نَسخ کیا ہے

قرآن کی تعلیمات میں  سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو نسخ کہاجاتا ہے۔ نسخ کا مطلب اُردو مفہوم کے لحاظ سے منسوخی نہیں  ہے۔ عربی زبان میں  نسخ کا مطلب ہے ہٹانا، یعنی ایک چیز کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری چیز لانا(replacement)۔ مشہور عربی لغت، لسانُ العرب میں  نسخ کا مفہوم اِن الفاظ میں  بتایا گیا ہے:النَّسخ، تبدیل الشیٔ من الشیٔ (جلد 3، صفحہ 61)، یعنی ایک چیز کو بدل کر اُس کی جگہ دوسری چیز لانا۔

نسخ کا یہ مفہوم خود قرآن کی دوسری آیت سے واضح ہورہا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 16میں  ارشاد ہوا ہے: وإذا بدّلنا آیۃً مکانَ آیۃ (النّحل: 101)، یعنی جب ہم بدلتے ہیں  ایک آیت کی جگہ دوسری آیت۔ اِس آیت میں ایک چیز کو بدل کر اُس کی جگہ دوسری چیز لانے سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو پہلی آیت میں  نسخ کہاگیا ہے۔

مفسرین نے بھی دونوں  آیتوں  میں  نسخ کا تقریباً یہی مفہوم لیا ہے۔ قرطبی کے الفاظ یہ ہیں: النّسخ والتّبدیل: رفعُ الشّیٔ مع وضع غیرہِ مکانہ (القرطبی، جلد 10، صفحہ 176) یعنی نسخ اور تبدیلی کا مطلب کسی چیز کو اُس کی جگہ سے ہٹانا، اور وہاں  دوسری چیز کو لے آنا ہے۔

نسخ کے معاملے کو عام طور پر یہود سے، یا یہود کی شریعت سے جوڑا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قانونِ فطرت ہے۔ اِس قانون کا تعلق بہت سے معاملات سے ہے۔ جب بھی کسی صورتِ حال میں  تبدیلی ہو تو وہاں  نسخ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ نسخ جب بھی ہوتا ہے، ظاہری صورت میں  ہوتا ہے، معنوی حقیقت کے اعتبار سے کسی حکم میں  نسخ واقع نہیں  ہوتا۔

چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم نے مکہ میں  کعبہ کی تعمیر کی۔ یہ کعبہ حج کا مرکز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اِن الفاظ میں اس کا حکم دیا: اور لوگوں  میں  حج کا اعلان کردو۔ وہ تمھارے پاس آئیں  گے پَیروں  پر چل کر اور دُبلے اونٹوں  پر سوار ہوکر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیں  گے (الحج: 27)

موجودہ زمانے میں  ہمیشہ سے زیادہ لوگ حج کے لیے مکہ جاتے ہیں، مگر اب یہ لوگ موٹر اور ہوائی جہاز سے اُس کا سفر کرتے ہیں۔ بظاہر دیکھیے تو یہ بھی نسخ کی ایک صورت ہے۔ اِس نسخ میں  حقیقت نہیں  بدلی ہے، بلکہ اس کی ظاہری صورت بدلی ہے۔ اِس معاملے کی اصل حقیقت سواری ہے۔پہلے زمانے میں  سواری کی عملی صورت اونٹ ہوتے تھے۔ اِس لیے لوگ اونٹ پر سفر کرتے تھے۔ اب سواری کی عملی صورت ہوائی جہاز ہے۔ اس لیے اب لوگ ہوائی جہاز کے ذریعے یہ سفر طے کرتے ہیں۔

اسی طرح دفاعی جنگ کی تیاری کے لیے قرآن میں  یہ حکم دیاگیا تھا کہ: اور اُن کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے، تیار رکھو قوّت اور پَلے ہوئے گھوڑے کہ اِس سے تمھاری ہیبت رہے اللہ کے دشمنوں  پر اور تمھارے دشمنوں  پر (الأنفال: 60)

جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانے کی مسلم حکومتیں  دفاعی تیّاری کے لیے جدید ہتھیار کا سہارا لیتی ہیں، یہ بھی گویا کہ نسخ کی ایک صورت ہے۔ غور کیجیے تو اِس حکم کی اصل حقیقت دفاعی تیاری ہے۔ اِس دفاعی تیاری کی ظاہری شکل پہلے زمانے میں  گھوڑا ہوتا تھا، اب اُس کی ظاہری شکل مشینی ہتھیار بن گیے ہیں۔

یہی معاملہ قتال (جنگ) کا بھی ہے۔ قرآن کی چند آیتوں  میں  دفاع کے لیے قتال کی اجازت دی گئی ہے۔ فقہا نے کہا ہے کہ اسلام میں  قتال حَسن لِذاتہ نہیں  ہے، بلکہ وہ حسن لِغیرہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قتال، نماز کی طرح مطلق طورپر مطلوب نہیں  ہے بلکہ اُس کی مطلوبیت اضافی ہے، یعنی ضرورت کے وقت قتال، اور جب ضرورت نہیں  تو قتال بھی نہیں۔

