ماہنامہ جام نور دہلی کا سوالنامہ برائے جہاد نمبر
۱۔ قرآن و احادیث کی روشنی میں نظریۂ جہاد کی وضاحت فرمائیں۔
۲۔ مختلف ملکوں میں جو تنظیمیں جہاد کے نام پر جد وجہد کررہی ہیں ان سے جزوی یا کلّی طورپر آپ کہاں تک متفق ہیں۔
۳۔ جہادی جدوجہد کے تحت عام شہریوں کو جو نشانہ بنایا جارہا ہے کیا یہ عمل اسلامی نظریۂ جہاد سے ہم آہنگ ہے۔
۴۔ کیا جہاد کے نام پر اسلام خود کش حملے کی اجازت دیتا ہے۔
۵۔ استعماری قوت سے اپنی آزادی یا اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ یا مسلم ممالک کے قدرتی وسائل کو استحصال سے بچانے کے لیے یا باطل قوتوں کی نا انصافیوں اور ظلم و تغلّب کے خلاف جو تنظیمیں جہاد کے نام پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں ان کے نتائج اب تک کتنے مثبت اور کتنے منفی ہوئے۔
۶۔ جن مقاصد کے حصول و تحفظ کے لیے جہادی تنظیموں نے جو طریقے اپنائے، کیا ان مقاصد کے حصول کے لیے یہی ایک راہ ہے۔ یا دوسرے طریقے بھی اپنائے جاسکتے ہیں۔
۷۔ حکم جہاد کے نفاد اور اس کو عملی طورپر شروع کرنے کے لیے کسی امام، خلیفہ یا قائد کے تعین کا اسلامی طریقہ کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔
۸۔ جہاد کو غلط طورپر پیش کرکے مسلمانوں کے خلاف عالمی پیمانے پر جو سازشیں رچی جارہی ہیں اور ان پر ہر طرح کے ظلم اور ناانصافی کو روا رکھا جارہا ہے اس کا دفاع کس طرح ممکن ہے۔
۹۔ مستشرقین اور یورپ کے منصوبہ سازوں نے اسلام کے پاکیزہ نظریۂ جہاد کے خلاف امت مسلمہ کے دانشوروں اور نئی نسلوں کو ذہنی طورپر جو متاثر کیا ہے اس کی صفائی کس طرح ہوسکتی ہے۔
۱۰۔ اگر کسی جگہ اپنی شرائط کے پیش نظر جہاد صحیح ہو تو اس کے نفاذ کی ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے یا اسلامی مملکتوں کے سربراہوں پر۔ اگر جہاد کے نام پر شروع کی گئی سرگرمیاں صحیح نہ ہوں تو مملکتوں کے سربراہوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
۱۱۔ سماجی سطح پر ہندستان میں مدارس اسلامیہ کا فکری رجحان کیا رہا ہے۔
۱۲۔ اب تک ہندستان کے مدارس میں دہشت گردی کی فکری یا عملی تعلیمات کا کوئی ثبوت نہ ملنے کے باوجود ملکی سطح پر کچھ حلقے سے مدارس اسلامیہ پر مسلسل دہشت گردی کے فروغ کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں، آخر اس کے اسباب و عوامل کیا ہوسکتے ہیں اور اس ڈھٹائی کے پیچھے ان کے کیا مقاصد پنہاں ہیں۔
۱۳۔ مدارس اسلامیہ کو اپنے وقار کے تحفظ اور ان سازشوں کے نتائج سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہئے۔
جوابات
۱۔ قرآن او رحدیث میں جہاد کا لفظ اصلاً پر امن جدوجہد کے لیے آیا ہے۔ جہاں تک مسلّح جنگ کا تعلق ہے، اس کے لیے قرآن اور حدیث میں قتال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جہاد کا لفظ اگر کہیں جنگ کے معنٰی میں استعمال ہوا ہے تو وہ اس لفظ کا ایک توسیعی مفہوم ہے، نہ کہ اس کا اصل مفہوم۔
۲۔ غیرحکومتی تنظیموں کی طرف سے جہاد (بمعنٰی قتال) کا عمل جو آج کل مختلف مسلم گروہوں کی طرف سے جاری ہے وہ بلا شبہہ غیر اسلامی ہے۔ یہ سب جہاد کے نام پر فساد کا عمل ہے۔ کیوں کہ جہاد (بمعنٰی قتال) سر تا سر حکومت کی ذمّہ داری ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کے لیے پر امن دعوت ہے نہ کہ مسلّح جہاد۔
۳۔ عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا نا کسی حال میں جائز نہیں، حتیٰ کہ کسی مسلم حکومت کے تحت ہونے والے جائز جہاد میں بھی نہیں۔ جائز جہاد میں بھی صرف مقاتل پر وار کیا جاسکتا ہے، غیر مقاتل پر وار کرنے کی گنجائش اسلام کے اصولِ جنگ میں نہیں ہے۔
۴۔ خود کشی یا خودکش حملہ کرنا یقینی طور پر حرام ہے۔ جہاد کا نام دینے سے کوئی حرام کبھی حلال نہیں ہوسکتا۔ موجودہ زمانہ کے نام نہاد مجاہدین مختلف مقامات پر جو خود کش بمباری (suicide bombing) کررہے ہیں وہ بلا شبہہ حرام ہے۔ خود کشی کسی بھی عذر کی بنا پر اسلام میں جائز نہیں۔ مزید یہ کہ یہ خودکش بمباری عام طورپر غیر مقاتلین(non-combatants)کے اوپر کی جاتی ہے۔کیونکہ وہ سافٹ ٹارگٹ (soft target) سمجھے جاتے ہیں۔ یہ دوسرا پہلو اس حرمت کو اور بھی زیادہ سنگین بنا دیتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اسلام کی جو بدنامی ہورہی ہے وہ تمام نقصانات میں سب سے زیادہ بڑا نقصان ہے۔
۵۔ پانچویں سوال میں جن مقاصد کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی بھی مقصدکے لیے غیرحکومتی تنظیموں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مفروضہ دشمن کے خلاف مسلّح جہاد چھیڑ دیں۔ ان مقاصد کے نام پر موجودہ زمانہ میں جو مسلّح جہاد کیا گیا وہ ایک غیر اسلامی فعل تھا یہی وجہ ہے کہ وہ خدا کی نصرت حاصل نہ کرسکا۔ اور اس بنا پر وہ اپنے مقصد کے حصول میں مکمل طورپر ناکام رہا۔
۶۔ چھٹے سوال میں جن مقاصد کا ذکر ہے ان کے حصول کی تدبیر صرف ایک ہے اور وہ پرامن جدوجہد ہے۔ تشدد پر مبنی جدوجہد کے ذریعہ ان مقاصد کا حصول سرے سے ممکن ہی نہیں، جیسا کہ عملاً پیش آیا۔
ان مقاصد کے لیے موجودہ زمانہ میں جو کوششیں کی گئی ہیں وہ زیادہ تر جہاد یا ٹکراؤ کے اصول پر مبنی ہیں۔ مگر موجودہ دنیا میں جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ د و طرفہ ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے جذبات کے ساتھ خارجی حالات کا بے لاگ جائزہ لیں۔ خارجی حالات کی رعایت کرنے کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ہماری کوشش کا میاب ہوسکے۔ موجودہ قسم کی جہادی سرگرمیوں میں یہ خارجی رعایت مفقود ہے۔ جب تک یہ صورت حال باقی رہے گی، ہماری کوششیں ناکامی کے سوا کسی اور انجام تک نہیں پہنچ سکتیں۔
جہاد در اصل ایک پر امن جدوجہد ہے جو گہری منصوبہ بندی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ جہاد کی عملی طور پر دو قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ایک ہے، کھوئے ہوئے پر جہاد اور دوسرا ہے، ملے ہوئے پر جہاد۔ میرے مطالعہ کے مطابق، موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں کے درمیان جہاد کے نام پر بے شمار ہنگامے جاری رہے۔ مگر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جہاد کے نام پر کی جانے والی یہ تمام سرگرمیاں کھوئے ہوئے پر جہاد کے ہم معنٰی تھیں نہ کہ ملے ہوئے پر جہاد کے ہم معنٰی۔
امیر کا بل کے تعاون سے شاہ ولی اللہ کا جہاد، سلطان ٹیپو کا جہاد، شہیدین کا جہاد، علماء دیوبند کا جہاد، علی برادران کا احیاء خلافت کے نا م پر جہاد۔ قیام پاکستان کے لیے جہاد، آر ایس ایس کے خلاف جہاد، بابری مسجد کے لیے جہاد، وغیرہ وغیرہ، سب کے سب کھوئے ہوئے پر جہاد کی صورتیں ہیں۔ اس لیے یہ تمام جہادی قربانیاں حبط اعمال کا شکار ہوگئیں۔
یہی معاملہ دیگر مقامات پر کیے جانے والے جہاد کا ہے۔ مثلاً فلسطین کا جہاد، بوسنیا کا جہاد، چیچنیا کا جہاد، فلپائن کا جہاد، اراکان کا جہاد، کشمیر کا جہاد وغیرہ، سب کے سب کھوئے ہوئے پر جہاد کے ہم معنٰی تھا۔ اس لیے امت کو ان کے ذریعہ تباہی کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوا۔ میرے علم کے مطابق، اس پوری مدت میں پوری مسلم دنیا میں جہاد کے نام پر کیا جانے والا کوئی بھی عمل ایسا نہیں جس کو ملے ہوئے پر جہاد کا نام دیا جاسکے۔
اس معاملہ میں اب اصل ضرورت پورے معاملہ پر نظر ثانی (reassessment) کی ہے، نہ یہ کہ اپنی ناکامی کو دوسروں کے خانہ میں ڈال کرمفروضہ دشمنوں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی مہم چلائی جائے۔ زندگی کی ایک سنگین حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کو اپنی غلطی کی قیمت خود بھگتنی پڑتی ہے، ایک کی غلطی کی قیمت کوئی دوسرا شخص کبھی بھگتنے والا نہیں۔ یہ اس دنیا میں کامیاب زندگی کی الف ب ہے، اور عجیب بات ہے کہ ساری مسلم دنیا کے مسلم رہنماؤں میں غالباً کوئی ایک شخص نہیں جو اس حقیقت کو شعوری طورپر جانتا ہو، خواہ وہ عربی داں مسلمان ہو یا انگریزی داں مسلمان۔
۷۔ اسلام میں جہاد (بمعنٰی قتال) کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ برائے دفاع ہے۔ دفاع کے سوا کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے جنگ چھیڑنا اسلام میں جائز نہیں۔ اور دفاع کی یہ جنگ اعلان کی لازمی شرط کے ساتھ صرف ایک قائم شدہ مسلم حکومت ہی کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں گوریلا جنگ، پراکسی جنگ، جارحانہ جنگ، بلا اعلان جنگ سب ناجائز ہیں۔
۸۔ آٹھویں سوال کے بارے میں میں کہوں گا کہ اس کے دفاع کی صورت صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ مسلمان خود اپنی طرف سے ان تمام پر تشدد سرگرمیوں کو یکسر بندکردیں جو موجودہ زمانہ میں جہاد کے نام پر چل رہی ہیں۔ مذکورہ مسئلہ صرف مسلمانوں کے خود ساختہ جہاد کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس خود ساختہ جہاد کے ختم ہوتے ہی مذکورہ مسئلہ بھی اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
۹۔ اسلام کے پاکیزہ نظریہ جہاد کو داغ دار کرنے والے خود مسلمان ہیں۔ یہ دراصل مسلمان ہیں جنہوں نے اسلامی جہاد کی تصویر کو اپنی غلط روش سے بگاڑا ہے۔ اس مسئلہ کا حل بھی یہی ہے کہ مسلمان اپنی غلط روش کو بند کردیں۔ اس کے بعد دوسروں کو کسی سازش کا موقع ہی نہ ملے گا۔
۱۰۔ میرے نزدیک موجودہ زمانہ میں کسی بھی مقام پر جہاد( بمعنٰی قتال) کی شرائط پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ او ر اگر بالفرض کسی مقام پر یہ شرائط پوری ہو رہی ہوں تب بھی غیر حکومتی تنظیموں کے لیے جہاد کرنا ہرگز جائز نہیں۔ کسی کے نزدیک اگر مسلم حکومتیں اپنا فرض پورا نہ کررہی ہوں تب بھی اس عذر کو لے کر کسی کے لیے بطور خود جہاد چھیڑ دینا جائز نہ ہوگا۔ ایسی حالت میں عام مسلمانوں کے لیے صبر ہے نہ کہ خود سے جنگ چھیڑنا۔
قرآن کے مطابق، جہاد وہ ہے جو فی سبیل اللہ ہو۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمان جو جہاد کررہے ہیں وہ سب کا سب فی سبیل القوم ہے۔ وہ منفی جذبہ کے تحت کیا جانے والا عمل ہے نہ کہ مثبت جذبہ کے تحت کیا جانے والا عمل۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے۔
۱۱۔ سماجی مسائل کے بارے میں مدارس اسلامیہ کا بظاہر کوئی فکری رول براہ راست طورپر نہیں ہے۔ اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں کہ مدارس اسلامیہ کے سامنے شعوری طور پر سماجی فلاح کا کوئی نقشہ موجود تھا۔ تاہم اس سلسلہ میں بالواسطہ طور پر ان کی خدمات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ مثلاً فتاویٰ کے ذریعہ رہنمائی۔ مساجد میں خطباتِ جمعہ، عوامی جلسہ میں خطاب، مختلف تقریبات کے دوران اساتذہ اور طلبہ کا عوام سے انٹر ایکشن، شادی بیاہ جیسی رسموں میں شرکت کے دوران وعظ و نصیحت اور رسالوں کے ذریعہ تعلیم و نصیحت، وغیرہ۔ سماجی اعتبار سے ایک مستقل کام سوشل سروس ہے۔ مگر مدارس میں غالباً سوشل سروس کا کوئی باقاعدہ تصور موجودہ نہیں۔
