دورِ اوّل کی مثال

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا عام خیال یہ ہو گیا ہے کہ پیغمبر کے ساتھ گستاخی یا اس کا استہزاء ایک ایسا جرم ہے جو علی الاطلاق طور پر مجرم کو واجب القتل بنا دیتا ہے۔ یعنی جیسے ہی کوئی شخص ایسے الفاظ بولے جو مسلمانوں کو رسول اللہ کی شان میں گستاخی نظر آئے ، اس کو فوراً قتل کر دیا جائے۔ اس قسم کا مطلق نظر یہ شرعی اعتبار سے بے بنیاد ہے، اسلام میں اس کے لیےکوئی حقیقی دلیل موجود نہیں ۔

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے ساتھ استہزاء کا معاملہ کوئی اتفاقی نہیں۔ یہ مجرمانہ فعل بلا استثناء خدا کے تمام پیغمبروں کے ساتھ ہمیشہ جاری رہا ہے (الحجر11 ، الزخرف7) قرآن میں تقریباً50 مقامات پر بتایا گیا ہے کہ پیغمبروں کے معاصرین نے پیغمبروں کا استہزاء اور تمسخر کیا۔ انھوں نے ان کی شان میں گستاخیاں کیں ۔ مگر  ایک جگہ بھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ جہاں بھی کوئی شخص پیغمبر کا مذاق اڑائے ، فوراً اس کو قتل کر دو ۔ ایسے کسی شخص کو ہرگز زندہ نہ چھوڑو۔

 قرآن میں استہزاء کے جرم کا ذکر تو بار بار آیا ہے مگر اس کے مجرم کے لیے سزائے قتل کا اعلان سار ے قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں۔ قرآن میں مستہزئین رسالت کے سلسلےمیں صرف دو قسم کے ردِّ عمل کا ذکر پایا جاتا ہے۔ یا تو دلائل کے ساتھ ان کی کہی ہوئی بات کو رد کیا گیاہے، یا انہیں خدا کی پکڑ سے اور اس کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے ۔

 یہ استہزاءکرنے والے غیر مسلمین بھی ہوتے تھے (یٰس30) اور منافق قسم کے مسلمان بھی(البقره 14 ،التو بہ 65) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں قسم کے لوگوں کی طرف سے یہ معاملہ اپنی بدترین صورت میں پیش آیا۔ مگر مجرد استہزاء کی بنا پر قرآن میں نہ غیر مسلموں کے لیے قتل کی قانونی سزا کا حکم دیا گیا اور نہ منافق مسلمانوں کے لیے ۔

 حقیقت یہ ہے کہ اگر رسول کی اہانت اور آپ کے ساتھ گستاخی کو اس طرح مطلق انداز میں واجب القتل جرم قرار دے دیا جا تا تو یہ مجرم سے زیادہ خود اسلام کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن جاتا۔ کیونکہ اسلام کے وہ مقدس سپاہی جن کو صحابہ کرام کہا جاتا ہے ، ان کی بیشتر تعداد ابتداءً عین اسی جرم میں مبتلا تھی جس کو  رسول کی شان میں "گستاخی " کہا جاتا ہے ۔ اگر اس جرم کا ارتکاب کرتے ہی فوراً انہیں قتل کر دیا جاتا تو یہ سادہ معنوں میں صرف مجرم کا قتل نہ ہوتا بلکہ تاریخ ساز انسانوں کا قتل ہوتا۔ اس کے بعد اسلام کی وہ تاریخ ہی نہ بنتی جو بعد کو بنی، اور جو موجودہ مسلمانوں کا سب سے زیادہ پُر فخر سرمایہ ہے۔ تمام قیمتی زندگیاں اس سے پہلے ہی ختم ہو جاتیں کہ وہ اسلام قبول کریں اور دنیا کی تاریخ میں وہ عظیم الشان کردار ادا کریں جو منصوبۂ الہی کے تحت ان کے لیے عالمی سطح پر مقدر کیا گیا تھا۔

 اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کچھ واقعات نقل کیے جاتے ہیں۔ یہ واقعات بطور حصر نہیں ہیں، بلکہ صرف بطور مثال ہیں۔ پہلے کچھ غیر مسلموں کے واقعات درج کیے جائیں گے، اور اس کے بعد کچھ مسلمانوں کے واقعات ۔

مستقبل پر نظر

قدیم مکہ میں جو ممتاز افراد تھے، ان میں سے ایک شخص کا نام سہیل بن عمرو تھا۔ آج سہیل بن عمرو کا شمار صحابہ کی فہرست میں ہوتا ہے۔ مگر اس سے پہلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے۔ وہ بدر کی لڑائی میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے۔ اس لڑائی میں رسول اللہ کے مقابلے میں مشرکین کو شکست ہوئی۔ ان کے 70 آدمی گرفتار کر کے مدینہ لائے گئے۔ ان میں سے ایک سہیل بن عمرو بھی تھے ۔

سہیل بن عمرو کے اندر زبان آوری کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ وہ خطیبِ قریش کہے جاتے تھے۔ اپنی اس صلاحیت کو انھوں نے بھر پور طور پر اسلام کے خلاف استعمال کیا۔ وہ شعر اور خطابت کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتے تھے۔ اور آپ کے خلاف اور اسلام کے خلاف لوگوں کو اکساتے رہتے تھے ۔ جب وہ گرفتار ہو کر مدینہ آئے اور ان کے اوپر مسلمانوں کو پوری طرح قابو حاصل ہو گیا ، تو حضرت عمر فاروق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اے خدا کے رسول، مجھے اجازت دیجیے   کہ میں سہیل بن عمرو کے سامنے کے دانت توڑ دوں۔ اس طرح اس کی زبان باہر نکل پڑے گی اور اس کی آواز خراب ہو جائے گی۔اس کے بعد وہ اس قابل نہ رہے گا کہ آپ کے خلاف خطیب بن کر کھڑا ہو سکے۔

بظاہر یہ ایک جائز بات تھی ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ماننے سے انکار کردیا۔آپ نے فرمایا کہ میں اس  کا مثلہ نہیں کروں گا۔ اگر میں اس کا مثلہ کر دوں تو اللہ میرامثلہ کرے گا ، اگرچہ میں ایک رسول ہوں۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے مزید ایک بات فرمائی۔ یہ بات بظا ہر شخصی  ہے مگر وہ ایک عالمی انسانی حقیقت ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ سہیل بن عمرو ایسے مقام پر کھڑے ہوں جہاں تم ان کی مذمت نہ کر سکو۔ (إنه عسی أن يقوم مقاماً لا تذمّه) سیرت ابن ہشام، الجز الثانی ، صفحہ 293) چنانچہ مثلہ  یا قتل کے بغیر سہیل بن عمرو کو چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنے وطن واپس چلے جائیں۔

سہیل بن عمرو کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غیر معمولی سلوک کیا کہ غزوہ ٔبدر (2ھ) کے بعد ان پر قابو پانے کے باوجود انہیں رہا کر دیا۔ مگر اب بھی وہ اپنی اسلام دشمنی سےباز نہ آئے ۔ انھوں نے مکہ کے لوگوں کو دوبارہ اکسایا اور تین ہزار کی فوج لے کر مدینہ پر حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ اندوہناک جنگ پیش آئی جس کو غزوہ ٔاحد (3ھ) کہا جاتا ہے۔

 یہی سہیل بن عمرو تھے جنھوں نے معاہدہ ٔحدیبیہ ( 6ھ) کے موقع پر لفظ رسول کو کاغذ سے محو کر ایا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی یک طرفہ شرائط پر راضی ہونے کے لیےمجبور کیا تھا۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی مدد فرمائی۔8 ھ میں مکہ فتح ہوگیا۔ اس وقت  سہیل بن عمرو کفر کی حالت میں تھے۔ مگر اب بھی ، ثابت شدہ جرائم کے باوجود ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کوئی سزا نہیں دی۔ اس کے بر عکس آپ نے اپنے اصحاب کو ان کے ساتھ حسن اخلاق کی ہدایت فرمائی۔ آپ نے کہا :

مَنْ لَقِيَ سُهَيْلَ بْنَ عَمْرٍو فَلَا يَحدُّ إِلَيْهِ النَّظَرَ ، فَلَعَمْرِي ، ‌إِنَّ ‌سُهَيْلًا ‌لَهُ ‌عَقْلٌ وَشَرَفٌ، وَمَا مِثْلُ سُهَيْلٍ یَجھلُ الْإِسْلَامَ ۔(سیرۃ حلبیہ جلد ۲ ، صفحہ226)

جو شخص سہیل بن عمرو سے ملے ، وہ اس کی طرف تیز نگاہوں سے نہ دیکھے۔ میری جان کی قسم بلاشبہ سہیل عقل اور شرف والا آدمی ہے۔اور سہیل جیسا آدمی اسلام سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔

سہیل بن عمرو کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رعایتیں جاری رہیں۔ غزوہ ٔہوازن کے بعد آپ نے ان کو ایک سو اونٹ تالیف قلب کے طور پر دیے۔ اس عطیہ کے بعد وہ بالکل ڈھ پڑے اور اسلام قبول کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بن گئے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب قبائل میں یہ تاٴثر پھیل گیا کہ وہ شخص دنیا سے چلا گیا جس کی وجہ سے اسلام کو خدا کی مدد ملتی تھی۔ چنانچہ عرب قبائل کی اکثریت ارتداد کی طرف مائل ہوگئی۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مکہ کے بیشتر لوگوں نے یہ چاہا کہ وہ اسلام سے پھر جائیں۔ انھوں نے اس کا پورا ارادہ کر لیا۔ مکہ کی فضا اتنی خراب ہوئی کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل عتاب بن اُسیدروپوش ہو گئے۔

 مذکورہ سہیل بن عمرو اس وقت تک اسلامی جماعت کے ایک فرد بن چکے تھے۔ وہ شاندار خطیب ہونے کے ساتھ ایک بارعب شخصیت والے آدمی تھے۔ جب انھوں نے مکہ کا یہ حال دیکھا تو وہ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے ۔ انھوں نے اپنی اعلیٰ خطیبانہ صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے درمیان ایک پر زور تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ سن لو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نے اس کے سوا کچھ اور نہیں کیا ہے کہ اس نے اسلام کی قوت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔جو شخص ہمارے خلاف کچھ کرے گا ، ہم تلوار سے اس کی گردن مار دیں گے ۔

 سہیل بن عمرو کی گرج دار تقریر کو سن کر لوگوں نے رجوع کر لیا۔ انہوں نے اسلام سے پھرنے کا جو ارادہ کیا تھا ، اس سے باز آگئے ۔ اس کے بعد عتاب بن اسید بھی روپوشی سے نکل آئے۔ راوی کہتے ہیں کہ یہی مطلب تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا کہ ہو سکتا ہے کہ ایک دن وہ ایسے مقام پر کھڑے ہوں جہاں وہ تمہارے نزدیک قابلِ مذمت نہ ہوں بلکہ قابل تعریف ہوں ۔ (سیرت ابن ہشام ، الجزء الرابع ،صفحہ 346)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنّت بتاتی ہے کہ آپ کی نظر حال پر نہیں رکتی تھی۔آپ آدمی کے حال سے گزر کر اس کے مستقبل کے امکانات کو دیکھتے تھے ۔ ایک انسان کا آج اگر باغیانہ ہے تو اس کو نظر انداز کر کے آپ یہ سوچتے تھے کہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں وہ ہمارا وفادار ہو جائے۔ اور پھر اس کی وہ خدا داد صلاحیتیں جو اس وقت اسلام کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں، وہ اسلام کی تائید میں استعمال ہونے لگیں ––––––  تاریخ بتاتی ہے کہ فی الواقع ایسا ہی پیش آیا ۔

اگلی نسلوں تک انتظار

اسلامی تاریخ میں 10 نبوی کو عام الحزن کہا جاتا ہے، کیونکہ اسی سال اولاً ابو طالب اور اس کے بعد حضرت خدیجہ کا انتقال ہو گیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مکہ کے حالات انتہائی حد تک غیر موافق ہو گئے۔ اس کے بعد آپ نے اسی سال مکہ سے طائف کا سفر کیا۔ یہ سفر اس امید میں تھا کہ شاید طائف میں آپ کے لیے کام کے موافق حالات مل سکیں ۔

 مگر عملاً اس کے برعکس ہوا ۔ طائف کے سرداروں (عبدیالیل ، مسعود، حبیب) نے آپ کے ساتھ بے حد گستاخی اور اہانت کا سلوک کیا۔ مزید یہ کہ انھوں نے شہر کے لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جو آپ کی ہنسی اڑائیں اور آپ پر پتھر برسائیں ۔ آپ اس حال میں طائف سے واپس ہوئے کہ پتھروں کی مار سے آپ کا جسم خون آلود ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت عائشہ سے فرمایا کہ میری زندگی کا سب سے زیادہ سخت دن وہ ہےجو طائف کے سفر کے موقع پر گزرا ۔

صحیح بخاری ( باب ذکر الملائکۃ) میں ہے کہ جب آپ طائف سے زخم خوردہ اور غم گین حالت میں واپس لوٹ رہے تھے تو قرن ثعالب کے مقام پر حضرت جبرئیل آپ کے پاس آئے انھوں نے آپ کو آواز دے کر کہا کہ اللہ نے آپ کی قوم کے سلوک کو دیکھا۔ اب اللہ نے ملک الجبال (پہاڑوں کے فرشتہ) کو آپ کے پاس بھیجا ہے۔ آپ اہل طائف کے بارے   میں جو کچھ چاہتے ہیں، اس کا انہیں حکم دیں ۔

 اس کے بعد ملک الجبال (پہاڑوں کا فرشتہ) سامنے آیا۔ اس نے آپ کو سلام کیا اور کہا کہ اے محمدؐ، اللہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے ۔ اللہ نے آپ کے خلاف آپ کی قوم کی بات سنی۔ میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں۔ اگر آپ کہیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو باہم ملاکر اس کے در میان طائف کی بستی کو پیس ڈالوں ۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسلوں سے وہ انسان پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائے ۔ (أَرْجُو ‌أَنْ ‌يُخْرِجَ ‌اللَّهُ ‌مِنْ ‌أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا)(صحیح  البخاری  حدیث  نمبر3059)

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اگر موجودہ نسل نہ مان رہی ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اگلی نسلوں تک انتظار کرنے کے لیے تیار تھے۔ موجودہ لوگوں کی طرف سے تو ہین اور سرکشی کا تجربہ ہونے کے باوجود آپ ﷺ اس امید میں انھیں ہلاک کر نا پسند نہیں کرتے تھے کہ شاید ان کی اولاد یا اولاد کی اولاد میں وہ انسان پیدا ہو جو خدا کی خدائی کا اعتراف کرے اور اس کے آگے اپنے آپ کو جھکا دے ۔

تاریخ بتاتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد کے دور میں طائف کے تمام باشند ے اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے ۔ اس کے بعد انھوں نے اسلام کی راہ میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ۔ مثلاً ابو عبید مسعود ثقفی  انہیں اہل طائف کی اولاد تھے۔ وہ اس مسلم فوج کے قائد تھے جس نے حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانے میں ایران میں جہاد کیا۔ انھوں نے ہاتھیوں کی فوج کے مقابلہ میں غیر معمولی جانبازی دکھا کر ایرانی فوجوں کو اس قدر مرغوب کیا کہ انہوں نے جنگ کا حوصلہ کھو دیا۔

محمد بن القاسم الثقفی  711ء (95ھ) میں سندھ کے راستہ سے ہندستان میں داخل ہوا۔ وہ ایک انتہائی عادل اور باصلاحیت  سردار تھا۔ اس نے صرف دو سال کے عرصہ میں سندھ اور پنجاب میں اتنے بڑے پیمانے پر اسلام کی اشاعت کی کہ ایک پورا علاقہ اللہ کے دین کے سایہ میں آگیا۔ موجودہ پاکستان محمد علی جناح کی دین نہیں بلکہ حقیقتاً وہ محمد بن القاسم ثقفی کی دین ہے ۔

محمد بن القاسم اتنا لائق اور شریف سردار تھا کہ جب وہ ہندوستان سے واپس ہو کر دمشق گیا تو ، فتوح البلد ان کے بیان کے مطابق ، اہل ہند اس کے لیے روئے اور اس کا مجسمہ بنا کر اس کی تعظیم و تقدیس کی (فبکی أهل الهند و صوروہ) اسلام کا قیمتی مجاہد اسی  قبیلہ ٔثقیف سے تعلق رکھتا تھا جس کی بدترین گستاخی اور ایذا رسانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر معاف کر دیا تھا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی اگلی نسل میں ایسے لوگ پیداہوں گے جو اللہ کے عبادت گزار بنیں گے ۔

قبیلۂ ثقیف (اہل طائف) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخی اور ایذا رسانی کا بدترین فعل کیا تھا۔ مزید یہ کہ ان کو سزا دینے کا معاملہ پوری طرح آپ کے قابو میں تھا ، کیونکہ پہاڑوں کا فرشتہ (ملک الجبال) آپ کے حکم کے نفاذ کے لیے آچکا تھا۔ مگر آپ نے انہیں سزا دینے کے بجائے اس کو پسند کیا کہ ان کی نسلوں سے ایسے افراد نکلیں جو اسلام کے سپاہی بن کر اسلام کی تاریخ بنائیں ۔

 حالات بتاتے ہیں کہ فی الواقع ایسا ہی پیش آیا۔ اگر آپ طائف والوں کی گستاخی کی  سزا دینے کے لیے ملک الجبال کو استعمال کرتے تو طائف آج صرف کھنڈروں کی داستان ہوتا ، نہ کہ اسلام کے قلعہ کی تعمیر کی شاندار تاریخ۔

آج کا دشمن کل کا دوست

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی مخالفین میں سب سے برا کردار جس شخص نے ادا کیا، وہ مکہ کا عمرو بن ہشام ہے جو تاریخ میں ابو جہل کے نام سے مشہور ہے۔ ابو جہل کےلڑکے کا نام عکرمہ تھا۔ عکرمہ آج اصحاب رسول کی معزز فہرست میں شامل ہیں، مگر فتح مکہ سے پہلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت مخالف تھے اور اس معاملہ میں پوری طرح اپنے باپ کے ساتھ تھے ۔گستاخی اور جارحیت کی کوئی قسم نہ تھی جو انھوں نے آپ کے خلاف اختیار نہ کی ہو ۔ حتٰی    کہ اپنے باپ کی موت کے بعد بھی وہ بدستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سرگرم رہے۔ مثلاً غزوۂ احد میں مشرک فوج کے میمنہ کے سردار خالد بن ولید تھے ، اور میسرہ کے سردار عکرمہ بن ابی جہل ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عکرمہ کا جرم اتنا واضح تھا کہ فتح مکہ کے بعد وہ مکہ کو چھوڑ کر یمن کی طرف بھاگ گئے۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وہ ضرور قتل کر دیے جائیں گے۔ان کی بیوی جو مسلمان ہو گئی تھیں، وہ یمن جا کر باصرار انہیں واپس لے آئیں۔ وہ انتہائی شرمساری کے ساتھ اپنا سر جھکائے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا مجھے امان ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں، تم کو امان ہے ۔ اس سلسلے میں تفصیلی واقعات سیرت کی کتابوں میں آئے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آخر کار انھوں نے کلمۂ شہادت ادا کر کے اسلام قبول کر لیا۔

عکرمہ جب یمن سے واپس ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آرہے تھے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عکرمہ تمہارے پاس آرہے ہیں۔ تم ان کے باپ (ابو جہل) کو برا نہ کہنا۔ کیونکہ مردہ کو برا کہنا مردہ تک تو نہیں پہنچتا، البتہ وہ زندہ کو تکلیف دیتا ہے ۔ عکرمہ جب آپ کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نہایت خوش ہو کر ان کی طرف تیزی سے بڑھے ، حتٰی    کہ آپ کی چادر آپ کے اوپر سے گر پڑی۔

اسلام قبول کرنے کے بعد عکرمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں آپ سے ایک چیز طلب کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ تم طلب کرو میں تمہیں ضرور وہ چیز دوں گا۔عکرمہ نے کہا کہ میری آپ سے یہ درخواست ہے کہ ہر دشمنی جو میں نے آپ کے ساتھ کی ہے ، یا ہر رکاوٹ جو میں نے آپ کے راستے میں ڈالی ہے ، ہر وہ لڑائی جو میں نے آپ کے خلاف لڑی ہے ، ہر وہ بدکلامی جو میں نے آپ کے منہ پر کی ہے یا آپ کے پسِ پشت کی ہے ، ان سب کو آپ معاف کر دیں اور ان کے بارے میں اللہ سے میرے لیے استغفار فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہی ان کے حق میں یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ ہر وہ عداوت جو عکرمہ نے میرے ساتھ کی ، ہر وہ سرگرمی جو انھوں نے اس ارادے سے کی کہ تیرے نور کو بجھا دیں، ان سب کو تو ان کے لیے معاف کر دے اور وہ سب کچھ جو انھوں نے میری بے آبروئی کے لیےکیا، خواہ میرے سامنے کیا ہو، یا میرے پس پشت ، ان سب کو تو ان سے معاف کر دے ۔

 اس کے بعد عکرمہ نے کہا کہ اے رسول الله ، خدا کی قسم، ہر وہ خرچ جو میں اللہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کرتا تھا ، اب میں اس کا دگنا اللہ کے راستے میں خرچ کروں گا۔ اور اللہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے جو جنگیں میں نے کیں، اب اللہ کے راستے میں اس سےدگنا جنگ کروں گا۔ چنانچہ اس کے بعد عکرمہ اپنی جان اور اپنے مال کےساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں لگ گئے۔ وہ برابر اسی میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ وہ یرموک کے معرکہ میں زبر دست جانبازی دکھاتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ (حیاۃ الصحابہ طبع دمشق، الجزء الاول ، صفحہ 176-177)

 عکرمہ نے گستاخی سے لے کر جارحیت تک ہر جرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیا تھا۔ بظاہر وہ صرف اس قابل تھے کہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قاتل نہیں تھے، داعی تھے ۔ آپ نے عکرمہ کے " آج " میں ایک چھپا ہوا "کل" دیکھ لیا تھا۔ یہی وہ داعیانہ نگاہ تھی جس کی بنا پر آپ نے انہیں یک طرفہ طور پر معاف کر دیا۔ بعد کے واقعات نے بتایا کہ آپ کا اندازہ نہایت درست تھا۔ چنانچہ دشمن عکرمہ کے اندر سےایک دوست عکرمہ  بر آمد ہوا۔ جو شخص اپنی ابتدائی زندگی میں کفر کا کھمبا بنا ہوا تھا، وہ اپنی بعد کی زندگی میں اسلام کا ستون بن گیا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد

او پر ان لوگوں کی مثال نقل کی گئی ہے جو قبولِ اسلام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مرتکب ہوئے مگر انھیں سزا دینے کی بجائے ان کو معاف کر دیا گیا۔ اب کچھ ایسی مثالیں درج کی جاتی ہیں جب کہ آدمی نے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی شان میں گستاخی کی اور آپ کو اذیت پہنچائی ۔ اس کے باوجود اس مسلمان کو قتل کی سزا نہیں دی گئی۔

ا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ، مجھ سے ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر نے مقسم بن ابو القاسم مولٰی عبد الله بن الحرث بن نوفل کی روایت بیان کی ۔ انھوں نے کہا کہ میں اور تلید بن کلاب اللیثی دونوں نکلے، یہاں تک کہ ہم عبد اللہ  بن عمرو بن العاص کے پاس پہنچے ۔ وہ اپنا جوتا ہاتھ میں لٹکائے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ۔ ہم نے ان سے کہا۔ کیا آپ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے جب حنین کے دن تمیمی نے آپ سے بات کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ہاں ۔ بنو تمیم کا ایک شخص آپ کے پاس آیا، اس کو ذوالخویصرہ کہا جاتا تھا۔ وہ آپ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس وقت آپ لوگوں کو مال غنیمت دے رہے تھے۔ (وہ دیکھتا رہا) یہاں تک کہ اس نے کہا کہ اے محمدﷺ، میں نے اس کو دیکھ لیا جو آپ نے آج کیا ہے۔ رسول اللہ

صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے ، پھر تم نے کیا دیکھا۔ اس نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے عدل کیا ہو ( لم أرك عدلت)

عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہو گئے۔ آپ نے کہا کہ تیرا برا ہو ، اگر میرے پاس عدل نہیں ہو گا تو پھر کس کے پاس عدل ہو گا۔

حضرت عمر بن الخطاب نے یہ سن کر کہا کہ اے خدا کے رسول ، کیا میں اسے قتل نہ کر دوں۔ آپ نے کہا کہ نہیں ، اس کو چھوڑ دو ۔ عنقریب اس کی ایک جماعت ہوگی جو دین میں تعمق کرے گی ، یہاں تک کہ وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے کہ تیر شکار سے۔(سیرۃ ابن ہشام ، الجزء الرابع ، صفحہ 144)

مذکورہ مسلمان ( ذوالخویصرہ) کے معاملے پر غور کیجئے ۔ اس نے خدا کے رسول کی شان میں جو گستاخی کی وہ سادہ معنوں میں صرف ایک لفظی گستاخی نہ تھی ، وہ خود آپ کی حیثیتِ رسالت پر ضرب لگانے کے ہم معنی تھی۔ اس شخص نے آپ کی عدالت پر شبہ کیا تھا اور آپ کو اپنے خیال کے مطابق غیر عادل بتایا تھا۔ یہ بات انتہائی حد تک سنگین ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت قرآن کے راوی کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے بواسطہ ٔجبریل خدا کا کلام پایا ہے۔ اور اس کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ آپ کی اسی روایت پریقین کر کے ہم قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہیں ۔

یہ معلوم ہے کہ کسی روایت کو قبول کرنے کے لیے راوی کا عادل ہونا شرط لازم ہے۔ جس راوی کی عدالت مشتبہ ہو ، اس کی روایت کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔ ایسی حالت میں مذکورہ تمیمی مسلمان کا آپ کو غیر عادل بتانا گویا آپ کے راوی ٔقرآن ہونے کی حیثیت کو مشتبہ قرار دینا ہے۔ یہ بلا شبہ سب سے زیادہ سخت بات ہے جو آپ کے خلاف کہی جاسکتی ہے۔ مذکورہ شخص نے اتنی سنگین بات کہی ، اس کے باوجود اس کو نہ کوئی سزادی گئی اور نہ اس کو قتل کیا گیا۔

کیا اس کے بعد بھی اس میں شبہ کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے کہ رسول اللہ کی شان میں گستاخی بجائے خود مستوجب ِقتل  جرم نہیں ہے۔ کسی کے واجب القتل ہونے کے لیے اسی کے ساتھ کچھ مزید اسباب درکار ہیں۔ مثلاً ریاست اسلامی سے بغاوت ۔چند افراد جودور اول میں قتل کیے گئے ہیں، ان کا معاملہ اسی دوسرے حکم کے تحت آتا ہے۔ انہیں ریاست سے بغاوت کے جرم میں قتل کیا گیا نہ کہ مجرد گستاخیٔ رسول کے جرم میں۔

 2 شعبان6 ھ میں وہ غزوہ پیش آیا جس کو اسلام کی تاریخ میں غزوۂ بنی المصطلق کہا جاتا ہے۔ اس غزوہ کے لیے جو لشکر روانہ ہوا ، اس میں عبد اللہ بن ابی اور دوسرے بہت سے منافق قسم کے مسلمان بھی شریک تھے۔ یہ لوگ اپنی بے حسی اور بے خوفی کی بنا پر معمولی باتوں کو شوشہ بنا لیتے اور رسول اللہ اور مخلص مسلمانوں کے خلاف فتنے برپاکر تے رہتے۔ اس سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ عائشہ بنت ابی بکر بھی آپ کے ساتھ تھیں۔ واپسی میں فوج نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا۔ حضرت عائشہ حسب ِمعمول رات کے آخری حصہ میں رفع ِحاجت کے لیے دور چلی گئیں۔ اس وقت ان کے گلے میں ایک معمولی قسم کا ہار تھا ، وہ اتفاق سے ٹوٹ کر گر پڑا ۔ حضرت عائشہ اس کو تلاش کرنے لگیں۔ اندھیرےکی وجہ سے اس میں بہت زیادہ دیر لگ گئی ۔

حضرت عائشہ ابھی لوٹی نہیں تھیں کہ قافلہ روانہ ہوگیا۔ قاعدہ یہ تھا کہ کوچ کے وقت حضرت عائشہ اپنے ہودج میں بیٹھ جاتی تھیں جو چاروں طرف کپڑے سے ڈھکا ہوتا تھا، اور چار آدمی اس کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے ۔ حضرت عائشہ اس وقت ایک چھوٹی اور دبلی  خاتون تھیں۔ چنانچہ ہودج اٹھانے والوں کو یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ اس میں کوئی سواری نہیں ہے۔ انھوں نے خالی ہودج کو اونٹ پر رکھ دیا اور اس کو لے کر روانہ ہوگئے۔

حضرت عائشہ واپس آئیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ کوئی اور صورت نہ پاکروہ وہیں چادر اوڑھ کر لیٹ گئیں ۔ صبح کے وقت صفوان بن معطل سُلمی وہاں آئے جو قافلہ کے پیچھے چلنے پر مامور تھے ۔ میدان میں ایک خاتون کو دیکھ کر وہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اہلیہ (عائشہ) ہیں۔ ان کی زبان سے نکلا۔ اناللہ وانا اليه راجعون اس کے سوا انھوں نے کوئی اور کلام نہ کیا۔ صرف اپنا اونٹ لاکر حضرت عائشہ کے پاس بٹھا دیا۔ حضرت عائشہ اشارہ کو سمجھ کر اونٹ پر سوار ہوگئیں ۔ اس کے بعد وہ اونٹ کی نکیل پکڑ کر تیزی سے آگے کی طرف روانہ ہو گئے ۔

 دو پہر کے قریب یہ اونٹ مسلمانوں کے قافلہ سے جا ملا جبکہ وہ اگلے مقام پر ٹھہرا ہوا تھا۔ ابن ابی ملیکہ نے عروہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ جب اس طرح قافلہ میں پہنچیں تو منافقین کے ایک گروہ نے ان کو دیکھ لیا جو عبد اللہ بن ابی کے ساتھ وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے سردار عبد اللہ بن ابی نے پوچھا کہ یہ کون ہے ۔ لوگوں نے بتایا کہ عائشہ ہیں۔ اس نے کہا کہ خدا کی قسم ،نہ یہ اس سے بچی ہیں اور نہ وہ ان سے بچا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ تمہارے پیغمبر کی بیوی نے ایک غیر شخص کے ساتھ رات گزاری ، یہاں تک کہ صبح ہوگئی ، اب وہ ان کو لے کر آرہا ہے۔ (قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، رَئِيسُهُمْ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالُوا: عَائِشَةُ قَالَ: وَاللَّهِ ‌مَا ‌نَجَتْ ‌مِنْهُ ‌وَمَا ‌نَجَا ‌مِنْهَا، وَقَالَ: امْرَأَةُ نَبِيِّكُمْ بَاتَتْ مَعَ رَجُلٍ حَتَّى أَصْبَحَتْ ثُمَّ جَاءَ يَقُودُ بِهَا ( التفسير المظهري، المجلد السادس، صفحہ  474)

اس کے بعد جب یہ قافلہ مدینہ پہنچا تو عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی سرگرم ہو گئے۔ انھوں نے اس معاملہ کو پروپیگنڈہ کا اشو بنایا اور اس کو بھر پور طور پر آپ کے خلاف استعمال کیا۔ یہاں تک کہ سارے شہر میں ہنگامی حالت پیدا ہو گئی۔ ہر طرف اس کا چر چا تھا ، ہر زبان پر اسی کا تذکرہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید ذہنی اذیت میں مبتلا تھے۔ حضرت عائشہ کا یہ حال تھا کہ وہ رات دن روتی رہتی تھیں۔ اس قصے کی تفصیلات حدیث اور سیرت کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

یہ ہنگامی صورت حال ایک مہینہ تک جاری رہی ۔ یہاں تک کہ سورہ النور کی آیتیں11-21 اُتریں ۔ ان آیات کے ذریعہ اللہ تعالٰی   نے یہ اعلان فرمایا کہ عائشہ مکمل طور پر معصوم اور بے قصور ہیں۔ اس معاملے میں سارا جرم یک طرفہ طور پر عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کا ہے۔ اس طرح   یہ سنگین معاملہ براہ راست خدائی مداخلت کے ذریعہ ختم ہوا۔

عبد اللہ بن ابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا ۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھتا تھا۔ اس کے باوجود اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کے ساتھ اتنا بڑا بہتان تراشا۔ خود قرآن کی گواہی (النور 11) کے مطابق، اس معاملے میں عبد اللہ بن ابی سب سے بڑا مجرم تھا۔ قرآن میں اس کے ابلیسی جرم کا اعلان کیا گیا ، مگر اس کے لیے کوئی قانونی سزا تجویز نہیں کی گئی۔ اس کی سزا کے معاملےکو تمام تر آخرت پر چھوڑ دیا گیا۔ چنانچہ وہ اس واقعہ کے بعد زندہ رہا ، یہاں تک کہ مدینہ میں اپنی طبعی موت سے مر کر وہ اپنا حساب دینے کے لیے خدا کے یہاں چلا گیا۔

 روایات میں آتا ہے کہ ایک موقع پر حضرت عمر فاروق نے عبد اللہ بن ابی کی بابت کہا کہ اے خدا کے رسول ، مجھے اجازت دیجیے   کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو ، لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں (صفحہ  70) ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے مزید یہ فرمایا کہ ہم اس کے ساتھ نرمی برتیں گے اور بہتر سلوک کریں گے ، جب تک وہ ہمارے درمیان رہے (بَلْ ‌نَتَرَفَّقُ ‌بِهِ، وَنُحْسِنُ صُحْبَتَهُ مَا بَقِيَ مَعَنَا ، تفسیر ابن کثیر، الجزء الرابع صفحہ72 )

عبد اللہ بن ابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو کچھ کیا ، وہ آپ کی اور آپ کے اہلِ بیت کی کردار کشی کی بدترین صورت تھی۔ یہ پیغمبر کے خلاف اتنی بڑی مجرمانہ حرکت تھی کہ اس سے بڑی کسی مجرمانہ حرکت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینہ کے حاکم تھے ۔ اس اعتبار سے آپ کو عبد اللہ بن ابی کے اوپر کامل قانونی اختیار حاصل تھا۔ اس کے باوجود آپ نے اس کو قتل نہیں کرایا۔ صرف اس کے جرم کااعلان کر کے اس کو آزاد چھوڑ دیا۔

ایسی حالت میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر کے ساتھ گستاخی علی الاطلاق طور پر مستوجب قتل جرم ہے، وہ ایک ایسی بات کہتے ہیں جس کے لیے ان کے پاس قرآن و سنت کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom