جامع تصور یا تخریبی تصور
کچھ لوگ اسلام کا جامع تصور پیش کررہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ— اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ اسلام میں صرف عقیدہ اور عبادت اور اخلاق شامل نہیں ہیں، بلکہ پولٹکل سسٹم بھی اس کا لازمی جز ہے۔ پولٹکل سسٹم کو قائم کیے بغیر اسلام ادھورا رہتا ہے، وہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ بظاہر اسلام کا جامع تصور ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف ایک تخریبی تصور ہے۔ موجودہ زمانے کی مسلم ملیٹنسی (Muslim militancy) اِسی نام نہاد جامع تصور کی براہِ راست پیداوار ہے۔
آپ اسلام کے عقیدے کو مانیں، اسلامی طریقے پر عبادت کریں، اسلام کے اخلاقی اصولوں کی پابندی کریں تو یہ آپ کا ایک ذاتی عمل ہوتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے کسی اور کے ساتھ آپ کا ٹکراؤ پیش نہیں آتا، لیکن جب آپ اپنا نشانہ یہ بنائیں کہ مجھے زمین پر اسلامی حکومت قائم کرنا ہے تو یہ نشانہ فوراً آپ کو دوسرے سے ٹکرا دیتا ہے۔ اس لیے کہ پولٹکل اقتدار کوئی خالی سیٹ نہیں ہے جس پر جاکر آپ بیٹھ جائیں۔ پولٹکل اقتدار ہمیشہ کسی کے قبضے میں ہوتا ہے،اِس لیے پولٹکل گدّی کو حاصل کرنے کے لیے فوراً دوسروں سے ٹکراؤ پیش آتا ہے۔ اِس طرح آپ کا نشانہ آپ کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ آپ اقدام کرکے قابض لوگوں سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیں۔ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا یہ نظریہ قدرتی طورپر دو گروہوں کے درمیان تشدد اور ٹکراؤ کی صورت پیدا کردیتا ہے۔
پھر یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کی کوشش میں آپ ایسا نہیں کرسکے کہ اربابِ اقتدار کو ان کی گدیوں سے ہٹا دیں، کیوں کہ اربابِ اقتدار کے پاس پولیس اور فوج کی طاقت ہوتی ہے، آپ اِس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ اُن سے براہِ راست ٹکراؤ کرکے سیاسی ادارے پر قبضہ کرلیں، چناں چہ آپ اپنے اِس اقدام میں ناکام رہتے ہیں۔
اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا یہ ناکام تجربہ آپ کے اندر ایک اور برائی پیدا کرتا ہے۔ اب آپ معصوم عوام پر گولیاں چلاتے ہیں، ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ کرتے ہیں، اسکول اور بازار میں بم مارتے ہیں۔ اِس منفی کارروائی کی آخری حد یہ ہوتی ہے کہ آپ خود کُش بم باری (suicide bombing) شروع کردیتے ہیں۔ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا جو اقدام دوسروں کے خلاف تشدد سے شروع ہوا تھا، وہ خود اپنے آپ کو ہلاک کرنے تک پہنچ جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مختلف مقامات پر جو مسلم ملیٹنسی جاری ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسلام کے اِسی نام نہاد جامع تصور کا نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اصلاً اپنے آپ کو خدا کے احکام کا پابند بنانے کا نام ہے۔ جہاں تک اجتماعی نظام میں اسلام کے سیاسی اور قانونی احکام کے نفاذ کا سوال ہے، وہ تمام تر حالات پر منحصر ہے۔ سماج اگر اِن احکام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتو پُر امن کوششوں کے ذریعے اِن احکام کی بجا آوری کی جائے گی، ورنہ نہیں۔ اسلام کا اصول، تکلیف بقدرِ وسعت (البقرۃ: 286) کا اصول ہے۔ اجتماعی احکام کے نفاذ کے لیے اجتماعی ارادہ(social will) درکار ہے۔ گَن اور بم کی طاقت سے یہ کام کبھی انجام نہیں پاسکتا۔ گن اور بم کا طریقہ صرف تباہ کن تشدد پیدا کرتا ہے، اِس منفی انجام کے سوااس کا کوئی اور انجام نہیں۔
جامع تصور کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے یہاں میں ایک مثال دوں گا۔ چیزیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک، مکان اور دوسرے، درخت۔ اگر آپ مکان کا ایک جامع تصور دیں اور یہ کہیں کہ جامع مکان وہ ہے جس میں برآمدہ ہو،بیڈ روم ہو، ملاقات کا کمرہ ہو، کچن ہو، باتھ روم ہو، وغیرہ، تو مکان کے بارے میں آپ کا یہ بیان درست ہوگا، کیوں کہ مکان مختلف الگ الگ اجزا کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جس مکان میں اس کا ہر جز موجود ہو، اس کو ایک جامع مکان کہاجائے گا۔
لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ درخت کا جامع تصور یہ ہے کہ اس کے اندر جڑیں ہوں، تنا ہو، شاخیں ہوں، پتیاں ہوں، پھل اور پھول ہوں، تو یہ ایک غلط بات ہوگی، کیوں کہ درخت مختلف الگ الگ اجزا کو ملا کر نہیں بنتا، بلکہ وہ ایک بیج کے نشو ونُما (growth) سے وجود میں آتا ہے۔ اِس لیے درخت کے بارے میں جامع تصورنہیں پیش کیا جائے گا، بلکہ سارا زور اس پر دیا جائے گا کہ اس کا بیج ایک صحت مند بیج ہو، کیوں کہ صحت مند بیج کے ظہور ہی کا دوسرا نام درخت ہے۔
اسلام کی مثال درخت کی مانند ہے۔ چناں چہ قرآن میں ایمان اور اسلام کی مثال شجرۂ طیّبہ (إبراہیم: 24) سے دی گئی ہے۔ جس طرح درخت ایک بیج سے ترقی کرکے درخت بنتا ہے، اِسی طرح اسلام ایک کلمہ سے ترقی کرکے پورا وجود بنتا ہے۔ اسلام کے بارے میں صحیح تشریح یہ ہے کہ اُس کو حقیقی تصور کی اصطلاح میں بیان کیا جائے، نہ کہ جامع تصور کی اصطلاح میں۔
درخت کی اصلاح کے لیے اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ اُس کی پتیوں کو کاٹے، اُس کی شاخوں پر محنت کرے، اُس کے تنے پر زور آزمائی کرے تو اِس قسم کی تمام چیزیں درخت میں کوئی اصلاح یا ترقی نہیں لائیں گی، بلکہ وہ درخت کی تباہی کا ذریعہ بنیں گی۔ اِس قسم کی کوششوں کے نتیجے میں درخت مزید شاداب نہیں ہوگا، بلکہ وہ سوکھ کر رہ جائے گا۔
یہی معاملہ دین کا ہے۔ دین کی اصل، تعلق باللہ ہے۔ اِسی کے ساتھ دین کے بہت سے ظواہر ہیں۔ اگر کوئی شخص ظواہر کو اہمیت دے کر اُس میں محنت کرے، یا پُر تشدد جدوجہد کرے تو اِس سے دین میں کوئی بہتری نہیں آئے گی، بلکہ دین کا معاملہ کچھ اور بگڑ جائے گا، حتیٰ کہ اگر اچھی نیت اور اخلاص کے ساتھ ایسا کیا جائے تب بھی دین یا اہلِ دین میں کوئی حقیقی اصلاح آنے والی نہیں۔
دین یا اہلِ دین میں ترقی کا کام یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر حقیقی معنوں میں تعلق باللہ پیدا کیا جائے۔ لوگوں کے اندر ربّانی شعور کو جگایا جائے۔ لوگوں کو خدا کی پکڑ سے ڈرنے والا بنایا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جو دین یا اہلِ دین کے اندر حقیقی معنوں میں کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرے گی۔ اِس بنیادی کام کے بغیر ہر گز مطلوب نتیجہ نکلنے والا نہیں۔