۱۲۔ یہ صحیح ہے کہ مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی۔ اس اعتبار سے مدارس پر الزام لگانا غلط ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ صحیح ہے کہ مدارس کے نظام میں عین وہی ذہن بنتا ہے جس کو جہادی ذہن کہا جاتا ہے۔ مدارس کے لوگوں کو امت مسلمہ کے مسائل کے سلسلہ میں پر امن عمل کا کوئی شعور نہیں۔ وہ دور جدید کے اس امکان سے بے خبر ہیں کہ ہر میدان میں حصہ داری(sharing) کے اصول پر کام کیا جانا چاہیے۔ مدارس کے لوگ اب تک شعوری یا غیر شعوری طورپر یہی سمجھتے ہیں کہ غیر مسلم لوگ کافر ہیں۔ غیر مسلم ممالک دار الکفر یا دار الحرب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور سازش میں مشغول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کی طرف سے اب تک جہاد کے نام پر متشددانہ سرگرمیوں کی کھلی مذمت نہیں کی گئی اور نہ یہ اعلان کیا گیا کہ یہ سرگرمیاں جہاد نہیں ہیں بلکہ فساد ہیں۔ ایسی حالت میں مدارس کو اس معاملہ میں مکمل طورپر بے قصور نہیں کہا جاسکتا۔
۱۳۔ میرے نزدیک سازش کا تصور محض ایک مفروضہ ہے۔ اسی طرح وقار کے تحفظ کا سوال بھی ایک فرضی سوال ہے۔ اس کا سادہ سا ثبوت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہر مدرسہ نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اگر مذکورہ مفروضہ درست ہوتا تو مدارس کی یہ ترقیاں ہر گز ممکن نہ ہوتیں۔ اس معاملہ میں مدارس کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ سازش کے فرضی وہم سے باہر آجائیں اور معتدل ذہن کے تحت اپنا کام کریں۔
مدارس اسلامی تعلیم کا مرکز ہیں۔ اسلامی تعلیم اپنے آپ میں پرکشش ہے۔ وہ یہ طاقت رکھتی ہے کہ خود اپنے زور پر انسان کو اپنا گرویدہ بنا سکے۔ ایسی حالت میں موجودہ زمانہ میں مدارس کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں وہ اصلاً خود مدارس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ اس کمی کا ایک سبب یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے لوگ اپنی روایات کے تحت بند ماحول میں رہتے ہیں۔ وہ خارجی دنیا سے اختلاط نہیں کرتے۔ اس بنا پر ان کا حال یہ ہوگیا ہے کہ وہ نہ آج کی دنیا کو جانتے ہیں اور نہ جدید حالات کے مطابق اپنے ذہن کو تیار کرتے۔ اس علیٰحدگی پسندی کی بنا پر ان کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کا حقیقی حل صرف یہ ہے کہ مدارس کے ماحول کو بدلا جائے۔ اور قدیم کے ساتھ جدید کو شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔
مدارس کو یا امت مسلمہ کو موجودہ زمانہ میں جو مسائل در پیش ہیں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ان کا سبب در اصل اس بنیادی خامی تک جاتا ہے کہ مدارس میں جو سوچ دی جاتی ہے وہ بجائے خود درست نہیں۔ اسی فکری خامی کے نتیجہ میں وہ تمام چیزیں پیدا ہوئی ہیں جن کو مسائل کا نام دیا جاتا ہے۔ مسائل کا لفظ بظاہر خارجی اسباب کی طرف اشارہ کرتا ہے حالانکہ ہمارے مسائل تمام تر داخلی اسباب کا نتیجہ ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ملّت کے موضوع پر ہزاروں کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ عرب دنیا کے امیر شکیب ارسلان کی کتاب لما ذا تأخر المسلمون و تقدم غیرہم اور بر صغیر ہند کے مولانا ابو الحسن علی ند وی کی کتاب ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین جیسی بے شمار کتابیں مختلف زبانوں میں چھپی ہیں۔ ان سب کا مشترک انداز یہ ہے کہ ان میں مسلمانوں کے مسئلہ کا مطالعہ عروج اور زوال کی اصطلاحوں میں کیا گیا ہے۔
مطالعہ کا یہ طریقہ بلا شبہہ غیر قرآنی ہے۔ قرآن کے مطابق، عروج اور زوال دونوں اضافی ہیں۔ قرآن کے نزدیک دونوں حالتیں ابتلاء کی حالتیں ہیں۔ یہ دونوں ہی کسی قوم کے لیے امتحان (test) کے پرچے ہیں۔ خدا کبھی کسی قوم کوغالب کرتا ہے اور کبھی اُس کو مغلوب کردیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ دیکھنا مقصود ہوتا ہے کہ قوم جب کسی حالت میں مبتلا ہوئی تو اُس نے کس قسم کا رسپانس پیش کیا۔ (۱۷مارچ ۲۰۰۴)