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسو ل اور اصحابِ رسول کو قتال کا جو حکم دیاگیا تھا، اُس کا مقصد ’فتنۃ‘کو ختم کرنا تھا۔ قرآن کی سورہ نمبر آٹھ میں  ارشاد ہوا ہے: اوراُن سے لڑو، یہاں  تک کہ فتنہ نہ رہے۔ اور دین سب اللہ کا ہوجائے (الأنفال: 38) اِس آیت میں  فتنہ سے مرادمذہبی جبر (religious persecution) ہے۔

قدیم بادشاہت کے نظام میں  ہر جگہ یہ مذہبی جبر قائم تھا۔ بادشاہ لوگ اسٹیٹ کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کے اختیار کرنے کو اپنے خلاف بغاوت سمجھتے تھے، اِس لیے ایسے مذہب کو وہ ہمیشہ کچل دیتے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساتویں  صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں ہوئی۔ اُس وقت قدیم بادشاہت کے تحت، ہر جگہ مذہبی جبر کا نظام قائم تھا۔ پیغمبر اسلام نے مذہبِ توحید کا اعلان کیا تو وہ اُس وقت کے تمام اَربابِ اقتدار کے اختیار کردہ مذہب کے خلاف تھا، اِس لیے وہ اس کو کچلنے کے لیے سرگرم ہوگیے۔

سب سے پہلے عرب مشرک سرداروں  نے اُس کو ختم کرنا چاہا، لیکن خدا کی خصوصی نصرت سے چند مقابلوں  کے بعد ان کے اوپر فتح حاصل ہوگئی۔ اِس طرح خود پیغمبر اسلام کے زمانے میں  اُس وقت کے دو بڑے ایمپائر، ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر، آپ کے مشن کے دشمن بن گیے۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانے میں  اِن شہنشاہیتوں  کی جارحیت کے نتیجے میں  اُن سے لڑائی پیش آئی۔ اِس لڑائی میں  دوبارہ دونوں  شہنشاہیتوں  کو شکست ہوئی اور اہلِ توحید کو فتح حاصل ہوئی۔

یہی وہ واقعہ ہے جس کو قرآن میں  فتنہ کے خلاف لڑ کر اُس کو ختم کرنا بتایا گیاہے۔ جب یہ نظامِ اقتدار ختم ہوا تو اس کے نتیجے میں  مذہبی جبر کا نظام بھی ختم ہوگیا اور اس کے بجائے مذہبی آزادی کا نظام آگیا۔ تاہم اِس قسم کی تبدیلی اچانک پیش نہیں  آتی، بلکہ وہ لمبے تاریخی عمل کے بعد اپنی منزل تک پہنچتی ہے۔ رسو ل اوراصحابِ رسول کے ذریعے جو واقعہ ہوا، وہ یہ تھا کہ مذہبی جبر کا نظام ٹوٹ گیا اور مذہبی آزادی کا پراسس شروع ہوگیا۔ اِس پراسس کا نقطۂ انتہا (culmination) یورپ میں ہوا، جب کہ ہر انسان کے لیے مذہبی آزادی کو ناقابلِ تنسیخ حق کے طورپر تسلیم کرلیا گیا۔

اب ہم اِسی دور میں  جی رہے ہیں۔ آج کی دنیا میں  آزادی کوخیر ِاعلیٰ (summum bonum) سمجھا جاتاہے۔ اقوامِ متحدہ کے ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس میں  اس کو درج کیا گیا اور دنیا کی تمام قوموں  نے اُس پر اپنے دستخط ثبت کیے۔ اور ہر ملک کے دستور میں  مذہبی آزادی کو مطلق انسانی حق کا درجہ دیاگیا۔ آج کی دنیا میں  کسی انسان کو صرف تشدد کا حق نہیں  ہے، اِس کے سوا ہر چیز کی آزادی اُس کو حاصل ہے۔

قتال کی حیثیت گویا کہ وائلنٹ ایکٹوزم (violent activism) کی ہے۔ اِس کے مقابلے میں  دوسرا طریقِ کار وہ ہے جس کو پیس فُل ایکٹوزم(peaceful activism) کہاجاتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کی دنیا میں  وائلنٹ ایکٹوزم منسوخ ہوگیا ہے اور اُس کی جگہ پیس فل ایکٹوزم نے لے لی ہے۔ اب پیس فل ایکٹوزم کے تحت ہر قسم کی سرگرمیوں  کا حق انسان کو مل چکا ہے، صرف ایک استثنا کے ساتھ کہ وہ تشدد نہ کرے۔ اب ہمارے لیے بلا استثنا ہر قسم کی جدوجہد کے لیے راستے کھل چکے ہیں۔ اِن میں  بھی سب سے بڑی چیز تعلیم اور دعوہ ورک ہے۔ ہم کو چاہیے کہ تعلیم اور دعوہ ورک کے میدان میں  نیے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مکمل جدوجہد جاری کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج آزادی کے نتیجے میں  یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہم جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنا دعوہ ایمپائر اور ایجوکیشنل ایمپائر قائم کرسکیں۔ اور یہ سب کچھ خالص غیر سیاسی دائرے میں جدوجہد کرتے ہوئے ممکن ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom