انھوں نے جہاد کے نام سے متشددانہ طریقِ کار کو اختیار کرلیا اور آخر کار استشہاد (طلبِ شہادت) کے نام پر وہ خود کُش بم باری کی تباہ کُن حد تک پہنچ گیے۔

اِس بھیانک غلطی کا سبب موجودہ زمانے میں  پیش کی جانے والی اسلام کی سیاسی تعبیر تھی۔ اسلام کی سیاسی تعبیر بلا شبہہ ایک بے بنیاد تعبیر تھی، لیکن موجودہ سیاسی حالات نے اِس تعبیر کو موافق فضا دے دی۔ اِس بنا پر بہت سے لوگ، خاص طور پر نوجوان طبقہ، اِس مغالطہ آمیز سیاسی تعبیر کے زیرِ اثر آگیا اور اسلام کی عالمی حکومت قائم کرنے کے نام پر ایک پُر شور سیاسی تخریب کا عمل جاری کردیا۔

موجودہ زمانے میں  جو انقلاب آیا، وہ عین خدا کی منشا کے مطابق تھا۔ وہ اِس لیے تھا کہ اہلِ اسلام، سیاسی نزاع اور متشددانہ ٹکراؤ سے بچ کر اسلامی دعوت کا ایک عالمی ایمپائر بنا سکیں۔ موجودہ زمانے میں  ایسا کرنا عین ممکن بن چکا تھا، لیکن ٹکراؤ کی متشددانہ سیاست نے سارے امکانات کو تباہ کردیا۔

سیاسی اقتدار کی اصطلاحوں  میں  سوچنے کے بہت نقصانات ہوئے۔ اُن میں  سے ایک نقصان یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے کئی امکانات کو مسلم رہ نما بالکل سمجھ نہ سکے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں  ایک جدید ظاہرہ وہ پیدا ہوا، جس کو گلوبل ولیج اور گلوبلائزیشن کہاجاتا ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک عظیم نعمت تھی۔ خصوصاً اسلامی دعوت کے لیے اُس نے عالمی مواقع کھول دیے، مگر بگڑے ہوئے ذہن کی بنا پر مسلم رہ نما اِس حقیقت کو سمجھ نہ سکے اور غیر ضروری طور پر وہ اُس کے مخالف بن گیے۔

اِسی منفی ذہن کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں  نے جگہ جگہ علاحدگی پسندی اور سپریشن کی تحریک چلا دی۔آج کا زمانہ یونی ورسلائزیشن کا زمانہ تھا، مگر انھوں نے مسلمانوں  کو محدودیت کے خول میں  بند کرنے کی ناقابلِ فہم غلطی کا ارتکاب کیا۔ یہ اتنی بڑی غلطی تھی کہ اس کے بعد ان رہ نماؤں  کا کوئی بھی کارنامہ اِس غلطی کی تلافی نہ کرسکا۔

خلاصہ یہ کہ موجودہ زمانے میں  مسلمانوں  کے لیے کسی موثر ملّی عمل کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ وہ یہ اعتراف کریں  کہ انھوں  نے ماضی میں  غلط نشانہ بنایا۔ اِس غلطی کا کھُلا اعتراف کرنے کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ مسلمان موجودہ سیاسی ٹکراؤ اور جہاد کے نام پر مسلّح عمل کو مکمل طوپر ترک کردیں۔ اُس کے بعد مسلمانوں  کے لیے عمل کا جو نشانہ بنے گا، وہ دو نکاتی فارمولے پر مشتمل ہوگا— اپنی نئی نسلوں  کو اعلیٰ تعلیم میں  آگے بڑھانا، اور دعوہ ورک کو اپنا نشانہ قرار دینا۔ اِس کے سوا کوئی اور لائحۂ عمل، مسلمانوں  کو اعلیٰ کامیابی تک پہنچانے والا نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom