سوچنے کی بات
قرآن خدا کی کتاب ہے جو کائناتی حقیقتوں کو بیان کرتی ہے۔ قرآن میں جن حقیقتوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان میں سے ایک عالمگیر حقیقت وہ ہے جو ان لفظوں میں ظاہر کی گئی ہے۔فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کیساتھ آسانی ہے)
موجودہ دنیا میں جس طرح کانٹے کے ساتھ پھول ہوتا ہے، اسی طرح یہاں دشواری کے ساتھ آسانی کا پہلو بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ کبھی خوش گوار امکانات کو ختم نہ کر سکے۔ ہر
نا پسندیدہ صورت حال میں دوبارہ ایک پسندیده موقع آدمی کے لیے باقی رہے ۔ امکانات کی یہ فہرست اتنی لمبی ہے کہ اس کا سلسلہ سلمان رشدی جیسے نازیبا واقعات تک پہنچ جاتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم مدینہ میں سلمان رشدی جیسا ایک برا کر دار موجود تھا۔ یہ عبداللہ بن ابی بن سلول ہے۔ اس ظالم نے ایک بار ایک معمولی واقعہ کو شوشہ بنایا اور اس کے ذریعہ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر نعوذ باللہ بدکاری کا الزام لگایا۔ یہ جھوٹی کہانی اس طرح پھیلی کہ پورے مدینہ میں ایک مہینہ تک ہنگامی حالت طاری رہی۔ اس کے بعد قرآن میں اس کی تردید اتاری گئی جو سورۃ النور (رکوع 2) میں موجود ہے۔
ان تردیدی آیات میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ : لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ۭ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُم (النور11) یعنی اے مسلمانو ، یہ طوفان جو تمہارے خلاف برپا کیا گیا ہے، اس کو تم اپنے حق میں برانہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے حق میں اچھا ہے۔ بہتان تراشی کا واقعہ بظاہر "عسر "کا ایک واقعہ تھا۔ مگر قرآن نے بتایا کہ اس میں بھی تمہارے لیے "یسر" کا یقینی پہلو چھپا ہوا ہے۔
اس یسر (موافق پہلو) کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ جب داعی کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو اس کی ذات اور اس کی دعوت لوگوں کے درمیان گفتگو کا موضوع بن جاتی ہے۔ وہ لوگوں کے لیے ایک سوالیہ نشان کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس طرح داعی کو موقع ملتا ہے کہ وہ ان جھوٹے پروپیگنڈوں کی تردید کر کے اصل حقیقت کو واضح کرے۔ وہ اپنی بات کو از سر نو مزید وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کر سکے۔
اس طرح ایک طرف مخالفین کا بر سر باطل ہو نا معلوم ہوتا ہے اور دوسری طرف داعی کا بر سر حق ہونا اور زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ وہ اور زیادہ ثابت شدہ حقیقت بن کر سامنے آجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نئے لوگ دعوت ِحق سے متعارف ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ ابھی تک شبہات کا شکار تھے ، وہ اس کے بعد یقین کے درجے تک پہنچ کر داعی کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ لوگ اپنی آنکھوں سے عیا ناً دیکھ لیتے ہیں کہ حق کا داعی ٹھوس حقیقت کی زمین پر کھڑا ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں مخالفین کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس جھوٹے الزام اور بے بنیاد اتہام کے سوا اور کچھ نہیں۔
اصل مسئلہ
گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو اس معاملے میں قابل غور مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہاں رشدی جیسے لوگ ہیں جو اسلام کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ بلکہ اصل قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ وہ کون سے حالات ہیں جس نے انہیں یہ موقع دیا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف لکھیں اور بولیں ۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے ۔ برطانیہ میں ۱۷ ویں صدی سے ایک قانون موجود ہے جو مسیحیت (اینگلیکن چرچ) کے خلاف کفریہ کلمات (Blasphemy) کو قابل سزا جرم قرار دیتا ہے۔ مگر اس تعزیری قانون کے ہوتے ہوئے برطانیہ میں ایک فلم بنائی گئی ہے جو سراسر اس کی منشا کےخلاف ہے۔ اس فلم کا نام ہے :
The Last Temptation of Christ
اس فلم میں نعوذ باللہ حضرت مسیح علیہ السلام کی جنسی زندگی کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ ان کو اور ان کی والدۂ محترمہ (حضرت مریم) کو ایسے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس سے ان کے تقدس پر حرف آتا ہے۔ یہ فلم برطانیہ میں کھلے طور پر دکھائی جارہی ہے مگر مذکورہ قانون کے باوجود اس فلم پر آج تک پابندی نہیں لگائی گئی اور نہ اس کے بنانے والوں کو کوئی سزا دی گئی۔
اب اسی ملک کی ایک برعکس مثال لیجیے ۔ پیٹررائٹ (Peter Wright) ایک انگریز ہے جو ریٹائر ہونے کے بعد اب آسٹریلیا میں رہتا ہے۔ وہ برطانیہ کے محکمۂ انٹلجنس میں ایک اعلیٰ افسر تھا۔ریٹائر ہونے کے بعد اس نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا نام اسپائی کیچر (Spy Catcher) ہے۔ اس کتاب میں برطانیہ کے محکمۂ جاسوسی کے بہت سے راز بتائے گئے ہیں۔
پیٹررائٹ نے اپنی یہ کتاب لندن کے ایک پبلشر کے ہاتھ فروخت کی مگر اس کی اشاعت سے پہلے حکومت برطانیہ کو اس کا علم ہو گیا۔ اس نے فورا ً یہ کہہ کر اس پر پابندی لگادی کہ یہ کتاب سرکاری رازوں کی پردہ داری کے خلاف ہے۔ مصنف اور پبلشر کی تمام کوششوں کے باوجود یہ کتاب لندن سے چھپ نہ سکی۔ ۱۹۸۸ میں وہ ایک بیرونی ملک میں چھاپی گئی ہے ۔ تاہم برطانی حدود میں اسکا داخلہ مکمل طور پر ممنوع ہے ۔
اس تقابلی مثال پر غور کیجئے ۔ ایک ہی ملک ہے۔ وہاں"تو ہین پیغمبر "کا واقعہ ہوتا ہے مگر با قاعدہ قانون کے ہوتے ہوئے بھی اس پر پابندی نہیں لگائی جاتی ۔ دوسری طرف کسی ملک میں " تو ہین ریاست" کا واقعہ ہوتا ہے تو حکومت اس کے خلاف فوراً سر گرم ہو جاتی ہے اور پورا ملک اس کو اپنے اندر جگہ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس فرق کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے۔ برطانیہ تو ہینِ ریاست کی اہمیت سے واقف ہے ، مگر تو ہینِ نبوت کی اہمیت کا اسے احساس نہیں۔ یہی وہ فرق ہے جس نے ان کے یہاں دونوں مثالوں میں وہ فرق پیدا کر دیا ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔
اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کا اصل مسئلہ کیا ہے ۔ آج اسلام کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کی عظمت و اہمیت جدید لوگوں کے ذہن سے نکل گئی ہے ۔ وہ اسلام کو ایک بے قیمت اور آج کے لحاظ سے بے ضرورت چیز سمجھنے لگے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جس نے لوگوں کو اسلام کے خلاف بولنے کے لیے جری کر دیا ہے۔ نہ صرف غیر مسلموں میں بلکہ خود مسلمانوں کی جدید تعلیم یافتہ نسل میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو مذکورہ قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ، چنانچہ وہ اسلام کے خلاف نہایت سطحی اندازمیں لکھتے اور بولتے رہتے ہیں۔
