ایک سفر
اگست 1988 کی 27 تاریخ تھی۔ اور دن کے ڈیڑھ بجے کا وقت ، میں اپنے دفتر میں مطالعہ میں مشغول تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ریسیور اٹھایا تو معلوم ہوا کہ کیلی فورنیا (امریکہ ) سےڈاکٹر مزمل حسین صدیقی بول رہے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ 23-24 دسمبر 1988 کو وہ لوگ امریکہ میں ایک انٹرنیشنل سیرت کانفرنس کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں بھی اس میں شرکت کروں ۔ انھوں نے کہا کہ آپ اتنا وقت نکال کر آئیں کہ کانفرنس میں شرکت کے بعد امریکہ کے دوسرے مقامات پر بھی آپ کے خطابات کا پروگرام رکھا جاسکے ۔
اس گفتگو کے موقع پر میں دہلی میں تھا اور ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی (ڈائر کٹر اسلامک سوسائٹی) کیلی فورنیا میں۔ اس وقت میرے اور ان کے درمیان 14ہزار میل سے بھی زیادہ کا فاصلہ تھا۔ مگر ٹیلی فون پر دونوں کو ایک دوسرے کی آواز اس طرح صاف سنائی دے رہی تھی جیسے دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہوں ۔ ٹیلی فونی ربط کا یہ نظام شاید اس لیے بنایا گیا ہے کہ انسان اُس دوسرے عظیم تر ربط کے بارے میں سوچ سکے جو بندے اور خدا کے درمیان اعلیٰ ربانی سطح پر قائم ہوتا ہے ۔
13ستمبر کو ان کا باضابطہ دعوت نامہ (5ستمبر 1988) بذریعۂ ڈاک مل گیا ۔ اس میں ٹیلی فونی دعوت نامہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ" انٹرنیشنل سیرت کانفرنس "کاعمومی موضوع حسبِ ذیل ہو گا :
The Sirah of Prophet Mohammed and its Message for Contemporary Men and Women.
میرے پاسپورٹ کے صفحات ختم ہو گئے تھے، مگر اس کی قانونی مدت ابھی باقی تھی۔ صفحات کے اضافے کی درخواست دی گئی۔ یہ بظاہر ایک سادہ سی کا رروائی تھی۔ مگر تقریباً ایک مہینہ کی دفتری دوڑ دھوپ کے بعد10 صفحات کا اضافہ ہو کر پاسپورٹ دوبارہ مل سکا۔ یہ ہندستانی دفتر کا حال تھا۔ دوسری طرف امریکی سفارت خانے میں ویزا کی درخواست دی گئی تو انھوں نے درخواست کے اگلے ہی دن ایک سال (12 دسمبر 1988 تا ۱۱ دسمبر 1989)کا ملٹیپل ویزا دے دیا۔ یعنی اس ویزا پر میں ایک سال تک امریکہ میں قیام کر سکتا تھا۔ یا ایک سال کے دوران جتنی بار چاہے وہاں جا سکتا تھا۔ جب کہ ہماری درخواست میں صرف دو ہفتہ کا ویزا مانگا گیا تھا ––––– یہ واقعہ علامتی طور پر بتا تا ہے کہ ہندستان اور امریکہ کے نظام میں وہ کیافرق ہے جس نے ایک کو پیچھے اور دوسرے کو آگے کر دیا ہے ۔
اس فیاضانہ سلوک کا سبب غالباً یہ تھا کہ انھوں نے اپنے ریکارڈ کے مطابق پایا کہ اس سے پہلے نومبر 1985میں میں امریکہ گیا تو میں کانفرنس میں شرکت کے بعد فوراً واپس آگیا۔ وہاں میں نے نہ ان کی انتظامیہ کے لیے کوئی مسئلہ پیدا کیا اور نہ ناجائز طور پر زیادہ ٹھہرنے کی کوشش کی ۔ ترقی یافتہ ملکوں میں صرف وہ شخص مشکلات سے دوچار ہوتا ہے جو وہاں کے نظام سے انحراف کرے۔ مگر ہندستان جیسے ملکوں میں ہر حال میں آدمی کو دفتری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے، خواہ اس نے مقررہ نظام سے ادنیٰ انحراف بھی نہ کیا ہو۔
آخری دنوں میں ایک مسئلہ پیش آیا ۔ میرے رفیق سفر کونئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ سے ویزاحاصل کرنے کے لیے ایک تحریر درکار تھی جس میں بتایا گیا ہو کہ امریکہ کے متعلقہ اسلامی ادارہ نے ان کو بھی میرے ساتھ کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا ہے ۔ مگر وقت اتنا کم تھا کہ ڈاک کے ذریعہ سے امریکہ کا خط ہندستان نہیں پہونچ سکتا تھا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے امکانات کو استعمال کر کے جدید انسان نے اس مسئلہ کو حل کر لیا ہے۔ چنانچہ امریکہ کے دفتر کو بذریعۂ ٹیلی فون ضرورت بتائی گئی اور ایک گھنٹہ کے اندر ان کا دستخط شدہ خط دہلی میں موجودتھا۔
یہ تیز رفتار ترسیل اس آلہ کے ذریعہ ممکن ہوئی ہے جس کو موجودہ زمانے میں تصویری مشین (Facsimile machine) کہا جاتا ہے اور جس کا مختصر نام فیکس (Fax) ہے ۔ آپ ایک تحریر یا ایک خط تیار کر کے مشین میں ڈالیں ، اور ایک سکنڈ کے اندر وہ مطلوبہ مقام پر پہونچ کر ویسا ہی چھپا ہوا نکل آئے گا ۔
ابتدائی انسانی دور میں صرف پیدل پیغام رسانی کا طریقہ رائج تھا۔ پھر گھوڑوں کا استعمال ہونے لگا۔ اس کے بعد ٹیلی گرام ٹیلی فون اور ٹیلکس کے طریقے دریافت ہوئے۔ اب فیکس کے طریقہ نے سب پر برتری حاصل کرلی ہے۔ اللہ تعالٰی نے کتنی زیادہ نعمتیں انسان کو دے رکھی ہیں، مگر کتنے کم لوگ ہیں جو اس کا واقعی شکر ادا کر تے ہوں۔
دہلی کا انٹرنیشنل ایر پورٹ ہے۔ انتظار گاہ میں بہت سے ملکی اور غیر ملکی مسافر دروازہ کھلنے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کچھ ہندستانیوں نے ہندستانی ہوائی اڈوں پر تبصرہ شروع کیا ۔ ایک شخص نے کہا کہ میں نے فلاں فلاں ملکوں کے ہوائی اڈے دیکھے ہیں، ان کے مقابلےمیں ہندستانی ہوائی اڈے بالکل پسماندہ نظر آتے ہیں۔ قریب کی کرسی پر ایک جاپانی مسافر بیٹھا ہوا ان کی پر جوش باتیں سن رہا تھا ۔ آخر میں وہ نہایت آہستگی کے ساتھ بولا : دوستو کسی ملک کا ہوائی اڈھ ویسا ہی ہوتا ہے جس کا وہ تحمل کر سکتا ہو اور جس کا وہ مستحق ہو، نہ اس سےزیادہ اور نہ اس سے کم :
Friends, a country gets the airports it can afford – and deserves. No more, no less.
