چند احادیث
حدیث کی کتابوں میں کوئی کتاب النساء جیسا چیپٹر نہیں ہوتا۔ تاہم مختلف موضوعات کے تحت عورتوں کے بارہ میں کثرت سے ایسی روایتیں آئی ہیں جو عورتوں کے بارہ میں اسلام کی تعلیم کو بتاتی ہیں۔ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا درجہ انسانی سماج میں کیا ہے۔ یہاں حدیث کی مختلف کتابوں سے اس قسم کی کچھ روایتیں نقل کی جاتی ہیں۔ یہ روایتیں بتاتی ہیں کہ اسلام کے نقشۂ حیات میں عورت کا مقام کیا ہے۔
۱۔ عورت نصف انسانیت
پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ صدیقہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا۔اُنہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کا ایک سوال کیاگیا تھا۔ اس مسئلہ کا جواب دیتے ہوئے آپ نے مزید فرمایا: عورتیں بلاشبہہ مرد کا شقیقہ ہیں (انما النساء شقائق الرجال) ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، الترمذی، کتاب الطہارۃ، مسند احمد ۶؍۲۵۶۔
شقیق یا شقیقہ عربی زبان میں، کسی چیز کے درمیان سے پھٹے ہوئے دوبرابر بر ابر حصے کو کہتے ہیں۔ اسی سے دردِ شقیقہ بولا جاتا ہے۔ یعنی وہ درد جو سر کے آدھے حصہ میں ہو۔ اوپر کی روایت میں اسی مفہوم میں عورت کو مرد کا شقیقہ کہا گیا ہے۔ یہ عورت کی حیثیت کی نہایت صحیح تعبیر ہے۔ اسلام کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک کُل کے دو برابر بر ابر اجزاء ہیں۔ اس کُل کا آدھا عورت ہے اور اُس کا آدھا مرد۔ اس اعتبار سے یہ بات عین درست ہوگی کہ عورت کو نصفِ انسانیت کا لقب دیا جائے۔
۲۔ اخلاق کا معیار
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو۔ اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں۔ اور جب تمہارا ساتھی انتقال کر جائے تو تم اُس کے لیے دعا کرو (خیرکم خیرکم لأہلہ و أنا خیرکم لأہلی و اذا مات صاحبکم فدعوہ) الترمذی، الدارمی، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۷۱ (رقم الحدیث ۳۲۵۲)
گھر کی زندگی میں شوہر اور بیوی مستقل طور پر ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں بار بار ایک کو دوسرے سے شکایت پیدا ہوتی ہے۔ غصہ اور نفرت کے جذبات جاگتے ہیں۔ ایسی حالت میں حُسن اخلاق کا سب سے بڑا آزمائشی مقام اُس کا اپنا گھر ہے۔ جو مرد اپنے گھر کے اندر بہتر سلوک کا ثبوت دے وہ اخلاقی امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ اسی طرح جو عورت اپنے گھر کے اندر حُسن سلوک پر قائم رہے اُس نے آزمائش میں کامیابی حاصل کی۔ ایسے عورت یا مرد باہر کی زندگی میں بھی کامیاب رہیں گے۔
گھر کی زندگی میں جب ایک ساتھی کو موت آجائے اور دوسرا ساتھی زندہ رہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ زندہ کے دل میں وفات یافتہ کے بارہ میں غم اور ماتم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مگر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ایسے حادثہ کے موقع پر اپنے جذبات کا رُخ دعا کی طرف کردیا جائے۔ جو کچھ دنیا میں کھویا گیاہے اُس کو آخرت میں پانے کی کوشش کی جائے۔
۳۔ شرافت کی پہچان
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کی عزت وہی شخص کرے گا جو شریف ہو اور عورتوں کو وہی شخص بے عزت کرے گا جو کمینہ ہو (مااکرم النساء الا کریم و ما اہانہن الا لئیم)
عزت اور مرتبہ کے لحاظ سے عورت اور مرد دونوں برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ مگر زندگی کے نظام میں دونوں کے درمیان تقسیمِ کار کا اُصول رکھا گیا ہے۔ مرد پر نسبتاً سخت کام کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور عورت کو مقابلۃً نرم کام کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس تقسیمِ کار کی بنا پر عورت اور مرد کی جسمانی بناوٹ میں فرق رکھا گیا ہے۔ مرد جسمانی اعتبار سے زیادہ قوی ہے اور عورت جسمانی اعتبار سے نسبتاً غیر قوی ہے۔
اس فرق کی بنا پر مرد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ عورت کو اپنی چیرہ دستی کا شکار بنا سکے۔ مگر خدا کے نزدیک یہ مرد کے لیے ایک امتحان کا پرچہ ہے۔ مرد کو چاہیے کہ وہ جسمانی اعتبار سے قوی ہونے کے باوجود عورت کا پورااحترام کرے۔ خدا کی شریعت کا اُصول یہ ہے کہ شریف انسان وہ ہے جو کمزور کے مقابلہ میں شریف ثابت ہو۔ وہ انسان ایک کمینہ انسان ہے جو کسی کو کمزور پاکر اُس کو اپنی زیادتی کا نشانہ بنانے لگے۔
۴۔ ہر حال میں خیر
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے اگر اس کی کوئی خصلت اس کو ناپسند ہوگی تو کوئی دوسری خصلت اس کی پسند کے مطابق ہوگی۔ (لایفرک مومن مومنۃ۔ ان کرہ منہا خلقاً رضی منہا آخر)
صحیح مسلم، کتاب الرضاع
فطرت کی تقسیم کا عام اُصول یہ ہے کہ کسی ایک عورت یا کسی ایک مرد کو ساری خوبیاں نہیں دی جاتیں۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو ایک خوبی زیادہ ملتی ہے تو دوسری خوبی میں اُس کے ساتھ کمی کردی جاتی ہے۔ مثال کے طورپر ایک عورت کواگر ظاہری جسمانی خصوصیات میں زیادہ حصہ ملا ہو تو داخلی خصوصیات میں وہ اُس نسبت سے کم ہوگی۔ اسی طرح اگر ایک عورت داخلی سیرت میں زیادہ بڑھی ہوئی ہو تو ظاہری صفات کے اعتبار سے وہ نسبتاً کم ہوگی۔ یہ فطرت کا ایک عام اُصول ہے جس میں بہت کم استثناء پایا جاتا ہے۔
مذکورہ حدیثِ رسول میں اسی فطری حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ کسی مرد کی بیوی اگر ایسی ہو جو ظاہری صورت کے اعتبار سے زیادہ پُرکشش نہ ہو تو اُس کو بد دل ہونے کی ضرورت نہیں۔ فطرت کے قانون پر اعتماد کرتے ہوئے اُس کے اندر یہ یقین ہونا چاہیے کہ اُس کی بیوی سیرت کے اعتبار سے یقینی طورپر زیادہ بہتر ہوگی۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حقیقی زندگی میں صورت کے مقابلہ میں سیرت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
۵۔ بہتر اخلاق کی پہچان
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومنین میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے۔ اور تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو۔ (اکمل المؤمنین ایماناً احسنہم خلقاً وخیارکم خیارکم لنسائہم)۔
الترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۷۳ (رقم الحدیث ۳۲۶۴)
یہ حدیث بظاہر مرد کے لیے ہے۔مگر اپنے توسیعی مفہوم کے اعتبار سے وہ مرداور عورت دونوں کے لیے ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت جب شادی شدہ زندگی اختیار کرکے ایک ساتھ رہتے ہیں تو بار بار دونوں کے درمیان اختلاف اور شکایت کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں غصہ اور نفرت اور انتقام کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ یہ موقع دونوں کے لیے امتحان کا موقع ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر دونوں صبر اور تحمل کا طریقہ اختیار کرکے اپنے آپ کو اللہ کی نظر میں زیادہ بہتر مرد اور زیادہ بہتر عورت ثابت کرسکتے ہیں۔ وہ صحیح اسلامی رویہ اختیار کرکے خدا کے یہاں اپنا درجہ بلند کرسکتے ہیں۔
۶۔ بہتر خاتون کون
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ عورتوں میں سب سے بہتر عورت کو ن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ عورت کہ مرد جب اُسے دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے۔ اور مرد جب کسی کام کے لیے کہے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنے نفس اور اپنے مال میں وہ مرد کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کرے (عن ابی ہریرۃ قال: سئل رسول اللہ ﷺ ای النساء خیر قال: الذی تسرہ اذا نظر وتطیعہ اذا أمر و لا تخالفہ فیما یکرہ فی نفسہا ومالہ)۔
مسند احمد، جلد ۲، صفحہ ۲۵۱
یہ حدیث اپنے توسیعی مفہوم کے اعتبار سے عورت اورمرد دونوں کے لیے ہے۔ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے زندگی کے ساتھی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ہر معاملہ میں ایک دوسرے کے رازداں ہیں۔ زندگی کا کاروبار چلانے کے لیے وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ایک گاڑی کے دو پہئیے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایسی حالت میں انسانیت کا تقاضا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سچے رفیق ثابت ہوں۔ وہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کا اہتمام کریں۔ وہ ایک دوسرے کی رعایت کرنے والے ہوں۔ وہ غیر موجودگی میں بھی ایک دوسرے کے خیر خواہ بنے رہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ کریں جو رفیقِ حیات کی حیثیت سے اُصولی طورپر اُنہیں ایک دوسرے کے لیے کرنا چاہیے۔
۷۔ عورت سرمایۂ حیات
عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی ہر چیز سامان ہے۔ اور دنیا کا سب سے اچھا سامان نیک عورت ہے (عن عبد اللہ بن عمرو قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الدنیا کلہا متاع، وخیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ)
صحیح مسلم، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۲۷ (رقم الحدیث ۳۰۸۳)
عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے زندہ متاع یا زندہ سرمایۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں زندگی گذارنے کے لیے عورت اور مرددونوں کو بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ شوہر اور بیوی کی صورت میں دونوں کو جو سرمایہ ملتا ہے وہ دوسری تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔
یہ حقیقت اگر دونوں کے دل میں بیٹھ جائے تو عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے سے بے حد محبت کرنے والے بن جائیں گے۔ دونوں یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ وہ ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے کا تحمل نہیں کرسکتے۔ دونوں کا یہ خیال ہوجائے گا کہ انہوں نے اگر ایک دوسرے کی قدر نہ کی تو خود ان کی اپنی زندگی ہی بے معنٰی ہو کر رہ جائے گی۔ دونوں ایک دوسرے کو اس طرح اپنی ضرورت سمجھیں گے جس کی تلافی کسی اور صورت میں ممکن نہیں۔
۸۔ سب سے بہتر خزانہ
عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ آدمی کے لیے بہتر جمع کرنے والا مال کیا ہے۔ نیک عورت کہ جب وہ اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے۔ اور جب وہ اس کو حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے۔ اور جب وہ موجود نہ ہو تو وہ اس کی حفاظت کرے (عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألا اخبرک بخیر ما یکنز المرأ المرأۃ الصالحۃ اذا نظر الیہا سرتہ واذا امرہا اطاعتہ و اذا غاب عنہا حفظتہ)۔
سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ
اس حدیث میں عورت کی جو صفات بتائی گئی ہیں وہ کوئی سادہ صفات نہیں ہیں۔ اس حدیث کو پوری طرح اُس وقت سمجھا جا سکتا ہے جب کہ اُس کو اُس کے ظاہری الفاظ سے اوپر اُٹھ کر دیکھا جائے۔ جب کہ اُس کو زندگی کے زیادہ گہرے پہلوؤں کے ساتھ جوڑکر سمجھا جائے۔
مرد کے لیے عورت صرف اس کی گھریلو ساتھی نہیں ہے بلکہ وہ اُس کے لیے سب سے بڑے خزانہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان ایک سوچنے والی مخلوق ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ کوئی ہو جو سوچنے کے عمل میں اُس کے ساتھ شیئر (share) کرسکے۔ جو پورے معنوں میں اس کا فکری رفیق (intellectual partner) بن جائے۔ عورت کسی مرد کی اسی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ وہ اُس کی ایک قابل اعتماد ذہنی رفیق ہے۔ کسی مرد کی بیوی ہی اس کی وہ ساتھی ہے جو اُس کو ہر صبح و شام حاصل رہتی ہے۔
مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی رفیقۂ حیات کو اس اعتبار سے تیار کرے۔ تعلیم و تربیت کے ذریعہ وہ عورت کو اس قابل بنائے کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنے شوہر کی ذہنی رفیق (intellectual partner) بن سکے۔ اس قسم کی ذہنی رفاقت کے جو فائدے ہیں اُنہی میں سے کچھ فائدوں کا ذکر علامتی طورپر مذکورہ حدیث میں کیا گیا ہے۔
۹۔ زندگی کی مددگار
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قرآن میں جب یہ آیت اُتری کہ جو لوگ سونا او رچاندی جمع کرتے ہیں اُن کے لیے وعید ہے تو بعض صحابہ نے کہا کہ اگر ہم یہ جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو ہم اسی کو لیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل چیز خدا کی یاد کرنے والی زبان ہے۔ اور خدا کا شکر کرنے والا دل ہے۔ اور مومن بیوی ہے جو اس کے ایمان پر اُس کی مدد کرے(عن ثوبان قال لما نزلت (والذین یکنزون الذہب والفضۃ) کنا مع النبیﷺ فی بعض اسفارہ فقال بعض اصحابہ نزلت فی الذہب والفضۃ لو علمنا ای المال خیر فنتخذہ۔ فقال افضلہ لسان ذاکر وقلب شاکر و زوجۃ مؤمنۃ تعنیہ علی ایمانہ۔
احمد، الترمذی، ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۷۰۴ (رقم الحدیث ۲۲۷۷)
مادی دولت صرف دنیا کی عارضی زندگی میں کچھ راحت دے سکتی ہے۔ مگر ذکر اور شکر اور ایمان کی دولت وہ دولت ہے جو آخرت کی ابدی زندگی میں زیادہ بڑی راحت کا ذریعہ بنے گی۔ ذکر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کو یادکرے، اس کا ذہن خدا کی سوچ میں لگا رہے۔ شکر یہ ہے کہ آدمی کو خدا کی نعمتوں کا گہرا احساس ہوجائے۔ وہ دل کی گہرائیوں کے ساتھ خدا کے انعامات کا اعتراف کرنے لگے۔ ایمان سے مراد خدا کی معرفت ہے۔ خدا کی شعوری دریافت کے نتیجہ میں آدمی کے اندر جو عقیدہ بنتا ہے اُسی کا نام ایمان ہے۔
کسی مرد کے لیے عورت ان پہلوؤں سے سب سے بڑی مددگار ہے۔ مرد اور عورت اپنی روزانہ کی زندگی میں جب ایک دوسرے سے فکری تبادلہ (intellectual exchange) کرتے ہیں تو دونوں کو اس سے یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ خدا کی یاد کا گہرا روحانی تجربہ کرتے ہیں۔ وہ خدا کے عطیات کا تذکرہ کرکے ایک دوسرے کے اندر شکر کے جذبات کو بڑھاتے ہیں۔ وہ خدا کی ذ۱ت وصفات میں باہمی غور و فکر کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں دونوں کی معرفت (realization) میں اضافہ ہوتا ہے۔
۱۰۔ قابل اعتماد ساتھی
ابو امامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے تقویٰ کے بعد سب سے بہتر چیز جو ایک مومن پاتا ہے وہ نیک بیوی ہے۔ اگر وہ اس کو کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے۔ اور اگر وہ اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے اور اگر وہ اس پر قسم کھالے تو وہ اس کو پورا کرے اور اگر وہ اس سے غائب ہو تو وہ اپنے نفس اور اُس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے (عن ابی امامۃ عن النبیﷺ انہ یقول: ما استفاد المؤمن بعد تقوی اللہ خیراً لہ من زوجۃ صالحۃ ان امرہا اطاعتہ و ان نظر الیہا سرّتہ و ان أقسم علیہ ابرّتہ و ان غاب عنہا نصحتہ فی نفسہا و مالہ)۔
ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۳۰ (رقم الحدیث ۳۰۹۵)
یہ بات اپنے وسیع تر مفہوم میں عورت اور مرد دونوں کے اوپر منطبق ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین جوڑا اُسی وقت بن سکتے ہیں جب کہ دونوں اپنے اندر مذکورہ صفات پیدا کرلیں۔
مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے تکملہ(complement) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے وجود کو مکمل کرتا ہے۔ عورت کے بغیر مرد کی زندگی نامکمل ہے اور اسی طرح مرد کے بغیر عورت کی زندگی نامکمل ہے۔
عورت اور مرد دونوں اپنی زندگی کا یہ فریضہ صرف اس طرح ادا نہیں کرسکتے کہ وہ نکاح کرکے ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں منسلک ہوجائیں۔ اسی کے ساتھ اُنہیں ایک اور کام کرنا ہے۔ اس اعتبار سے وہ اپنے شعور کو بیدار کریں۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے دونوں اپنے آپ کو ذہنی طورپر تیار کریں۔ دونوں کے لیے اُن کا گھر ایسا مدرسہ بن جائے جس میں شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے ٹیچر بھی ہوں اور اسی کے ساتھ ایک دوسرے کے اسٹوڈنٹ بھی۔ اس دوسرے پہلو سے دونوں کے درمیان رشتہ کی مضبوطی ان کی ازدواجی زندگی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
حدیث کے یہ الفاظ بے حد اہم ہیں کہ وہ اس کے مال میں خیر خواہی کرے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہترین عورت وہ ہے جو گھر کی آمدنی کو صحیح طورپر خرچ کرے۔ وہ انتظام مال (money management) میں پوری طرح اپنے شوہر کی مددگارہو۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مال دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے قیام کا ذریعہ ہے(النساء ۵) مال کا بہترین استعمال یہ ہے کہ اس کو حقیقی ضرورت کی مد میں خرچ کیا جائے۔ مال کے معاملہ میں فضول خرچی کرنا اتنا برا کام ہے کہ جو مرد اور عورت ایسا کریں ان کو قر آن میں شیطان کا بھائی اور بہن بتایا گیا ہے (الاسراء ۲۷)
مال کے معاملہ میں فضول خرچی کا تعلق عورتوں سے بہت زیادہ ہے۔ قرآن کے مطابق، عورت اپنے مزاج کے اعتبار سے تزئین اور نمائش جیسی چیزوں کو بہت زیادہ پسند کرتی ہے(الزخرف ۱۸) اس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گھروں میں تقریبات اور فرنیچر اور کپڑے اور دوسری مدوں میں مال کا جو غیر ضروری خرچ ہوتا ہے وہ زیادہ تر عورتوں کے ذوق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مال کا صحیح خرچ اور اس کا غلط خرچ دونوں کا انحصار زیادہ تر عورت کے اوپر ہوتا ہے۔
اس بات کو مثبت انداز میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کسی گھر کی کامیابی کاراز سادگی کلچر میں ہے، اور سادگی کلچر کا معاملہ تمام تر عورت کے اوپر منحصر ہوتاہے۔ سادگی بظاہر ایک معمولی چیز ہے مگر عملی اعتبار سے دیکھیے تو وہ زندگی کی اہم ترین قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں سادگی ہوگی وہاں ہر دوسری چیز اپنے آپ موجود ہوگی۔کسی نے بہتر زندگی کا فارمولا درست طورپر ان الفاظ میں پیش کیا ہے—سادہ زندگی اور اونچی سوچ:
Simple living, high thinking
سادگی اور اونچی سوچ دونوں ایک دوسرے سے لازمی طورپر جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں سادگی ہوگی وہاں اونچی سوچ ہوگی۔ اور جہاں اونچی سوچ ہوگی وہاں سادگی بھی ضرور پائی جائے گی۔ سادگی کا مطلب ہے، حقیقی ضرورت اور غیر حقیقی ضرورت میں فرق کرنا۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ غیر حقیقی ضرورت کو اپنی ضرورت سمجھ لینا اور اسی کے لیے مال خرچ کرنا ایک ایسی بری عادت ہے جو آدمی کے اندر ذہنی ارتقاء (intellectual development) کے عملکو روک دیتی ہے۔ اس کے برعکس غیر حقیقی ضرورت کو نظر انداز کرنااور صرف حقیقی ضرورت پر اپنامال خرچ کرنا آدمی کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ذہنی ترقی کے عمل میں مصروف ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فضول خرچی اور اعلیٰ انسانیت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ اعلیٰ انسانیت کے لیے سادہ زندگی ضروری ہے۔
کسی گھر کو سادگی کے اصول پر چلانا صرف عورت کا کام ہے۔ عورت اگر صرف یہی ایک کام کرے کہ مال کے حسن انتظام کے ذریعہ وہ گھر کے اندر سادگی کلچر کو رائج کردے تو یہ اتنا بڑا کام ہوگا کہ اسی ایک کارنامہ کی بنا پر اس کو معمار انسانیت کا لقب دیا جاسکتا ہے۔
سادگی بااصول زندگی کی علامت ہے۔ اسی طرح انتظام مال(money management) منصوبہ بند زندگی کی علامت۔ جو لوگ ایسا کریں وہ گویا زندگی میں ترجیحات (priorities) کو جانتے ہیں۔ انہوں نے بے مقصد زندگی کا طریقہ چھوڑ کر بامقصد زندگی کے طریقہ کو اختیار کیا۔ انہوں نے حیوانی سطح کی زندگی سے اوپر اٹھ کر انسانی سطح کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دنیا میں بھی خدا کا انعام ملتا ہے اور آخرت میں بھی وہ خدا کے انعام کے مستحق قرار پائیں گے۔قرآن کے الفاظ میں وہ حسنات دنیا کے بھی حصہ دار ہیں اور حسنات آخرت کے بھی حصہ دار۔
۱۱۔ زندگی کی عظیم نعمت
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار چیزیں ہیں جن کو وہ دی گئیں تو اس کو دنیا اور آخرت کی تمام بھلائی دے دی گئی۔ شکر کرنے والا دل اور ذکر کرنے والی زبان اور مصیبتوں پر صبر کرنے والا بدن اور ایسی بیوی جس کے نفس اور اپنے مال میں اس کو کوئی ڈر نہ ہو(عن ابن عباس ان رسول اللہ ﷺ قال: اربع من أعطیہن فقد اعطی خیر الدنیا والآخرۃ قلب شاکر ولسان ذاکر و بدن علی البلاء صابر و زوجۃ لا تبغیہ خوفا فی نفسہا ولا مالہ)
البیہقی، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۷۶ (رقم الحدیث ۳۲۷۳)
ایسی بیوی جس کے نفس اور اپنے مال میں اس کو کوئی ڈر نہ ہو—اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی بیوی جس کے اوپر آدمی کو پورا اعتماد ہو۔یہ اعتماد ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ جب شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کو آخری حد تک اپنا سمجھ لیں تو اُس وقت دونوں کے درمیان غیریت کا فرق بالکل مٹ جاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو اس طرح دیکھنے لگتے ہیں کہ جیسے کہ دونوں کے درمیان ’’میں اور وہ‘‘ کا فرق مٹ گیا ہو۔ دونوں کی شخصیت ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک زندہ کُل بن گئی ہو۔
عورت اور بیوی کے درمیان اپنا پن کا یہی ماحول دونوں کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ جب دونوں کے درمیان اس طرح کا تعلق قائم ہوجائے تو دونوں یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ دنیا میں وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ گویا پوری انسانیت اُن کے ساتھ ہے۔ ہر ایک یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ میرے باہرکا پورا عالم میرے ساتھ زندگی کے سفر میں شریک ہوگیا ہے۔ یہ احساس دونوں کے اندر اتنا زیادہ حوصلہ پیدا کردیتا ہے کہ اس کے بعد انہیں کوئی بھی چیز ناممکن نظر نہیں آتی۔
عورت کسی مرد کے لیے سب کچھ اُس وقت بنتی ہے جب کہ وہ محسوس کرے کہ مرد بھی اُس کے لیے اُس کا سب کچھ بن گیا ہے۔ باہمی اعتماد کا یہ معاملہ بلاشبہہ دو طرفہ ہے۔ فطری قوانین کے تحت یہ معاملہ یک طرفہ طورپر قائم نہیں ہوسکتا۔
۱۲۔ رعایت کا معاملہ
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر کے حصہ میں ہوتی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے لگو تو تم اس کو توڑ دو گے اور اگر تم اس کو چھوڑ دو تو وہ ویسی ہی رہے گی۔ پس تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی میری نصیحت قبول کرو (عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: استوصوا بالنساء خیراً فان المرأۃ خلقت من ضلع وانَّ اعوج شیٔ فی الضلع اعلاہ فان ذہبت تقیمہ کسرتہ وان ترکتہ لم یزل اعوج فاستوصوا بالنساء)۔
صحیح البخاری، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۶۷ (رقم الحدیث ۳۲۳۸)
اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے وہ خاتونِ اول حوّا کے طریقِ تخلیق کے بارہ میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ عورت کے عام مزاج کو بتاتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، پسلی کی ہڈی کسی قدر ٹیڑھی ہوتی ہے۔ اس کا ٹیڑھا ہونا اس کا نقص نہیں ہے بلکہ یہی اس کی موزونیت ہے۔ پسلی کی ہڈی کو اگر آپریشن کرکے سیدھا کردیا جائے تو وہ جسم انسانی میں اپنی کارکردگی کو صحیح طورپر ادا نہ کرسکے گی۔
ایک اور روایت میں یہ لفظ ہے کہ المرأۃ کا لضلع (عورت پسلی کی ہڈّی کی مانند ہے)۔ یہ تمثیل کی زبان ہے۔ اور یہ تمثیل در اصل عورت کی ایک صفت کو بتانے کے لیے ہے۔ اور وہ یہ کہ عورت نسبتاً جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ مرد کے مقابلہ میں عورت کو کسی قدر جذباتی اس لیے بنایا گیا ہے کہ چیزوں سے اس کو ایک جذباتی تعلق ہوجائے اور اس بنا پر وہ اپنی مخصوص ذمہ داریوں کو بہتر طورپر ادا کرسکے۔ اسی مخصوص مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ عورت کو اپنے بچّہ کے ساتھ انتہائی جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ اگر یہ جذباتی تعلق نہ ہو تو عورت اپنے بچہ کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرسکے۔
۱۳۔ فطرتِ انسانی کا تقاضا
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے خوشبو اور عورتیں محبوب بنائی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے(حبب الی من دنیاکم الطیب والنساء وجعلت قرۃ عینی فی الصلٰوۃ)
احمد، النسائی، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد۳، صفحہ ۱۴۴۸ (رقم الحدیث ۵۲۶۱)
اس حدیث میں ضمیر متکلم کے اسلوب میں در اصل انسانی فطرت کو بتایا گیا ہے۔ انسان کے اندر فطری طورپر یہ مزاج ہے کہ وہ اپنے زوج (جوڑے) کی طرف خصوصی میلان رکھتاہے۔ وہ اپنے جوڑے کو اپنا تکمیلی حصہ سمجھتا ہے۔ اس کا پورا وجود محسوس کرتا ہے کہ اس جوڑے کے بغیر اُس کی ہستی مکمل نہیں۔ یہ فطرت کی تخلیق کا ایک حصہ ہے۔ اس کا تعلق ہر انسان سے ہے۔
مرد اور عورت دونوں کو مل کر دنیا میں جو کام کرنا ہے وہ بے حد صبر آزما کام ہے۔ وہ ایک پُرمشقت جدوجہد ہے۔ اس پُرمشقت جدوجہد کو خوشگوار بنانے کے لیے عورت اور مرد کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت رکھ دی گئی ہے۔ یہی الفت اورمحبت کسی انسانی سماج کو مستحکم سماج بناتی ہے۔ اجتماعی زندگی میں الفت اور محبت کی حقیقت چپکانے والے مادہ (adhesive) کی ہے۔ اگر یہ الفت اور محبت ختم ہوجائے تو خاندان اور سماج دونوں انتشار کا شکار ہو کر رہ جائیں۔
۱۴۔ سب سے افضل متاع
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو۔ دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز نیک بیوی سے بہتر نہیں (اتقوا اللہ فی النساء لیس من متاعِ الدنیا شیٔ افضل من المرأۃ الصالحۃ)
سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح
مرد اپنی تخلیق کے اعتبار سے ایک ادھوری شخصیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت کے ساتھ مل کر اُس کی شخصیت مکمل ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خود عورت کا بھی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر عورت اور ہر مرد خود اپنے تجربہ کے ذریعہ سمجھ سکتا ہے۔
اس اعتبار سے عورت اور مرد کی باہمی رفاقت زندگی کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ مگر اس رفاقت کو نباہنے کے لیے کوئی مجبورانہ بندھن موجود نہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جو دونوں کے درمیان باہمی رفاقت کو نباہنے کے لیے خدا کے خوف کو ضروری بنا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس رفاقت کی کامیابی کے لیے ضرورت ہے کہ دونوں کے اندر اُس کی اُصولی اہمیت کا شعور زندہ ہو۔ خدا کا خوف اسی شعور کو بیدار کرتا ہے۔ اور پھر یہ شعور اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ غیر موافق اسباب کے باوجود دونوں کے درمیان رفاقت کا تعلق کبھی ٹوٹنے نہ پائے۔
