سوچنے کا طریقہ

ماہنامہ الفرقان (لکھنؤ) کے شمارہ اپریل ۲۰۰۴ میں ایک رپورٹ چھپی ہے جس کا عنوان یہ ہے: ’’ادارہ الفرقان کی زندگی کا ایک یادگار دن‘‘۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ۲۷ فروری ۲۰۰۴ کو ندوہ (لکھنؤ) کے شبلی ہال میں ایک جلسہ ہوا جس میں علماء اور طلباء بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ یہ جلسہ مولانا محمد منظور نعمانی کے درس قرآن کی اشاعت کے سلسلہ میں تشکر اور تعارف کے موضوع پر ہوا تھا۔

اس جلسہ کے صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی تھے۔ اس روداد کے مرتب مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ہیں۔ اس جلسہ کے موقع پر شبلی ہال مکمل طورپر بھرا ہوا تھا۔ اس میں مختلف علماء نے تقریریں کیں۔ ان مقررین میں سے ایک ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی تھے۔ وہ دینی تعلیمی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں ان میں سے ایک ان کا ذاتی مشاہدہ تھا۔ ان کی تقریر کے اس حصہ کو الفرقان سے لے کر یہاں نقل کیا جاتا ہے:

ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے، مولانا محمد منظور نعمانی کے طرز کلام کی خصوصیات اور ان کی تقریروں کا جو غیر معمولی اثر سننے والوں پر پڑا کرتاتھا، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ۱۹۵۳ میں بستی کے ایک اجلاس میں جس میں بڑی تعداد میں غیر مسلم خواص بھی مدعو کیے گئے تھے، توحید کے موضوع پر ان کی ایک تقریر کا ذکر، بطور مثال کیا اور کہا کہ اس تقریر کے سننے والوں میں انٹرکالج میں ہندی کے ایک لکچرر جناب گنیش پرشاد سریواستوا صاحب بھی تھے۔ رات میں تقریر سن کر وہ چلے گئے اور رات بھر روتے رہے۔ دوسرے دن صبح کو ایک مخصوص نشست رکھی گئی تھی اس میں بھی وہ آئے۔ مولانانعمانی کی ان پر نظر پڑی۔ مولانا نے ان کو اپنے پاس بلا لیا۔ دونوں میں تعارف ہوا اور پھر ہم لوگوں نے دیکھا کہ گنیش پرشاد سریواستوا اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے، وہ زاروقطار رونے لگے۔ ہم نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے سُنا کہ مولانا! جس طرح کی تقریر آپ نے توحید کے موضوع پر کی ہے۔ اگر اس کا سلسلہ ہندستان میں شروع ہوجائے تو کم ازکم ہم جیسے لوگ تو اسلام سے بہت قریب آجائیں گے۔ بعد میں بستی میں یہ بھی مشہور ہوا کہ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، واللہ اعلم۔ بہر حال عجیب و غریب اثر رکھا تھا اللہ نے مولانا محمد منظور نعمانی کی تقریر اور تحریر میں۔‘‘ (صفحہ ۱۵)

مذکورہ واقعہ پچاس سال سے بھی زیادہ پہلے ۱۹۵۳ میں پیش آیا۔ یہ واقعہ ہندستان میں عظیم دعوتی امکان کو بتارہا تھا۔ اس اعتبارسے اس میں علماء کے لیے یہ اہم رہنمائی موجود تھی کہ اس ملک میں انہیں کیا کرنا چاہیے۔ اُس وقت ملک میں بڑے بڑے علماء موجود تھے مگر اس پہلو سے کچھ بھی نہ کیا جاسکا۔ اس کا سبب سوچنے کا ایک غلط طریقہ تھا۔ جیسا کہ اقتباس سے واضح ہے، لوگوں نے اس واقعہ کو صرف مقرر کی شخصی تعریف کے معنٰی میں لیا۔ وہ یہ سوچ کر خوش ہوگئے کہ ہمارے فلاں عالم عجیب وغریب قسم کی تقریر کرتے ہیں۔ اُن کی تقریر میں سحر انگیز اثر پایا جاتا ہے۔

اس معاملہ میں سوچنے کا دوسرا زیادہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ اُس کو دعوتی امکان کے پہلو سے لیا جاتا۔ یعنی یہ کہ اس ملک میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو دین حق کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر اُس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے بعد ہندستان کے بڑے بڑے علماء کا ایک جلسہ کسی مرکزی شہر میں کیا جاتا۔ اس جلسہ میں یہ بتایا جاتا کہ واقعات کی روشنی میں ضروری ہوگیا ہے کہ ہندستان میں دینی کام کے لیے ہم اپنے پورے نقشہ کو بدل دیں۔ اب یہاں کام کا نیا منصوبہ بنایا جائے۔

اس جلسہ میں بتایا جاتا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کرو، اس کے بعد ہی دوسروں میں دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے، ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اعلان کریں کہ ہم غلطی پر تھے۔ مسلمانوں کی موجودہ اخلاقی حالت ہی میں یہاں دعوت کے غیر معمولی امکانات موجود ہیں جن کو ہمیں استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پہلے مکمل اسلامی نظام قائم کرکے دکھاؤ، اس کے بعد ہی دوسرے لوگ اسلام کی طرف راغب ہوں گے، ایسے لوگوں کی سوچ بھی سرتا سر غلط ہے۔ کیوں کہ واقعات بتاتے ہیں کہ ’’مکمل اسلامی نظام‘‘ کے نفاذ سے پہلے ہی خدا کے بندے اسلام کو اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کا اکثریتی طبقہ اسلام کا دشمن بن چکا ہے، وہ ہمارا حریف ہے، نہ کہ مدعو، ایسے لوگوں کو بھی کھلے طورپر ماننا چاہیے کہ یہ سوچ بالکل غلط تھی۔ اس ملک کے اکثریتی فرقے کے اندر آج بھی اسلام کے لیے نرم گوشہ موجود ہے جس کو ہم حکمت کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں۔

اسی طرح ہندستان میں بہت سے مسلمان ہیں جو آزادی (۱۹۴۷) کے بعد طرح طرح کے ناموں سے جزئی مقاصد کے لیے جماعتیں اور تنظیمیں بنائے ہوئے ہیں۔ ان سب کو کھُلے طورپر یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ہماری سوچ درست نہ تھی۔ اسلام کا سب سے بڑا کام دعوتی کام ہے۔ اور جب دعوتی کام کے روشن امکانات موجود ہوں تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ہر دوسرے کام کو چھوڑ کر اپنی ساری طاقت دعوت کے محاذ پر لگا دی جائے۔

اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کا جان ومال محفوظ نہیں،0 ان کی دینی اور ملّی شناخت کو مٹایا جارہا ہے۔ ایسے لوگوں کو بھی یہ کھلا اعلان کرنا چاہیے کہ مفروضہ یا غیر مفروضہ خطرہ کے ب اوجود اس ملک میں اسلام پوری طرح محفوظ ہے اور ہمارے لیے یہ امکان موجود ہے کہ ہم اسلام کے پیغام کو لے کر آگے بڑھیں اور پھر یقینی طورپر یہاں وہ منظر دکھائی دے گا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم۔

مگر عجیب بات ہے کہ اس کے بعد ان میں سے کوئی بھی کام نہ ہوسکا۔ کسی اعلان کرنے والے نے اس قسم کا اعلان نہیں کیا۔۱۹۵۳ کے بعد سے اب تک سینکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کے بڑے بڑے جلسے ہوئے۔ ان جلسوں میں پُر جوش الفاظ میں یہ کہاگیا کہ اس ملک میں اسلام خطرہ میں ہے۔ مگر کسی بھی جلسہ میں مسلم رہنماؤں نے یہ زیادہ اہم بات نہیں بتائی کہ تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں اسلام پیش قدمی کی پوزیشن میں ہے۔ حتیٰ کہ یہاں کے باشندے اس فارسی شعر کا مصداق ہیں:

ہمہ آہوانِ صحرا سر خود نہادہ برکف    بہ امید آں کہ روزے بہ شکار خواہی آمد

یہ فرق کیوں ہوا۔ یہ سوچ میں فرق کا نتیجہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ سوچنے کے دو طریقے بالکل الگ الگ ہیں۔ ایک ہے، فخر کے جذبہ کے تحت سوچنا اور دوسرا ہے، دعوت کے جذبہ کے تحت سوچنا۔ فخر کے جذبہ کے تحت سوچنے والوں کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنی محبوب شخصیت کا کمال بتا کر مطمئن ہوجائیں اور اس کو بیان کرکے اپنے آپ کو خوش کرتے رہیں۔

سوچ کا دوسرا طریقہ وہ ہے جو دعوتی مقصد پر مبنی ہو۔ ایسے لوگ اس قسم کے معاملہ کو دعوتی امکان کے روپ میں لیں گے۔ وہ اس میں اپنے لیے مستقبل کا نقشۂ کا ر دریافت کرلیں گے۔ اُن کی سوچ اُنہیں یہ بتائے گی کہ جب زیادہ دوررس کام کے مواقع ہوں توچھوٹے چھوٹے کاموں میں وقت ضائع کرنا نادانی ہے۔ جب اسلام دلوں کو فتح کرنے کی پوزیشن میں ہو تو چھوٹی چھوٹی شکایتوں کو لے کر احتجاجی مہم چلانا صرف دیوانگی ہے۔ جب دین اسلام کے لیے نیا مستقبل پیدا کرنے کا موقع ہو تو شخصی کمال کو لے کر خوش ہونا اس شعر کا مصداق ہے کہ:

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا    ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom