انسان کدھر
ہندوستان کے سابق وزیراعظم راجیوگاندھی (1944۔1991)پارلیمنٹ کے دسویں الیکشن (مئی 1991)کی مہم چلارہے تھے۔وہ ملک کاطوفانی دورہ کرتے ہوئے 21مئی 1991کواپنے مخصوص ہوائی جہاز کے ذریعہ تامل ناڈو پہونچے۔وہ ہوائی اڈہ مینم پکم ( Meenampakkam) پراترے۔یہاں وہ اپنی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھے اور30سے زیادہ کاروں کے قافلے کے ساتھ سری پرم بودور(Sriperumbudur)کے لیے روانہ ہوئے جہاں انہیں ایک الیکشن میٹنگ کوخطاب کرناتھا۔
رات کو10بجے وہ پنڈال کے اندرعوام کی طرف سے گلدستے وصول کررہے تھے۔اسی دوران ایک 25سالہ عورت اپنے دونوں ہاتھ میں پھولوں کاایک گلدستہ لیے ہوئے راجیوگاندھی کی طرف بڑھی۔راجیوبھی احساس فتح کے ساتھ اس کی طرف بڑھے۔کیوں کہ ہرجگہ عوامی استقبال نے انہیں یقین دلایاتھاکہ اس الیکشن کے بعد وہ ملک کے وزیراعظم بننے والے ہیں۔
عورت نے قریب آکراپناگلدستہ راجیوگاندھی کی طرف بڑھایا۔مگراس عورت کاتعلق خودکشی دستہ suicide squad سے تھا اوروہ اپنے جسم پرخطرناک بم باندھے ہوئے تھی۔راجیوگاندھی نے گلدستہ اپنے ہاتھ میں لیاہی تھا کہ بم پھٹ گیا۔راجیوگاندھی پوری طرح اس کی ز د میں آگئے۔ان کاجسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔اسی لمحہ ان کی موت واقع ہوگئی۔
بظاہریہ بم کادھماکہ تھا،مگرحقیقۃً وہ موت کادھماکہ تھا جوہرانسان کے لیے مقدرہے۔اس اعتبار سے یہ صرف راجیوگاندھی کی کہانی نہیں بلکہ ہر انسان کی کہانی ہے۔ہرآدمی یہ سمجھتاہے کہ وہ کامیابی کی طرف بڑھ رہاہے۔ہر آدمی کاہاتھ خوشیوں کے گلدستہ پرہے۔مگراصل حقیقت اس کی امیدوں کے بالکل برعکس ہے۔جس چیز کوآدمی گلدستہ سمجھ کروصول کررہاہے وہ اس کے لیے ہلاکت کا بم ہے۔
اس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جن کوموت سے پہلے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوئی جنھوں نے اپنی زندگی کورب کائنات کی اطاعت میں گزارا۔جن کی موت اس حال میں آئی کہ وہ اپنے پرچۂ امتحان کوکامیابی کے ساتھ حل کرچکے تھے۔