اس وقت جڑ کا کام یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں جدید انسان کی غلط فہمی کو دور کیا جائے ۔ اسلام کی اہمیت کو آج کے انسان کے لیے دوبارہ ایک ثابت شدہ حقیقت بنایا جائے۔ اسلام کی تصویر کو لوگوں کی نظر میں اتنا با عظمت بنا دیا جائے کہ کوئی آدمی اس کے خلاف بولنے کی جراٴت نہ کر سکے۔ اور اگر بالفرض کوئی شخص اس قسم کی نازیبا حرکت کرے تو اس کی بات ماحول کے اندر اپنے آپ بے وزن ہو کر رہ جائے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے آج کوئی شخص جمہوریت (ڈیموکریسی) کے خلاف بولے تو اس کی بات موجودہ ماحول میں اپنے آپ بے وزن ہو کر رہ جائے گی ۔
جدید اسلامی لٹریچر
موجودہ زمانےمیں ہم دیکھتے ہیں کہ سلمان رشدی جیسے لوگ جب کوئی شر پھیلاتے ہیں تو وہ ہمارے لیے صرف شربن کر رہ جاتا ہے، وہ ہمارے لیے خیر کی صورت اختیار نہیں کرتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے امام اور مفکر ایسے لوگوں کے سامنے اسلام کا جو تعارف پیش کر رہے ہیں، وہ صرف شور وغل ہے ، اور شور و غل آج کے انسان کو صرف متنفر کر سکتا ہے ۔ وہ کسی بھی درجے میں اس کو متاثر کر نے والا نہیں ۔
ایسے مواقع پر فطری طور پر اسلام کے مطالعےکی فضا بنتی ہے۔ لوگوں کے اندر اسلام کے بارے میں تجسس پیدا ہوتا ہے، وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ اسلام کو جاننے کے خواہش مند ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ پاتے ہیں کہ موجودہ کتب خانوں میں ایسا لٹریچر موجود نہیں جو ان کی قابلِ فہم زبان میں اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کو پیش کر رہا ہو ۔ جس کے اندر اتنی جاذبیت ہو کہ وہ اس کو دلچسپی اور شوق کے ساتھ پڑھ سکیں۔ آج کے انسان کے ارد گرد مخالف اسلام لٹریچر کا انبار موجود ہے، مگر مؤثر اسلوب میں تیار کیا ہواموافق اسلام لٹریچر کا کہیں وجود نہیں ۔
راقم الحروف نے چالیس سال پہلے عصر حاضر کی اس ضرورت کا احساس کیا تھا۔ اس کے مطابق میں نے اسلام کا تفصیلی مطالعہ کیا، اور اسی کے ساتھ جدید علوم کو اس کے مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد میں نے عصری تقاضوں کے تحت ایسا اسلامی لٹریچر تیار کرنا شروع کیا جو آج کے انسان کے ذہن پر اسلام کی عظمت قائم کر سکے۔ میری تمام کتا بیں کسی نہ کسی پہلو سے اسی خاص موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کام میں اگر چہ مجھے ملت کا مطلوبہ تعاون حاصل نہ ہو سکا۔ تاہم اپنی حد تک میں نے اپنی پوری طاقت اسی ایک کام میں لگا رکھی ہے ۔
اسی خاص ضرورت کے تحت حال میں، میں نے ایک نئی کتاب مرتب کی ہے جس کا نام ہے۔ " اسلام دور جدید کا خالق" یہ کتاب ایک سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ اور عنقریب ان شاء اللہ اسلامی مرکز کے تحت چھپ کر شائع ہو جائے گی۔
اس تازہ کتاب میں واقعات و حقائق کی روشنی میں دکھایا گیا ہے کہ جدید سائنس اور موجودہ ترقی یافتہ دور جس پر آج کا انسان فخر کرتا ہے، وہ تمام تر اسلام کا عطیہ ہے یہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعہ لایا جانے والا اسلامی انقلاب ہے جس نے تاریخ انسانی میں پہلی بار وہ عمل جاری کیا جس کے نتیجےمیں بالآخر دور جدید کی تمام ترقیاں ظہور میں آئیں ۔ یہ کتاب اولاً ان شاء اللہ اردو زبان میں شائع کی جائے گی، اور اس کے بعد انگریزی اور دوسری زبانوں میں ۔وبیداللہ التوفیق۔