قابل غور
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بگاڑنے اور آپ کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش آپ کے ہم عصر یہودیوں نے شروع کی جو اس وقت عرب میں آباد تھے ۔ پھر صلیبی جنگوں کے بعد یورپ کے مسیحی علماء اور مستشرقین نے صدیوں تک اسے پوری قوت کے ساتھ جاری رکھا۔ موجودہ زمانے میں ہندستان کے سلمان رشدی اور ان کے جیسے دوسرے لوگ یہی نازیبا کام جدید ترین ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے انجام دے رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کے لیے کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ غصہ اور جھنجھلا ہٹ کا اظہار کریں ۔ وہ ایسی کتابوں کے خلاف ایجی ٹیشن اور ہنگامہ شروع کر دیں۔ اب تک مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے عملاً بس اسی قسم کا ردِّ عمل ظاہر کرتے رہے ہیں۔ مگر اس واقعہ کا ایک اور پہلو ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اور بدقسمتی سےمسلمان اپنے منفی جوش کی وجہ سے اب تک اس دوسرے پہلو سے آگاہ نہ ہو سکے ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے کعب بن اشرف سے لے کر بیسویں صدی کے سلمان رشدی تک بے شمار لوگ مسلسل اس معاندانہ کوشش میں مصروف رہے ہیں کہ وہ آپ کی تصویر کو داغدار کریں۔ اس مخالفانہ عمل پر جلد ہی ڈیڑھ ہزار سال پورے ہو جائیں گے ۔ مگر ان دشمنانِ رسول کو اپنے مقصد میں ایک فی صد کامیابی بھی حاصل نہ ہوسکی۔ ان کی ساری کوششیں عملاً کامل طور پر بے نتیجہ ر ہیں۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اسی قسم کی نازیبا کوششیں پچھلے پیغمبروں کے خلاف بھی کی گئیں مگر یہاں نتیجہ بالکل مختلف رہا۔ یہاں ان کے دشمنوں کو اپنے مقصد میں پوری کامیابی حاصل ہوئی۔ سابق پیغمبروں کے دشمنوں نے ان کی سیرت اور ان کی تعلیمات کو بگاڑ نا یا معدوم کر دینا چاہیے۔ اور عملاً بگاڑ دیا یا معدوم کر ڈالا۔ حضرت نوح سے لے کر حضرت مسیح تک ہر پیغمبر کے خلاف انھوں نےاپنی تحریفی کوشش کی اور ہر بار وہ اپنی کوشش میں پوری طرح کامیاب رہے۔
انسانی تاریخ کا جو مدون ریکارڈ ہے، اس میں پہلے تمام پیغمبروں کو حذف کر دیا گیا ہے۔مثال کے طور پر مصر کی قدیم تاریخ میں فرعون کا ذکر ہے مگر موسیٰ کا اس میں کوئی ذکر نہیں ۔فلسطین کی تاریخ سے مسیح کا ذکر حذف ہے، جب کہ آپ کے ہم عصر رومی حکمرانوں کا ذکر اس میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ قرآن کے علاوہ ،پچھلے پیغمبروں کی بابت جاننے کا واحد ذریعہ بائبل ہے اور بائبل کا یہ حال ہے کہ اس میں تمام پیغمبروں کو مسخ شدہ حالت میں پیش کیا گیا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بارےمیں بائبل کا بیان ہے کہ نوح کاشت کاری کرنے لگا۔ اس نے ایک انگور کا باغ لگایا، اور اس نے اس کی مَے پی اور اسے نشہ آیا اور وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیااور کنعان کے باپ حام نے اپنے باپ کو برہنہ دیکھا۔ (پیدائش ، باب 9:)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ بائبل میں ملتا ہے ۔ مگر اس میں آپ کی غیر متعلق خاندانی باتوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ موجود ہے، مگر آپ کی دعوتِ توحید کا اس میں سرے سے کوئی ذکر نہیں ۔(پیدائش ، باب 15)
حضرت لوط علیہ السلام ایک سچے پیغمبر تھے ۔ مگر بائبل میں ان کی تصویریہ دی گئی ہے کہ ان کی دو بیٹیوں نے ان کو مَے پلایا اور رات کے وقت ان کے ساتھ ہم آغوش ہوئیں ۔ اور پھر لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔(پیدائش، باب 19)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ کی چمک قرآن کے مطابق ایک خدائی نشانی تھی۔ مگر بائبل کا بیان ہے کہ موسیٰ نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھاتو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا۔ (خروج ، باب 4)
حضرت سلیمان علیہ السلام خدا کے سچے پیغمبر تھے ۔ مگر بائبل ان کی بابت کہتی ہے کہ سلیمان بہت سی اجنبی عورتوں سے محبت کرنے لگا۔ یہ ان قوموں کی تھیں جن کی بابت خداوند نے کہا تھا کہ ان کے بیچ نہ جانا ، کیونکہ وہ ضرور تمہارے دلوں کو اپنے دیوتاؤں کی طرف مائل کر لیں گی۔ سلیمان ان ہی کے عشق کا دم بھرنے لگا۔ اس کی بیویوں نے اس کے دل کو پھیر دیا۔ کیونکہ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا۔ اور سلیمان نے خداوند کے آگے بدی کی اور اس نے خداوند کی پوری پیروی نہ کی۔ (1- سلاطین ، باب 11)
یہ صرف چند حوالے ہیں جو بطور مثال یہاں درج کیے گئے ہیں نہ کہ بطور احاطہ ۔تفصیل کے طالب بائبل کا مطالعہ کر کے اسے جان سکتے ہیں۔
پیغمبروں کی طویل فہرست میں اس اعتبار سے صرف ایک استثناء ہے، اور وہ پیغمبر آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ تمام معلوم پیغمبروں میں آپ اکیلے پیغمبر میں جن کی تصویر بگاڑنے کی ہر کوشش مسلسل ناکام ہوتی چلی جارہی ہے ۔ آپ کی زندگی اور آپ کی تعلیمات کا ریکارڈ اپنی کامل ترین ابتدائی شکل میں آج بھی پوری طرح محفوظ ہے اور کسی بھی شخص کے لیے ممکن ہے کہ اس کا مطالعہ کر کے اس کوبخوبی طور پر جان سکے ۔
یہ محض ایک اتفاق کی بات نہیں اور نہ یہ مسلمانوں کی کوششوں کی بنا پر ہے۔ یہ براہ راست خدا کی مداخلت کے تحت ہے۔ یہ خود خدا ہے جس نے آپ کے معاندین کی معاندانہ کوششوں کو مکمل طور پر ناکام بنا رکھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جن شیطانی کتابوں (Satanic books) پر انسانی حکومتوں سے پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ پابندی، پیغمبر اسلام کے معاملہ میں، خود مالک کائنات کی طرف سے زیادہ بڑے پیمانے پر پہلے ہی سے لگی ہوئی ہے۔ امتحانی آزادی کی بنا پر خدا نے کسی دشمن حق کے زبان و قلم کو تو نہیں پکڑا۔ مگر اس کی زبان و قلم کی کاوشوں کے نتیجہ کو یقیناً پکڑ رکھا ہے۔ اس نے انہیں عملی طور پر مؤثر بننے سے روک دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاندین اپنی ساری کوششوں کے باوجود ، باعتبار نتیجہ پیغمبر آخرالزماں کی تصویر کو بگاڑنے کے معاملہ میں وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے جو پچھلے پیغمبروں کے معاملہ میں بلا استثناء انھوں نے حاصل کرلی۔
موجودہ زمانے کے مسلمان پیغمبر اسلام کے دین کی اشاعت کے لیے تو کچھ نہیں کرتے ، البتہ اگر کوئی معاند ایک لغو بیان دے یا ایک مخالفانہ تحریر چھاپے تو اس کے خلاف شور و غل کرنے میں وہ نہایت تیزی دکھاتے ہیں۔ یہ واقعہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی کو تاہی کو بتا رہا ہے۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں، یہ ہے کہ مسلمان وہ کام کرنے کے لیے تو بہت بے قرار ہیں جس کا اہتمام خدا نے خود اپنی طرف سے کر رکھا ہے۔ مگر اس کام کو کرنے کے لیے ان کے اندر کوئی تڑپ موجودنہیں جو شریعت کے مطابق انہیں خود اپنی کوششوں کے ذریعہ انجام دینا ہے۔
قرآن کے مطابق مسلمانوں کے اوپر فرض ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی نصرت کریں۔ مگر نصرت سے مراد دعوت ہے نہ کہ دوسروں کے خلاف شور و غل۔ مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ پیغمبر آخرالزماں پر طعن کرنے والوں کے خلاف شور و غل کرکے انھیں پیغمبر آخر الزماں کی نصرت کا کریڈٹ نہیں مل سکتا۔ یہ کریڈٹ انہیں صرف اس وقت ملے گا جب کہ وہ پیغمبر آخر الزماں کے پیغام کی اشاعت کے لیے اٹھیں اور اس کو اس کے تمام ضروری آداب و شرائط کے ساتھ ساری قوموں کے سامنےانجام دیں ۔
مسلمانوں کی موجودہ روش کیوں ہے، اس کا نہایت گہر انفسیاتی سبب ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان ، مختلف اسباب سے، دوسری قوموں کے بارےمیں نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہیں۔ ان کے بارے میں وہ محبت اور خیر خواہی کا جذبہ نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری قوموں کے خلاف بھڑکنے کا موقع ہو تو وہ فوراً بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسری قوموں کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی کی بات ہو تو اس کے لیے وہ متحرک نہیں ہوتے ۔
"رسول کی شان میں گستاخی " کے مسئلہ پر اٹھنے کے لیے صرف نفرت کا جذبہ کافی ہے، جومسلمانوں کے اندر کافی مقدار میں موجود ہے۔ اس کے برعکس "رسول کے پیغام کی اشاعت" کے لیے محبت کا جذبہ درکار ہے جو آج کے مسلمانوں کے اندر موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے سوال پر تیزی سے حرکت میں آجاتے ہیں اور دوسرے سوال پر وہ حرکت میں نہیں آتے ، خواہ اس کے لیے انھیں کتنا ہی زیادہ پکارا جائے ۔ یہ صورت حال حد درجہ تشویشناک ہے۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اس روش پر نظر ثانی کریں یہ روش یقینی طور پر خدا کے نقشے کے مطابق نہیں ۔