جاپانی کا یہ تبصرہ سن کر اکثر لوگ چپ ہو گئے ۔ تاہم ایک شخص بولا : جناب عالی ،اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی داداؤں (Political dadas) کی حکومت ہے ۔ اور جب تک یہ صورت حال قائم ہے، ہمارے ملک میں کوئی ترقی نہیں ہو سکتی ۔
دہلی سے پین ایم (Pan Am) کی فلائٹ نمبر ۶۷ کے ذریعہ روانگی ہوئی ۔ 21 دسمبر 1988کو صبح چار بجے کا وقت تھا کہ جہاز اپنا پر پھیلائے ہوئے رن وے پر دوڑا، اور پھر اوپر اٹھ کر پرواز کرنے لگا۔ یہ عین وہی انداز تھا جو کسی بڑی چڑیا کا انداز پرواز کے وقت ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز بھی عین اسی اصول کے تحت اڑتا ہے جس طرح کوئی چڑیا اڑتی ہے۔
ہوائی جہاز کیا ہے ۔ ہوائی جہاز دراصل چڑیا کی مشینی نقل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہوائی جہاز کا پہلا کامیاب ماڈل وہ ہے جو نیچر (قدرت) نے تیار کیا ۔ اب اگر ہوائی جہاز کی نقل تیار کرنے کے لیے ذہانت درکار ہے تو ہوائی جہاز کی اصل بنانے کا کام کیا ذہانت کے بغیر انجام پاسکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہوائی جہاز ، دوسری بے شمارچیزوں کی طرح ، اس بات کا خاموش اعلان ہے کہ یہاں ایک زندہ ذہانت موجود ہے۔ کائنات کے پیچھے زندہ ذہانت کا اقرار کیے بغیر کائنات کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی ۔
ہوائی جہازوں میں سگریٹ پینے کی اجازت ہوتی ہے ۔ مگر ٹوائیلٹ (غسل خانہ) میں سگریٹ پینا سخت منع ہے۔ حسب معمول ٹوائیلٹ کے باہر لکھا ہوا تھا کہ اس کے اندر اسموکنگ نہ کریں۔ اس ممانعت کے نیچے یہ سطر درج تھی :
This lavatory is equipped with a smoke detector
میں نے اس فقرہ کا اردو میں ترجمہ کرنا چاہا تو اس کا عمدہ لفظی ترجمہ سمجھ میں نہ آیا۔ ایک لمحہ کے لیے خیال ہوا کہ اردو زبان جدید ترقی یافتہ زبانوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔ مگر یہ بات کلی طور پر صحیح نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ انگریزی زبان کا ارتقاء جن حالات میں ہوا ، اس کی وجہ سے اس کے اندر مشینی خیالات کو ادا کرنے کی زیادہ بہتر صلاحیت پیدا ہوگئی مگر ایک اور میدان ایسا ہےجہاں اردو (اور عربی) کو مغربی زبانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ ہے روحانی تجربات یا معرفت ِربّانی والے خیالات کو ادا کرنا ۔
مسٹر خوشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ مسٹر راجیو گاندھی جہاز چلا رہے تھے۔ اتفاق سے خوشونت سنگھ بھی اسی جہاز سے سفر کر رہے تھے ۔ راجیو گاندھی نے خوشونت سنگھ کو پیش کش کی کہ وہ پائلٹ کے کیبن ((Cockpit میں آئیں اور دیکھیں کہ ہوائی جہاز کس طرح چلایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کا ایک عام مسافر صرف ہوائی جہاز کو اڑتے ہوئے دیکھتا ہے۔ وہ اس کا مشاہدہ نہیں کرتا کہ ہوائی جہاز کس طرح اڑایا جاتا ہے ۔
کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ میں چاہتا ہوں کہ کائناتی جہاز کے" انجن" کو دیکھوں ۔ میں اس عالم غیب کو دیکھوں جس کے تحت یہ عالم شہود چلایا جارہا ہے۔ موت کے بعد ہر آدمی اس کو دیکھے گا۔ مگر اس لذت دیدار کی سعادت انھیں لوگوں کو ملے گی جنھوں نے دنیا میں اپنی "بینائی "کی حفاظت کی ہو۔ جو لوگ دنیا میں اپنی "بینائی "کو کھو دیں انھوں نے گویا اپنے آپ کو اس ربانی مشاہدہ کے لیے نا اہل بنالیا ۔ وہ دنیا میں خدا کی بات کو دیکھنے سے محروم تھے ، آخرت میں وہ خدا کی ذات کو دیکھنے سے محروم رہیں گے۔
دہلی اور فرینکفرٹ کے درمیان سفر کرتے ہوئے جہاز ہلنے لگا ۔ تقریباً ایک گھنٹے تک شدید جھٹکے لگتے رہے۔ خالص فنی اعتبارسے اس قسم کے جھٹکے خطرناک نہیں ہوتے ۔ مگر ایک عام مسافر جو 35 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑرہا ہو اور اس کی سواری ہچکولے کھانے لگے تو اس کا غیر متاثر رہنا سخت مشکل ہے ۔ بے اختیار میری زبان سے کلمہ کے الفاظ نکلنے لگے۔
اس وقت خیال آیا کہ آخر وقت میں کلمہ پڑھنے کی اہمیت کیوں ہے ۔ اس کی روح یہ ہے کہ مؤمن پر آخری وقت آئے تو وہ چاہنے لگتا ہے کہ اپنے اعمال نامہ میں کوئی آخری نیکی ریکارڈ کر اسکے ۔ اس وقت اس کو سب سے بہتر چیز صرف کلمہ نظر آتا ہے۔ کیوں کہ کلمہ دو سب سے بڑی حقیقت کا اعلان ہے ۔ ایک یہ کہ اس دنیا کا معبود صرف ایک اللہ ہے ۔ اور دوسرے یہ کہ یہاں کامل صداقت صرف ایک ہے ، اور وہ وہی ہے جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانوں پر ظاہر کی گئی۔ آخر وقت میں کلمہ پڑھ کر بندہ گویا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ خدایا ، میں کوئی عمل نہ کرسکا، اب میں اعتراف کو تیری خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ میرے پاس اقرارِ عملی کا سرمایہ نہیں۔ تو اقرارِ لسانی کو میری طرف سے قبول کر لے ۔
ساڑھے آٹھ گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد جہاز فرینکفرٹ کے ہوائی اڈہ پر اترا۔ فرینکفرٹ کو مغربی جرمنی کا تجارتی مرکز (Business capital) کہا جاتا ہے ۔ گویا مغربی جرمنی میں اس کی حیثیت وہی ہے جو ہندستان میں بمبئی کی اور امریکہ میں نیویارک کی ۔ 1944 کے ہوائی حملہ میں فرینکفرٹ تباہ ہو گیا تھا۔ تاہم اب چند تاریخی عمارتوں کے سوا کہیں اور اس کا نشان موجود نہیں –––––– اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں تخریب کے بعد نئی تعمیر کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
فرینکفرٹ میں ایک دکان ہے جو 325 سال سے مسلسل جاری ہے اس کا نام میسن (Meissen) ہے۔ یہ کٹلری کی دکان ہے۔ یہاں سے آپ ۷۰قسم کی قینچیاں اور ایک سو قسم کی چھریاں خرید سکتے ہیں ۔ تجارت کی کامیابی سب سے زیادہ استقلال پر منحصر ہے۔ مگر یہی صفت موجودہ مسلمانوں میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔
فرینکفرٹ سے پین ایم کی فلائٹ نمبر 87کے ذریعہ سفر ہوا۔ ساڑھے نو گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد جہاز نیو یارک پہونچا۔ نیو یارک میں باہر کا موسم کافی ٹھنڈا تھا۔ تاہم ایر پورٹ کے اندر کا آدمی اپنے آپ کو ایک جزیرہ میں محسوس کر رہا تھا ۔ نیویارک کو عالمی اقتصادی مرکز World Financial Centre)) کہا جاتا ہے۔ یہ جدید مواصلاتی ذرائع کا کرشمہ ہے، اس کے بغیر کسی شہر کو عالمی اقتصادی مرکز کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریباً ۴۰ سال تک امریکہ کو یہ حیثیت حاصل رہی۔ مگر اب امریکہ پر زوال کے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کااعتراف حال میں خود رونالڈ ریگن نے کیا۔
پین ایم کی میگزین (دسمبر 1988) میں ایک مضمون سفر کے بارے میں تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ سفر میں اگرچہ بہت سے فائدے ہیں، لیکن سفر ایک تھکا دینے والا عمل (Tiring task) ہے۔ کم از کم یہ بات میرے لیے صد فی صد سے بھی زیادہ صحیح ہے ۔ اس سفر کے لیے جب میں دہلی سے روانہ ہو ا تو گھر سے رخصت ہوتے ہوئے میری زبان سے نکلا : مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں مذبح کی طرف جا رہا ہوں۔ سفر میں خواہ بظاہر کتنی ہی چمک دمک ہو، مگر میرے لیے وہ ہلاکت خیز حد تک تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہر بار یہ سوچتا ہوں کہ اب کبھی کسی سفر میں نہ جاؤں گا۔ مگر مشن کا تقاضا مجبورکرتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار سفر کرنا پڑتا ہے ۔
انسان کا ذہن قدرت کا ایک خاموش کارخانہ ہے ۔ وہ ہر آن اپنی" پیداوار" دیتا رہتاہے۔ البتہ عام کارخانوں کی طرح ، ذہن کا معاملہ بھی یہ ہے کہ جیسا " خام مال "اس کے اندر ڈالا جائے اسی کے مطابق وہ اپنی پیداوار دے گا۔ مثلاً ایک شخص حسد، بغض ، گھمنڈ اور ناجائز نفع اندوزی جیسی چیزیں اپنے ذہن میں ڈالے تو اس کے ذہن سے جو چیزیں بن کر نکلیں گی، وہ انھیں برائیوں کا مرکب ہوں گی۔ اس کے برعکس جو شخص صالح چیزیں اپنے ذہن میں ڈالےاس کا ذہن صالح پیداوار کا کارخانہ بن جائے گا۔
میرے اندر خدا کے فضل سے توحید، آخرت اور تعمیر پسندی کا مزاج ہے۔ اس لیے میرے ذہن سے جو فکری پیدا وار برآمد ہوتی ہے وہ ہمیشہ انھیں چیزوں کا مرکب ہوتی ہے ۔ نیو یارک سے لاس اینجلس جاتے ہوئے راستےمیں بن جانسن کا واقعہ ذہن میں آیا ، اس نے کہا تھا کہ لوگوں نے مجھ سے میرا میڈل چھینا ہے نہ کہ میری رفتار (الر سالہ فروری 1989، صفحہ5)
میرے ذہن میں آیا کہ اس بات کو اگر لفظ بدل کر کہیں تو وہ یہ ہوگا کہ : لوگوں نے مجھ سے اپنی دی ہوئی چیز چھینی ہے نہ کہ خدا کی دی ہوئی چیز ۔ انسان کی دی ہوئی چیز ہمیشہ کم ہوتی ہے اور خدا کی دی ہوئی چیز ہمیشہ زیادہ ۔ ہر آدمی جب بھی کوئی چیز کھوتا ہے تو وہ " کم "کو کھوتا ہے"زیادہ "پھر بھی اس کے پاس باقی رہتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ کم کو بھول کر زیادہ پر اپنی ساری توجہ لگا دے ۔
ایک اور موقع پر ایک تجربہ گذرا ۔ اس کے بعد میری زبان پر یہ الفاظ آگئے : آج کا انسان تمنا کے درجہ میں بھی جنت کا طالب نہیں، عمل کے درجہ میں اس کا طالب ہونا تو درکنار ۔ ایسی حالت میں لوگوں پر جنت کے دروازے کھلیں تو کیسے کھلیں ۔
ہندستان سے امریکہ جانے کے لیے پان امریکن کی دو روٹ ہیں ۔ ایک لندن کے راستہ سے ۔ دوسرا، فرینکفرٹ کے راستہ سے ۔ پچھلی بار نومبر 1985 میں جب میں امریکہ گیا تھا تو لندن کے راستہ سے گیا تھا۔ امریکہ کے لیے میرا موجودہ سفر21 دسمبر 1988 کو ہوا۔ کانفرنس کے منتظمین نے اس بار جو ٹکٹ بھیجا وہ فرینکفرٹ کے راستہ سے تھا ۔ جس دن میں نے فرینکفرٹ سے نیو یارک کے لیے پین ایم کی فلائٹ نمبر 67 سے سفر کیا۔ عین اسی دن پین ایم کا دوسرا جہاز فلائٹ نمبر 103 لندن سے نیو یارک کے لیے روانہ ہوا تھا ۔ اگر میری روٹ لندن کے راستہ سے ہوتی تو میں عین اسی جہاز میں ہوتا ۔
لندن سے نیو یارک جانے والے اس جہاز (فلائٹ 103) کے ساتھ عجیب حادثہ پیش آیا۔لندن سے روانہ ہو کر وہ فضا میں بلند ہوا اور31 ہزار فٹ کی اونچائی پر پہونچ کر880 کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے لگا۔ جب وہ اسکاٹ لینڈ میں داخل ہوا تو اچانک اس میں دھماکہ ہوا۔ وہ وہاں کے ایک گاؤں لا کر بی (Lockerbie) کے اوپر گر پڑا ۔ جہاز مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اس کے اوپر اس وقت 258 مسافر تھے جو سب کے سب فوراً ہی ہلاک ہو گئے ۔
امریکہ کی سر زمین پر اترنے کے بعد مجھے جو پہلی خبر ملی وہ یہی تھی ۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میری روٹ کو بدل دیا ۔ اگر میرا سفر لندن کے راستہ سے ہوتا تو الرسالہ کے قارئین کو "سفر نامہ" کے بجائے شاید میری موت کی خبر پڑھنے کو ملتی ۔
امریکہ کی سرزمین پر پہلی بار میں اپریل 1983 میں آیا تھا ۔ اس کی مختصر روداد الرسالہ جون 1983 میں چھپ چکی ہے۔ اس وقت میں ٹرانزٹ پیسنجر کے طور پر نیویارک ایر پورٹ پر اترا تھا۔ اس موقع پر ایک عجیب نا قابلِ فہم واقعہ پیش آیا۔ ہوائی جہاز سے اترکر میں بھی دوسرے مسافروں کے ساتھ کاؤنٹر پر کھڑا ہو گیا۔ میری باری آئی تو کلرک نے میرے پاسپورٹ پر مہر لگانے کے بجائے اس کو اپنے پاس رکھ کر مجھے ایک طرف کھڑا کر دیا ۔
میں انتظار میں کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ تمام مسافر ایک کے بعد ایک چلے گئے ۔ اتنے میں ایک سیاہ فام سپاہی آیا۔ کلرک نے فوراً میرا پاسپورٹ اس کے حوالے کر دیا جیسے کہ وہ اسی کا انتظار کر رہا ہو۔ اب میں اس سپاہی کی تحویل میں تھا ، اور میرا پاسپورٹ اس کے قبضے میں تھا۔ وہ مجھ کو لے کر لاؤنج میں کھڑا ہو گیا۔ اب دوبارہ ایک اور شخص کے انتظار کا مرحلہ شروع ہوا۔ کافی دیر کے بعد ایک سفید فام پولیس افسر آیا۔ سیاہ فام سپاہی نے اب میراپاسپورٹ اس کے حوالے کر دیا۔
سفید فام پولس افسر نے کہا کہ میرے ساتھ آؤ۔ چنانچہ میں اس کے ساتھ چلا۔ یہاں تک کہ ہم لوگ ایر پورٹ کے باہر پہونچ گئے ۔ یہاں پولس کی ایک کار کھڑی ہوئی تھی۔ ہم دونوں کار پر بیٹھ گئے ۔ کارروانہ ہوئی اور مختلف سڑکوں سے ہوئی بالآخر ایک بڑی بلڈنگ کے سامنے رکی۔ پولس افسر مجھ کو لے کر اندر داخل ہوا ۔ یہ اس کا دفتر تھا۔ یہاں اس نے مجھے کرسی پر بٹھایا ۔ اور مشین پر میرے پاسپورٹ کے ہر صفحہ کا فوٹو لینے لگا ۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے پولس افسرسے کہا :
Am I under arrest?
اس نے مسکرا کر کہا کہ نہیں ۔ اب تک ہم دونوں خاموش تھے ۔ اب باتیں ہونے لگیں۔ میں نے اسلامی مرکز کا تعارف کرایا تو وہ مجھ سے بہت مانوس ہو گیا۔ اس نے اپنا نام مسٹر لوئی (My Louis) بتایا ۔ اس پولس افسر کی کار پر بیٹھے بیٹھے میں نے پہلی بار نیو یارک شہر کی ایک جھلک دیکھی ۔ تاہم کسی نا معلوم ہدایت کی بنا پر اس نے میرا پاسپورٹ مجھے نہیں دیا ۔ وہ مجھ کو لے کر دوبارہ ایر پورٹ آیا اور خود ہی ایر انڈیا کی پہلی فلائٹ سے میری سیٹ کنفرم کرائی اور مجھ کو ہوائی جہاز کے اندر داخل کر کے بٹھا دیا۔ اس نے کہا کہ آپ کا پاسپورٹ اور دوسرے کاغذات آپ کو پائیلٹ کے ذریعہ مل جائیں گے۔ چنانچہ دوران پرواز مجھے ایک لفافہ دیا گیاجس میں پاسپورٹ وغیرہ موجود تھے۔
امریکہ کے لیے میرا دوسرا سفر نومبر 1985 میں ہوا ۔ اس سفر کی مفصل روداد الرسالہ مارچ - اپریل 1986 میں شائع ہو چکی ہے ۔ امریکہ کا تیسر اسفر موجودہ سفر تھا جو دسمبر1988 میں ہوا۔ ہوائی سفر کے اعتبار سے ہماری آخری منزل لاس اینجلیز تھی ۔ نیو یارک سے لاس اینجلیز تک کا فاصلہ ساڑھے پانچ گھنٹے میں طے ہوا۔ ایر پورٹ سے جائے قیام (انا ہائم ) تک ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی کا ساتھ رہا۔ راستہ کی گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد بالکل صحیح طور پر معلوم نہیں ۔ عام اندازہ کے مطابق 8 ملین سے 10ملین تک مسلمان امریکہ میں آباد ہیں ۔ ان مسلمانوں میں عام طور پر دو قسم کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو ایسے ملکوں سے آئے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت ہے۔ دوسرے، وہ لوگ جو ایسے ملکوں میں تھے جہاںمسلمان اقلیت میں ہیں، اور اب وہ وہاں سے آکر امریکہ میں آباد ہوئے ہیں ۔
اکثریتی ملکوں کے مسلمانوں میں دینداری نسبتاً بہت کم پائی جاتی ہے ۔ ان کے ملکوں میں دینی کام (مثلاً مسجد، مدرسہ وغیرہ) سب حکومت کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے وہ نفسیاتی طور پر یہ سمجھنے لگے کہ یہ سب حکومت کے کرنے کے کام ہیں۔ چنانچہ امریکہ میں انھوں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس اقلیتی ملکوں کے لوگ اپنے ملک میں خود ہی یہ سب کام کر رہے تھے۔ چنانچہ جب وہ امریکہ (یا دوسرے مغربی ملکوں) میں آئے تو اپنی سابقہ نفسیات کے تحت انھوں نے اس کو خود اپنی ذمہ داری سمجھا کہ وہ اپنے دین کا تحفظ کریں اور مسجد اور مدرسے اور دینی ادارے قائم کریں۔ اس وقت امریکہ میں کثرت سے مدر سے اور اسلامی مراکز قائم ہیں۔اور یہ زیادہ تر اقلیتی ملکوں کے لوگوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر صدیقی نے بتایا کہ تاہم یہاں کا تہذیبی دباؤ بہت سخت ہے۔ بمشکل دس فی صد مسلمان ایسے ہوں گے جو اپنے دین کے لیے واقعتاًفکر مند ہوں۔ ڈاکٹر صدیقی کی گفتگو ایک یہودی سے ہوئی۔ انھوں نے دوران گفتگو کہا کہ مغربی ملکوں میں بھی ہم اسلامی حیثیت سے زندہ رہ سکتے ہیں (we can survive) یہودی نے ان کی بات کو سنا اور پھر بولا کہ تیسری نسل کے بعد آکر مجھے بتانا :
Come and tell me after third generation
جس ادارے کی دعوت پر میرا یہ سفر ہوا، اس کے دفاتر گارڈن گروو (Garden Grove)میں واقع ہیں۔ تاہم سیرت کانفرنس کا اہتمام قریب کے شہرانا ہائم (Anaheim) میں کیا گیا تھا۔ یہ امریکہ کا ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہاں میرا قیام ہلٹن ہوٹل (Hilton and Towers) کے کمرہ نمبر 148- 5 میں تھا ۔ مذکورہ "انٹرنیشنل سیرت کانفرنس " کی کاروائیاں اسی ہوٹل کےایک بڑے ہال میں انجام پائیں ۔
انا ہائم ،کیلی فورنیا میں واقع ہے۔ کیلی فورنیا کے بعض حصے نہایت گرم ہیں ۔ مشہور وادیٔ موت (Death Valley) کا تعلق اسی علاقے سے ہے جو تقریبا 225ًٍٍ کیلومیٹر لمبی ہے۔پروفیسر ارونگ (TV.Irving) کی تحقیق ہے کہ کیلی فورنیا کالفظ اسپین سے آیا ہے ۔ عرب جب اسپین آئے تو وہاں کے کسی گرم مقام کو انھوں نے قلعة الفرن (تنور کا قلعہ ) کہا۔ یہ تولفظ اسپینی لہجہ میں بگڑ کر کیلی فورنیا ہو گیا ۔ اس کے بعد جب اسپین کے لوگ امریکہ آئے اور چلتے ہوئے اس مقام پر پہونچے تو یہ مقام انھیں بہت گرم محسوس ہوا۔ چنانچہ اس کا نام انھوں نے کیلی فور نیار کھ دیا۔ گو یا کیلی فورنیا ایک عربی لفظ قلعۃ الفرن کی اسپینی صورت ہے۔
ہندستان ایک زیر ترقی ملک ہے ۔ اس کے مقابلے میں امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ وہاں ہر چیز کا معیار ہندستان سے ممتاز طور پر مختلف ہے ۔ مثلاً ہندستان کا ایک آدمی اپنے ٹی وی سٹ کو چلانے کے لیے اس کے پاس جاتا ہے اور اس کا بٹن دبا کر اس کو آن کرتا ہے ۔ مگر یہاں آپ کو ٹی وی سیٹ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ۔ آپ فاصلہ پر لیٹے یا بیٹھے ہوئے دیا سلائی کے برابر ایک آلہ کا بٹن دبائیں گے اور آپ کا ٹی وی فوراً چلنے لگے گا۔ ریموٹ کنٹرول کا یہ طریقہ اب امریکہ میں بہت زیادہ عام ہو چکا ہے ۔
ہوٹل کے کمرہ کا دروازہ کھولنے کے لیے ہمیں چابی استعمال کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ ہمارے پاس تاش کے پتہ کی مانند ایک چھوٹا سا سوراخ دار کارڈ تھا۔ اس کو ایک خانہ میں ڈالا جاتا تو وہاں ہری بتی جل جاتی۔ اس کے بعد ایک ہینڈل دبانے سے دروازہ اپنے آپ کھل جاتا تھا۔ یہ کمپیوٹر کا کرشمہ تھا۔ وغیرہ، وغیرہ ۔
ہوٹل کے کمرہ کی پشت پر دیواری شیشہ کے باہر میں نے دیکھا تو کمرہ سے ملا ہوا وسیع پارک نظر آرہا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے خیال آیا کہ میں تو ہوٹل کی پانچویں منزل پر ہوں ، پھر یہاں پارک کیسا ۔ مگر یہ چھت کا پارک تھا۔ ہوٹل کے درمیان میں وسیع چھت پر درخت اور پھول اگا کر یہ پارک قائم کیا گیا تھا۔ تاہم اس کی زمین مصنوعی تھی۔ بظاہر زمین پر گھاس کا ہر الان دکھائی دیتا تھا۔مگروہ در حقیقت کیمیائی قالین تھا جو کٹی ہوئی گھاس کی مانند بنا کر زمین پر بچھا دیا گیا تھا۔
ہلٹن ہوٹل کے جس وسیع ہال میں سیرت کانفرنس ہو رہی تھی ، ایک بار مجھے اس کے ٹوائیلٹ میں جانے کی ضرورت پیش آئی۔ اس کے اندر میں نے دیکھا کہ ایک ٹونٹی دار تھا (Watering can) رکھا ہوا ہے ۔ پلاسٹک کا بنا ہوا یہ امریکی لوٹا اس ہندستانی لوٹے سے بالکل مختلف تھا جس کے متعلق یہ استہزائی فقرہ مشہور ہے : " کیا آپ کے شامل بندھنا بھی ہے" ۔ یہ اتنا خوبصورت اور اتنا موزوں بنا ہوا تھا کہ وہ آرٹ کا ایک نمونہ معلوم ہوتا تھا۔ اس کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ ہندستان کے مسلمانوں نے اگر اتنا خوبصورت لوٹا بنایا ہوتا تو ناممکن تھا کہ کسی جواہر لال نہروکو یہ جراٴت ہو کہ وہ ٹونٹی دار لوٹے کو مسلم تہذیب کا نشان بتا کر اس کا مذاق اڑائے ۔ اس کے بعد لوٹے کا مذاق اڑانا خود اپنی بد ذوقی کا اشتہار دینے کے ہم معنی بن جاتا ، اور کون ہے جو اپنی بد ذوقی کا اشتہار دینا پسند کرے ۔
کانفرنس کے دوران عربوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملا ۔ 24 دسمبر کو فجر کی نماز کے لیے مقررہ ہال میں پہونچا تو وہاں دوسرے لوگوں کے ساتھ دکتور جمال بدوی موجود تھے۔ وہ مصری ہیں اور آج کل کناڈا میں رہتے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے نماز پڑھانے کے لیے اصرار کیا۔ میں نے یہ کہہ کر ان کو آگےبڑھا دیا : الائمة من العرب، وأنا أحب أن أسمع قرأة العرب ۔
فنی قاریوں کی قرأت مجھے پسند نہیں ۔ مگر عربوں کی سادہ قرآت مجھے بے حد پسند ہے۔ ایک عرب عالم جب قرآن کی قرآت کرتا ہے تو اس کو سن کر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ صوتی لہروں پر میرا رشتہ ماضی سے قائم ہو گیا ہے۔ یہ سوچ کر ایک ارتعاش (Thrill) کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام بھی اسی طرح قرآن کو پڑھتے ہوں گے۔
یہ اسلام کی ایک نادر خصوصیت ہے جو آج کسی بھی دوسرے مذہب کو حاصل نہیں ۔دوسرے مذاہب کی کتابیں جن زبانوں میں تھیں وہ آج مردہ زبانیں بن چکی ہیں۔ یہ زبانیں جس لہجہ میں اپنے ابتدائی زمانے میں بولی جاتی تھیں ، ان کا تسلسل بعد کی تاریخ میں قائم نہ رہ سکا۔ اس لیے آج یہ جاننا ناممکن ہے کہ قدیم مذاہب کی مقدس کتابوں کو ان کے ابتدائی حاملین کس طرح پڑھتے تھے ۔ مگر قرآن کی زبان پوری طرح ایک زندہ زبان ہے ۔ اس کا لہجہ تواتر کے ساتھ تاریخ میں سفر کرتا ہوا ہم تک پہونچ رہا ہے۔ آج کا ایک فصیح عرب عالم جب قرآن کو پڑھتا ہے تو وہ عین وہی لہجہ ہوتا ہے جس میں اصحاب رسول قرآن کو پڑھتے تھے۔ اس طرح ہر فصیح عرب عالم گویا صحابہ کرام کی قرآت ِقرآن کا زندہ ٹیپ ہے ––––– اللہ تعالی کا کیسا عجیب احسان ہے جو "قرآن محفوظ " کی صورت میں انسانیت کے حصہ میں آیا ہے ۔
قومی آواز (13 جنوری 1989) میں ایک عالم کی تقریر نقل ہوئی ہے ۔ موصوف نے ایک عربی مدرسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ نے قرآن اور اس کی زبان کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے جس کی وجہ سے ڈیڑھ ہزار سال سے یہ کلام اور زبان آج تک ایک حرف کی تبدیلی کےبغیر محفوظ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں تغیرات رونما ہوئے اور ان کی اصلی حالت زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ بدلتی رہی۔ لیکن عربی زبان انقلاباتِ زمانہ کے با وجود اپنی اصل حالت پر برقرار ہے ۔ کیوں کہ یہ کلام الٰہی ہے اور اس نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ۔ مسلمان بجاطور پر اس پر فخر کر سکتے ہیں (صفحہ 6)
قرآن کا اور عربی زبان کا محفوظ ہونا اہل اسلام کے لیے فخر کی بات نہیں بلکہ شکر کی بات ہے۔ کوئی شخص کہے کہ سورج کروروں سال سے برابر روشن ہے اور اس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے تو یہ ایک لغو بات ہوگی ۔ کیوں کہ سورج کو دیکھ کر ہمارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے نہ کہ فخر کا جذبہ ۔ اسی طرح قرآن اور عربی کا محفوظ ہونا بھی شکر کا موضوع ہے نہ کہ فخر کا موضوع ۔ موجودہ زمانےکے مسلمانوں کی اصل غلطی یہی ہے کہ انھوں نے قرآن اور اسلام کو اپنا قومی فخر بنا لیا ہے۔ یہی وہ برائی ہے جس میں اس سے پہلے یہود مبتلا ہوئے، اور اب مسلمان بہت بڑےپیمانےپر اس میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔
کانفرنس کے پروگرام میں شیخ جاد الحق (شیخ الازهر ، قاہرہ )ڈاکٹر عبدالمحسن الترکی (ریاض) اور ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف (مکہ) کا نام بھی تھا۔ وہ لوگ اس کے اجلاس کو خطاب کرنے والے تھے مگر آخر وقت میں کچھ اسباب پیش آنے کی وجہ سے وہ شرکت نہ کر سکے ۔ ان لوگوں کےنمائندے کا نفرنس میں شریک ہوئے۔
کانفرنس میں ایک عرب شیخ نے بہت دلچسپ تقریر کی ۔ انھوں نے عربی میں خطاب کرتے ہوئے کہا : هل قرأتم في القرآن : أدع الى سبيل ربك بالسيف او بالارهاب ( کیا آپ نے قرآن میں پڑھا ہے کہ اپنے رب کے راستہ کی طرف تلوار اور دہشت گردی کے ذریعہ بلاؤ) اس کے برعکس قرآن میں ہے کہ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ بلاؤ (النحل125) اس کے بعد انھوں نے بہت اچھے انداز میں اس کی تفصیل کی کہ دعوت دل کو جیتنے کا نام ہے نہ کہ جسم کو قتل کرنے کا ۔
میں نے کہا کہ میں اس میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ دوسرے لوگ اگر" سیف " کو استعمال کریں تب بھی ہمیں حکمت اور موعظت حسنہ ہی کے طریقہ پر قائم رہنا ہو گا۔ اس کےبغیر حکیمانہ دعوت کا عمل جاری رہنا ممکن نہیں ۔
ڈاکٹر مدثر حسین صدیقی (ملک عبد العزیز یونیورسٹی،جدہ) نے کہا کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی نظر میں ان کی منفی تصویر( (Negative image بن گئی ہے ۔ اس صورت حال کو بدلنا اور لوگوں کی نظر میں مسلمانوں کی مثبت تصویر (Positive image) بنانا وقت کا سب سے بڑا کام ہے ۔ یہ عین وہی بات ہے جس کی الرسالہ مشن کے ذریعےکوشش کی جارہی ہے ۔ ڈاکٹر مدثر حسین صدیقی ہمارے اس مشن سے پوری طرح واقف ہیں ۔
میں نے کہا کہ یہ بات صحیح ہے ، مگر وہ اس وقت تک نامکمل ہے جب تک اس میں یہ دوسری بات شامل نہ کی جائے کہ تصویر کوبدلنے کا یہ کام خود مسلمانوں کو کرنا ہوگا۔ اور یہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مسلمان دوسروں کی ایذا رسانی پر یک طرفہ طور پر صبر اور اعراض کی پالیسی اختیار کریں ۔
23 دسمبر 1988 کو شام کے اجلاس میں میں نے اپنا مقالہ (انگریزی) پڑھ کر سنایا۔ سننے کے بعد بہت سے لوگوں نے اس کی کاپی حاصل کرنا چاہا۔ کانفرنس کے منتظمین کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ مقالہ دوسرے مقالوں کے ساتھ کتابی مجموعہ میں شائع کیا جائے گا۔ نیز اس کا مکمل ویڈیو ٹیپ بھی کانفرنس کے منتظمین کے پاس موجود ہے ۔ مقالہ کا عنوان یہ تھا :
Dawah Activism: The Prophetic Method
24 دسمبر کی شام کو" ورک شاپ "تھی۔ اس میں کافی لوگ شریک ہوئے۔ اس نشست کے ماڈریٹر ڈاکٹر عبدالرحیم الطالب (سوڈانی )تھے ۔ ایک اعتبار سے یہ "سوال وجواب" کی مجلس تھی۔ سب کے سب پڑھے لکھے لوگ تھے۔ پوری گفتگو نہایت سنجیدہ علمی انداز میں ہوئی۔
ابتداءً میں نے دعوت کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی کچھ مزید وضاحت کی ۔ اس کے بعد تحریری انداز میں سوالات آنا شروع ہوئے۔ تقریباً دو درجن سوال آئے ۔ میں نے مختصر اور مثبت انداز میں سوالات کا جواب دیا۔ یہ سوالات کس قسم کے تھے ، اس کا اندازہ کرنے کے لیے تین سوالات یہاں نقل کیے جاتے ہیں :
1. Please tell us which are the books in English that can enlighten the non-Muslims who are interested in accepting Islam.
2. We are having difficulty in doing Dawah work because of bad and wrong practices of Muslims. The religion of Islam teaches one thing and the Muslims do just against it. What is your answer to this problem.
3. Could you explain how does one manage to awaken his or her spiritual consciousness.
23 دسمبر کی شام کو کانفرنس ہال میں ایک اثر انگیز واقعہ پیش آیا ۔ اسی روز میں نے اپنا 45 منٹ کا مقالہ پڑھا تھا ۔ جیسے ہی میں نے اپنا مقالہ ختم کیا ۔ سامنے کی نشستوں پر ایک امریکی نوجوان کھڑا ہو گیا ۔ اس نے کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں ۔ اس نوجوان کو اسٹیج پر لایا گیا اور مائک کے پاس کھڑا کر کے اس سے کلمہ پڑھایا گیا ۔ اس کے بعد انگریزی میں کلمۂ شہادت کی تشریح بتائی گئی ۔
بعد کو اس نوجوان سے میری ملاقات ہوئی ۔ اس نے اپنا نام میر یوسرانو (Mario Serrano) بتایا ۔ اس کی عمر ۲۳ سال تھی۔ اس نے بطور خود کچھ اسلام کا مطالعہ کیا تھا ، مگر اسلام قبول کرنے کی بابت آخری فیصلہ اس نے کانفرنس میں میرا مقالہ سننے کے بعد کیا۔ اسی طرح امریکہ میں اور پوری دنیا میں ہر روز کچھ نہ کچھ افراد اسلام قبول کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ اسلام کی اپنی طاقت کے ذریعہ ہو رہا ہے ، مسلمانوں کے کسی باقاعدہ تبلیغی عمل کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۔
24 دسمبر کی شام کو آخری پروگرام تھا ۔ اس موقع پر امریکن مسلم کمیونٹی کے قائد امام ویلیس (وارث ) محمد نے خطاب کیا۔ وہ با قاعدہ باڈی گارڈ کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے۔ وہ شکاگو سے خاص اسی شرکت کے لیے آئے تھے ۔ انھوں نے اسلامی عبادت کے موضوع پر تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کا مقصد مکمل لبریشن ہے۔ یعنی انسان کو ہر عملی یا فکری بند ھن سے آزاد کر کے ایک خدا کا عابد بنانا۔
آخری تقریر سعودی عرب کے پرنس محمد الفیصل کی تھی ۔ وہ سعودی ایمبیسی (واشنگٹن) میں اسلامک افیرس شعبہ کے چیر مین ہیں۔ مسلم ملکوں میں غالباً سعودی سفارت خانہ پہلا سفارت خانہ ہے جس نے اس قسم کا اسلامی شعبہ بڑے پیمانہ پر قائم کیا ہے ۔ پرنس محمد الفیصل نے نہایت سادہ اور سنجیدہ انداز میں انگریزی میں تقریر کی جس میں لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ (التوبہ128) کی تشریح بیان کی۔ انھوں نے اپنی تقریر اس جملہ پر ختم کی کہ یہاں آنے سے میرامقصد آپ کے ساتھ شریک ہونا تھانہ کہ آپ سے کچھ کہنا :
I came here to share something with you, rather than to say something to you.
کانفرنس23-24 دسمبر 1988 کو تھی ۔ لوگوں کا اصرار تھا کہ یہاں مزید قیام کیا جائے اور مختلف مقامات (نیو یارک، شکاگو، سان فرانسسکو وغیرہ) میں پروگرام رکھا جائے اور وہاں خطابات کیے جائیں ۔ اگر میں ان لوگوں کی تجویز مان لیتا تو مجھے کئی مہینے تک یہاں ٹھہرنا پڑتا۔ مگر یہ میرے لیے ممکن نہ تھا ، اس لیے کا نفرنس کے بعد میں صرف چند دن ٹھہر سکا اور بعض اجتماعات کو خطاب کیا ۔
23دسمبر کو جمعہ کا دن تھا۔ اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی ۔ یہ مسجد پہلے چرچ تھی۔ مسیحی حضرات نے اس کو فروخت کر دیا۔ چرچ کی یہ عمارت اب مسجد کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔ نماز جمعہ کے بعد مسجد میں قرآن کا مختصر درس دیا ۔ 25 دسمبر کو نماز ظہر کے بعد دوبارہ اس مسجد میں درس حدیث کا پروگرام تھا۔
جمعہ کے دن جب میں مسجد میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ نمازی لوگ اس کے اندر متفرق طور پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر جب پہلی اذان ہوئی تو اس کے فوراًبعد تمام لوگ مل مل کر صف کی صورت میں کھڑے ہو گئے ۔ جماعت سے پہلے کی سنتیں انھوں نے صف بندی کر کے پڑھیں۔ سنتوں سے فارغ ہو کر وہ صف بہ صف بیٹھ گئے۔ خطبہ کے بعد جب جماعت کی نماز شروع ہوئی توان کے اٹھتے ہی صفیں قائم ہوگئیں" آگے آجائیے ، آگئے آجائیے " کی پکار بلند کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ یہی طریقہ ہندستانی مسجدوں میں بھی رائج ہو جائے تو کتنا اچھا ہو ۔
پروفیسر ایوانے یا ز بیک حداد کے حوالہ سے معارف (جنوری 1989) میں ایک رپورٹ(امریکہ میں مسلمان) شائع ہوئی ہے ۔ اس میں درج ہے کہ :
"امریکہ میں مسلمان عورتیں جمعہ کی نماز باجماعت ادا کرتی ہیں۔ مگر مرد اپنی ملازمت اور کاروباری مشغولیتوں کی وجہ سے جمعہ کی نماز کے لیےمسجدوں میں نہیں جاسکتے۔ چنانچہ وہ اتوار کو اجتماعی طور پر ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں "صفحہ 60
امریکہ کے مسلمان مردوں کے بارے میں اس رپورٹ میں جنر لائزیشن سے کام لیا گیا ہے۔ امریکہ کے مسلمان مرد تین قسموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتا۔ ایک گروہ اتوار کے دن ظہر کی با جماعت نماز کو جمعہ کے بدل کے طور پر ادا کرتا ہے۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو حسب قاعدہ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز ادا کرتا ہے ، 23 دسمبر کو میں خود جمعہ کی ایک جماعت میں شریک ہوا۔
جناب صغیر اسلم صاحب کی رہائش گاہ پر 25 دسمبر کو عورتوں اور مردوں کی ایک تعداد جمع ہوئی۔ یہ زیادہ تر تاجر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے ۔ اس موقع پر آیات اور احادیث کی روشنی میں مفصل خطاب ہوا ۔ 27 دسمبر کو نماز عشاء کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں تیسر ا خطاب ہوا۔ اس کا موضوع حقیقت دین تھا۔ پھر 28 دسمبر کی شام کو صغیر اسلم صاحب کی رہائش گاہ پر دوبارہ اجتماع ہوا۔ اس موقع پر میں نے اسلام میں آخرت کا تصور اور اس کی اہمیت پر ایک تقریر کی۔ ان سب تقریروں کا ٹیپ وہاں کے لوگوں کے پاس موجود ہے ۔
29 دسمبر کے اجتماع میں ایک انجینیر ، صفی الرحمن قریشی (پیدائش 1951) بھی موجود تھے۔ میں نے دیکھا پورے مجمع میں وہ سب سے کم بولنے والے ہیں۔ اجتماع کے دوران وہ مکمل طور پر خاموش رہے ۔ بعد کو ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئےایک حدیث سنائی جس میں بتایا گیا ہے کہ جو شخص چپ رہا ، اس نے نجات پائی (مَنْ سَكَتَ نَجا)میں نے کہا کہ آپ اس حدیث کی تشریح کن الفاظ میں کریں گے ۔ انھوں نے کہا : "جب میں بول رہا ہوں تو میں سیکھ نہیں رہا ہوں۔" یہ ان کی یہ مختصر تشریح مجھے بہت پسند آئی۔
ایک مجلس میں دعوتی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ہفت روزہ الدعوۃ (ریاض )کے شمارہ 12 ستمبر 1988 میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا عنوان یہ تھا کہ کیا ہم مغرب کی مسلم نسلوں کو ضائع ہونے کے لیے چھوڑ دیں :
أَجْيَالُنَا الْمُسْلِمَةَ فِي الْغَرْبِ هَلْ نَتْرُكُهَا نَهْبًا لِلضَّيَاعِ .
مضمون میں بتایا گیا تھا کہ اس وقت مغربی دنیا میں جو مسلمان آباد ہیں، ان کی تعداد دس ملین سے زیادہ ہے ۔ یہ لوگ گویا مغرب میں ہمارے سفیر ہیں (هُمْ سُفَرَاءُنَا فِي الْغَرْبِ)
یہ بلاشبہ صحیح ترین لقب ہے جو مغرب میں مقیم مسلمانوں کو دیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں جو مسلمان آباد ہیں ، انھیں اگر اپنی اس حیثیت کا شعور ہو جائے تو وہ اسلام کی تاریخ میں ایک نئےباب کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
میں نے انھیں ایک حدیث سنائی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسی بستی کا حکم دیا گیا ہے جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں ، مگروہ مدینہ ہے (أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ،) (صحیح البخاری حدیث نمبر 1882 )اس حدیث سے اسلام کا طریق کار معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ " مکہ" میں اگر اسلامی دعوت کے لیے حالات نامساعد ہوں تو "مدینہ" کو دعوتی مرکز بنا کر دوسرے علاقوں کو مسخر کرو۔ یہ طریق کار دورِ اول میں نہایت کامیابی کے ساتھ زیر عمل لایا جا چکا ہے ، اور موجودہ زمانےمیں بھی اس کے مواقع پوری طرح موجود ہیں ۔
میں نے کہا کہ امریکہ کو آج اسی قسم کے ایک " قریہ " کا مقام حاصل ہے۔ امریکہ میں وہ حالات مکمل طور پر پیدا ہو چکے ہیں جو قدیم زمانے میں " یثرب " میں پیدا ہوئے تھے۔ یہاں کے لوگوں میں مختلف اسباب سے دین حق کی پیاس پیدا ہو چکی ہے۔ یہاں دعوت و تبلیغ کے آزادانہ مواقع پوری طرح موجود ہیں۔ یہاں وہ تمام جدید ترین اسباب و وسائل مہیا ہیں جو اشاعت فکر کے کام کو موثر طور پرانجام دینے کے لیے درکار ہیں ۔
مزید یہ کہ امریکہ، کو ایک اعتبار سے، عالمی قیادت کا مقام حاصل ہے ۔ اگر امریکہ میں موثر انداز میں دعوتی کام کر کے یہاں کی اکثریت کو اسلام کے دائرہ میں داخل کر لیا جائے تو وہ دوسری قوموں کو اسلام کے دائرہ میں داخل کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ حدیث کے الفاظ میں ، امریکہ کا " قریہ"دوسرے تمام قریوں کو نگل جائے گا۔
مک کلوسکی (Pete McCloskey) امریکہ کے ایک سیاسی لیڈر ہیں ۔ وہ پندرہ سال تک کانگریس (پارلیمنٹ) کے ممبر رہے ہیں۔ وہ مسلم نو از مشہور ہیں ، خاص طور پر فلسطین کے معاملہ میں وہ کھلے طور پر اسرائیل کے مخالف اور عربوں کے حامی ہیں۔ چنانچہ یہاں کے یہودی ان کے سخت مخالف ہیں۔ پچھلے الیکشن( کیلی فورنیا )میں یہودیوں نے ان کے خلاف متحدہ ووٹ دے کر انھیں ہرا دیا۔اس حلقۂ انتخاب میں یہودی ووٹوں کی تعداد8000 ہے۔
دسمبر1988 میں نیو یارک میں پانچواں"مسلم ورلڈ ڈے " منایا گیا ۔ اس موقع پر روز ویلٹ ہوٹل کے ہال (Grand Ballroom) میں تقریر کرتے ہوئے مسٹرمک کلوسکی نے کہا کہ امریکہ ہمیں مسلمانوں کی مجموعی تعداد یہودیوں سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یہودی یہاں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ، اور مسلمانوں کا یہاں کی پالیسیوں پر کوئی اثر نہیں۔ اس کی وجہ خود مسلمان ہیں نہ کہ امریکی نظام ۔ امریکی مسلمان اگر اپنے ووٹوں کا بھر پور استعمال کریں تو وہ یہاں کے نظام کو بدل سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہود نوازی امریکہ کی روایتی پالیسی نہیں ۔ موجودہ یہود نواز پالیسی کا سبب یہ ہے کہ امریکہ کا یہودی گروپ نہایت گہرے طور پر یہاں کے سیاسی عمل میں شریک ہے اور ہر سطح پر اس میں حصہ لیتا ہے۔ امریکہ میں ایک اور طاقتور گروپ ہے جو تعداد میں زیادہ بڑا ہے۔ یہ عرب ہمدردوں (مسلمانوں) کا گروپ ہے ۔ مگر وہ ہمارے سیاسی عمل میں شرکت نہیں کرتا ۔ انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں آپ کے احساسات امریکی نظام میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک آپ اس مقصد کے لیے منظم نہ ہوجائیں :
The reason for the pro-Israeli policy of the United States is because one group of people in this country is deeply involved in political process and participates in it at all levels. The United States has another strong group which is greater in size and that group is Arab sympathisers, (yourselves), which has not participated in our political process. Your feelings about human rights violations will not be translated into American system unless you are not organized. (The Minaret, New York, December 16, 1988).
آپ کو امریکہ میں اور امریکہ کے با ہر بے شمار مسلمان ملیں گے جو امریکہ کی مسلم دشمنی پر الفاظ کا دریا بہائیں گے ۔ مگر ایسا مسلمان شاید ایک بھی نہ ملے جو سنجیدہ طور پر یہ رائے رکھتا ہو کہ یہ خود اپنی عملی کو تاہی کا مسئلہ ہے نہ کہ امریکہ کی اسلام دشمنی کا ۔ امریکہ کو" مسلم دشمنی "کے مقام سے ہٹاکر مسلم نوازی اور اسلام دوستی کے مقام پر لانے کے دو یقینی راستے ہیں ۔ ایک دعوتی عمل کا راستہ ، جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ۔ دوسرا سیاسی عمل کا راستہ ، جس کی نشاندہی مسٹر مک کلوسکی نے کی۔مگر مسلمانوں کے اندر نہ پہلے عمل کے لیے کوئی حقیقی جذبہ ہے اور نہ دوسرے عمل کے لیے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ خود تو اپنی ساری طاقت اپنا ذاتی مستقبل بنانے میں لگائے رہیں ، اور دوسرے لوگ آکر ان کا ملی مستقبل بنا دیں ، مگر اس دنیا میں ایسا واقعہ کبھی ظاہر ہونے والا نہیں ۔
مسلمانوں کی ایک مجلس میں امریکہ میں رہنے والے ہندؤوں کا ذکر آیا ۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا کہ وہ لوگ تو رات دن بس ڈالر کمانے میں لگے رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ بھی تو یہاں یہی کر رہے ہیں ۔ دونوں میں صرف نام کا فرق ہے ۔ ہندو کے نزدیک " ڈالر" اگر مذہبی دیوتا ہے تو آپ کے یہاں ڈالر زندگی کا مقصد ۔
ڈاکٹر رالف سسن ((Dr Ralph R. Sissonاسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک میں کمیونی کیشن کے پروفیسر ہیں۔ پیدائشی طور پر وہ عیسائی ہیں اور امریکہ کی سفید فام نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے میں نے ایک ملاقات میں پوچھا کہ امریکہ میں یہودی صرف ۳ فی صد ہیں ، اس کے باوجود وہ یہاں چھائے ہوئے ہیں۔ ان کی اس غیر معمولی کامیابی کا راز کیا ہے ۔ انھوں نے فوراً کہا کہ ہارڈورک (سخت محنت) اس کے برعکس یہی سوال کسی مسلمان سے کیجئے تو بلا تامل اس کا جواب ہوگا کانسپریسی (سازش(
موجودہ زمانے کے مسلمان دوسری قوموں کے بارے میں نفرت میں مبتلا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسری قوموں کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کر پاتے۔ مذکورہ امریکی پروفیسر اس نفسیاتی پیچیدگی سے خالی تھا۔ اس نے محبت اور نفرت سے اوپر اٹھ کر سوچا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صحیح رائے قائم کرنےمیں کامیاب ہو گیا ۔
موجودہ زمانے کے مسلمان لکھنے والوں نے امریکی یہو دیوں کے بارے میں بے شمار کتا بیں اور مضامین شائع کیے ہیں جن میں جوش و خروش کے ساتھ یہودی سازشوں کا انکشاف کیا جاتا ہے۔ مگر یہ تمام تحریریں بالکل سطحی ہیں ۔ وہ اپنے قاری کو اصل حقیقت سے باخبر نہیں کرتیں ۔
امریکہ کے موجودہ سفر میں میں نے جو نئی باتیں دریافت کیں ، ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ امریکی یہودیوں کی طاقت کا اصل راز ان کی تنظیم ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے امریکہ میں یہودیوں کی تعداد58لا کھ بتائی ہے ۔ اس قلت تعداد کے باوجود، انھوں نے اپنے تمام قابل ِووٹ افراد کو ووٹرلسٹ میں درج کرارکھا ہے ۔ ہر الکشن میں ان کے بیشتر افراد ووٹ دیتے ہیں اور ہمیشہ متحدہ طور پر اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے تمام ادارے شیرازہ کی طرح باہم مربوط ہیں۔ اپنے قومی مقاصد کے لیے وہ بے دریغ دولت خرچ کرتے ہیں۔ ان میں انفرادی سطح پر اختلافات ہیں، مگر قومی نوعیت کے معاملہ میں وہ ہمیشہ متحد رہتے ہیں۔ وہ ارباب کار سے مسلسل ربط رکھتے ہیں اور ان کی رائے کو اپنے حق میں متاثر کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہر کام منظم انداز میں کرتے ہیں نہ کہ اس طرح منفرد انداز میں جس کا ہمارے یہاں عام رواج ہے ۔
امریکی مسلمانوں کی مجموعی تعداد 8 سے 10 ملین تک ہے۔ جب کہ یہودیوں کی موجودہ تعداد زیادہ سے زیادہ 6 ملین قرار دی جاسکتی ہے ۔ مگر مسلمان ہر معاملہ میں یہودیوں کے بالکل برعکس ہیں۔ ان کے درمیان کوئی ملک گیر تنظیم نہیں۔ ان کے بے شمار ادارے ہیں ، مگر سب کے سب آزاد ادارہ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے ووٹ یہودیوں سے زیادہ ہیں مگر سیاسی بے شعوری کی بنا پراب تک وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال نہ کر سکے ۔ امریکی مسلمانوں کا نقطہ ٔنظر ایک لفظ میں یہ ہے کہ –––––– زیادہ سے زیادہ ڈالر کماؤ، اور بقیہ ہر چیز سے غیر متعلق رہو ۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی یہودیوں کا متحد اور منظم ہونا ان کی اصل طاقت ہے ، اور امریکی مسلمانوں کا غیر متحد اور غیر منظم ہونا ان کی اصل کمزوری ۔ جولوگ اس راز کو نہ جانیں وہ امریکی زندگی کی الف ب بھی نہیں جانتے ۔
آخری اجتماع (24 دسمبر) میں اسلامک سوسائٹی (گارڈن گروو) کے لیے تعاون کی اپیل کی گئی ۔ لوگوں نے ڈالر کی صورت میں اپنے عطیات دینے شروع کیے ۔ اسٹیج کے پاس ایک بلیک بورڈ رکھا ہوا تھا۔ اس پر جلی حرفوں میں مسلسل رقم کی مقدار لکھی جارہی تھی ––––– ایک ہزار ڈالر،200 ہزار ڈالر ، 35 ہزار ڈالر ، اس طرح گنتی بڑھتے بڑھتے تقریباً 90 ہزار ڈالر تک پہونچ گئی۔ پورا مجمع بیک وقت بلیک بورڈ پر عطیات کی مقدار دیکھ رہا تھا۔ یہ گویا چندہ کے قدیم طریقہ کو ماڈر نائزکرنا ہے ۔ مجھے یہ طریقہ پسند آیا ۔
گارڈن گروو (Garden Grove)امریکہ کا ایک شہر ہے جو لاس انجلیز کے قریب۔۔۔