نشانیوں  سے سبق نہ لینا

قرآن کی سورہ نمبر بارہ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:’’اور آسمانوں  اور زمین میں  کتنی ہی نشانیاں  جن پر اُن کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ اُن پر دھیان نہیں  کرتے‘‘۔ (یوسف: 105)

اِس آیت میں  بتایا گیا ہے کہ خدا کی طرف سے مسلسل انسانی تاریخ میں  ایسی نشانیاں  ظاہر کی جارہی ہیں  جو انسان کو اپنی محدودیت یاد دلائیں  اور اُس کو اِس حقیقت کی طرف متوجہ کریں  کہ وہ خدا کی رہ نمائی کے بغیر اپنے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر نہیں  کرسکتا، لیکن انسان غفلت کا شکار ہو کر اِن نشانیوں  سے سبق نہیں  لیتا اور اپنی محرومی کا خاتمہ نہیں  کرپاتا۔

پچھلے پانچ ہزار سال سے دنیا کے تمام بڑے بڑے دماغ اِس میں  مشغول تھے کہ وہ فلسفیانہ غوروفکر کے ذریعے سچائی کو دریافت کرلیں، لیکن لمبی کوشش کے بعد صرف یہ معلوم ہوا کہ فلسفے کا طریقہ کسی یقینی منزل تک پہنچانے کے لیے سراسر ناکافی ہے۔

جدید سائنس کے ظہور کے بعد انسان نے یہ سمجھا کہ سائنسی میتھڈ کے ذریعے وہ سچائی کو دریافت کرسکتا ہے، لیکن آخر کار صرف یہ معلوم ہوا کہ سائنسی میتھڈ آدمی کو صرف چیزوں  کے علم (knowledge of things) تک پہنچا سکتا ہے، وہ آدمی کو سچائی کے علم (knowledge of truths) تک پہنچانے والا نہیں۔

ہزاروں  سال سے انسان یہ سمجھتا تھا کہ روحانی طریقوں  کے استعمال سے وہ سچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ انسان کا دل تمام حقیقتوں  کا خزانہ ہے۔ دل میں  اپنے دھیان کو مرتکز کرکے سچائی کی دریافت کی جاسکتی ہے، لیکن آخر کار یہ ثابت ہوا کہ دل صرف گردشِ خون کا ذریعہ ہے، وہ حقائق و معارف کا خزانہ نہیں۔

اِسی طرح جدید تہذیب کی ترقیوں  کو دیکھ کر یہ امید قائم کرلی گئی تھی کہ تہذیب کا سفر آخر کار انسان کو اس کی مطلوب دنیا تک پہنچادے گا، لیکن حال میں  گلوبل وارمنگ (Global Warming) کا مسئلہ ظاہر ہوا اور یہ معلوم ہوا کہ موجودہ دنیا اب اپنے خاتمے کے قریب پہنچ گئی ہے، یہاں  مطلوبہ تہذیب کا قیام سرے سے ممکن ہی نہیں۔

اِس قسم کی نشانیاں، فطرت میں  اور تاریخ میں، مسلسل ظاہر ہورہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کے لیے جو مدت مقرر کی تھی، وہ مدت اب تمام ہوچکی ہے۔ اور وہ وقت آگیا ہے کہ موجودہ دنیا کو ختم کر دیا جائے، تاکہ اس کے بجائے اگلی دنیا (world hereafter) شروع ہوسکے۔ قرآن کے یہ الفاظ شاید اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں— ’’جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیں  گے جس طرح طومار میں  کاغذ لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی، اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں  گے۔ یہ ہمارے ذمّے وعدہ ہے اور ہم اُس کو کرکے رہیں  گے‘‘ (الأنبیاء: 104)

اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے جب کہ انسان بیدار ہو۔ وہ فطرت میں  اور تاریخ میں  ظاہر ہونے والی نشانیوں  سے سبق لے اور اپنی زندگی کی اِس طرح منصوبہ بندی کرے جو اگلے مرحلۂ حیات (post-death period) میں  اُس کے کام آسکے۔ جو آدمی اِس موقع کو کھو دے، اُس کو جاننا چاہیے کہ اُس کے لیے دوبارہ کوئی موقع آنے والا نہیں۔

انسان کو اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے صرف ایک ہی چانس دیا گیا ہے، یہ آدمی کے اوپر ہے کہ وہ اس کو استعمال کرتا ہے، یا اس کو ہمیشہ کے لیے کھودیتا ہے۔ جو لوگ اِس چانس کو استعمال کرسکیں، ان کے لیے ابدی جنت ہے اور جو لوگ اِس چانس کو استعمال کرنے میں  ناکام رہیں، ان کا انجام بائبل کے الفاظ میں  یہ ہے— ایسے لوگ آگ کی بھٹی میں  ڈال دیے جائیں  گے اور وہاں  ان کے لیے ابدتک رونا اور دانت پیسنا ہوگا:

And will cast them into the furnace of fire. There will be wailing and gnashing of teeth. (Matthew 13: 42)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom