سفری کلاس(Class on wheels)

3 جون 2004کوکچھ لوگوں کے ساتھ ایک سفرہوا۔یہ عام سفروں سے مختلف ایک سفر تھا۔زیادہ درست طورپراس کو سفری کلاس (class on wheels)کہہ سکتے ہیں۔یہ سفر بلندشہرکے علاقے میں ہوا۔

بلندشہردہلی کے جنوب مشرقی سمت میں واقع ہے۔یہ علاقہ 1018میں ہندوراجہ کے قبضہ سے نکل کرمحمود غزنوی کے قبضہ میں آیا۔اس کے بعد اس علاقے میں لڑائی ہوئی اوروہ مغل سلطنت کے دائر ے میں آگیا۔1805میں وہ برٹش انڈیاکاایک حصہ بنا۔

The area passed from a Hindu raja to Mahmud of Ghazna in 1018, was fought over during the 14th century and then fell under Mughal rule. In 1805 it became part of British India.

اس سفر کامحرک مسٹرکرپال سنگھ (61سال)تھے۔کرپال سنگھ بلسوری ضلع بلندشہرکے رہنے والے ہیں۔یہ مقام دہلی سے 70کیلومیٹرکے فاصلہ پرجی ٹی روڈ پرواقع ہے۔کرپال سنگھ پہلے فوج میں تھے۔پھر وہ پولس کی ملازمت میں بھرتی ہوئے۔پچھلے سال وہ ہیڈ کانسٹبل کی حیثیت سے ریٹائرہوئے۔ان کی ڈیوٹی دہلی میں تھی اوروہ اکثرہمارے یہاں آتے جاتے تھے۔ان کی دیانت داری اورفرض شناسی اورانسانیت کی وجہ سے مجھے ان سے کافی دلچسپی ہوگئی۔

3 جون کو ان کی لڑکی نیتورانی کی شادی تھی۔مسٹرکرپال سنگھ نے انتہائی عقیدت کے ساتھ مجھے اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔اس وقت ان کے دل کی کیفیت یہ تھی کہ جب انہوں نے چھپاہواکارڈ مجھے دیاتوان کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔مجھے ان کادل توڑناگوارانہیں ہوا۔چنانچہ میں نے وعدہ کرلیاکہ میں

 ان شاء اللہ آپ کی تقریب میں شرکت کروں گا۔اس کے مطابق،3جون 2004کی صبح میں یہ سفرہوااوراسی دن شام کوواپسی ہوئی۔

پچھلے چارسال سے میں دہلی میں ایک کلاس چلارہاہوں جس کانام اسپریچول کلاس(spiritual class)ہے۔اس کلاس میں انگریزی تعلیم یافتہ ہندواورمسلمان شریک ہوتے ہیں۔ہماری اس کلاس کے ممبران کو معلوم ہواتوان میں سے کئی لوگ میرے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئے۔کیوں کہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جب وہ میرے ساتھ ہوں تووہ میری ہربات کونوٹ کریں۔چنانچہ یہ سفرایک نئے قسم کاسفربن گیا۔اس کو سفری کلاس (class on wheels)کہاجاسکتاہے۔

اسپریچول کلاس دراصل ایک خاص تصوراصلاح پرقائم ہے۔اس کاآغاز اس طرح ہواکہ دہلی کے کچھ انگریزی تعلیم یافتہ ہندونوجوانوں کے اندراسلام کو سمجھنے کاشوق پیداہوا۔وہ انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچرچاہتے تھے۔ان کو دہلی کے کسی مسلمان نے بتایاکہ تم لوگ جماعت اسلامی کے دفترجاؤ،وہاں تم کواپنے مقصدکے مطابق کتابیں مل جائیں گی۔چنانچہ وہ جماعت اسلامی کے مرکزی دفترگئے اوروہاں کے ذمہ داروں سے ملے۔انہوں نے ان ہندونوجوانوں کو15کتابیں دیں۔یہ مولاناابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں کاانگریزی ترجمہ تھا۔ان کتابوں کوپڑھنے کے بعد وہ دوبارہ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے ملے۔انہوں نے انہیں بتایاکہ آپ کی یہ کتابیں ہم نے پڑھیں مگریہ کتابیں ہمارے مائنڈ (mind)کوایڈریس نہیں کرتیں۔

these books do not address our mind

انہوں نے کہاکہ یہ کتابیں مسلم مائنڈ کوسامنے رکھ کرلکھی گئی ہیں جوپہلے ہی سے بطورعقیدہ اسلام کی سچائی کومانتے ہیں۔جب کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ ہم اسلام کی سچائی کوبطور عقیدہ نہیں بلکہ بطوردلیل آبجیکٹیو طورپرسمجھناچاہتے ہیں۔ہم سچائی کے متلاشی ہیں اورہم نے دوسرے مذہبوں اورفلسفوں کوپڑھاہے اوراب ہم اسلام کواس حیثیت سے پڑھناچاہتے ہیں کہ کیاوہ عقلی بنیاد پرپورااتررہاہے یادوسرے مذہبوں کی طرح وہ بھی ایک عقیدہ (dogma)کی حیثیت رکھتاہے۔

یہ نوجوان وہاں سے مایوس ہوکرواپس ہوگئے۔پھران کی ملاقات جمیل احمدالیاسی سے ہوئی۔انہوں نے کہاکہ میرے علم کے مطابق،دنیامیں صرف ایک ہی مسلم عالم ہے جس کی کتاب تم لوگوں کومطمئن کرسکتی ہے۔انہوں نے میرانام بتایا۔یہ نوجوان میرے پاس آئے۔میں نے ان لوگوں کونہ صرف اپنی کتابیں پڑھنے کودیں بلکہ ان کواپنے ہفتہ وار اسپریچول کلاس میں شامل کرلیا۔اب یہ نوجوان مکمل طور پراسلام کی صداقت پرمطمئن ہوچکے ہیں اوروہ ہمارے مشن کے باقاعدہ ممبرہیں۔

اس تجربہ سے مجھے ایک نئی حقیقت دریافت ہوئی۔مسلمانوں میں جو مصلحین اٹھے انہوں نے زیادہ ترجلسوں اوراجتماعات کوخطاب کرنے کاطریقہ اختیارکیا۔گویاکہ ان کاطریقہ بھیڑ (crowd)کوایڈریس کرناتھا۔مگریہ تجربہ اپنے مقصد کے اعتبار سے ناکام رہا۔اسپریچول کلاس کے تجربہ کے ذریعہ مجھے معلوم ہواکہ اصلاح یاقرآن کے الفاظ میں تزکیہ کاصحیح طریقہ یہ ہے کہ انفرادی ذہن کوایڈریس کیاجائے۔یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ اصلاح کامقصد حقیقی طورپرحاصل کیاجاسکتاہے۔

اس تجربہ کے ذریعہ میں نے ایک معلوم حقیقت کودوبارہ دریافت کیا۔وہ یہ کہ،مشہورحدیث کے مطابق،ہرانسان جب پیداہوتاہے تووہ اپنی بے آمیز فطرت پرہوتاہے۔اس اعتبارسے ہرانسان کومسٹرنیچرکہاجاسکتاہے۔مگراس کے بعد اس کاماحول اس کو’’یہودی یامجوسی یانصرانی ‘‘بنادیتاہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ ایک کنڈیشنڈکیس بن جاتاہے۔

ایسی حالت میں سب سے پہلاکام ہرآدمی کی کنڈیشننگ کوتوڑناہے۔گویااصلاح وتزکیہ کاکام ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning)سے شروع ہوتاہے۔نہ کہ عمومی تقریریاوعظ خوانی سے۔ ہماری اسپریچول کلاس میں جوہندونوجوان شریک ہوتے ہیں ان کاکہناہے کہ ہم اس کلاس میں شرکت سے پہلے اسلام اورمسلمانوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ اسلام ہمارے لیے کوئی پسندیدہ مذہب بن سکتاہے۔ہم توآپ کے پاس روحانیت (spirituality)کی تلاش میں آئے تھے۔پہلے ہم سمجھتے تھے کہ اسلام کامطالعہ اسلام کے بارے میں ہمارے منفی ذہن کومزید پختہ کردے گا۔مگرآپ نے ہمارے اوپرڈی کنڈیشننگ کاجوپراسس چلایااس کے بعد ہی یہ ممکن ہواکہ ہم اسلام کی تصویرکواس کی اصلی صورت میں دیکھ سکیں۔گویاکہ یہ لوگ اسپریچولٹی کے راستہ سے اسلام تک پہنچے۔

اسپریچول کلاس سے ایک اوربات مجھے معلوم ہوئی۔یہ نوجوان میری کلاس میں آنے لگے تومیں اپنی عادت کے مطابق،ایسانہیں کرتاتھاکہ ان سے میٹھی میٹھی باتیں کروں۔بلکہ میں شدیدالفاظ میں ان کوجھنجھوڑ نے کی کوشش کرتاتھا۔یہ لوگ اپنے گھروں میں اپنے ماں باپ کی طرف سے پیمپرنگ (pampering)کے عادی تھے لیکن میرے یہاں اس کے برعکس انہیں ہیمرنگ (hammering)کاتجربہ ہوا۔ابتدامیں وہ لوگ اس سخت تجربے سے گھبرائے۔مگروہ برابرہماری کلاس میں آتے رہے کہ دیکھیں آگے کیاہوتاہے۔

آخرکاراب وہ کھلے طورپرمانتے ہیں کہ میری ہیمرنگ سے ان کووہ فائدہ ہواجوانہیں ان کے ماں باپ کی پیمپرنگ سے نہیں ہوسکتاتھااورنہ ہواتھا۔ہماری کلاس کی ایک خاتون پریاملک بمبئی گئیں۔وہاں ایک مسلمان سے ان کی گفتگوہوئی۔پریاملک نے اسلام کے بارے میں جوگہری باتیں بتائیں اس کوسن کرمسلمان کوبہت تعجب ہوا۔انہوں نے پوچھاکہ آپ ایک ہندوفیملی میں پیداہوئیں پھراسلام کے بارے میں آپ کے اندراتنی کلارٹی (clarity)کہاں سے آئی۔پریاملک نے جواب دیاکہ اس کارازصرف ایک ہے اوروہ ہے:

hammering, hammering, hammering....

اس سفریابالفاظ دیگرسفری کلاس(class on wheels)میں حسب ذیل افراد شریک تھے۔محمدخالد انصاری،ڈاکٹرپردھان،رجت ملہوترا،پریاملک،استتھی ملہوترا،منجوورمانی،فریدہ خانم۔یہ قافلہ ایک کوالس گاڑی میں سوارہوکر3جون کی صبح کودہلی سے بلسوری(ضلع بلندشہر)کے لیے روانہ ہوا۔پورے راستے میں تعلیم وتعلّم کاتقریبا وہی طریقہ رائج رہاجوہماری ہفتہ وارکلاس میں دہلی میں ہوتاہے۔

3جون 2004کی صبح کو10بجے نظام الدین سے روانگی ہوئی۔روانہ ہوتے ہی سفری کلاس کاسلسلہ شروع ہوگیا۔میں نے اپنے ساتھیوں سے کہاکہ ہم اس سفرکاآغاز ایک دعاسے کریں گے۔میں اس دعاکے الفاظ دہراتاہوں اورآپ سب لوگ اس کوسن کراسی طرح اس کودہرائیں،جیساکہ میں نے کہاہے :سُبۡحَٰنَ ٱلَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُۥ مُقۡرِنِينَ ١٣ وَإِنَّآ إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ(الزخر ف: 13۔14)

یہ قرآن کی آیت ہے اوراس کا ترجمہ یہ ہے:پاک ہے وہ جس نے ان چیزوں کوہمارے بس میں کردیا،اورہم ایسے نہ تھے کہ ان کوقابومیں کرتے۔اوربے شک ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

اس کے بعد میں نے لوگوں کوپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعابتائی جوسفرسے تعلق رکھتی ہے۔روایت میں آیاہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم سفرپرروانہ ہوئے توآپ نے یہ دعاپڑھی اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِي هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا السَّفَرَ، وَاطْوِ لَنَا الْبَعِيدَ، اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، ‌وَالْخَلِيفَةُ ‌فِي ‌الْأَهْلِ، اللهُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا، وَاخْلُفْنَا فِي أَهْلِنَا (مسنداحمد: 6311)

اس دعاکاترجمہ یہ ہے:

اے اللہ،ہم اس سفرمیں تجھ سے سوال کرتے ہیں نیکی کااورتقویٰ کا،اورایسے عمل کاجس سے توراضی ہو۔اے اللہ،توہمارے لیے سفرکوآسان کردے اورہمارے لیے دوری کوکم کردے۔اے اللہ،تواس سفرمیں ہمارارفیق ہے اورتوہمارے گھروالوں کانگہبان ہے۔اے اللہ،توہمارے سفرمیں ہمارا ساتھ دے اورہمارے بعد ہمارے گھروالوں کی خبرگیری فرما۔

پھرمیں نے کہاکہ قرآن کی جوآیت ہم نے پڑھی اس میں تسخیرکالفظ استعمال ہواہے،یعنی خدانے کچھ چیزوں کواس طرح ہمارے تابع کردیاہے کہ ہم ان کواپنے سفرکے لیے استعمال کریں اوران پرسواری کرکے دورکے مقامات پرآسانی کے ساتھ پہنچ سکیں۔دوسری مخلوقات،مثلاجانوراپناسفرخوداپنے آپ کرتے ہیں۔یہ انسان کی ایک امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے سفرکے لیے دوسری چیزوں کوبطورسواری استعمال کرتاہے۔

خدانے کچھ جانوروں،مثلاگھوڑے اوراونٹ کوفطری طورپرایسابنایاہے کہ وہ انسان کے تابع بن جائیں اورانسان کواپنی پیٹھ پراٹھاکردورکے مقامات تک لے جاسکیں۔پھروہ وقت آیاجب کہ انسان نے پہیے (wheels)دریافت کیے اوربیل گاڑی اورگھوڑاگاڑی اوراونٹ گاڑی بناکران پرسفرکرنے لگا۔اسی طرح خدانے پانی کے لیے ایک ایساقانون مقررکیاکہ جس کے ذریعہ یہ ممکن ہواکہ انسان کشتی جیسی سواری بناکراس میں بیٹھے اورپانی کواپنے لیے کھلی سڑک کے طورپراستعمال کرے۔

اسی طرح خدانے غیرذی روح اشیاء اورمعدنیات میں ایسے خواص (properties)رکھ دیں کہ انسان اپنی عقل کواستعمال کرکے انہیں تیزرفتارسواری میں ڈھال سکے۔اس طرح ایک نئی انجینئرنگ وجود میں آئی۔انسان نے اپنی عقلی صلاحیت کواستعمال کرکے ان قوانین فطرت کودریافت کیااورپھرریلوے،اسٹیم شپ،موٹرکار،اورہوائی جہاز جیسی سواریاں وجود میں آئیں۔

ہماری یہ گاڑی جس میں ہم اس وقت سفرکررہے ہیں وہ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔یہ گاڑی کیاہے۔یہ ہے مادہ کامشین میں تبدیل ہوکرزمین پردوڑنا۔غیرمتحرک چیزوں کامتحرک صورت اختیار کرلینا۔یہ سواری خداکی ایک ایسی رحمت ہے جوساری کائنات میں انسان کے سواکسی اورکوحاصل نہیں۔جب ہم گاڑی  میں سفرکریں تویہ احساس ہمارے اوپراتنازیادہ طاری ہوکہ ہمارادل شکرکے احساس سے بھرجائے۔جب ایساہوگاتوہماراپوراسفرایک اعلیٰ درجہ کی عبادت بن جائے گا۔میں نے کہاکہ شکرکیاہے۔شکردراصل دینے والے عطیہ کااعتراف (acknowledgement) ہے۔یہ اعتراف بلاشبہ سب سے بڑی انسانی صفت ہے۔اعتراف کرنااس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے اندرسوچنے کی صلاحیت زندہ ہے۔وہ دیانت دار(honest)ہے۔وہ چیزوں کوسنجیدگی کے ساتھ لیتاہے۔وہ گھمنڈاورمنافقت سے پاک ہے۔اس کے اندرحقیقت پسندی کامزاج پایاجاتاہے۔وہ ایک سچاانسان ہے۔وہ اس واقعہ کومانتاہے کہ جن چیزوں کووہ استعمال کررہاہے،وہ اس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ وہ خداکی طرف سے اس کوبرائے استعمال دی گئی ہیں۔شکریااعتراف ایک مکمل کردارہے،وہ صرف ایک لفظی تکرارکانام نہیں۔

شکرکی یہ اسپرٹ اگرکسی کے اندرحقیقی طورپرپیداہوجائے تویہ اس کے لیے ایک داخلی انقلاب کاذریعہ بن جائے گی۔اس کووہ اعلیٰ نفسیاتی تجربہ ہونے لگے گاجس کوروحانی ارتقا(spiritual development)کہاجاتاہے۔

دہلی سے آگے بڑھاتوہماری گاڑی اس مشہورروڈ پر تھی جس کو’تاج اکسپریس ‘کہاجاتاہے۔یہ روڈ دہلی سے آگرہ جاتی ہے۔اس کو’ورلڈکلاس روڈ(world class raod)کہاجاتاہے۔میں نے کہاکہ دہلی کی سڑکوں کے مقابلے میں یہ ضرورایک اچھاروڈ ہے مگرمیرے تجربہ کے مطابق،وہ ورلڈکلاس روڈ(world class raod)نہیں۔ہماری گاڑی کے ساتھ وہ جھٹکے تونہیں لگ رہے تھے جس کاتجربہ بہارکی سڑکوں پرہوتاہے۔مگرمیں محسوس کررہاتھاکہ ہماری گاڑی برابراوپرنیچے ہورہی ہے۔باہرکے ملکوں میں میں نے باربارورلڈکلاس(world class)سڑکوں پرسفرکیاہے۔وہاں میں نے پایاہے کہ گاڑی بالکل اسموتھ (smooth)انداز میں چلتی رہتی ہے۔ہلکاساجھٹکابھی نہیں لگتا۔جب کہ اس سڑک پرایسانہیں تھا۔

آج کل انڈیامیں ورلڈکلاس چیزوں کابہت چرچاہے۔ورلڈ کلاس شہر،ورلڈکلاس روڈ،ورلڈکلاس ایرپورٹ،ورلڈکلاس یہ اورورلڈکلاس وہ۔مگرانڈیامیں کرپشن اتنابڑھ چکاہے کہ یہاں کوئی بھی ورلڈکلاس پلان صرف کرپشن کی نئی صورت بن جاتاہے۔مجھے یقین ہے کہ آج کل ورلڈکلاس تعمیرات کی جوباتیں ہورہی ہیں وہ صرف لوٹ (loot)کوبڑھائیں گی،کچھ لوگ زیادہ امیربن جائیں گے اورجولوگ غریب ہیں وہ اپنی پچھلی حالت میں پڑے رہیں گے۔

انڈیامیں ایک نعرہ کابہت چرچاہے اوروہ ہے غریبی ہٹاؤ  (eradication of poverty)مگرمیرے نزدیک یہ اصل بات نہیں۔انڈیامیں کرنے کااصل کام کرپشن ہٹاؤ  (eradication of corruption)ہے۔انڈیامیں جب تک کرپشن ہے یہاں حقیقی معنوں میں کوئی بھی ترقی ہونے والی نہیں۔تاج اکسپریس تقریبا پچیس کیلومیٹرتک ہمارے ساتھ تھی۔اس کے بعد دوسراروڈآگیا۔یہ روڈ ویساہی تھا جیساکہ عام طورپرانڈیامیں ہوتاہے۔

ہماری گاڑی آگے بڑھی تومیں نے لوگوں سے کہاکہ ہرشریک سفراپنے بارے میں مختصرطورپربتائے۔یہ وہ لوگ تھے جوہماری اسپریچول کلاس میں پچھلے تقریباچارسال سے برابرشریک رہے ہیں۔چنانچہ یہ طے ہواکہ ہرایک اپنے ذاتی تجربہ کی روشنی میں بتائے کہ کلاس میں شرکت سے اس نے کیاسیکھااورکیاجانا۔چنانچہ ہرایک نے اپنی اپنی بات بتائی۔ہرایک کی بات اس کے اپنے الفاظ میں یہاں نقل کی جارہی ہے۔

محمدخالد انصاری:مولاناوحیدالدین سے ملنے سے پہلے اسلام میرے لیے صرف ایک عقیدہ (ritualistic faith)تھا۔بچپن میں والدین اورقریبی رشتہ داروں نے جوکچھ مجھ کومذہب کے بارے میں بتایااس کومیں نے فائنل سمجھ کرمان لیا۔جب بھی کبھی دماغ میں کوئی سوال آیا،یاتواس کاغیرتشفی بخش جواب ملایاپھریہ کہہ کرٹال دیاگیاکہ مذہب کے بارے میں سوال نہیں کیاجاتا۔اگردلیل مانگوگے توتم ایمان سے خارج ہوجاؤ  گے۔کچھ بنیادی سوالات جن کاتعلق خداکیاہے،ہماری اس موجودہ زندگی کاکیامقصد ہے،جنت ہے توکیوں ہے اورکہاں ہے،وغیرہ وغیرہ،کاکبھی بھی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔مولاناوحید الدین سے جب میں ملاتومیں نے ان سے بھی یہی بنیادی سوال کیے۔ان سوالات کے جواب مولانانے دینے شروع کیے۔لیکن ساتھ ہی انہوں نے دواورچیزیں بتائیں:آرٹ آ ف اینلسس(art of analysis)اورانٹیلکچول ڈیولپمنٹ(intellectual development)یہ دونوں چیزیں بغیر ہیمرنگ (hammering)کے ممکن نہیں تھیں۔

چوں کہ مجھے اپنے سوالوں کے جوابات سیدھے اورجلدی چاہیے   تھے اس لیے مولانا کا بتایا ہوا فارمولاشروع میں مجھے اپیل نہیں کیا۔جب بھی میں کوئی سوال کرتااوراپنی رائے دیتا تو مولانافوراً میری (hammering)کرنے لگتے۔اس سے کئی بارڈس اپائنٹمنٹ (disappointment)بھی ہوا۔لیکن لرننگ پراسس(learning process)جاری رہنے کی وجہ سے بہت جلد مجھے احساس ہواکہ مولاناکی ہیمرنگ(hammering)بے وجہ نہیں تھی۔چوں کہ میرادماغ بچپن سے ایک خاص ماحول میں پلنے کی وجہ سے کچھ خیالات کے ساتھconditioned(متاثرسوچ)والاہوگیاتھا۔اس لیے اس کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning)کے لیے مولاناکی ہیمرنگ(hammering)سے بہترکوئی اورچیز نہیں ہوسکتی تھی۔3مہینے اس پراسس سے گزرنے کے بعد میں اس نتیجہ پرپہنچاکہ جن سوالوں کے جواب مجھے دلیل اورسائنٹفک ریزننگ کے ساتھ چاہیے تھے وہ مولانانے اس طرح سے دیے کہ نہ صرف وہ چندسوالات بلکہ مزید سوالات جومیرے ذہن میں تھے،ان کے بھی جوابات مجھے تسلی بخش طریقہ سے مل گئے۔اس ڈی کنڈیشننگ کے عمل کے نتیجہ میں میرے ذہن میں ایک ایساانقلاب آیاکہ جومذہب اوریقین میرے لیے صرف رواجی تھاوہ شعوری بن گیا۔پہلے میں خدا،اس کاکریشن پلان اورآخرت کی زندگی کوایک کہانی جیسی چیز سمجھ کرزندگی گزارتاتھا۔لیکن مولاناکی گائڈینس (guidance)نے اس یقین کواتناحقیقی بنادیاکہ آج ہرکام کرنے سے پہلے یہ خیال دل میں آتاہے کہ ا س کام کانتیجہ جنت کے لیے  مجھے کوالیفائی (qualify)کرے گایاڈس کوالیفائی (disqualify)کردے گا۔

پچھلے چارسال کے دوران مولاناسے جواسپریچول وزڈم (spiritual wisdom)مجھے ملی وہ میرے لیے اسلام کی ری ڈسکوری (rediscovery)بن گئی۔

رجت ملہوترا:جب میں تین سال پہلے مولاناسے ملاتب میر ے ذہن کودوچیزیں پریشان کرتی تھیں۔مسلمان اوراسلام سے نفرت اوردوسرایہ کہ میرے وجود کامقصد کیاہے۔اسی نفرت اورکنفیوزن (confusion)میں،میں بڑاہوا۔میں نے اپنی زندگی کے مقصد کے بارے میں لوگوں سے گفتگوکی اورکتابیں پڑھیں لیکن کوئی آدمی بھی میرے سوالات کاتشفی بخش جواب نہ دے سکا۔جب میں مولاناسے 3سال پہلے ملاتوانہوں نے مذہب اسلام کاصحیح چہرہ میرے سامنے رکھا۔انہوں نے کہاکہ ہمیں مسلمان اوراسلام میں فرق کرناچاہیے۔ہمیں مسلمان کواسلام کی لائٹ میں جانچناچاہیے نہ کہ اسلام کومسلمانوں کی لائٹ میں:

We should not judge Islam in the light of muslims,

rather we should judge Muslims in the light of Islam.

اسلام سے ہی مجھے خداکاکریشن پلان(creation plan)معلوم ہوااورمجھے اپنے جینے کامقصد ملا۔جنت اوردوزخ جوپہلے میرے لیے تصوراتی دنیا(imaginary world)تھے اب میرے لیے وہ حقیقت ہیں۔اورمیں اب اپنے ہرعمل کودیکھتاہوں کہ یہ مجھے جنت میں لے جائے گا یاجہنم میں۔اس طرح میری نفرت پیار میں بدل گئی اوراب میرے لیے ہرانسان اسی خداکاکریشن ہے جس کاایک حصہ میں خود ہوں۔قرآن جس کومیں پہلے کچھ بھی نہیں سمجھتاتھااب وہ میرے لیے زندگی کی گائیڈ بک (guide book)بن گیاہے۔ان سب وجہوں سے میں آج یہ کہہ سکتاہوں کہ میری شخصیت میں 360ڈگری تبدیلی آچکی ہے۔اوریہ سب مولاناکی انتھک کوششوں سے ہوا۔مولانانے مجھے انٹیلکچول لیول(intellectual level)پرمیرے مائنڈکوایڈریس(address)کیاجسے کوئی بھی نہیں کرسکاتھا۔اوراب میری خداسے یہی دعاہے کہ میری طرح کے سب نوجوان اسی طرح بدل جائیں۔ان کی نفرت اورکنفیوزن (confusion)محبت اوراسپریچول ڈسکوری(spiritual discovery)میں بدل جائے۔

استتھی ملہوترا:یکم اکتوبر2002میری زندگی کاٹرننگ پائنٹ(turning point)تھا۔اس دن نے میری زندگی کے معنی بدل دئے۔میں بہت وہمی( superstitious)لڑکی تھی جس کادن مندرسے شروع ہوتاتھا۔صبح صبح تیارہوکرمیں اپنے بھگوان سے مندرمیں ملنے جایاکرتی تھی جوکہ روزانہ کی پریکٹس بن گئی تھی۔

سپرسٹیشن(superstition)کی یہ حد تھی کہ میرے کپڑے دنوں کے حساب سے ہوتے تھے۔جہاں بھی کوئی مسئلہ ہوتامیں اپنے بھگوان سے شکایت کرتی اوراس کاحل ڈھونڈنے کے لیے مندرجاتی۔لیکن مولاناسے ملنے کے بعد میرے اندریہ سوالات اٹھنے لگے تھے کہ کیامجھے میرے بھگوان سے ملنے کے لیے مندرجاناپڑے گا۔مجھے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ مندرکے اتنے چکرکاٹ کربھی کیوں میرے مسئلے حل نہیں ہوتے۔مولاناسے ملنے کے بعد مجھے سمجھ آیاکہ یہ سارے مسئلے مسئلے نہیں بلکہ ٹسٹ کے پرچے ہیں۔جن کواگرٹولیریٹ کریں گے تواس کاریوارڈ(reward)ہم کوجنت کی شکل میں ملے گا۔مولاناسے ملنے کے بعد مجھے خداکاکریشن پلان سمجھ میں آیااورمیری کرٹسزم والی اپروچ تجزیاتی اپروچ میں بدل گئی۔مجھے وہ سچائی مل گئی جس کی میری آتماکوتلاش تھی۔

فریدہ خانم:میں ان اسپریچول کلاس کوتین سال سے اٹنڈ کررہی ہوں۔اورآج میں اپنے آپ کوایک بدلاہواانسان پاتی ہوں۔میں خداکے فضل سے ایک مسلمان گھرمیں پیداہوئی۔میری تعلیم مسلم اداروں میں ہوئی۔میں اسلامک اسٹڈیز کی استاد ہوں۔مزید یہ کہ میں نے مولاناکی بہت سی کتابوں کاترجمہ اردوسے انگریزی میں کیاہے۔لیکن  ان ساری معلومات کے باوجود مجھے معرفت والااسلام حاصل نہیں تھا۔معرفت والااسلام مجھے ان اسپریچول کلاسزمیں شرکت سے ملا۔

چوں کہ کلاسز ریگولرہوتی تھیں۔باربارلوگ سوالات اٹھاتے تھے۔یعنی جوسوالات اورشبہات آج کے انسان کے ذہن میں ہیں۔سائنسی دورسے پہلے لوگ مذہب کے معاملہ میں سوال نہیں کرتے تھے۔وہ عقیدہ کے طورپرمذہبی تعلیمات کومان لیتے تھے۔اس کلاس کی اس خصوصیت سے کہ سوال اٹھانے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی،مجھے بہت فائدہ پہنچا۔کیوں کہ صرف کوئی کتاب پڑھ لینے سے وہ کبھی بھی میرے ذہن کاحصہ نہیں بن جاتی جب تک کہ میں اس کے 6311 (content)کولاجیکل انداز سے گہرائی سے نہ سمجھ لوں۔اس کلاس میں مجھے ہربات کی عقلی توجیہ (rational explanation)ملتی اوروہ میرے ذہن کاحصہ بن جاتی۔

سب سے پہلی بات جومیر ے ذہن میں پوری طرح کلیر(clear)ہوئی وہ یہ کہ یہ دنیاانسان کاٹسٹ لینے کے لیے ڈیزائن (design)کی گئی ہے۔یہاں جوکچھ کسی کوملاہواہے وہ اس کاٹسٹ پیپرہے۔اگرکسی کوکم ملاہے تواس کامطلب یہ ہے کہ اس کاہلکاٹسٹ پیپردیاگیاہے۔اس بات کونہ سمجھنے سے لوگ مسلسل ایک دوسرے کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔میرابھی پہلے یہی حال تھا۔اب اگرکوئی چیزمجھے کم ملی ہوئی ہے تومیں سمجھتی ہوں کہ یہی میرے حق میں بہترہے۔کیوں کہ دنیاکے کسی ٹسٹ (test)میں کوئی بھی نہیں چاہتاکہ اس کومشکل پیپردیاجائے۔ہرآدمی جوکسی ٹسٹ میں بیٹھتاہے وہ یہی چاہتاہے کہ اس کوآسان پیپرملے تاکہ وہ ٹسٹ کوآسانی کے ساتھ کلیرکرلے۔لہذااس حقیقت کے واضح ہونے کے بعد کہ دنیاکی پوری زندگی ایک ٹسٹ پیپرہے،میری سوچ بالکل بدل گئی ہے۔اب مجھے جوکچھ بھی ملاہواہے میں اس پرراضی ہوں۔اس کی وجہ سے اب میرے اندرجھنجھلاہٹ ختم ہوگئی۔میرے اندرپازیٹیوتھنکنگ آگئی اورمیں ہروقت لوگوں کو معاف کرنے کے لیے اپنے آپ کوتیار پاتی ہوں۔یہ تھااس دنیاکے بارے میں ہمارا نظریہ (attitude)۔لیکن اصل چیز جوہمیں ا س کلاس سے ملی وہ تھی،خداسے گہراتعلق اورجنت کاحریص ہوجانا۔ہرمسلمان جنت کی آرزورکھتاہے اورجنت کے لیے  دعامانگتاہے۔لیکن اس کی حقیقت شاید اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ ا سی طرح اپنے ماں باپ سے اوراپنے ماحول سے سنتے چلے آرہے ہیں اوران الفاظ کو وقتا فوقتا دہراتے رہتے ہیں۔ا س کلاس نے ہمارے لیے خدااورجنت اورآخرت کواپنی ڈسکوری (discovery)بنادیا۔ہم نے گہرائی سے ان حقیقتوں کوسمجھااوران کوشعوری طورپر دریافت کیا۔ان کواپنے شعوری مائنڈکاایک حصہ بنایا۔اس کاثبوت یہ ہے کہ کوئی لمحہ نہیں ہوتاجب ہم خداسے غافل ہوں۔جب ہم جنت کو یاد نہ کررہے ہوں۔جب ہم دنیاکی تکلیفوں پرصرف اس لیے نہ صبرکررہے ہوں کہ خداکے یہاں اس کابے حساب اجرملے گا۔ہم کولوگوں سے شکایت ہوتی ہے لیکن پھران سے جڑے رہتے ہیں کہ یہی خداکاحکم ہے۔خداکے آگے اپنے آپ کوپوری طرح سرنڈرکردینا۔

ہماری مرضی،ہماری خواہشات کتناہی ہمیں کسی دوسرے راستہ پرجانے کوکہیں لیکن اگرہماری خواہشات خداکی مرضی کے خلاف ہیں توہمارے ذہن کے کسی خانہ میں بھی نہیں آتاکہ ہم بغاوت کریں اوراپنی مرضی کے مطابق اپنی ایک زندگی بنائیں۔اس کلاس سے ہماری سمجھ میں آیاکہ جتنازیادہ ہم صبرکریں گے خداکے واسطے اتناہی زیادہ ہم اپنے نفس کوپاک کریں گے۔اورجب تک ہم اپنے نفس کوپاک نہ کریں گے تب تک ہم جنت میں جانے کے لائق نہ ٹھہریں گے۔ہم نے ا س کوخود محسوس کیاہے کہ صبرکرتے ہی ہمیں لگتاہے کہ ہماری روح (soul)مزیدپاکیزہ ہوگئی ہے۔کلاس میں ہمیں بتایاگیاکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے نام سے ایک پرفکٹ ورلڈ بنائی۔اس پرفکٹ ورلڈ میں اللہ تعالیٰ کوپرفکٹ انسان بساناتھا۔اس لیے  انسان کواس دنیامیں آزمائش (trial)کے لیے  بھیج دیاگیاتاکہ وہ دنیاکے تمام تحریصات (temptations)سے گزرکراپنے ٹسٹ پرپورااترے اوراللہ تعالیٰ کی اس عظیم لافانی نعمت کااستحقاق حاصل کرے۔

جنت حاصل کرنے کی یہ تمناجوہمارے دل کی گہرائیوں میں بسی ہوئی ہے،ہمیں پہلی بار اس کلاس سے معلوم ہواکہ اس کاراستہ کدھرسے جاتاہے۔اس کاراستہ ہے،پریاملک کی زبان میں:

hammering, hammering, hammering

ہیمرنگ کسی کواچھی نہیں لگتی،اورمیں کوئی استثناء نہیں۔لیکن جنت حاصل کرنے کی زبردست خواہش نے ہمارے لیے اس ہیمرنگ کوآسان بنادیا۔بلاشبہ قیمتی جنت کی یہ بہت سستی قیمت ہے۔

محمداقبال پردھان: میں بھٹک رہاتھاتلاش میں کہ سچااسلام ہے کیا۔کافی لوگوں سے سمپرک میں رہا۔ہرجگہ اس طرح کی باتیں بتائی گئیں کہ وہ ہضم نہیں ہوتیں۔

دنیاکے دائرے میں بالکل رہ کرہی ہرکوئی اپنی بات بتاتاتھا۔میں بہت ہی جدوجہدمیں تھا کہ کس کی بات مانوں اورکس کی نہیں۔کچھ دین کی کتابیں پڑھیں،وہ کچھ بتاتی تھیں،مولانالوگ کچھ اوربتاتے تھے۔

تب پریاملک کے ذریعہ میری ملاقات مولاناوحیدالدین سے ہوئی۔یہاں آکرمیں نے جاناکہ سچااسلام کیاہے اوراس کوزندگی میں کیسے اپنایاجاسکتاہے۔یہاں آکرمیرے جوبھی سوال تھے ان کاجواب بنامانگے ہی مل گیا۔

مجھے معلوم ہواکہ ہمارااس دنیامیں آنے کامقصد کیاہے۔ہم کیوں یہاں آئے ہیں۔اورکیوں سب کچھ کررہے ہیں۔

مولاناکے یہاں ہمیں معلوم پڑاکہ ہمارااصلی مقصدیہ دنیاجینانہیں ہے۔بلکہ اس دنیامیں رہ کرجنت میں جانے کی تیاری کرناہے اورمولاناکا’’دعوۃ مشن‘‘یہی کام انجام دیتاہے۔یہاں آکرہمارامقصدجنت پاناہوگیاہے۔ابھی مجھے جنت میں جانے کے لیے مولاناسے بہت کچھ فیض حاصل کرناہے۔

منجوورمانی:مولاناوحیدالدین سے ملنے کے بعد مجھے یہ احساس ہواکہ میں تقریباتیس سال سے بے مطلب زندگی جی رہی تھی۔زندگی کے معنی ڈھونڈنے میں میں نے اپنی زندگی کے کئی سال ادھرادھربھٹک کربتادیے۔پرذہن میں اٹھے کئی سوالوں کاجواب صحیح معنوں میں نہیں ملا۔جیسے کہ اس دنیامیں میں کس لیے  آئی ہوں۔میری زندگی کے کیامعنی ہیں اوراس کائنات کوبنانے والے کی کیاسچائی ہے۔زندگی،موت اورموت کے بعد کی کیاسچائی ہے۔

جب مولاناسے میری ملاقات ہوئی توا ن سے میرے ذہن میں اٹھے اوربھی کئی سوالوں کاجواب مل گیا۔خداکی بنائی اس دنیاکے معنی پتہ لگے۔یہ جاناکہ اس دنیاکاوِدھاتاصرف ایک ہے اوراس کانہ کوئی ساتھ ہے اورنہ ہی اس کے برابرکوئی ہے۔خدانے مَنُش کووہ ساری چیزیں دی ہیں جن کی آوشکتااس کے جگ میں جیون گزارنے کے لیے ہے۔خدانے اس دنیاسے الگ ایک بہتریں دنیابنائی ہے۔ہرانسان اس دنیامیں ایک امتحان دینے آیاہے۔خدانے صرف انسانوں کو ہی آزادی دی ہے کہ وہ اپنی زندگی جیسے چاہے جی لے۔یہاں تک کہ وہ خداکومانے یانکارے۔جوانسان سچاہوگاوہ خداکومانے گااورصحیح راہ زندگی میں اپنائے گا۔اسے خداا س زندگی کے بعد جنت دے گا۔جہاں ہمیشہ سکھ،خوشی اورشانتی ملے گی اورجوانسان خداکونہیں مانے گا،خداکی دی ہوئی آزادی کاغلط استعمال کرے گا،اسے خداموت کے بعد جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے جھونک دے گا۔

زندگی،موت اوراس کے بعد کی زندگی کی سچائی کومولاناسے جان کرخداسے میں دعاکرتی ہوں کہ میرے قدم زندگی کی راہ پرکبھی نہ ڈگمگائیں تاکہ میرے قدم جنت کی ا ُوربڑھے۔خدا کا ہمیں ہمیشہ شکرکرناچاہیے کہ اس نے ہمیں ایک بہترین زندگی دی ہے جسے ہمیں صحیح راہ پرلگاناچاہیے تاکہ ہم سب زندگی کے امتحان میں پاس ہوکرجنت کی ا ُوربڑھیں:

پریاملک:پریاملک نے اسپریچول کلاس کے بارے میں اپناتاثربتایا۔انہوں نے اپنی بات انگریزی میں کہی۔ان کی یہ بات الگ صفحہ پردرج کی جارہی ہے:

Meeting maulana Wahiduddin Khan has been turning point in my life. My life derived its full meaning after meeting maulana. I was suffering from a complete identity crisis. I tried to do everything, which people told me, it gave them happiness, but it only brought disillusionment in my life.

A question constantly bothered me that if there was a thought of perfection and happiness in my mind, then where was that object of happiness. Every item that I possessed bored me in no time. if everything is ephemeral then what is permanent. this confusion brought me to maulana.

Four years later all my confusions are over and I have achieved God realization at a rational level, which I thought, was totally unachievable. I no longer suffer from any identity crisis, because I can completely identify myself as a part of God's creation plan as told to me by maulana revealed in the Islamic scriptures.

I too was conditioned like most people, out of my upbringing in a Hindu family. maulana completely re-engineered my thought process by giving me counter reasoning which completely dislodged earlier belief system, which I was carrying in for thirty years of my life. This brought an instant U in my life.

I no longer seek perfection in this world, as it is non-achievable. God and paradise that were abstract in my life are now a reality.