۱۵۔ عورت ماں کی حیثیت سے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جان لو، جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (الجنۃ تحت اقدام الامہات)
عورت ماں کی حیثیت سے اپنی اولاد کی سب سے بڑی محسن ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے انسان کے اوپر ماں کا درجہ سب سے زیادہ ہے۔ اس حدیث میں در اصل اس حقیقت پر زور دیا گیا ہے کہ محسن کے احسان کا اعتراف سب سے بڑی نیکی (virtue) ہے۔ اس نیکی کی اسپرٹ جس کے اندر ہو اُس کے اندر بیک وقت دو صفتیں موجود ہوں گی—انسان کی نسبت سے اُس کے حسنِ سلوک کا گہرا اعتراف اور خدا کی نسبت سے اُس کے احسان کا گہرا شکر۔ یہی صفت کسی انسان کے لیے جنت میں داخلہ کا سب سے بڑا استحقاق ہے۔
۱۶۔ لڑکیوں کی تربیت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی۔ پھر ان کو ادب سکھایا اور اُن کی شادی کی اور اُن کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے (من عال ثلاث بنات فادبہن و زوجہن و احسن الیہن فلہ الجنۃ)
سنن ابی داؤد، کتاب الادب
عام مزاج یہ ہے کہ اگر کسی باپ کے یہاں کئی لڑکیاں ہوں اور کوئی لڑکا نہ ہو تو وہ لڑکیوں کو بے قدر کردیتا ہے۔ اس حدیث میں اسی ذہن کی تردید کی گئی ہے۔ کسی باپ کے یہاں لڑکا پیدا ہو یا لڑکی، دونوں حالتوں میں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دے۔ وہ اُن کو ایسی تربیت دے جو اُن کے لیے زندگی گذارنے میں مدد گار بنے۔
باپ کا رجحان اکثر اپنی اولاد کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن کے لیے زندگی کی راحتیں فر اہم کرے۔ وہ کما کر اُنہیں زیادہ سے زیادہ مال دے سکے۔ مگر یہ نظریہ درست نہیں۔ اولاد کے لیے باپ کا سب سے بہتر عطیہ مال نہیں ہے بلکہ تعلیم ہے۔ باپ کا کمایا ہوا مال اولاد کے لیے بلا محنت کی کمائی (easy money) کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا مال اکثر آدمی کو خراب کردیتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کو تعلیم دے۔ اور اس طرح اُنہیں اس قابل بنائے کہ وہ خود محنت کرکے زیادہ بہتر طورپر اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔
۱۷۔ لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے یہاں لڑکی ہو۔ پھر وہ نہ اُس کو زمین میں گاڑے اور نہ اس کی تحقیر کرے اور نہ اُس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ اُس کو جنت میں داخل کرے گا۔ (من کانت لہ انثیٰ فلم یئدہا ولم یہنہا و لم یوثر ولدہ علیہا (یعنی الذکور) ادخلہ اللہ الجنۃ)۔
سنن ابی داؤد، کتاب الأدب
حسن سلوک ایک ایسی نیکی ہے جو ہرمرد اور عورت کے ساتھ مطلوب ہے۔ مگر لڑکیوں کے سلسلہ میں اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ غریب طبقہ کے لوگ لڑکیوں کو اپنے اوپر بوجھ سمجھ لیتے ہیں۔ اس بنا پر وہ اُن کے معاملہ میں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی طورپر ادا نہیں کر پاتے۔ دولت مند طبقہ اپنے مخصوص لائف اسٹائل کی بنا پر خود اپنے لیے زندگی کی خوشیوں کو تلاش کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ وہ اپنی لڑکیوں کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ اس آزادی کے نتیجہ میں لڑکیاں اپنی ابتدائی عمر ہی میں تباہ کن غلطیوں کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں۔
ایسی حالت میں لڑکیاں اپنے سر پرستوں کے لیے نازک ذمہ داری کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنا اسلام کی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کیے بغیر کوئی شخص اپنے رب کے یہاں بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔
۱۸۔ بے سہارا لڑکیوں کی خدمت
سراقہ بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ افضل صدقہ کیا ہے۔ تمہاری لڑکی جو (بیوگی یا طلاق کی وجہ سے) تمہاری طرف لوٹا دی جائے۔ تمہارے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو(عن سراقۃ بن مالک ان النبی ﷺ قال: الا ادلکم علی افضل الصدقۃ ابنتک مردودۃ الیک لیس لہا کاسب غیرک)
سنن ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۳، صفحہ ۱۳۹۳ (رقم الحدیث ۵۰۰۲)
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت طلاق کی وجہ سے یا بیوہ ہو جانے کی وجہ سے اپنے سسرال میں نہیں رہ سکتی اور وہاں سے واپس ہوکر اپنے باپ کے پاس آجاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایسی عورت سماج میں بے سہارا بن جاتی ہے۔ لیکن اس کا بے سہارا ہونا اس کے والدین کے لیے اخلاقی خدمت کا ایک اعلیٰ موقع عطا کرتا ہے۔ اگر اس کے والدین ایسی خاتون کو دوبارہ قبول کرلیں، اُس کے لیے نئی زندگی کے مواقع تلاش کریں، اُس کو پھر سے سماج کا ایک باعزت ممبر بنانے کی کوشش کریں، اُس کو ازسرِ نو ایک کامیاب زندگی گذارنے کے قابل بنائیں تو اُن کا یہ عمل خدا کے یہاں ایک عظیم عمل شمار کیا جائے گا اور وہ اپنے اس عمل کی بنا پر آخرت کی دنیا میں خدا کے عظیم تر انعام کے مستحق قرار پائیں گے۔
۱۹۔ نجات کا ذریعہ
عائشہ صدیقہ کی ایک طویل روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اللہ جس شخص کو لڑکیوں کے ذریعہ کچھ آزمائے پھر وہ اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ اس کے لیے آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی (من ابتلی من البنات بشیٔ فأحسن الیہن کن لہ سترا من النّار)
فتح الباری لابن حجر العسقلانی، جلد ۳، صفحہ ۳۳۴ (رقم الحدیث ۱۴۱۸)
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی سبب سے ایک لڑکی اپنے والدین کے لیے سرمایہ (asset) کے بجائے بوجھ (liability) محسوس ہونے لگتی ہے۔ مگر اسلام کی تعلیم کے مطابق، ایسی لڑکی اپنے ماں باپ کے لیے ایک اور پہلو سے بہت بڑی نعمت ہے۔ وہ والدین کے لیے آخرت کے زیادہ بڑے انعامات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
تاہم یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ یہ در اصل عُسر میں یسر کی ایک صورت ہے۔ والدین اگر ایسی لڑکی کے لیے اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں اور اُس کو زندگی کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل بنائیں تو عین ممکن ہے کہ وہ لڑکی تیار ہو کر اپنے خاندان کے لیے ایک نعمت بن جائے۔ اُس کے ذریعہ سے خاندان میں مثبت طرزِ فکر پروان چڑھے۔ اُس کے ذریعہ سے گھر میں تعمیری ماحول پیدا ہو۔ وہ لڑکی اپنے خاندان کی ایک صحت مند ممبر بن کر خاندان کی ترقی کا ذریعہ بنے۔
اس قسم کا کام ابتدائی طورپر اگرچہ اخروی انعام کے جذبہ کے تحت شروع کیا جاتا ہے مگر اپنے نتیجہ کے اعتبارسے وہ خود دنیا کی تعمیر کا بہترین ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے خاندان کے لیے مفید ہوتا ہے، دین کے اعتبار سے بھی اور دنیا کے اعتبار سے بھی۔
۲۰۔ عورتوں سے مشورہ
حسن بصری تابعی نے ستّر سے زیادہ صحابہ کو دیکھا تھا اور اُن سے سُنا تھا۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں بتاتے ہیں کہ آپ کا طریقہ تھا کہ آپ کثرت سے مشورہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ عورت سے بھی مشورہ کرتے تھے، اور عورت کبھی ایسی رائے دیتی تھی جس کو آپ قبول کرلیتے تھے (کان النبی ﷺ یستشیر حتی المرأۃَ فتشیر علیہ بالتی فیاخذ بہ)۔
عیون الاخبار لابن قتیبۃ، جزء ا، صفحہ ۲۷
پیغمبر اسلام ﷺ کا یہ اُسوہ محدود معنوں میں نہیں ہے۔ وہ وسیع معنوں میں ہے۔ اُس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ کسی کو مشیر کا درجہ دینا اس کو ایک با عزت درجہ دینا ہے۔ ایسی حالت میں عورت کو مشیر بنانے کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی تعلیم و تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ معاملات میں مشورہ دینے کے قابل ہوسکے۔ مشورہ لینے میں مشورہ دینے کے قابل بنانا اپنے آپ شامل ہے۔ سماجی اعتبار سے دیکھا جائے تو کوئی عورت (یا مرد) اپنے آپ مشیر نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی تعلیم و تربیت اُس کے مطابق ہو۔
اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام کا مذکورہ أسوہ اپنے اندر ایک مکمل تصور حیات لیے ہوئے ہے۔ اُس کے اندر سماج کا ایک ایسا نقشہ نظر آتا ہے جس میں تعلیم و تربیت کے اعتبار سے ایسی سرگرمیاں جاری ہوں جو عورتوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ سماج کا ایک صحت مند حصہ بن سکیں۔ وہ اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اس قابل ہوں کہ معاملات میں صحیح مشورہ دیں۔ وہ کسی معاملہ میں بحث و تبادلہ (discussion) کے وقت اپنا مفید کردار ادا کرسکیں۔