خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۲
۱۔ ہرمن روبنگھ (Herman Robongh) ایک برطانی اسکالر ہیں۔ آج کل وہ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے تحت ریسرچ کررہے ہیں۔ اُن کی ریسرچ کا موضوع مولانا حمید الدین فراہی کا اصول تفسیر ہے۔ اس سلسلہ میں وہ ۵ دسمبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز سے ملے اور مذکورہ موضوع پر تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مولانا حمید الدین فراہی نے بعض پہلوؤں سے قرآن کی خدمت کی ہے مگر اُن کا یہ کہنا کہ نظم قرآن قرآن فہمی کی اصل کلید ہے، قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ یہ تصور نہ قرآن وحدیث سے ثابت ہوتا ہے، نہ صحابہ کے اقوال سے اور نہ مفسرین کے اُصول تفسیر میں وہ ملتا ہے۔ مولانا فراہی کی یہ اجتہادی غلطی ہے کہ اُنہوں نے قرآن فہمی کے سلسلہ میں ایک جزئی پہلو کو کلّی اہمیت دے دی۔
۲۔ دہلی پیس سمٹ (Delhi Peace Summit) کی طرف سے نئی دہلی میں چنمیا مشن کے آڈیٹوریم میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس میں انڈیا کے علاوہ باہر کے ملکوں کے لوگ شریک ہوئے۔ اُس کا موضوع انٹرفیـتھ ڈائیلاگ تھا۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس کے ۸ دسمبر ۲۰۰۳ کے سِشن میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ مختلف مذاہب کے درمیان اختلافات ہیں۔ اس کا فارمولا اسلام کی روشنی میں یہ ہے کہ —ایک کی پیروی کرو اور بقیہ کا احترام کرو:
Follow one and respect all.
اگر بالفرض دو مذہبوں کے درمیان کسی وجہ سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجائے تو اُس کو ہمیشہ امن کے دائرہ میں ہونا چاہئے۔ اُس کو کسی بھی حال میں یا کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ نہیں اختیار کرنا چاہئے۔ اس کانفرنس کی کارروائی پوری کی پوری انگریزی زبان میں ہوئی۔
۳۔ چنمیا مشن آڈیٹوریم (نئی دہلی) میں ۱۸۔۲۱ دسمبر کو ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کا موضوع یہ تھا:
Religions in the Indic Civilisation
یہ کانفرنس سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈولپنگ سوسائٹیز، انٹرنیشنل اسوسی ایشن فار دی ہسٹری آف ریلجنز اور انڈیا انٹرنیشنل سنٹر کے تعاون سے کی گئی۔ ۲۱ دسمبر کے سشن میں اس کا موضوع تھا: مختلف مذاہب میں خدا کا تصور۔ اس سشن میں صدر اسلامی مرکز کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ پروگرام کے مطابق، انہوں نے گاڈ ان اسلام (God in Islam) کے موضوع پر نصف گھنٹہ خطاب کیا۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ خدا کا تصور اسلام میں کیا ہے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں ہوا۔ اس کانفرنس میں انڈیا اور باہر کے تقریباً ۵۰۰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ خواہش مند افراد کو انگریزی کتابیں برائے مطالعہ دی گئیں۔
۴۔ رام کرشنا مشن (نئی دہلی) میں ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اُس کا موضوع تھا: انٹرریلیجس فیلوشپ (Inter-Religious Fellowship)۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور وہاں اسلام کے نقطۂ نظر سے مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ اُس کی تمام تعلیمات امن اور انسانیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ قرآن وحدیث کے دوسرے حوالوں کے علاوہ اُنہوں نے ایک مسنون دعا سنائی اور اس کا انگریزی ترجمہ بتایا جس کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وہ دعا یہ ہے: اللہم انت السلام و منک السلام والیک یرجع السلام۔ حیّنا ربنا بالسلام و ادخلنا دارک دار السلام۔ تبارکت ربنا وتعالیت یا ذا الجلال والاکرام۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں ہوا۔
۵۔ ای ٹی وی (Enadu T. V.) کے اسٹوڈیو (Noida) میں ۲۸ دسمبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ٹی وی انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔ یہ آدھ گھنٹہ کے لیے تھا۔ اُس میں سوال وجواب کی صورت میں ’’حج کی حقیقت‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیاگیا۔ آخر میں ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ حج کے سلسلہ میں گورنمنٹ کی سبسڈی میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ تمام مسلم ملکوں میں حاجیوں کو سفر حج پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ علماء نے اس کو درست مانا ہے۔ اس طرح سبسڈی موجودہ زمانہ میں ایک عُرف بن چکی ہے۔ اس عُرف کے مطابق، انڈیا کی گورنمنٹ اگر حاجیوں کو سبسڈی دیتی ہے تو یہ بھی اُسی طرح درست ہے جس طرح مسلم ملکوں میں سبسڈی درست ہے۔ مزید بتایا گیا کہ ہندستان کی حکومت غیر مسلم حکومت نہیں ہے وہ ایک قومی حکومت ہے۔ انڈیا کے مسلمان یکساں بنیاد پر اس قومی اور جمہوری حکومت میں شریک ہیں۔
۶۔ ہندی روزنامہ دینک بھاسکر (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر جیندر کمار چودھری نے ۲۹ دسمبر ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس میں ہندو۔ مسلم تعلقات اور انڈیا اور پاکستان کے تعلق کے حوالہ سے بہت سے موضوعات زیر بحث آئے۔ اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ برصغیر ہند میں پچھلے سو سال کے اندر کوئی بھی صحیح معنوں میں تعمیری لیڈر پیدا نہیں ہوا جو مثبت معنوں میں کوئی گہرا کام کرے۔ آج ہم اسی کمی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ یہ بات ہندو اور مسلمان دونوں کے لیے درست ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ علم کو صرف علم کے روپ میں دیکھنا چاہئے، علم کو ہندو اور مسلمان بنانا درست نہیں۔ اس لیے صحیح یہ ہے کہ ہندو یونیورسٹی اور مسلم یونیورسٹی دونوں سے ہندو اور مسلم کا لفظ نکال دیا جائے اور اُس کو صرف بنارس یونیورسٹی اور علیگڈھ یونیورسٹی کہا جائے۔
۷۔ بی بی سی لندن(bbc.co.uk) کی طرف سے مسٹر طفیل احمد کے دستخط سے ایک خط مورخہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۳ صدر اسلامی مرکز کے نام ملا۔ اس میں ایک مضمون کی فرمائش کی گئی تھی جس کو وہ بی بی سی لندن کے ویب سائٹ پر شائع کریں گے۔ یہ مضمون انگریزی میں ایک ہزار لفظ میں مطلوب تھا۔ اُس کا عنوان یہ تھا:
Relevance of Sufism in the Post -9/11 World
خط میں کہا گیا تھا کہ مضمون میں یہ بتایا جائے کہ کیا صوفی ازم مغرب اور اسلام کے درمیان دوری کو ختم کرسکتا ہے:
If Sufism has the possibility to bridge the widening gulf between the Islamic world and the west.
اس موضوع پر مطلوب مضمون تیار کرکے اُنہیں ۷ جنوری ۲۰۰۴ کو بھیج دیا گیا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ دوری نام نہاد سیاسی اسلام نے پیدا کی ہے اور صوفی اسلام بلا شبہہ اس دوری کو ختم کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ صوفی ازم کو جدید تقاضوں کے ساتھ سامنے لایا جائے۔ اس آرٹیکل کو بی بی سی کی ویب سائٹ (bbc.co.uk) پر شائع کیا گیا۔
۸ ست سری، نئی دہلی میں ۱۵ ہزار گز کے ایریا میں جدید طرز پر ایک ہولسٹک سنٹر (Holistic Centre) بنایا گیا ہے۔ اس کے چئر مین ڈاکٹر بی کے مودی ہیں۔ اس کے افتتاح کے طورپر ۲ جنوری ۲۰۰۴ کو بڑے پیمانہ پر اس کے ہال میں ایک فنکشن کیاگیا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں اسلام کے نمائندہ کے طورپر بلایاگیا۔ وہاں انہوں نے مختلف مذہب کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے اسلام کے ریفرنس میں امن اور روحانیت کی اہمیت بیان کی۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ اسلام مکمل معنوں میں امن کا مذہب ہے۔ اسلام کے نام پر تشدد کرنے سے کوئی تشدد اسلامی نہیں بن جاتا۔ تشدد ہر حال میں برا ہے۔ تشدد سے کبھی کوئی بہتر نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔
۹۔ اٹلی کی ایک مذہبی تنظیم ہے۔ اُس کا نام یہ ہے: Association Culture Yogarmonia۔ اس کا صدر دفتر نوالے(Noale)میں ہے۔ اس کے چیر مین ایٹمبری ماریو (Atombri Morio) ہیں۔ اس تنظیم کے سات ذمہ داروں کا ایک وفد اپنے چیر مین کی قیادت میں ۵جنوری ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز آیا اور تقریباً دو گھنٹہ رہا۔ اُنہوں نے اسلام اور روحانیت کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی بات کی۔ آخر میں اُنہیں ایک مسنون دعا سنائی گئی۔ اس کو اُنہوں نے بہت پسند کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس دعا کو ہم اپنے اجتماعات میں پڑھیں گے۔ اُن کی فرمائش کے مطابق، یہ دعا تین طریقہ پر لکھ کر اُنہیں دی گئی۔ عربی متن، عربی الفاظ کو رومن رسم الخط میں اور پوری دعا کا انگریزی ترجمہ۔ وہ دعا یہ تھی: اللہم انت السلام و منک السلام و الیک یرجع السلام۔ ربنا حیّنا بالسلام و ادخلنا دارک دارالسلام۔ تبارکت ربنا و تعالیت یا ذا الجلال والاکرام۔
۱۰۔ اسلامی مرکز کے تحت کچھ نئی کتابیں چھپی ہیں۔ ایک انگریزی کتاب کا نام ہے: اِن سرچ آف گاڈ۔ اور ایک اردو کتاب کا نام ہے:مطالعۂ حدیث۔
۱۱۔ ایک نئی کتاب تیار ہوئی ہے جو جلد ہی شائع ہوگی۔ تقریباً دو سو صفحہ کی اس کتاب کا نام حکمت اسلام ہے۔ اس میں قرآن اورحدیث کے حوالہ سے اسلام کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔
۱۲۔ ایک نئی کتاب تیار ہو کر زیر طبع ہے۔ یہ کتاب دو سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا نام یہ ہے—عورت معمارِ انسانیت۔