ساتھیوں کے اظہار خیال کے بعد میں نے کہاکہ اب میں اس سلسلہ میں خود اپناتاثربیان کروں گا۔میں نے کہاکہ اسپریچول کلاس جیسی کلاس چلاناکوئی یک طرفہ عمل نہیں،یہ ایک دوطرفہ عمل (bilateral process)ہے۔یعنی اگر اس کلاس کے ذریعہ آپ کوفائدہ پہنچا،جیساکہ آپ لوگوں نے بیان کیاہے توخود مجھے بھی اس کے ذریعہ بہت زیادہ فائدہ پہنچاہے۔اس معاملے میں ہم دونوں فائدہ میں یکساں طور پرشریک ہیں۔

میراتجربہ ہے کہ اگرآپ ایساکریں کہ اوسط ذہن کے لوگوں سے ملیں اوران سے بات کریں توآپ کافکری معیار زیادہ اونچانہیں ہوگا۔آپ دوسروں کوعوامی معیارپرخطاب کریں گے اورخود بھی آپ کی ذہنی سطح عوامی معیارپرٹھہری رہے گی۔لیکن اگرآپ ذہین اوراعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان اپناپروگرام چلائیں توفطری طورپرایساہوگاکہ آپ کاذہنی معیاربلندہوتاجائے گا۔لوگ آپ سے اعلیٰ سطح کے سوالات کریں گے اورآپ کاذہن مجبورہوگاکہ وہ خود بھی اعلیٰ سطح پرسوچے اورزیادہ برترسطح پرسوال کا جواب فراہم کرے۔اس طرح آپ کاذہن مسلسل طورپرایک قسم کے فکری چیلنج سے دوچاررہے گا،اورفطرت کے قانون کے مطابق،یہ چیلنج آ پ کے لیے ذہنی ارتقاء (intellectual development)کا ذریعہ بنارہے گا۔اس معاملہ پرجب میں غورکرتاہوں تویہ بات واضح طورپرسامنے آتی ہے کہ اسپریچول کلاس چلاناخود میرے لیے ذہنی ارتقاء کاسبب بناہے۔کئی پہلوؤں سے میری فکرمیں زیادہ وضوح (clarity)آئی ہے۔

اس کی ایک مثال روحانیت (spirituality)کامسئلہ ہے۔میں نے کہاکہ روحانیت کاموضوع چالیس سال سے بھی زیادہ مدت سے میری توجہ کامرکز رہاہے مگرپچھلے سالوں میں اسپریچول کلاس کے دوران یہ موضوع جس طرح مجھ پرواضح ہوا،وہ اس سے پہلے واضح نہ تھا۔پہلے جوچیز میرے لیے ایک فطری چیز تھی وہ اب ایک شعوری چیز بن گئی۔محسوس کرتاہوں کہ اب میں زیادہ بہترطورپر اس پوزیشن میں ہوں کہ روحانیت کے موضوع کی وضاحت کرسکوں۔

روحانیت کاموضوع کم از کم 5 ہزار سال سے انسان کی تلاش کا موضوع رہاہے۔موجودہ زمانے میں تواس موضوع نے گویاکہ فیڈ (fad)کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔فلسفہ اورمذہب اورمسٹسزم اورتصوف اوریوگاوالوں نے اس موضوع پرہزاروں کتابیں شائع کی ہیں۔میں اپنی دلچسپی کی بناپرلمبی مدت سے ان کتابوں کوپڑھتارہاہوں۔مگران کتابوں سے مجھے اطمینان حاصل نہیں ہوا۔پچھلے چندسالوں کے دوران مجھ پرایک نئی حقیقت کھلی جومیں نے ابھی تک نہ کبھی پڑھی تھی اورنہ کبھی سنی تھی۔ایسااسپریچول کلاس کے دوران ہوا۔

مجھ پریہ حقیقت کھلی کہ روحانیت (spirituality)کے دو دورہیں۔ایک،ماقبل سائنس دور (pre scientific era)اوردوسرے مابعد سائنس دور(post scientific era)جدید حیاتیاتی سائنس کے ظہورسے پہلے یہ ماناجاتاتھاکہ انسان کے اندردوقسم کی استعداد (faculty) پائی جاتی ہے،قلب اوردماغ۔قلب احساس اورجذبات کامرکز ہے،اوردماغ سوچ (thinking) کامرکز ہے۔

اس تقسیم کی بناپرروحانیت ایک قلب پرمبنی (heart-based)ڈسپلن بناہواتھا۔چوں کہ روحانیت کاتعلق آدمی کے احساسات اورجذبات سے ہے اوراحساسات اورجذبات کاتعلق قلب سے۔ایسی حالت میں یہ ایک فطری امرتھاکہ روحانیت کے حصول کے لیے قلب کومرکزبناکرمحنتیں اورریاضتیں کی جائیں۔ذکرجہری جس میں مخصوص طریقہ سے لاالہ الااللہ بول کرقلب پرضرب لگائی جاتی ہے،اسی تصور کی ایک مثال ہے۔عرصہ سے میراخیال تھاکہ روحانیت کے علم بردارحقیقی روحانیت کاتجربہ نہ کرسکے۔تمام مسلم بزرگوں اورہندوسوامیوں کی روحانی عظمت فرضی کرامتوں اوربناوٹی چمتکاروں پرقائم ہے نہ کہ ربانی معنوں میں حقیقی روحانیت پر۔

مگراس کا اصل سبب کیاہے،یہ مجھے پچھلے سالوں کے درمیان ہی سمجھ میں آیا۔مابعد سائنسی دورمیں پہلی بار انسان نے یہ دریافت کیاکہ قلب احساسات وجذبات کامرکز نہیں،وہ صرف خون کی گردش (blood circulation)کا ایک آلہ ہے۔اس نئی دریافت نے مجھ کوپہلی بار وہ فریم ورک دیاجس کی روشنی میں ہم روحانیت کے معاملہ کوصحیح طورپرسمجھ سکیں۔پہلے چوں کہ انسان کے پاس صحیح فریم ورک ہی موجود نہ تھااس لیے وہ روحانیت کے معا ملے کوسمجھنے سے قاصررہا۔

مابعد سائنسی دورمیں پہلی بار انسان کومعلوم ہواکہ تفکراوراحساس دونوں کامرکزدماغ ہے۔اس لیے روحانیت کے حصول کے لیے آدمی کوچاہیے کہ وہ اس معاملہ میں اپنی کوشش کامرکز دماغ کوبنائے نہ کہ قلب کو۔کیوں کہ ہرقسم کے فکری اورحسیاتی عمل کامرکز صرف دماغ ہے نہ کہ قلب۔گویاکہ قلب پردھیان لگانے والے لوگ وہاں روحانیت کی تلاش کررہے تھے جہاں روحانیت سرے سے موجود ہی نہ تھی۔اس دریافت نے مجھے بتایاکہ روحانیت کے حقیقی حصول کے لیے مراقبہ اور میڈیٹیشن (meditation)جیسی مشقیں اصل مقصد کی نسبت سے سراسربے فائدہ اورغیرمتعلق (irrelevant)ہیں۔روحانی مقصد کے حصول کے لیے ساری اہمیت اس رخ پرذہنی ارتقاء (intellectual development)کی ہے۔

اس دریافت سے مجھے معلوم ہواکہ مسلم صوفیوں کااپنے قلب پرضربیں لگانایاہندوسوامیوں کااپنے ذہنی عمل کوروک کراپنے داخل میں دھیان لگانا،یہ سب سراسرغیرمتعلق باتیں ہیں۔وہ ایساہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے ہاتھ پرتوجہ ڈال کراس پرضرب لگائے یا اپنے پاؤں کوسامنے رکھ کراس پردھیان جمائے پچھلے ہزاروں سال کے دوران لوگ اسی قسم کی غیرمتعلق ورزشیں کرتے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقی روحانیت سے آشنانہ ہو سکے۔

سائنس نے ہم کوجونعمتیں دی ہیں ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے روحانیت کے متلاشی لوگوں کے لیے صحیح روحانی مرکز کی نشان دہی کی۔اس نے بتایاکہ دل کومرکز بناکرتم جو چیز حاصل کرناچاہتے ہووہ دراصل ذہن کومرکز بناکرحاصل ہوگی۔انسان کاذہن اپنے اندربے شمارصلاحیتیں رکھتاہے۔انسان کے تمام افعال کامصدردماغ ہی ہوتاہے۔ایسی حالت میں روحانی مرتبہ کوحاصل کرنے کاطریقہ یہی ہے کہ ذہن کے روحانی گوشے کوبیدارکیاجائے۔ذہن میں فکری انقلاب لاناہی روحانی ارتقاء کاذریعہ ہے۔روحانیت کی منزل تک پہنچنے کاراستہ دل سے ہوکر نہیں جاتا،بلکہ وہ دماغ کے راستہ سے ہوکرگزرتاہے۔

یہ سائنسی حقیقت قرآن میں پہلے سے موجود ہے۔چنانچہ قرآن میں روحانیت (ربانیت)کے حصول کے لیے جس چیز کوذریعہ بتایاگیاہے وہ تفکراورتذکراورتوسم ہے۔اس قسم کے الفاظ جوقرآن میں استعمال کیے گئے ہیں ان سب کاتعلق ذہنی بیداری سے ہے نہ کہ قلبی ورزش سے۔غالباً اسی حقیقت کی طرف قرآ ن میں اولوالالباب(آل عمرا ن: 7)کے الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے۔

یہ صحیح ہے کہ قرآن میں باربارقلب کالفظ استعمال ہواہے (البقرہ: 260)مگریہ ادبی معنوں میں ہے نہ کہ علمی معنوں میں۔مثال کے طورپرقرآن میں ارشاد ہواہے:فاعتبروایااولی الابصار(الحشر: 2)۔اس آیت میں واضح ہے کہ عبرت پذیری کامرکزآنکھ نہیں ہے بلکہ ذہن ہے۔آنکھ سے آدمی صرف دیکھتاہے مگردیکھی ہوئی چیز کوعبرت میں ڈھالناتما م ترعقل کاکام ہے۔قرآن کی اس آیت میں بصارت کالفظ ادبی معنوں میں ہے۔اسی طرح قلب کالفظ بھی جہاں قرآن میں اس مفہوم میں آیاہے وہ ادبی معنوں میں آیاہے نہ کہ علمی معنوں میں۔

میں نے 3؍جون کی صبح کوبی بی سی لندن (BBC London)کا پروگرام (programme)سنا۔اس کاایک آئٹم یہ تھا کہ انہوں نے بتایاکہ لندن میں ایک آیورویدک یونیورسٹی (Ayurvedic University)بنائی جارہی ہے۔اس کے فاؤ  نڈر(founder)نے بتایاکہ اس یونیورسٹی کاایک سبجکٹ آرٹ آف اسپریچول مینجمنٹ (art of spiritual management)ہوگا۔انہوں نے بتایاکہ مغربی ملکوں میں لوگوں نے ہرقسم کامادی سامان حاصل کرلیاہے۔پہلے وہ سمجھتے تھے کہ مادی ترقی ان کوپوری خوشی دے گی۔مگرجب ساری مادی چیزیں مل گئیں توانہیں محسوس ہواکہ انہیں سچی خوشی حاصل نہیں ہوئی۔اس لیے اب وہ کسی اورچیز کی تلاش میں ہیں۔آیورویدک یونیورسٹی ان کی اس تلاش کاجواب ہوگی۔

میں نے کہاکہ میرے نزدیک یہ ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی کرناہے۔جہاں تک میں جانتاہوں ان لوگوں کاماننایہ ہے کہ روز مرہ کے کام میں انسان کامائنڈ(mind)زہریلا(toxicated)ہوجاتاہے، یعنی مائنڈ میں ایک قسم کازہربھرجاتاہے۔ان کاکہنایہ ہے کہ ہم نے مائنڈ کوڈی ٹاکسیفائی (detoxify)کرنے کے لیے ایک ٹکنیک بنائی ہے۔ا س ٹکنیک کے ذریعہ ذہن دوبارہ معتدل ہوجاتاہے۔یہ ٹکنیک ایک خاص طریقہ پرسانس کواندرلے جانے اورباہرنکالنے پرقائم ہے۔میں نے کہاکہ یہ ایک بالکل غیرمتعلق بات ہے۔ذہنی تناؤ   ایک ایساپرابلم ہے جوسوچ (thinking)سے تعلق رکھتاہے۔جب کہ ایک خاص طریقہ سے سانس لینااورنکالناایک جسمانی واقعہ ہے۔اورجسمانی تدبیرسے کبھی دماغ کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔

سفرپرروانہ ہوتے ہوئے ہم نے آج (3؍جون 2004)کے اخبارات اپنے ساتھ رکھ لیےتاکہ راستہ میں ان کااجتماعی مطالعہ کیاجاسکے۔وہ اخبارات یہ تھے۔ٹائمس آف انڈیا، ہندوستان ٹائمس، پنجاب کیسری، راشٹریہ سہارا، ہندسماچار، اخبارمشرق،عوام۔

آج کے ٹائمس آف انڈیامیں حسب معمول جوقول نقل کیاگیاتھاوہ مسٹرجے این دکشت کاایک قول تھا۔انہوں نے انڈیااورپاکستان کوبہتربنانے کے سلسلے میں کہاکہ:اس سلسلے میں جوچیز ضروری ہے وہ ہے بات چیت جاری رکھنے کاعزم پاکستان کے ساتھ اورٹکراؤ  کواوائڈ (avoid)کرنے کی پالیسی اختیارکرنا:

what is needed in a determination to continue the dialogue (with Pakistan) and a policy to avoid confrontation.

یہ بات انڈیااورپاکستان دونوں ملکوں کے ذمہ دار مختلف الفاظ میں کہتے رہے ہیں۔ا س کے باوجود کیاوجہ ہے کہ نصف صدی سے بھی زیادہ مدت گزرنے کے بعد بھی دونوں کے درمیان معتدل تعلقات قائم نہیں ہوئے۔اس کاسبب میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں ملک اس مسئلہ کودوطرفہ بنیاد (bilateral basis)پر حل کرناچاہتے ہیں جب کہ تجربہ بتاتاہے کہ نزاعی مسائل یاتوایک طرفہ بنیاد پرحل ہوتے ہیں، یاپھرکبھی حل نہیں ہوتے۔

ٹائمس آف انڈیا3 جون (صفحہ10)پرایک دلچسپ تصویرتھی۔یہ امریکاکے صدرجارج بش کے بارے میں تھی۔اس میں ان کے ایک واقعہ کاذکرتھا جس کوچارمختلف تصویروں میں نمایاں کیاگیاتھا۔اس کے نیچے یہ لکھاہواتھا۔

President Bush is caught in a rain storm with a faulty umbrella while walking from Marino One to Air Force One at Andrews Air Force Base in Maryland on June 2.

یعنی صدربش ایک طوفان میں پھنس گئے۔وہ اس وقت ایک چھتری لیے ہوئے تھے۔چھتری کو وہ مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہیں مگروہ تیز ہوامیں الٹ گئی۔

صدربش کے ساتھ عراق میں جوکچھ ہورہاہے ا س کی یہ گویاایک تمثیل ہے۔وہ سمجھتے تھے  کہ عراق کامعاملہ مکمل طورپران کے کنٹرول میں ہے مگران کی ساری کوشش، بے شمارجانی اورمالی قربانی کے باوجود یہ معاملہ ان کے ہاتھ سے اس طرح نکل گیاکہ انہیں ویتنام کی مانندعراق سے واپسی کافیصلہ کرناپڑا۔یہی معاملہ موجودہ دنیامیں ہرشخص کا ہے۔آدمی جوش میں آکرایک اقدام کرتاہے۔وہ سمجھتاہے کہ حالات مکمل طورپراس کے کنٹرول میں رہیں گے مگرآخرکارحالات اس کے قبضہ سے نکل جاتے ہیں اوروہ اس فارسی شعرکی تصویربن جاتاہے کہ عقل مند آدمی ایساکام کیوں کرے جس کانتیجہ شرمندگی ہو:

کجاکارے کندعاقل         کہ باز آیدپشیمانی

آج 3 جون کی صبح کو حسب معمول میں نے بی بی سی لندن کاپروگرام سنا۔اس میں صدرامریکاجارج بش کی ایک تقریرسنائی گئی۔اس تقریرمیں پریزیڈنٹ بش جوش کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ ہم کوآزاد دنیابناناہے اورٹررزم کوختم کرناہے مگریہ کوئی آسان منصوبہ نہیں۔ٹررزم کے خلاف ہماری لڑائی صدیوں تک جاسکتی ہے۔

یہ مایوسی کا کلمہ ہے۔جب کوئی آدمی ایک بلندبانگ منصوبہ بنائے اورپھروہ اس میں ناکام ہوجائے تووہ اسی قسم کے الفاظ بولتاہے۔مثلاًنام نہاداسلام پسندلیڈرجومسلم ملکوں کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ خطہ اسلام کے لیے الاٹ ہوچکاہے اورہم یہاں اسلامی حکومت قائم کرکے رہیں گے۔پھردھواں دارکوششوں کے باوجودجب ان کامنصوبہ ناکام ہوگیاتواب وہ کہتے ہیں کہ اسلامی نظام کاقیام چنددن میں نہیں ہوسکتا۔اس کے لیے صدیوں کی کوشش درکارہے۔کتنی مشابہت ہے غیراسلام کے علم برداروں اوراسلام کے علم برداروں میں۔

ٹائمس آف انڈیا(3 جون2004)کے صفحہ اول پرایک خبرڈاکٹرجے ایس راجپوت کے بارے میں تھی۔پچھلے سالوں میں وہ سیکولرلوگوں میں اورمسلمانوں میں کافی بدنام ہوئے تھے۔ان کوپچھلی حکومت کے زمانہ میں این سی ای آرٹی (NCERT)کاڈائرکٹربنایاگیاتھا۔ان پریہ الزام تھا کہ وہ اسکول کی نصابی کتابوں کابھگوا کرن کررہے ہیں۔

He was blamed for saffronising school text-books.

خبرمیں بتایاگیاتھاکہ نئی گورنمنٹ کے آنے کے بعد انہوں نے پیشگی ریٹائرمنٹ لے لیا۔حکومت ان کی جگہ دوسراڈائرکٹرتلاش کررہی ہے۔مجھے یاد آیاکہ یہی ڈاکٹرراجپوت تھے جنھوں نے اپنے ادارہ(NCERT)میں 21؍مئی 2003کوخصوصی اہتمام کے ساتھ اسلام کے موضوع پرمیراایک خطاب رکھاتھا۔اس پروگرام میں این سی ای آرٹی کاہال مکمل طورپر بھراہواتھا۔اس میں 99فیصدتعدادتعلیم یافتہ ہندوؤ  ں کی تھی۔اس تقریرکے آخرمیں ڈاکٹرراجپوت نے اپنے اختتامی خطاب میں میری تقریرکوکافی پسندکیااوراسٹیج سے انہوں نے اعلان کیاکہ مولاناہمیں اسلام کی مثبت تعلیمات پرایک کتاب تیارکرکے دیں اس کوہم سارے انڈیامیں پھیلائیں گے۔میں نے احادیث کی بنیاد پر50صفحہ کی ایک کتاب تیار کی۔یہ وہی کتاب ہے جوماہنامہ الرسالہ (اکتوبر2003)میں خصوصی شمارہ کے طورپرچھپی ہے۔ڈاکٹرراجپوت اس کواپنے ادارہ کی طرف سے چھپواناچاہتے تھے مگرشایدانہیں اس کاموقع نہیں ملا۔

ہرواقعہ میں قرآن کے مطابق،عسرکے ساتھ یسرکاپہلوہوتاہے۔ہرمائنس پائنٹ میں ایک پلس پائنٹ موجود رہتاہے جیساکہ مذکورہ واقعہ سے ظاہرہورہاہے۔جن لوگوں کاذہن اسلام کی اس تعلیم سے بنے وہ کسی غیرمطلوب چیز کے پیش آنے پرنہیں گھبرائیں گے، وہ غیرموافق میں کوئی موافق پہلوتلاش کرلیں گے۔

روزنامہ راشٹریہ سہارا(3؍جون2004)میں صفحہ 3پرایک مضمون مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں چھپاہواتھا۔اس کاعنوان یہ تھا:مسلمانوں کوفراموش کرنے کی کوشش۔اس مضمون کاایک حصہ یہ تھا:

نئے وزیراعظم ہندنے اپنی اولین ترجیح کے طورپراعلان کیاتھاکہ اب 1984کے سکھ فسادات اورگجرات (کے مسلم کش فسادات)کااعادہ نہیں ہونے دیاجائے گا۔اس کے چنددنوں کے بعد وہ نکات سامنے آئے جن کی بنیاد پرمشترکہ پروگرام (CMP)کی تشکیل ہونی تھی۔ان نکات میں یہ نکتہ بہت اہم تھا کہ فساد زدگان کویکساں معاوضہ دیاجاناچاہیے  ۔یہ اس لیے  اہم تھاکہ 1984کے سکھ مخالف فسادات میں مارے جانے والے اکثرافراد کے ورثاء کو10۔10لاکھ روپئے کامعاوضہ مل چکاہے۔حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکھوں کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے پاس کردہ حکم کوایک معیار تسلیم کرتے ہوئے دیگرفسادزدگان کوبھی یہی رقم اداکریں۔ مگرافسوس ہے کہ سکھوں کے علاوہ آج تک کسی اورفساد زدہ طبقہ کومذکورہ معاوضہ نہیں مل سکاہے۔مگرنئی حکومت کے مشترکہ پروگرام سے یہ نکتہ غائب ہے کہ تمام فسادزدگان کو معاوضہ کی یکساں رقم اداکی جائے گی۔موجودہ سیکولرحکومت بے گناہوں کے خون کی قیمت پروجود میں آئی ہے۔ایسی حالت میں حکومت کی یہ اولین ترجیح ہونی چاہیے کہ وہ فرقہ پرستوں کی گوشمالی کرے۔اس کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات میں جن طبقات پربربادی آئی ہے ان کی بازآبادکاری کے اقدامات بھی کرے۔جب دوفیصد سکھوں کے لیے انصاف کابڑابھاری عمل اختیارکیاجاسکتاہے تو15فیصد مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں۔

یہ بات شاعری کی اصطلاح میں صرف ایک مضمون بندی ہے۔اس قسم کی بات کرنے والوں کویہ جانناچاہیے کہ سکھوں کو جوکچھ ملاوہ اس طرح نہیں ملاکہ انہوں نے اینٹی سکھ پارٹی کوہراؤ  اورپروسکھ پارٹی کوجتاؤ ،کی انتخابی پالیسی اختیارکی۔سکھوں کوجوکچھ ملاہے وہ ان کی اپنی داخلی طاقت کے زورپرملاہے۔مسلمانوں کوبھی جوکچھ ملے گاوہ ان کی خوداپنی طاقت کے بل پرملے گا۔شکایت اوراحتجاج اورمطالبہ سے اس دنیامیں کسی کوکچھ ملنے والانہیں۔

ہندی روزنامہ پنجاب کیسری (3؍جون 2004)کے پہلے صفحہ پرایک خبرچودھویں لوک سبھامیں حلف برداری کی رسم کے  بارےمیں تھی۔اس کاایک جزء کانگریسی لیڈراجیت جوگی کے بارےمیں تھا۔ا س کے الفاظ یہ تھے:

کانگریس کے ورشٹھ نیتااجیت جوگی نے آج وہیل چیئرپربیٹھے ہوئے لوک سبھاسدسیتاکی شپتھ لی۔چھتیس گڑھ میں مہاسمندسے نرواچت جوگی چناؤ  پرچارکے دوران ایک سڑک دُرگھٹنامیں گمبیھرروپ سے گھائل ہوگئے تھے۔جوگی سدن کے دروازے تک وہیل چیئرپربیٹھ کرآئے اورانہوں نے دروازہ پرہی وشیش مائک کی ویوستھاسے شپتھ لی۔بعد میں سدسیوں کے رجسٹرپربھی ان سے وہیں جاکرہستاکچھرکرائے گئے۔ شپتھ لینے پرسدسیوں نے تالیاں بجاکراورمیزیں تھپتھپاکران کاسواگت کیا۔کئی سدس ا ن کاابھیوادن کرنے ان کے پاس گئے۔‘‘

مسٹراجیت جوگی کے بارے میں یہ خبردیکھ کرمجھے کئی سال پہلے کاواقعہ یاد آیاجب کہ ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔یہ ملاقات بھوپال کے ایرپورٹ پرہوئی تھی۔یہ واقعہ ماہنامہ الرسالہ میں چھپ چکاہے۔

3؍جون کونئی دہلی کے ریلوے اسٹیشن پرایک واقعہ پیش آیا۔یہ واقعہ ایک اردواخبارمیں اس عنوان کے ساتھ چھپا:لالوکے دورہ نے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کی تقدیربدل دی۔اس عنوان کے تحت اردواخبارمیں جوخبرچھپی تھی اس کویہاں کسی تبدیلی کے بغیرنقل کیاجارہاہے:

ریلوے انکوائری کانمبرملانے پرفون نہ اٹھانے سے ناراض وزیرریلوے لالویادوخود ہی نئی دہلی ریلوے اسٹیشن میں واقع انکوئری آفس میں جاپہنچے۔وہاں کانظارہ دیکھ کرلالودم بخوردہ رہ گئے۔زیادہ ترملازم اپنی سیٹوں پرنہیں تھے۔پھرکیاتھا،انہوں نے اپنے ’مخصوص اسٹائل ‘میں افسروں کی ’کلاس‘لی۔آج اسٹیشن کانظارہ ہی بدلاہواتھا۔انہوں نے کل رات تقریباًآٹھ بجے ریلوے انکوائری نمبرپربات کرنی چاہی۔گھنٹی بجتی رہی کسی نے ٹیلی فون نہیں  اٹھایا۔اس پرغصہ ہوکروہ اسٹیشن چل پڑے۔وہاں دیکھاکہ گھنٹیاں بج رہی ہیں اورکوئی ملازم نہیں ہے۔انہوں نے خود کئی فون اٹینڈکیے۔اس کے بعد انکوائری کاونٹرپرگئے۔وہاں مسافرتوتھے مگرکوئی ملازم نہیں تھا۔ا س کے بعد وہ پلیٹ فارم نمبرایک چارپانچ پر پہنچے۔وہاں گندگی دیکھ کربپھرپڑے۔انہوں نے متعلقہ ملازمین کولتاڑپلائی اورکارروائی کرنے کی وارننگ دی۔واپسی میں راستے میں موجود لیٹرین کی حالت دیکھ کران سے رہانہیں گیااوراس کے ملازمین کو خوب لتاڑا۔پھرانہوں نے مسافروں سے بات چیت کی۔ویٹنگ روم میں پنکھانہ چلنے کی شکایت پرانہوں نے سخت رویہ اپنایا۔تقریباًایک گھنٹہ تک ریلوے اسٹیشن کامعائنہ کرنے کے بعد لالوکاپارہ کافی چڑھ گیاتھااوراس کانزلہ اندرکمارنامی ملازم پرگرا۔یہ وہی ملازم ہے جس کی ڈیوٹی انکوائری کاونٹرپرتھی اورجب وزیرموصوف وہاں پہنچے توحضرت اپنی سیٹ سے غائب تھے۔انہوں نے اندرکمارکومعطل کردیا۔اس کے علاوہ کال سینٹرپرکام کرنے والے ایک ملازم کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کاحکم دیا۔لالویادوپلیٹ فارم چاراورپانچ کے وینڈروں کے پاس بھی گئے اوراسٹال پرموجود کلہڑاٹھاکردیکھااوراس کی سپلائی کے بارے میں جانکاری لی۔ان کے دورے کایہ جادوئی اثرہواکہ پلیٹ فارم چمکنے لگے،خراب پنکھے ٹھیک ہوگئے،انکوائری کاونٹروں پرایک کے بجائے دودوملازم تعینات کردیے گئے۔گندگی کے نام پرکاغذکاایک ٹکڑاتک نظرنہ آیا۔گندے پڑے پیشاب گھرکی شیٹیں بدل دی گئیں اورنالیوں میں ڈی ڈی ٹی کاپاوڈرڈال دیاگیاگویامسافروں کوفیل گڈ ہورہاہے۔‘‘

یہی اصلاح کاصحیح طریقہ ہے۔منسٹرلوگ اگرسرپرائز وزٹ (surprise visit)کے اس طریقہ کومستقل طورپراپنالیں،بشرطیکہ وہ اس معاملہ میں سنجیدہ اورصاحب کردارہوں توصرف 5سال کی مدت میں پورے ملک میں ایک نیادورآجائے گا۔اس کے بعد شائننگ انڈیاصرف ایک نعرہ نہیں رہے گابلکہ وہ ایک ایساواقعہ بن جائے گاجس کوہرآدمی دیکھے اورجس کوہرآدمی محسوس کرے۔

ٹائمزآف انڈیا(3؍جون2004)کے صفحہ تین پرایک عبرت انگیزخبرتھی۔پچھلے مہینہ سیکنڈری ایجوکیشن (CBSE)کے امتحان سے پہلے یہ خبرآئی تھی کہ اس کے پرچے پیشگی طورپرآؤ  ٹ ہوگئے ہیں۔اس سلسلے میں پولیس نے متعلقہ دفترمیں کام کرنے والے ایک کمپیوٹرآپریٹرہمنت شرما (Hemant sharma)کوگرفتارکرلیاتھا۔ہمنت شرمانے پولیس کے سامنے انکشاف کیاتھاکہ اس معاملہ میں اصل مجرم سدھیرسچدیو(Sudhir Sachdeva)ہے۔ہمنت شرماکے بیان کے مطابق،سدھیرسچدیونے سی بی ایس ای(CBSE)کے ملازم کو50لاکھ روپیے دے کریہ پرچہ پیشگی طورپرحاصل کیے تھے تاکہ طالب علموں میں اس کوبیچ کرنفع کمائے۔

پچھلے ایک مہینہ سے پولیس کوسدھیرسچدیوکی تلاش تھی۔مگرپولیس اب تک اس کوپکڑنہ پائی تھی۔کل اچانک وہ خود سے دہلی کی عدالت میں حاضرہوگیا۔مگرپولیس ا س کوگرفتارنہیں کرسکتی تھی کیوں کہ اس کے پاس پیشگی ضمانت کاعدالتی آرڈرموجود تھا:

Sachdeva was armed with an anticipatory bail order from the Cuttack High Court.

موجودہ قانونی نظام میں جوخامیاں ہیں،مذکورہ واقعہ اس کی ایک مثال ہے۔آج کل ہردن کثرت سے جرائم ہورہے ہیں۔عدالتوں میں لاکھوں کی تعدادمیں مقدمات موجود ہیں مگرقوانین کی کثرت کے باوجود جرائم میں کمی نہیں ہوتی۔اس کاخاص سبب یہ ہے کہ ان قوانین میں اتنی لچک موجود ہے کہ ہرمجرم کسی نہ کسی طرح سزاسے بچ جاتاہے۔قوانین کی ان کمزوریوں نے ایک لوپ ہول انڈسڑی (Loop hole industry)قائم کررکھی ہے۔ضرورت صرف یہ ہے کہ مجرم کی جیب میں کافی پیسہ ہوجس سے وہ ایک قانونی دماغ (وکیل)کوخرید سکے۔جس آدمی کے اندریہ قوت خرید موجود ہواس کوقانونی سزاسے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

ہندوستان ٹائمس (3؍جون 2004)میں ایک دلچسپ خبرتھی۔یہ طلاق کی خبرتھی۔اس خبر کا عنوان یہ تھا___ٹیلی فونی طلاق:

phoney divorce

خبرمیں بتایاگیاتھاکہ اردن کے ایک شخص ابوسمیع نے اپنی بیوی کوطلاق دے دیا۔شریعت کے ضابطہ کے مطابق،اس نے طلاق کوتین مہینہ میں پوراکیا۔اس طلاق کی وجہ ابوسمیع نے یہ بتائی کہ میری بیوی انٹرنیشنل ٹیلی فون پرگھنٹوں بات کرتی رہتی تھی۔چنانچہ اس کے ٹیلی فون کابل اس کی تنخواہ کی رقم سے تین گنازیادہ ہوجاتاتھا۔آخرمجبورہوکراس نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی۔

مذکورہ خاتون کی یہ عادت ناقابل فہم حد تک عجیب ہے۔اس کے اندریہ عادت کیوں پڑی،اس پر غورکرتے ہوئے سمجھ میں آتاہے کہ غالباًا س کی ابتدائی پرورش جس گھر میں ہوئی وہاں ا س کے ماں باپ اوراس کے گھروالے ا س کے ساتھ بہت زیادہ لاڈپیار کا سلوک کرتے تھے۔اس کے بعد جب اس کی شادی ہوئی اوروہ اپنے شوہرکے گھرآئی توغالباًاس کے شوہرنے بھی اس کے ساتھ اسی طرح کالاڈپیاراورناز برداری کاطریقہ اختیارکیا۔اس کے نتیجے میں خاتون کامزاج بگڑگیا۔لاڈپیاریاناز برداری کا سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ ایسی خاتون اپنے آپ میں جینے لگتی ہے۔غیرشعوری طورپروہ سمجھ لیتی ہے کہ میں جوکچھ کروں سب درست ہے،میراکوئی کام غلط نہیں۔مذکورہ خاتون کاکیس غالباًاسی قسم کاایک کیس تھا۔

کامیاب شادی شدہ زندگی دوانسانوں کے درمیان ایڈجسٹمنٹ کانام ہے۔ایڈجسٹمنٹ کایہ مزاج دونوں کے اندرہوناچاہیے۔یہ ایڈجسٹمنٹ دونوں کے تعلقات میں توازن قائم رکھتاہے۔جہاں ایڈجسٹمنٹ نہ ہووہاں توازن ٹوٹ جائے گاجوآخرکارتعلقات کے بگاڑاورطلاق پرختم ہوگا۔

ایک اردواخبارمیں مولاناسیدسلیمان ندوی کا ایک اقتباس شائع کیاگیاتھا۔ا س اقتباس کاعنوان یہ تھا:سیرت محمدی کاتکمیلی پہلو۔اس عنوان کے تحت جواقتباس درج تھا اس کی چند سطریں یہ تھیں:

کوئی زندگی خواہ کسی قدرتاریخی ہو جب تک وہ کامل نہ ہوہمارے لیے  نمونہ نہیں بن سکتی۔کسی زندگی کاکامل اورہرنقص سے بری ہونا،اس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتاجب تک ا س کی زندگی کے تمام اجزاء ہمارے سامنے نہ ہوں۔پیغمبراسلام کی زندگی کا ہرلمحہ پیدائش سے لے کروفات تک آپ کے زمانےکے لوگوں کے سامنے اورآپ کی وفات کے بعد تاریخ عالم کے سامنے ہے۔آپ کی زندگی کا کوئی مختصرسے مختصرزمانہ بھی ایسانہیں گذراجب وہ اپنے اہل وطن کی آنکھوں سے اوجھل ہوکرآئندہ کی تیاری میں مصروف ہوں۔‘‘

اس اقتباس کے مطابق،اُسوہ (نمونہ)وہی بن سکتاہے جوکامل ہو۔مذکورہ اقتباس میں آگے جوتفصیل بتائی گئی ہے ا س کے مطابق،صرف پیغمبراسلام کویہ کامل حیثیت حاصل ہے۔اس لیے صرف وہی اُسوہ بن سکتے ہیں۔یہ بات قرآن کے مطابق نہیں۔اس لیے کہ قرآن کی سورہ نمبر60میں ارشاد ہواہے۔قدکانت لکم اُسوۃ حسنۃ فی ابراھیم والذین معہ (الممتحنہ: 4)۔یعنی تمہارے لیے اچھانمونہ ہے ابراہیم میں اوران کے ساتھیوں میں۔مصنف کے معیار کے مطابق،حضرت ابراہیم اوران کے ساتھی تاریخی اعتبار سے کامل نہیں ایسی حالت میں قرآن کاانہیں اسوہ (نمونہ)کے طورپرپیش کرنامصنف کے نظریہ کی واضح تردید ہے۔

اصل یہ ہے کہ استدلال کی دوقسمیں ہیں۔ایک شاعرانہ استدلال اوردوسرے علمی استدلال۔ شاعرانہ استدلال یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی خیال کے مطابق،استدلال قائم کرے،خواہ اس کایہ خیال خارجی حقائق سے مطابقت رکھتاہویانہ رکھتاہو۔اس کے مقابلہ میں علمی استدلال یہ ہے کہ جواسٹیٹمنٹ دیاجائے،تمام متعلقہ حقائق سے اس کی تصدیق (corroboration)مل رہی ہو۔اس تقسیم کے مطابق،مذکورہ اقتباس شاعرانہ استدلال کی مثال ہے۔نہ کہ علمی استدلال کی مثال۔

ایک اخبارمیں ایک مضمون امریکی صحافی سموئیل       ہسٹنگٹن کی مشہورکتاب تہذیبوں کاتصادم کے بارے میں تھا۔اس میں بتایاگیاتھاکہ ہسنٹنگٹن کے خیالات کاخلاصہ یہ ہے کہ سوویت روس کے ٹوٹنے کے بعد اب آئندہ اگرکسی تصادم کااندیشہ ہے تووہ ملکوں کے درمیان نہیں بلکہ یہ ٹکراؤ  تہذیبوں کے درمیان ہوگا۔وہ کہتے ہیں کہ کنفیوشس کے اقدار پرمبنی تہذیب،یاہندوتہذیب مغربی یعنی یورپی امریکن تہذیب کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔مغربی تہذیب کوواقعتا ً صرف اسلام سے خطرہ لاحق ہے۔

صاحب مضمون نے ہنٹنگٹن کے اس نقطۂ نظر سے اتفاق کیاتھا۔مگرمیرے نزدیک یہ درست نہیں۔اس قسم کی رائے رکھنے والوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب اوراسلامی تہذیب کودومقابل اورمتحارب یونٹ سمجھتے ہیں۔حالاں کہ یہ تصورسراسربے بنیاد ہے۔اسلام کاتعارف قرآن میں دوسری قوموں کے مدمقابل کی حیثیت سے نہیں کیاگیاہے بلکہ اس حیثیت سے کیاگیاہے کہ اسلام تمام انسانیت کاخود اپنامطلوب دین ہے۔اسلام دین فطرت ہے،اس لیے تمام انسانوں کادین ہے۔وہ تمام انسانوں کے دل کی آواز ہے۔اس لیے اسلام کامقصددوسروں سے تصادم کرنانہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اسلام اورانسانیت کے درمیان مشترک بنیاد (common ground)کودریافت کرکے انہیں اپنے قریب لائے۔اسلام تما م انسانوں کو ایک خداکی عبادت کاپیغام دیتاہے اوریہ کہتاہے کہ :تَعَالَوۡاْ إِلَىٰ كَلِمَةٖ سَوَآءِۭ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمۡ أَلَّا نَعۡبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ  (آل عمران: 64)۔

بد قسمتی سے موجودہ زمانےمیں مسلمانوں نے اپنے مادی اورقومی مسائل کواسلام کانام دے کردوسری قوموں سے لڑائی چھیڑرکھی ہے۔اس سے لوگوں کویہ گمان ہوتاہے کہ اسلام دوسری قوموں کے ساتھ تصادم کی حالت میں ہے۔حالاں کہ یہ بالکل بے بنیا دبات ہے۔اگرکوئی تصادم ہے تووہ مسلم قوموں اوردوسری قوموں کے درمیان ہے۔جہاں تک اسلام کاتعلق ہے،اسلام کاکوئی تصادم کسی فردیاقوم سے نہیں۔

ہندی روزنامہ دینک جاگرن (3؍جون 2004)میں ایک خبرچھپی ہوئی تھی۔ا س خبرکاعنوان یہ تھا:راشٹرپتی کی یاتراسے سرخیوں میں آیاسرگی پال۔اس خبرکاابتدائی حصہ یہاں نقل کیاجاتاہے۔

بَستر ضلع کالگ بھگ چودہ سو کی جن سنکھیاوالاآدیواسی بہول گاؤ  ں ران سرگی پال اچانک سرخیوں میں ہے۔اورپرشاسنک ادھیکاری گاؤ  ں کی اوردوڑے چلے جارہے ہیں،سڑکیں بن رہی ہیں۔بجلی کی ویوستھاکی جارہی ہے۔گرمیوں کی چھٹی کے باوجود شچھک گاؤ  ں میں بچوں کوپڑھانے آرہے ہیں۔ران سرگی پال کے ادھیکانش لوگوں کوبدلی ہوئی ویوستھاسے سکھدآشچری ہورہاہے۔دراصل 4جون کواس گاؤ  ں میں راشٹرپتی اے پی جے عبدالکلام کا دورہ پرستاوت ہے۔لیکن گاؤ  ں کے ادھیکانش آدی واسی ابھی بھی بدلاؤ  کے اس واستوک کارڑسے ان بھگ ہیں۔ضلع مکھیالے جگدل پورسے لگ بھگ 25کیلومیٹردورگرام ران سرگی پال کے سات محلے ہیں۔پیڈے پارا،ڈینگری گڑاپارا،لامڈاگڑاپارا،بڈے پارا،ساڈرگڈا،نوگڈا،وابیڈاگڑا۔ان ساتوں محلوں کوویوستھت کیاجارہاہے۔بسترکی صاف ستھری یعنی خوش حال بسترکی تصویران محلوں کے ذریعہ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ ہندوستانی جمہوریت کی ایک تصویرہے۔یہاں کاحال یہ ہے کہ جب کوئی بڑاحکومتی عہدہ دارکسی مقام کاسفرکرتاہے تووقتی طورپروہاں صفائی اورچوکسی کامظاہرہ کیاجانے لگتاہے۔حالاں کہ اصل جمہوریت یہ ہے کہ صفائی اورچوکسی جیسی چیزوں کااہتمام ملک کے عوام کے لیے کیاجائے۔کیونکہ جمہوری اصول کے مطابق،ملک کے اصل حاکم اس کے عوام ہیں،نہ کہ سیاسی عہدہ دار۔

بلسوری گاؤ  ں میں تقریباپانچ ہزارلوگ رہتے ہیں۔یہاں ہندواورمسلمان دونوں فرقہ کے لوگ ہیں،مگریہاں نہ کوئی مندرہے اورنہ کوئی مسجد۔مسٹرکرپال سنگھ کے الفاظ میں ’’اس لیے یہاں مندراورمسجد کاکوئی جھگڑانہیں۔‘‘گاؤ  ں کے ہرگھرمیں بجلی ہے اورتقریباتین سوگھروں میں ٹیلی فون لگے ہوئے ہیں۔یہاں زیادہ ترکسان لوگ رہتے ہیں اورہرایک کے پاس اس کی اپنی زمین ہے جس میں وہ کھیتی کرتاہے۔گاؤ  ں میں سوسے زیادہ ٹریکٹرہیں۔یہاں مجھے بتایاگیاکہ یہاں کا ہربچہ پڑھ رہاہے۔گاؤ  ں میں اسکول بھی ہے اورکالج بھی۔یہاں کوئی بے پڑھالکھاآدمی دکھائی نہیں دے گا۔یہاں پانی کی کوئی کمی نہیں  ہے۔گنگانہرگاؤ  ں کے پاس سے گزرتی ہے۔اس کے علاوہ بہت سے ٹیوب ول لگے ہوئے ہیں۔یہاں ہرفرقہ کے لوگ رہتے ہیں مگرمجھے بتایاگیاکہ یہاں کوئی لڑائی جھگڑانہیں ہے۔

بلسوری گاؤ  ں میں میرے آنے کامقصدیہ تھاکہ میں مسٹرکرپال سنگھ کی لڑکی نیتورانی کی شادی کی تقریب میں شرکت کروں۔اس سلسلے میں ان کے گھرکے لوگوں اورگاؤ  ں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔گاؤ  ں کے سرپنچ مسٹرروندرکمارسے بھی ملاقات ہوئی۔یہاں کے سب لوگ مجھے بہت سادہ اورصحیح مزاج کے دکھائی دیے۔مجھے ایسالگاکہ یہاں کے لوگ اپنے اپنے نیچرپرہیں۔ان میں وہ بگاڑنہیں آیاہے جوشہروں میں دکھائی دیتاہے۔

نیتورانی (22سال)کی شادی آج رات کو ہورہی ہے۔ ان کاہونے والاشوہرایک پولس انسپکٹرہے جوگوالیارمیں رہتاہے۔میں نے نیتورانی سے کہاکہ میں آپ کوکامیاب جیون کاایک بہت سادہ فارمولا(formula)بتاتاہوں۔یہ فارمولامجھے ایک صاحب سے ملا۔ان کو میں نے دیکھاکہ وہ بہت خوش رہتے ہیں۔حالاں کہ ان کی زندگی میں وہ سارے پرابلم آتے ہیں جودوسروں کی زندگی میں آتے ہیں ۔ انہوں نے ہربات کاایک سادہ حل یہ بنایاہے ’’چلویہ بھی ٹھیک ہے ‘‘۔جب بھی کوئی بات پیش آتی ہے یاکوئی ایسی بات ہوتی ہے جوان کواچھی نہ لگے تووہ اس سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ چلویہ بھی ٹھیک ہے۔میں نے کہاکہ ہرٹنشن کودماغ سے نکالنے کایہ سب سے اچھافارمولاہے۔آپ ٹینشن کوٹینشن کے روپ میں نہ لیجیے بلکہ یہ کہہ دیجیے کہ چلویہ بھی ٹھیک ہے،اورپھراس طرح رہیے جیسے کہ کچھ ہواہی نہیں۔

بلسوری میں ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ان کانام امت ملک ہے۔وہ کمپیوٹرکاکورس کررہے ہیں۔ان کاخیال تھاکہ وہ سفارش کے ذریعہ کوئی سروس حاصل کریں۔میں نے ان کونصیحت کرتے ہوئے کہاکہ سفارش سے آپ کوجوچیز ملے گی وہ صرف کوئی چھوٹاجاب (job)ہوگا،بڑی ترقی نہیں۔آپ نے کمپیوٹرکی لائن پکڑی ہے۔اس میں آپ خوب محنت کیجیے اوراچھے ایکسپرٹ (expert)بن جائیے،پھرترقی ہی ترقی ہے۔مشہورمثل ہے کہ ٹاپ کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے:

There is always room at the top

ہماری گاڑی کے جوڈرائیور تھے ان کانام منجیت سنگھ تھا۔سردارمنجیت سنگھ سے ہم نے پوچھاکہ آپ بہت دن سے گاڑی چلارہے ہیں۔یہ بتائے کہ روڈایکسیڈنٹ(Road accident)سے بچنے کاراز کیاہے۔انہوں نے کہاکہ زیادہ ایکسیڈنٹ اس لیے ہوتے ہیں کہ گاڑی چلانے والے نشہ کی حالت میں گاڑی چلاتے ہیں۔ا س لیے ڈرائیورکو چاہیے کہ وہ شراب پی کرگاڑی نہ چلائے۔

3جون کی شام کومسٹرکرپال سنگھ کے خاندان اوررشتہ کی عورتیں ان کے گھرپراکھٹاہوگئیں۔یہ عورتیں چاہتی تھیں کہ میں ان کے بیٹے اورشوہرکے لیے کوئی دعابتاؤ  ں۔میں نے ان کودعابتائی۔ایک خاتون نے کہاکہ ان کاشوہربہت زیادہ غصہ ہوتاہے۔میں نے کہاکہ جب بھی انہیں غصہ آئے توآپ بالکل چپ ہوجائیے اوردل ہی دل میں یہ دعاپڑھیے:

رب انی مغلوب فانتصر

ایک اورخاتون نے کہاکہ میرے بیٹے کے لیے کوئی دعابتائیے کہ اس کواچھاجاب(job)مل جائے۔میں نے ان کویہ دعالکھ کردی:

رب افتح لی أبواب رحمتک

میں نے کہاکہ آپ روزانہ دووقت اس دعاکو پڑھیں،رات کوسونے سے پہلے ہاتھ منھ دھوکراس دعاکودس بار دہرائیں اورپھرچپ چاپ سوجائیں اورپھرجب صبح کواٹھیں تودوبارہ ہاتھ منھ دھوئیں اوراس دعاکود س بارپڑھیں۔

بلسوری میں بہت سے ہندوؤں سے ملاقات ہوئی۔ان میں مردبھی تھے اورعورتیں بھی۔ان سب لوگوں سے روحانیت کے اندازمیں اسلام پرگفتگوہوئی۔ہر ایک کارد عمل مثبت اورتعمیری تھا۔سب نے اصرارکیاکہ آپ دوبارہ ہمارے یہاں آئیے اورزیادہ دیرتک یہاں قیام کیجیے۔ہم لوگ آپ کاآشیرواد لیناچاہتے ہیں اورآپ سے بہت کچھ سیکھناچاہتے ہیں۔

تین جون کی شام کوبلسوری سے دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔ہماری گاڑی بظاہرایک جغرافی سفرطے کررہی  تھی مگراللہ کی مددنے اس کوایک روحانی اورتربیتی سفربنادیا۔اس سفری کلاس میں اس کا ہرممبر یکساں طورپرشریک تھا۔یہ ایک انوکھی کلاس تھی جس کاہرفرد بیک وقت معلم بھی تھا اورمتعلم بھی۔

میں نے اپنے ساتھیوں سے کہاکہ آپ میں سے ہرایک کوئی نہ کوئی سوال پوچھے۔پھرمیں نے کہاکہ سوال کیاہے۔سوال دراصل مطالعہ اورغوروفکرکی ایک اعلیٰ صورت ہے۔سوال کوئی سادہ چیز نہیں۔ سوال آدمی کی پوری شخصیت کاایک تعارف ہے۔سوال اپنی حقیقت کے اعتبارسے جواب کی تلاش کادوسرانام ہے۔جب آ پ کا ذہن ایک مسئلہ سے دوچارہوتووہ اپنے آپ ایک سوال پیداکرتاہے۔پھرغوروفکرکے ذریعہ وہ اس کے جواب تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے۔جب بھی کوئی آدمی سچامتلاشی (seeker)ہوگاتوضروراس کے ذہن میں سوالات آئیں گے۔سوالات سے خالی ہوناا س بات کی علامت ہے کہ آدمی کاذہن غوروفکرسے خالی ہے۔آدمی کوکبھی سوال کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔اسی کے ساتھ آدمی کے اندریہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ صحیح جواب آنے کے بعد وہ اس کو مان لے اوراس کواپنے ذہن کاجزء بنائے۔

ڈاکٹرمحمداقبال پردھان نے کہاکہ میراسوال یہ ہے کہ بڑے شہروں سے پولیوشن (pollution)کیسے ختم کیاجائے۔میں نے کہاکہ میرے نزدیک اس سوال کاجواب یہ ہے کہ ہم کودومیں سے ایک طریقہ اختیارکرناہوگا۔یاتوہم یہ کریں کہ ماقبل کارزمانہ (pre-car period)کی طرف لوٹ جائیں اورہم سب لوگ پیدل چلناشروع کردیں۔دوسراطریقہ وہی ہے جومغربی ملکوں میں اپنایاگیاہے،یعنی کارپرکنٹرول کرنا۔صرف اسی کارکوسڑک پرچلنے کی اجازت دیناجومضرگیس (harmful gas)نہ نکالتی ہو۔

میں نے کہاکہ پولیوشن کامعاملہ یہ ہے کہ پٹرول (petrol)کاایندھن جب کارمیں جلتاہے تو وہ کاربن مونوآکسائڈ (carbon monooxide)نکالتاہے جوانسانی ہیلتھ (health) کونقصان پہنچاتاہے۔اس کے حل کے لیے  ایک ڈوائس (device)بنائی گئی ہے۔وہ یہ کرتی ہے کہ کارکے انجن سے نکلی ہوئی کاربن مونوآکسائڈ گیس (carbon monooxide gas) کوکاربن ڈائی آکسائڈ(carbon-dioxide)گیس میں کنورٹ (convert) کردیتی ہے جوکہ ہیلتھ کونقصان نہیں پہنچاتی۔تمام ترقی یافتہ ملکوں میں یہ طریقہ اپنایاگیاہے۔یہی آزمودہ طریقہ ہمیں بھی اپنے ملک میں اختیارکرناچاہیے۔اس معاملہ میں اورکوئی طریقہ موجود حالات میں ممکن نہیں۔

محمدخالد انصاری نے کہاکہ میراسوال یہ ہے کہ خداکی معرفت (realisation)کوکیسے بڑھائیں،خاص طورپرجب ہم سفرکررہے ہوں۔میں نے کہاکہ خداکی معرفت بڑھانے کاایک ہی طریقہ ہے اوروہ وہی ہے جس کوقرآن میں توسم کہاگیاہے۔آدمی ہروقت کسی نہ کسی تجربہ سے گذرتاہے۔اس تجربہ سے کوئی خدائی پہلونکالنایہی معرفت کوبڑھاناہے۔آپ کویہ کرناہے کہ آپ اپنے ہرتجربہ سے معرفت کی خوراک لیتے رہیں۔

مثلا اس وقت ہم کارکے ذریعہ ایک سفرطے کررہے ہیں،دہلی سے بلندشہرکاسفر۔اس سفرکے دوران ہم کوایک اورسفرکی یاد آنی چاہیے،یعنی دنیاسے آخرت کاسفر۔جب ہم اس طرح سوچیں گے توراستہ کاہرواقعہ ہمارے لیے خداکی یاد دلانے والابن جائے گا۔ہرواقعہ میں ہم کوخداکی ربّانی غذاملتی رہے گی۔

پریاملک نے کہاکہ میراسوال یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں کرائسس (crisis)پرکیسے قابوپائے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ کرائسس مینجمنٹ(crisis management)کاطریقہ کیاہے۔میں نے کہاکہ کرائسس کوئی باہرکاپرابلم (problem)نہیں ہے بلکہ وہ خود آدمی کے اندرکاپرابلم ہے اوریہ پرابلم ہمیشہ معاملہ کے اصل نیچر(nature)کونہ سمجھنے کی وجہ سے پیداہوتاہے۔جہاں تک میں سمجھتاہوں،کرائسس کاسبب یہ ہے کہ زندگی میں اکثرغیرمتوقع صورت حال (unexpected situation)پیش آتی ہے۔اس اچانک تجربہ پرآدمی گھبرااٹھتاہے۔اگروہ پہلے سے جانتاکہ ایساہونے والاہے تووہ اس کوکرائسس کے روپ میں نہ لیتابلکہ وہ ایساپیش آنے پرکہتاکہ یہ تووہی ہے جوہونے والاتھا،پھراس پرپریشان ہونے کی کیاضرورت۔

وہ چیز جس کوکرائسس مینجمنٹ(crisis management)کہاجاتاہے وہ دراصل خود اپنی  سوچ کی مینجمنٹ (thought management)کادوسرانام ہے۔اپنی سوچ کومینج (manage)کیجیے اورپھرآپ کبھی کرائسس کے مسئلہ سے دوچارنہیں ہوں گے۔

فریدہ خانم نے کہاکہ میراسوال یہ ہے کہ اپنی ایگو(ego)کوکیسے ختم کیاجائے۔(How to annihilate one's ego)میں نے کہاکہ ایگو(ego)وہی چیز ہے جس کواردومیں اَناکہاجاتاہے۔ قرآن میں اس کونفس امّارہ بتایاگیاہے۔قرآن میں پیغمبریوسف کاایک قول نقل کیاگیاہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے نفس کی برأت نہیں کرتا(یوسف: 53)۔جس کامطلب یہ ہے کہ ایگویااناہرآدمی کی ذات کاایک پیدائشی حصہ ہے۔کوئی آدمی بغیراناکے اس دنیامیں نہیں ہوسکتا۔آدمی کاکمال یہ نہیں کہ وہ بے اناہو۔آدمی کاکمال یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کوعملی طورپراناکاشکارنہ ہونے دے۔وہ اناکے ہوتے ہوئے بے انابن جائے۔

منجوورمانی نے کہاکہ میراسوال یہ ہے کہ بناکسی ڈسٹریکشن (distraction)کے ایک کام میں کیسے دھیان لگائیں۔میں نے کہاکہ اگرآپ ایک ایسی دنیاچاہتے ہیں جہاں آپ کوکوئی ڈسٹریکشن کبھی نہ ہوتوآپ کسی سنسان آئلینڈ(Island)میں چلے جائیے مگریادرکھیے کہ وہاں بھی آپ کے لیے ایک پرابلم موجود ہے۔وہ یہ کہ وہاں کوئی سوسائٹی (society)نہیں اورسوسائٹی کے بغیرجینااس سے بھی زیادہ مشکل ہے جتناکی ٹنشن (tension)کے ساتھ جینا۔اس کامطلب یہ ہے کہ جس دنیامیں آپ ہیں وہاں آپ کوہرحال میں پرابلم کے بیچ میں رہناہے۔اس لیے یہاں یہ سوچناچھوڑدیجیے کہ آپ کوپرابلم فری لائف(problem free life)مل جائے گی بلکہ آپ کوپرابلم کے ساتھ جینے کاہنرسیکھناہوگا۔یعنی آپ کووہ چیز سیکھنی چاہیے   جس کو میں ان الفاظ میں کہتاہوں:

Art of problem management

پھرمیں نے کہاکہ ڈسٹریکشن کوئی برائی (evil)نہیں وہ ایک نئی اپار چونیٹی (opportunity)ہے۔جب آپ ڈسٹریکشن کاسامناکرتے ہوئے پھرسے اپنے آپ کواپنی لائن پرلے آتے ہیں تویہ آپ کے لیے  ذہنی ترقی (intellectual development) کاایک موقع بن جاتاہے۔

رجت ملہوترانے کہاکہ انڈیاکاسب سے بڑاپرابلم کرپشن (corruption)ہے۔یہ سب لوگ مانتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کرپشن کیسے ختم کیاجائے۔میں نے کہاکہ اس سوال کے لیے میراجواب وہی ہے جومسٹرارون شوری کا جواب ہے۔ایک بار میں ارون شوری کے ساتھ سفرمیں تھا۔ایرپورٹ پران سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے میرابیگ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ہم لوگ آگے بڑھے توبات چیت کرتے ہوئے میں نے ان سے پوچھاکہ انڈیامیں کرپشن بہت زیادہ ہے،بہت سے اینٹی کرپشن قانون بنائے گئے مگراب تک کرپشن باقی ہے۔کرپشن کوختم کیے بغیرکوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔پھراس مسئلہ کاحل کیاہے۔مسٹرارون شوری نے ہنستے ہوئے کہاکہ اس کاحل تووہی ہے جواسلام میں بتایاگیاہے۔یعنی کڑی سزا۔انہوں نے کہاکہ اسلام میں سماجی جرائم کے لیے  ڈییٹرنٹ پنشمنٹ (deterrent punishment)کااصول رکھاگیاہے۔یہی اس پرابلم کاحل ہے۔ انسان کے دل میں جب تک ڈرنہیں آتاوہ برائی کونہیں چھوڑتا۔

استتھی ملہوترانے سوال کیاکہ آفس میں کنفرنٹیشن (confrontation)سے کیسے بچاجائے۔ میں نے کہاکہ کنفرنٹیشن سے بچنے کاایک ہی فارمولا(formula)ہے اوروہ یہ ہے کہ کنفرنٹیشن نہ کیاجائے۔ یعنی یک طرفہ طورپراوائڈنس (avoidance)کے پرنسپل (principle)پرعمل کرنا۔اس پرنسپل کوا س طرح بتایاگیاہے:

Boss is always right

میں نے کہاکہ جوعورت یامرد سروس کریں انہیں جانناچاہیے کہ سروس میں آ پ کے لیے  دومیں سے ایک کاآپشن (option)ہے،یایونی لیٹرل ایڈ جسٹمنٹ (unilateral adjustment)یااستعفیٰ۔تیسراکوئی آپشن (option)نہیں۔لوگ چوں کہ تیسراآپشن ڈھونڈتے ہیں اس لیے وہ اس طرح کاسوال کرتے ہیں۔حالاں کہ اس معاملہ میں کوئی تیسراآپشن سرے سے موجود ہی نہیں۔

میں نے کہاکہ میں دہلی میں کاؤ  نسلنگ (counselling)کرتاہوں۔میرے پاس اکثر ملازمت پیشہ لوگ آتے ہیں۔یہ لوگ اپنے آفس کے غلط رویے کی شکایت کرتے ہیں۔میں ان سے ہمیشہ یہ کہتاہوں کہ آپ برادشت اورٹالرینس کے اصول کواپنائیے اورپھرآپ کوکبھی کوئی شکایت نہ ہوگی۔

مثلاً ایک بار میرے پاس ایک ہندوخاتون آئیں۔انہوں نے کہاکہ مجھے ایک ٹیلی فون کرناتھا۔ میں نے ٹیلی فون آپریٹرکوفون نمبردیااورکہاکہ اس کو ملادو۔لڑکی نے نمبرملانے میں دیر کی۔میں اپنی کرسی سے اٹھ کراس کے پاس گئی۔میں نے کہاکہ تم نے نمبرملانے میں دیرکیوں کی۔ اس نے سخت لہجہ میں جواب دیا۔مجھے غصہ آگیا۔میں نے اس کوہاتھ سے ماردیا۔اس نے بتایاکہ اس کے بعد باس نے مجھے اپنے دفترمیں بلایا۔اس نے کہاکہ یہ دفترکے آداب کے خلاف ہے کہ کوئی کسی کومارے۔ا س لیے تم لڑکی سے معافی مانگو۔مگرمیری غیرت معافی مانگنے کے لیے  تیار نہ ہوئی۔

میں نے کہاکہ اس مسئلہ کاایک ہی حل ہے اوروہ اپنی غلطی کااعتراف ہے۔آپ دفترمیں جاکرساری (sorry)کہہ دیجیے اورصرف ایک لفظ کہنے سے سارامسئلہ ختم ہوجائے گا۔مگراس خاتون نے میرامشورہ نہیں مانا۔نتیجہ یہ ہواکہ ان کوسروس سے نکال دیاگیا۔اب وہ دوسری کمپنی میں سروس کررہی ہیں۔پہلے تجربہ کے بعد اب وہ اپنے الفاظ میں ’’بزدل ‘‘بن کررہ رہی ہیں۔

میں نے کہاکہ غیرحقیقت پسندانہ روش کی قیمت ہمیشہ بزدلی اورمنافقت کی صورت میں دینی پڑتی ہے۔آپ اگرحقیقت پسندی کااصول اختیارکرتیں توآپ جس طرح دوسرے آفس میں رہ رہی ہیں اسی طرح آپ پہلی آفس میں بھی رہتیں۔ایسی صورت میں آپ کاکیس بااصول خاتون کاکیس ہوتا،جب کہ ا ب آپ کاکیس دوعملی (duplicity)کاکیس بن گیاہے۔

ایک صاحب نے کہاکہ بعض مغربی مصنفین کہتے ہیں کہ ’’قرآن کے کتاب لاریب ہونے کادعویٰ قابل قبول نہیں۔قرآن میں عوامی قانون سے متعلق صرف 80آیات ہیں،بقیہ چھ ہزار سے زیادہ آیتوں پرمبنی قرآن بیشترساتویں صدی عیسوی کی شاعرانہ عربی سے عبارت ہے۔‘‘

یہ تبصرہ غلط فہمی پرمبنی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ قرآن میں قانونی احکام والی آیتیں نسبتاً بہت کم ہیں۔ مگریہ کہناغلط ہے کہ بقیہ کئی ہزار آیتیں شاعری کی قسم کی چیز ہیں۔اصل یہ ہے کہ یہ آیتیں قرآن کے تصورات ونظریات سے تعلق رکھتی ہیں۔ان آیتوں کامقصد یہ ہے کہ طاقت وراُسلوب میں قرآنی آئیڈیالوجی کوبتایاجائے جس کوقرآن میں :وَقُل لَّهُمۡ فِيٓ أَنفُسِهِمۡ قَوۡلَۢا ‌بَلِيغٗاﵞ  (النساء:۶۳)کہاگیاہے۔یعنی وہ اُسلوب جودماغ کوجگائے اورلوگوں کے اندرفکری انقلاب برپاکرے۔

ونود کمار پاؤ  ڈیا(ٹرافک کنٹرول،دہلی)سے ملاقات ہوئی۔میں نے ان سے پوچھاکہ دہلی میں گاڑیاں بڑھتی جارہی ہیں اورپارکنگ (parking)کاپرابلم بہت زیادہ ہوگیاہے۔ا س کے بارے میں آپ کاکیاکہناہے۔انہوں نے کہاکہ میری سمجھ سے اصل بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں پبلک ٹرانسپورٹ (public transport)کا سسٹم (system)اچھانہیں ہے۔اس لیے لوگ زیادہ کاریں خرید رہے ہیں۔اگرلوگوں کویہ پتہ ہوکہ جب وہ گھرسے نکلیں گے توبہت آسانی سے ان کوسڑک پرایک اچھی بس مل جائے گی جوٹائم پرانہیں وہاں پہنچادے گی جہاں انہیں جانا ہے۔ جہاں ا س طرح کاقابل اعتماد پبلک ٹرانسپورٹ موجود ہوتولوگ بسوں سے جاناپسند کریں گے اورکاریں خرید نے کارجحان کم ہوجائے گا۔

شام کو ہماری ٹیم بلسوری سے واپس روانہ ہوئی۔روڈ سے سفرکرتے ہوئے ہم لوگ شام کوپانچ بجے دہلی واپس آئے۔

سفرکے آخرمیں ایک ساتھی سے میں نے پوچھاکہ اس پورے پروگرام کے بارے میں اپنا تأثر (impression) بتائیے۔انہوں نے کہاکہ بہت اچھالگااوربہت کچھ سیکھنے کوملا۔مگرمیرے دماغ کی ساری کھڑکیاں نہیں کھلیں۔پوچھنے پرانہوں نے بتایاکہ میرے گھرمیں میری بیوی،بچے اورمیری ماں ہیں۔گھرکی ذمہ داریوں کومجھے سنبھالناہے۔ایسی حالت میں میری سمجھ میں نہیں آتاکہ اس کے ساتھ میں اپنی دینی ذمہ داریوں کوکس طرح اداکروں۔میں نے کہاکہ یہ کوئی عذر(excuse)نہیں ہے۔پھرمیں نے انہیں ایک قصہ بتایا۔میں نے کہاکہ میں یوروپ کے ایک شہرمیں گیا۔وہاں میرے جاننے والے ایک عرب نوجوان رہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہا ں کی یونیورسٹی میں میں نے ڈاکٹریٹ کے لیے اپنانام رجسٹرکرایاتھامگراب میں نے ریسرچ کاکام چھوڑ دیاہے۔میں نے پوچھاکیوں۔انہوں نے کہاکہ میری بیوی ایک عرب خاتون ہیں۔وہ انگلش نہیں جانتی ا س لیے  شاپنگ وغیرہ کاساراکام مجھے کرناپڑتاہے۔میں نے کہاکہ یہ کوئی عذرنہیں۔پھرمیں نے ان کوایک فارمولابتایا۔وہ فارمولایہ تھا:

Not to solve the problem is also away of solving the problem

میں نے کہاکہ جب آدمی یہ محسوس کرے کہ میرے پاس کوئی ہیلپر(helper)نہیں تواس کامائنڈ(mind)پہلے سے زیادہ ایکٹیوہوجاتاہے۔وہ پہلے سے زیادہ کام کرنے لگتاہے۔پہلے اگروہ انسان تھاتواب وہ سپرانسان بن جاتاہے۔اس کوہرآدمی اپنے تجربہ (experience)سے جانتاہے کہ ہرگھرمیں کوئی ہوتاہے جوگھرکاکام سنبھالے ہوئے ہوتاہے پھروہ اچانک مرجاتاہے۔مگرا س ایکسیڈینٹ کے بعد گھرکاکام نہیں رکتا۔وہ پہلے کی طرح چلتارہتاہے بلکہ کبھی کبھی پہلے سے زیادہ آگے بڑھ جاتاہے۔ایسی حالت میں صحیح فارمولایہ ہے کہ کسی بھی عذرکوعذرنہ بنایاجائے۔

ہماری گاڑی کوجوڈرائیورچلارہے تھے،ان کانام سردارمنجیت سنگھ تھا۔ان سے ہم نے بعض موضوعات پربات کرنے کی کوشش کی مگرمیں نے محسوس کیاکہ انہیں ہماری باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔وہ اپنی ساری توجہ صرف گاڑی کوچلانے میں لگائے ہوئے تھے۔وہ پورے معنوں میں ایک پروفیشنل ڈرائیورتھے۔وہ ڈرائیورتھے اورصرف ڈرائیور۔

سردارمنجیت سنگھ اپنی روایتی پگڑی کے ساتھ پوری طرح ایک سکھ دکھائی دیتے تھے لیکن گفتگوکے دوران میں نے محسوس کیاکہ دوسرے مسائل سے ان کی دلچسپی اتنی کم ہے کہ ان کے پاس یہ سوچنے کاوقت بھی نہیں کہ آج سکھ برادری کاایک آدمی(ڈاکٹرمن موہن سنگھ)انڈیاکاپرائم منسٹر بنادیاگیاہے۔ایسامحسوس ہوتاتھاکہ ان کے لیے یہ ایک غیرمتعلق (irrelevant)خبرہے۔ان کواس سے  کوئی دلچسپی نہ تھی کہ اخباروں میں کیاچھپ رہاہے اورپالیٹکس کی دنیامیں کیاہورہاہے۔وہ ورک کلچرکاپورانمونہ تھے۔

19مئی 2004کونئی دہلی کے تمام اخباروں کی ہیڈلائن صرف ایک تھی،اوروہ یہ کہ ڈاکٹرمن موہن سنگھ کوانڈیاکاپرائم منسٹرمقررکیاگیا۔اس خبرکی سرخی روزنامہ ایشین ایج نے ان الفاظ میں قائم کی تھی:راج کرے گاخالصہ۔مگرسردارمنجیت سنگھ کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ان کامقصدصرف ایک تھا،اوروہ تھا— اپنی گاڑی کودھیان کے ساتھ چلائیں۔

سکھ کمیونٹی انڈیاکی آبادی کا صرف دوفی صد حصہ ہے۔مگرسکھ لوگ انڈیاکی اقتصادیات کے تقریبابیس فی صد حصہ کوکنٹرول کررہے ہیں۔وہ دنیامیں ہرجگہ اپنی مخصوص پگڑی کے ساتھ نظرآتے ہیں۔وہ دنیاکے ہرایرپورٹ اوردنیاکی ہرسڑک پراپنے امتیازی نشان کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ سردارمنجیت سنگھ کے تجربہ نے مجھے بتایاکہ سکھ لوگوں کی اس غیرمعمولی کامیابی کاراز کیاہے۔وہ زندگی کایہ سادہ فارمولاہے۔اپنے کام سے کام رکھو۔

3؍جون کی شام کوہم دہلی واپس آگئے۔یہ سفریاسفری کلاس بظاہربہت مختصرتھامگروہ تجربوں اورنصیحتوں سے بھراہواتھا۔اس مختصرسفرمیں بہت سے سبق سیکھنے کاموقع ملا۔میرانظریہ یہ ہے کہ سفرکی کامیابی کوجانچنے کامعیارصرف ایک ہے اوروہ یہ کہ سفرشروع سے آخر تک سبق بن جائے۔ اور اس معیارکے اعتبار سے 3جون 2004کایہ یک روزہ سفربلاشبہ ایک کامیاب سفرتھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom