ایک خط
برادر محترم اے۔ ایس شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۱ مارچ ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر آپ سے بات ہوئی۔ آپ نے کہا کہ اجودھیا کے مسئلہ کاحل کیا ہے۔ آپ نے بتایا کہ آج کل مسلمان اس معاملہ کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ ان کی جان اور مال اور عزت سب داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ سے لے کر اب تک ہزاروں مسلمان مارے جاچکے ہیں۔ مال اور جائداد کا نقصان اتنا زیادہ ہوا ہے جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ ان سب تباہیوں کے باوجود یہ مسئلہ اب تک ختم نہ ہوسکا بلکہ وہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں اسلام ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔ اس ایک مسئلہ کی وجہ سے دس سال سے زیادہ مدت سے یہاں کے مسلمان سخت تباہی سے دوچار ہیں مگر ابھی تک کسی عالم نے اس مسئلہ کا شرعی حل نہیں بتایا۔
میں عرض کروں گا کہ اصل مسئلہ شرعی حل کی موجودگی کا نہیں ہے بلکہ شرعی حل کو قبول کرنے کا ہے۔ آج کل کے مسلمان اس مسئلہ پر اتنا زیادہ جذباتی ہوگئے ہیں کہ وہ شرعی حل کو سننے اور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ حالانکہ دوسرے تمام مسائل کی طرح اس مسئلہ کا بھی شرعی حل موجود ہے اور عملاً عرب دنیا میں اس کو اختیار کیا جاچکا ہے۔
اس سلسلہ میں میں دو باتیں عرض کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ کسی مسئلہ کا حل عملی حالات کے اعتبار سے متعین ہوتا ہے، نہ کہ نظری معیار کے اعتبار سے۔۶ دسمبر ۱۹۹۲ سے پہلے کے حالات میں اس مسئلہ کا ایک سادہ حل موجود تھا اور وہ حل حضرت عمر کے الفاظ میں یہ تھا: أمیتوا الباطل بالصمت عنہ (باطل کو ہلاک کرو اس کے بارے میں چپ رہ کر)۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ سے پہلے اگر مسلمان یہ کرتے کہ بابری مسجد کے مسئلہ کو سڑکوں پر نہ لاتے۔ وہ اس مسئلہ پر جلسہ جلوس، ریلی اور مارچ کا طریقہ اختیار نہ کرتے۔ ان کے جذباتی لیڈر اس قسم کی تقریریں نہ کرتے کہ بابری مسجد کو چھوکر تو دیکھو۔ اگر مسلمان اس وقت یہ سب نہ کرتے اور خاموشی کی سیاست اختیار کرتے تو بابری مسجد کا مسئلہ ایک بستی کا صرف چھوٹا سا مسئلہ رہتا۔ ایسا کبھی نہ ہوتا کہ وہ پورے ملک کا مسئلہ بنے اور سارے ہندوؤں کے لئے قومی انا کا سوال بن جائے۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر اگر اس قسم کی حکیمانہ سیاست چلائی جاتی تو بابری مسجد کبھی نہ ٹوٹتی جیسا کہ اس سے پہلے ساڑھے چار سو سال تک وہ نہیں ٹوٹی ـتھی۔
مگر اب جب کہ ہمارے جذباتی لیڈروں کی غیر حکیمانہ سیاست کے نتیجہ میں ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد ڈھادی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کا ملبہ ہٹا کر وہاں ایک عارضی مندر بنادیا گیا۔ ایسی حالت میں صورت حال مکمل طورپر بدل چکی ہے۔ اب ہمیں بدلے ہوئے حالات کے اعتبار سے اس معاملہ میں شریعت کا حکم دریافت کرنا چاہئے۔
۶ دسمبر ۱۹۹۲ سے پہلے اس معاملہ میں یہ معمول کا ایک مسئلہ تھا۔ مگراب وہ ایک غیر معمولی مسئلہ بن چکا ہے۔ اور اب صرف غیر معمولی قانون کی روشنی میں اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔ اس غیرمعمولی صورت حال کو قرآن میں إضطرار (البقرہ ۱۷۳) کہا گیا ہے، یعنی مجبور ی کی حالت۔ متفقہ شرعی مسئلہ کے مطابق، جب مجبوری کی حالت آجائے تو حرام بھی اہل اسلام کے لئے حلال ہو جاتا ہے۔
اسی شرعی اصول کی بنا پر اسلامی فقہ میں وہ مشہور مسئلہ بنا ہے جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ اس کو عام طورپر ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان (زماں اور مکاں کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں) اسی طرح فقہ کا یہ مسلمہ اصول ہے: الضرورات تبیح المحظورات۔یہ ایک عالمی اصول ہے اور جدید قانون میں اس کو قانونِ ضرورت (law of necessity) کہا جاتا ہے۔ اسی قانون ضرورت کے تحت موجودہ زمانہ میں سعودی عرب، مصر اور دوسرے عرب ملکوں میں سیکڑوں کی تعداد میں مسجدیں اپنی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ بنائی گئی ہیں، جس کو عام طور پر ری لوکیشن (re-location) کہا جاتا ہے۔
عرب ملکوں میں مسجد کی تبدیلی ٔ مقام کا یہ عمل زیادہ تر شہری منصوبہ بندی (city planning) کی ضرورت کے تحت کیا گیا ہے۔ ایسی حالت میں ہندستان کا مسئلہ اور بھی زیادہ شدید ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں جان ومال کی تباہی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے جو تمام ضرورتوں سے زیادہ شدید ضرورت ہے۔ ایسی حالت میں علماء کو چاہئے کہ وہ متفقہ طورپر یہ اعلان کردیں کہ اس معاملہ میں ضرورت شدیدہ کی صورت پیدا ہوگئی ہے اور اب شرعی طورپر یہ جائز ہوگیا ہے کہ اجودھیا کی مسجد کا مقام تبدیل کردیا جائے تا کہ مسلمانوں کی جان و مال اور عزت محفوظ ہو سکے اور ملک میں امن و امان قائم ہوسکے۔
کچھ مسلم دانشوروں کی طرف سے اس نزاع کا یہ حل پیش کیا گیا ہے کہ بابری مسجد کو ری لوکیٹ (re-locate) کردیا جائے۔ اس طرح یہ نزاع اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔ مگر مسجد کا مسئلہ ایک خالص دینی اور شرعی مسئلہ ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ صرف اس وقت ختم ہوسکتا ہے جب کہ اس کے اس حل کو علماء کی طرف سے پیش کیا جائے۔ غیر علماء کے بیانات اس مسئلہ کا قابل قبول حل نہیں بن سکتے۔
یہاں اس معاملہ کا ایک اور پہلو قابل ذکر ہے۔ قرآن میں اضطرار کا حکم جس سیاق میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی موقع پر آدمی کو حلال خوراک حاصل نہ ہو اور اس کے لئے بھوک سے موت کا خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ حرام مثلاً خنزیر یا مردار کا گوشت کھا سکتا ہے۔ علماء تفسیر نے لکھا ہے کہ ایسے موقع پر جان بچانے کے لئے اکل حرام کا معاملہ رخصت نہیں ہے بلکہ وہ عزیمت ہے۔ ایسے موقع پر نہ کھانا ایک گناہ کا فعل ہے۔ ایسے اضطرار کے موقع پر اکل حرام واجب ہوجاتا ہے۔ ایسے موقع پر نہ کھانا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے جو کسی کے لئے جائز نہیں۔ ایسے موقع پر اگروہ نہ کھائے تو یہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے جو گناہ کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے۔ جب اکل حرام ضروری ہو جائے تو وہ آدمی کے لئے رخصت نہیں بلکہ عزیمت بن جاتا ہے۔ اگر ایسے موقع پر وہ نہ کھائے تو وہ گنہگار ہوگا۔ مسروق تابعی نے کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص مردار کھانے پر مجبور ہو جائے اور وہ اس کو نہ کھائے اور اسی حالت میں مرجائے تو وہ جہنم میں جائے گا:
بَل رُبمَا یأثم بترک التناول (روح المعانی) وَھٰہُنا یَتَحقَّقُ معنی الوُجوب (تفسیر الرازی) ولا خلاف انّہ لَا یَجُوزُ لَہ قَتلُ نَفْسِہٖ بامساک عن الأکل و انہ مامور بالأکل علی وجہ الوجوب (تفسیر القرطبی) لو ترک الأکل تلف نفسہ تلک أکبر المعاصی (تفسیر القرطبی) وقال الطبری لیس عند الضرورۃ رخصۃ بل ذلک عزیمۃ واجبۃ و لَو امتَنَع مِنَ الاکل کانَ عَاصِیاً (البحر المحیط) و قال مَسْروقٌ بَلَغَنِی أنَّہ مَنِ اضطُرَّ الَی المَیْتَۃِ فلم یأکل حتی مات دخل النار کأنہ اشار الی أنہ قاتِلُ نفسِہ بِتَرکِہ مَا اَباحَ اللّٰہُ لہ (البحر المحیط)ھذا یقتضی أن أکل المیتۃ للمضطر عزیمۃ لا رخصۃ (تفسیر ابن کثیر)
اس شرعی مسئلہ کا انطباق اگر بابری مسجد کے مسئلہ پر کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ مسئلہ اس ضرورت شدیدہ کی حد تک پہنچ چکا ہے جہاں اب تبدیلی ٔ مقام صرف ایک جواز کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ وہ وجوب کے درجہ کو پہنچ چکا ہے۔ ایسا نہ کرنا مسلمانوں کو مسلسل جان اور مال کے عظیم خطرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ جب نقصان اس سنگین حالت تک پہنچ جائے تو اس وقت اس مسئلہ کا مذکورہ حل اختیار نہ کرنا شریعت سے انحراف ہوگا،نہ کہ اس کو اختیار کرنا۔
اجودھیا کے مسئلہ کے معاملہ میں قانونی انصاف اور قانونی بے انصافی کی بحث نکالنا کوئی دانشمندی کی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی معاملہ جب سنگین نزاکت کے اس مرحلہ تک پہنچ جائے جیسا کہ اجودھیا کا معاملہ پہنچ چکا ہے تو قانونی انصاف کا حصول عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں انتخاب (choice) قانونی بے انصافی اور جان ومال کی حفاظت کے درمیان بن جاتا ہے، نہ کہ قانونی انصاف اور قانونی بے انصافی کے درمیان۔ یہ معاملہ جس انتہائی شدید حالت تک پہنچا دیا گیا ہے، اب مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک قانونی بے انصافی کو گوارا کریں یا پوری قوم کی جان ومال کو انتہائی سنگین خطرہ میں ڈال دیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص اپنے ذاتی معاملہ میں یہی کرتا ہے کہ اس طرح کے موقع پر وہ جان ومال کی حفاظت کو ترجیح دیتے ہوئے قانونی یا منطقی بے انصافی کو برداشت کرلیتا ہے۔ پھر اس عمومی مسلک کو اجودھیا کے معاملہ میں بھی کیوں نہ اختیار کر لیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو صلح حدیبیہ کی گئی وہ اس معاملہ میں ایک رہنما مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ معاہدہ فریقِ ثانی کی جن یک طرفہ شرطوں پر ہوا وہ واضح طورپر ایک ناانصافی کا معاملہ تھا۔ مگر آپ نے اس ناانصافی کو چھوٹی برائی (lesser evil) سمجھ کر قبول فرمالیا۔ کیونکہ اگر آپ اُس وقت اس بظاہر نا انصافی کو قبول نہ فرماتے اور نظری انصاف پر اصرار کرتے تو قتل وخون کی نوبت آتی جو یقینا زیادہ بڑی برائی (greater evil) کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ ایک سنت رسول ہے جووقتی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ اس سنت میں اگلے زمانہ کے تمام مسلمانوں کے لیے رہنمائی موجود ہے۔
اس سلسلہ میں یہ اندیشہ ایک بے بنیاد اندیشہ ہے کہ اگر ایک مسجد کے معاملہ میں سمجھوتہ کر لیا گیا تو بقیہ مسجدوں کے معاملہ میں بھی اسی قسم کے سمجھوتے کا دروازہ کھل جائے گا۔ قرآن اس قسم کے اندیشہ کو بے بنیاد بتاتا ہے (الأنفال ۶۲)ملک کے حالات بھی اس اندیشہ کی تائید نہیں کرتے۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے ایکٹ (Places of Worship Act 1991) میں یہ قانونی ضمانت دی گئی ہے کہ بابری مسجد کو چھوڑ کر بقیہ تمام مسجدوں کو ان کی ۱۹۴۷ کی حالت (statusquo) پر باقی رکھا جائے گا۔ بنارس اور متھرا اور دوسری جگہ کے ہندوؤں نے متفقہ طورپر یہ تجاویز منظور کی ہیں کہ مندر۔مسجد تحریک کو ان کے شہروں میں نہ لایا جائے۔ بابری مسجد ڈھانے کے غیر قانونی فعل کو ہندو عوام نے پسند نہیں کیا۔ اس کاایک ثبوت یہ ہے کہ ۱۹۹۳ اور پھر۲۰۰۲ کے اتر پردیش کے ریاستی الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہندوؤں کے ووٹ اتنے کم ملے کہ وہ دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہی، وغیرہ۔
اجودھیا کا معاملہ اتنا زیادہ نازک بن چکا ہے کہ اگر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ صد فی صد مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دے دے تب بھی اس سے اصل مسئلہ حل ہونے والا نہیں،بلکہ اندیشہ ہے کہ وہ شدید تر نہ ہوجائے۔ سخت اندیشہ ہے کہ اس کے بعد عام ہندوؤں کا ذہن یہ بن جائے کہ انڈیا کا سیکولرزم مسلمانوں کے موافق ہے اور ہندوؤں کے خلاف۔ اس لئے جس طرح پاکستان کو اسلامی ریاست بنا دیا گیا اسی طرح انڈیا میں بھی ہندو ریاست کا اعلان کر دیا جائے۔ اگر ہندوؤں میں اس طرح کا عمومی ذہن بنا دیا گیاتو اس کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کا وہی حال ہو جائے گا جو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کا عملاً ہوچکا ہے (لا قدّر اللّٰہ)
آخری بات یہ کہ ہندستان میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ کسی ایک مسجد کی تعمیر نو کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ وسیع تر معنوں میں وہ خود اسلام کی تعمیر نو کا مسئلہ ہے۔ پہلے مسئلہ کے مقابلہ میں دوسرا مسئلہ ہزاروں گنا زیادہ بڑا اور اہم ہے۔ اس بارے میں یقینی طورپر دو رائے نہیں ہوسکتی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی نئی تعمیر صرف معتدل حالات میں ہو سکتی ہے۔ نزاع اور ٹکراؤ کے ماحول میں اس قسم کا مثبت کام نہیں ہوسکتا ــــہندستان کے مسلمانوں کو ہمیں تعلیم یافتہ بنانا ہے۔ ہمیں ان کے اندر اتحاد کی فضا قائم کرنا ہے۔ ہمیں دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق، نئی تعلیم گاہیں قائم کرنا ہے۔ ہمیں جدید معیار کے مطابق، اسلامی صحافت وجود میں لانا ہے۔ ہمیں برادرانِ وطن تک ان کی اپنی زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔ ہمیں اسلامی خطوط پر مسلم معاشرے کی اصلاح کرنا ہے۔ ہمیں مسلمانوں کے معاشی پچھڑے پن کو دور کرنا ہے۔ ہمیں مسلم نوجوانوں کے اندر مثبت طرز فکر لانا ہے، وغیرہ۔
ہندستان کے مسلمانوں کی تعمیر و استحکام کے لئے اس قسم کے بہت سے ضروری کام ہیں جو ابھی تک اپنی ابتدائی حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانوں کو وہ معتدل حالات نہ مل سکے جس میں مثبت تعمیر کا کام کیا جاتا ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم اس معاملہ میں پوری طرح باشعور ہوجائیں ۔ ہم یک طرفہ طورپر ذمہ داری لیتے ہوئے ٹکراؤ اور نزاع کے ماحول کو ختم کردیں تاکہ تعمیر و استحکام کا وہ کام ہوسکے جو اب تک نہ ہوسکا۔
ہندستان میں مسلمانوں کی موجودہ تعداد ۲۲کروڑ ۶۴ لاکھ ہے (دینک بھاسکر، بھوپال، ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۱)۔ اس کے مطابق، ہندستان میں اس وقت کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ مسلمان آباد ہیں،حتیٰ کہ انڈونیشیاسے بھی زیادہ۔مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ابھی تک ایک غیر اہم ملت بنی ہوئی ہے۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ انہیں کام کرنے کا معتدل ماحول اب تک حاصل نہ ہوسکا۔اب مسلمانوں کو خود اس کی ذمہ داری لیتے ہوئے یک طرفہ بنیاد پر نارملائزیشن کا عمل جاری کرنا چاہئے۔ اس قسم کا ماحول سب سے زیادہ مسلمانوں کے لئے مفید ہے۔اس لئے تنہا انہی کو یہ کام کرنا ہے۔ یہ کام صبر اور تحمل اور اعراض کی پالیسی کے ذریعہ ہی انجام دیا جاسکتا ہے، اس کے بغیر سازگار ماحول کا قیام ممکن نہیں۔
۱۴ مارچ ۲۰۰۲ دعا گو وحیدالدین
ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مولانا اقبال اعظمی قاسمی (۶۵ سال) لِسٹر (برطانیہ) میں رہتے ہیں۔ ۳۱ مئی ۲۰۰۳ کو ان سے اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ کیا وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل (directionless) قوم بن گئے ہیں۔ آخر اس کا سبب کیا ہے۔ اس سوال کا جواب میں نے قرآن کی ایک آیت کی روشنی میں دینے کی کوشش کی۔ پھر یہی موضوع یکم جون ۲۰۰۳ کو ہمارے ہفتہ وار درس میں بھی زیر بحث رہا۔ اس گفتگو کاخلاصہ یہاں درج ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں ایک نہایت اہم ہدایت دی گئی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور یہ تو نہ تھا کہ سارے اہل ایمان نکلتے تو ایسا کیو ں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرتا اور واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا تاکہ وہ بھی پرہیز کرنے والے بنتے (التوبہ ۱۲۲)
اس آیت کا مصداق بوقت نزول یہ تھا کہ مختلف قبیلوں سے منتخب افراد نکل کر مدینہ آئیں اور کچھ دن پیغمبر کی صحبت میں رہ کر تفقہ فی الدین کا ملکہ پیدا کریں۔ پھر واپس جاکر وہ اپنے لوگوں میں دعوت و اصلاح کا کام کریں۔
اس قرآنی ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک غیر سیاسی قسم کی مرکزی دینی شخصیت یا غیر سیاسی مرکزی ادارہ موجود ہو۔ یہ شخصیت یا ادارہ لوگوں کے لیے تفقہ فی الدین کا مرجع ہو۔ لوگ اس سے رجوع ہو کر دینی بصیرت حاصل کریں۔ اور یہ کہ اس کے تحت تربیت پا کر ایسے اصحاب بصیرت تیار ہوں جو پیش آمدہ امور میں مسلمانوں کی صحیح دینی رہنمائی کریں۔ اس قرآنی آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ امت کے درمیان ایک فقیہ المسلمین ہونا چاہئے۔ فقیہ المسلمین کا یہ تصور گویا کہ زیادہ بہتر طورپر اس اجتماعی مقصد کو حاصل کرنا ہے جو دوسرے مذہبوں میں پوپ، اور گرو یا امام معصوم کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ پوپ یا گرو یا امام معصوم کی تعلیم کو مقدس عقیدہ کی حیثیت دے دی گئی ہے، جب کہ قرآن کے مطابق، فقیہ المسلمین کے ادارہ کی اہمیت عقیدہ کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت عملی ضرورت کے اعتبار سے ہے۔
فقیہ المسلمین کا یہ ادارہ اہل اسلام کے لیے فکری اعتبار سے ابدی رہنما کی حیثیت رکھتا تھا مگر بعد کے زمانہ میں یہ سیاسی غلطی ہوئی کہ فقیہ المسلمین کے بجائے خلیفۃ المسلمین کو اجتماعی ادارہ سمجھ لیا گیا۔ اور جب خلیفۃ المسلمین کا سیاسی ادارہ مسلمانوں میں موجود نہ رہا تو خلیفۃ المسلمین کے ادارہ کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے لڑائی شروع ہوگئی جو آج تک ختم نہ ہوئی۔
اس سلسلہ میں دوسری غلطی یہ ہوئی کہ عباسی خلافت کے زمانہ میں علماء نے تفقہ کا عمل شروع کیا تو تفقہ کے تصور کو گھٹا کر اس کو جزئی شرعی مسائل کی تحقیق کے ہم معنٰی بنا دیا گیا۔ جزئی مسائل کی یہ بحث بجائے خود اہم ہوسکتی ہے مگر وہ تفقہ فی الدین کے مدعا کی تکمیل ہر گز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تفقہ فی الدین کے اسی ادارہ کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل اور بے نشان قوم بن گئے ہیں۔ ہر جگہ وہ بے مقصد جدال و قتال میں مصروف ہیں۔ ان کے درمیان کوئی ایسا فکری ادارہ نہیں جو انہیں ان کے مسائل میں صحیح اور بروقت رہنمائی دے اور ان کی سرگرمیوں کو نتیجہ خیز رخ کی طرف موڑ دے۔ تفقہ فی الدین کے ادارہ کو دوسرے لفظوں میں اسلامک تھنک ٹینک کہا جاسکتا ہے۔
مثال کے طورپر ۲۰۰ سال پہلے مسلمانوں کو نو آبادیاتی قوموں کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔ اس وقت اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ حالت میں موجود ہوتا تو وہ انہیں بتاتا کہ یہ سازش اور دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ طاقت کا توازن بدل جانے کا مسئلہ ہے اس لیے تم نئے معیار کے مطابق اپنے آپ کو مستحکم بنانے کی کوشش کرو۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں جہاد کے نام پر بہت سی تباہ کن سرگرمیاں جاری ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ جہاد حکومت کا کام ہے وہ عوام کا کام نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان دوسری قوموں کو دشمن قرار دے کر ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ مسلمانوں کو بتاتا کہ یہ غیر مسلم تمہارے مدعو ہیں اور مدعو سے نفرت کرنا جائز ہی نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان مغربی تہذیب کو اسلام کے حریف کے طورپر دیکھتے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کاادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ مغربی تہذیب اسلام کی حریف نہیں، وہ نئے مواقع کی نقیب ہے۔ تم ان مواقع کو پہچانو اور ان کو اسلام کے حق میں استعمال کرو۔
ضرورت ہے کہ فقیہ المسلمین کے ادارہ کو ایک غیر سیاسی ادارہ کی حیثیت سے دوبارہ زندہ کیا جائے اور خلیفۃ المسلمین کے سیاسی ادارہ سے الگ کرکے اس کو ڈیولپ (develop) کیا جائے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے احیاء (revival) کا یہی واحد نقطۂ آغاز ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۴ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جب اُن کو کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو وہ اُس کو پھیلادیتے ہیں۔ اور اگر وہ اُس کو رسول تک یا اپنے ذمّہ دار اصحاب تک پہنچاتے تو اُن میں سے جو لوگ تحقیق کرنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت جان لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے (النساء ۸۳)
قرآن کی اس ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہم اجتماعی امور میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہر آدمی اُن پر اظہار خیال کرنا شروع کردے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملہ کو ذمہ دار افراد تک پہنچایا جائے اور وہ غور و فکر کے بعداُس پر اپنے فیصلہ کا اعلان کریں۔ یہی معاملات کی درستگی اور اصلاح کا واحد یقینی طریقہ ہے۔
قرآن کے مطابق، خلافت یا سیاسی اقتدار ایک امتحان کی چیز ہے، وہ کسی ایک گروہ کے پاس ہمیشہ نہیں رہتا اورنہ رہ سکتا۔ اس لیے مذکورہ قسم کی فکری تنظیم کے لیے سیاسی ادارہ پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ اس کے لیے غیر سیاسی ادارہ ہو جو مستقل طورپر اور ہر حال میں باقی رہے۔ فقیہ المسلمین کا ادارہ اسی قسم کاایک مستقل ادارہ ہے۔ وہ ہمیشہ اورہر حال میں مسلمانوں کی فکری رہنمائی کا ضامن ہے۔ اس لیے فقیہ المسلمین کے ادارے کے قیام کی کوشش سیاسی ادارہ کے قیام سے بھی زیادہ کی جانی چاہئے۔
نئی دہلی، ۲جون ۲۰۰۳ دعاگو وحید الدین
ایک خط
برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
مہاراشٹر کے سفر کے دوران ۲۷ نومبر ۲۰۰۳ کو میں ناگپور پہنچا تھا۔ ۲۹ نومبر کو واپسی ہوئی۔ اس دوران کئی قیمتی قسم کے سبق آموزتجربے ہوئے۔آپ ان تجربات کا ذریعہ بنے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
۱۔ آپ نے ناگپور شہر دکھایا۔ چار سال پہلے میں ناگپور آیا تھا۔ اب اس سفر میں اندازہ ہوا کہ اس مدت میں ناگپور شہر کے اندر بہت سی ترقیاں ہوئی ہیں۔ وہاں کی سڑکیں چوڑی کی گئی ہیں۔ صفائی کا خصوصی اہتمام ہے۔ ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ اس ترقیاتی کام سے ہر فرقہ کو غیر معمولی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ ترقی کے سلسلہ میں اصل اہمیت اچھے انفراسٹرکچر کی ہوتی ہے اور ناگپور کے لوگوں کو یہی چیز حاصل ہوئی۔
معلوم ہوا کہ یہ سارا کام ایک کمشنر نے انجام دیا ہے۔ اس نے نہایت حکمت کے ساتھ متعلقہ ذمہ داروں کو اپنے ساتھ لیا اور عوام کی تائید حاصل کی۔ اس کام کے لیے ورلڈ بینک سے مالیاتی امداد ملی تھی۔ اس طرح تین سال کی قلیل مدت میں ناگپور کا نقشہ بدل گیا۔ ضرورت ہے کہ ہندستان کے ہر شہر میں اسی طرح انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ یہی قومی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر ترقی کی طرف دوڑنا چاہتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اُس کو کھلا راستہ فراہم کردیا جائے۔
۲۔ میں اس سے پہلے کئی بار ناگپور گیا ہوں ۔ مگر ایک بات کا مجھے اب تک اندازہ نہ ہو سکا تھا۔ آپ نے اس باراسے دکھایا۔ وہ یہ کہ ناگپور میں وہاں کے مسلمانوں کا ایک ایجوکیشنل ایمپائر موجود ہے۔ انجمن حامئی اسلام کے تحت قائم شدہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اسی کا حصہ ہیں جس کے موجودہ صدر جناب جسٹس ایم ایم قاضی ہیں۔ یہ سب چیزیں بلا شبہ خوشی کا باعث تھیں۔
۳۔ ایک اور قابل ذکر چیز جو میں نے اس سفر میں پائی وہ خود آپ کی فیملی تھی۔ میں نے پایا کہ آپ کی فیملی میں ساس اور بہو جیسے جھگڑے نہیں ہیں۔ آپ کی فیملی ایک پرسکون فیملی ہے۔ آپ کی اہلیہ سے میں نے پوچھا تھا کہ کامیاب خاندانی زندگی کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ:صبرو برداشت۔ میں سمجھتا ہوں کہ کامیاب خاندانی زندگی گزارنے کے لئے یہی واحد کارگر فارمولا ہے۔
۴۔ چوتھی چیز وہ ہے جو آپ کے صاحب زادہ زبیر احمد اکبانی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے کاروبار کو مینجیبل لمٹ (Manageable limit)کے اندر رکھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب سے ہم نے یہ فیصلہ لیا ہے ہم کو ذہنی سکون بھی ملا ہے اور کاروباری ترقی بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فارمولا ہر کاروباری آدمی کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔
۵۔ آپ کے گھر کی دیوار پر ایک قرآنی آیت لکھی ہوئی نظر آئی: ھٰذا من فضل ربی لیبلونی ئَ اَشکر اَم اکفر (النحل ۴۰)میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر لوگ جب گھر بناتے ہیں تو وہ اپنے گھر پر اس آیت کا صرف ایک حصہ(ھٰذا من فضل ربی) لکھتے ہیں۔ آپ نے اس کے برعکس پوری آیت لکھی ہے۔آیت کا صرف ایک حصہ لکھنا قرآن کے اصل مفہوم کو واضح نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق، گھر یا مادّی نفع جو اس دنیا میں کسی کو ملتا ہے وہ نوازش کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ جانچ کے طور پر ہوتا ہے۔ اس دنیا میں ہر مادی چیز امتحان کا ایک پرچہ ہے۔اُس کے ذریعہ خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آدمی اُس کو پا کر خدا کا شکر گذار بنایا وہ سرکش ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان پر خدا کا یہ سب سے بڑا حق ہے کہ وہ ہر ملی ہوئی چیز کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اُس پر اس کا شکر ادا کرے۔ جو آدمی دل سے خدا کا شکر ادا کرے وہ امتحان میں کامیاب ہوا اور جس کے دل میں شکر کا جذبہ نہیں اُمڈا وہ اپنے امتحان میں نا کام ہو گیا۔ میرے تجربہ کے مطابق، آپ کا گھروہ گھر تھا جہاں میں نے لوگوں کی زبان پر شکر کا چرچا پایا۔ جہاں افرادِ خانہ کے اندر یہ زندہ شعور موجود تھا کہ اگر نہ ملے ہوئے کو پانا چاہتے ہو تو پہلے ملے ہوئے پر دینے والے کا شکر ادا کرو۔ شکر در اصل مزید عطیہ کے لیے استحقاق کی حیثیت رکھتا ہے۔
نئی دہلی، ۹ دسمبر ۲۰۰۳ دعا گو وحیدالدین