مصلحتِ دعوت

عبداللہ بن اُبی مدینہ کا ایک منافق مسلمان تھا۔ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت عناد تھا۔ چنانچہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہایت بے ہودہ قسم کی گستاخیاں کیں۔ آپ کی ازواج مطہرات کے خلاف گھناؤ نے الزامات لگائے۔ حتٰی  کہ اس کامجرم ِاکبر ہونا خود قرآن ( النور11) میں ثبت کر دیا گیا۔

 عبداللہ بن ابی کے اس مجرمانہ فعل کو دیکھ کر حضرت عمر فاروق نے کہا کہ اے خدا کے رسول، مجھے اجازت دیجیے   کہ میں اس منافق کو قتل کر دوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ، اگر میں ایسا کروں تو لوگ چر چا کریں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور آپ کی ازواج مطہرات کی کردار کشی نہایت سنگین بات ہے ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ سنت بتاتی ہے کہ ایک اور بات ہے جو اسلامی نقطۂ نظر سے اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اوروہ ہے ––––––  لوگوں کو اسلام کی تصویر بگاڑنے کا موقع دینا ۔

 ایک گستاخ رسول کو سزا دینے میں اگر یہ اندیشہ ہو کہ لوگ اس کو بہانہ بنا کر اسلام کی دعوتی تصویر کو بگاڑنے کی کوشش کریں گے ، تو ایسی حالت میں اسلام کی دعوتی تصویر کی حفاظت کو ترجیح دی جائے گی اور گستاخِ رسول کی سزا کے معاملہ کو اللہ کے حوالہ کر دیا جائے گا۔ اسلام میں سب سے زیادہ قابل لحاظ چیز دعوت اور دعوت کا مفاد ہے۔ بقیہ چیزوں کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔

اسلام کے اس تقاضے کی روشنی میں موجودہ مسلمانوں کے اس شدید ردِّ عمل پر غور کیجئے جو انہوں نے سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف ساری دنیا میں ظاہر کیا ہے ۔ اس معاملے میں یہ یقینی تھا اور ہے کہ سلمان رشدی کو اگر قتل کر دیا جائے، یا اس کے خلاف قتل کا" فتویٰ "جاری کیا جائے تو عالمی پر یس اور غیر مسلم صحافت اس کو بہت بڑے پیمانہ پر اسلام کی تصویر بگاڑنے کے لیے استعمال کرے گا ۔

عبداللہ بن اُبی کے قتل پر قدیم زمانےمیں اسلام کو بد نام کرنے کا جو عمل کیا جاتا اس کا اثر مدینہ یا زیادہ سے زیادہ عرب تک محدود رہتا، مگر سلمان رشدی کے معاملے میں اس کا زبردست اندیشہ تھا کہ اس کے خلاف قتل کے فتویٰ کو لے کر سارے کرہ ٔارض  پر اسلام کو بد نام کرنے کی مہم جاری کر دی جائے گی، جیسا کہ فی الواقع ہوئی۔

 سلمان رشدی کے معاملے میں غور کرنے کا سب سے زیادہ قابلِ لحاظ پہلو یہی ہے مگر یہی وہ پہلو ہے جس کو موجودہ مسلم رہنماؤں نے اور ان کی پیروی میں عام مسلمانوں نے سب سے زیادہ نظر انداز کیا ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں نے بلاشبہ اپنی خواہشات کی پیروی کی ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی۔ رسول کے نام پر رسول کے طریقے کی خلاف ورزی کی اس سے زیادہ سنگین مثال شاید پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملے گی۔

 نیو یارک کے ٹائم میگزین (20 مارچ   1989) میں اُٹاوہ کے عبد الحسین ماجد کفائی کا خط چھپا ہے۔ وہ سلمان رشدی کی کتاب کو قابل مذمت کتاب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ زیادہ بہترتھا کہ رشدی کو زندہ رہنے دیا جائے اور تمام لوگ اس پر لعنت کریں ، بمقابلہ اس کے کہ رشدی کو قتل کر دیا جائے اور پھر تمام لوگ مسلمانوں پر لعنت کریں :

It is better to let Rushdie live and be cursed by fanatical Muslims than have him killed and the Muslim world cursed by all.

راقم الحروف عبدالحسین ماجد کفائی کے اس تبصرہ سے متفق ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم دنیا و آخرت میں مقام محمود پر فائز کیے     جاچکے ہیں۔ آپ کی شخصیت اس سے اعلیٰ وارفع ہے کہ کسی "رشدی" کی تحریریں اس کو ادنٰی درجہ میں بھی داغدار کر سکیں ۔

 مگر رشدی کے خلاف مسلمانوں نے قتل کا فتویٰ دے کر جو ہنگامہ برپا کیا ، اس نےاسلام کے معاندین کو اس بات کا سنہری موقع دے دیا کہ وہ اس کو لے کر اسلام کو بد نام کریں ۔ وہ تمام دنیا کو یہ تاثر دیں کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے، وہ قتل و خون کا دین ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سلمان رشدی کے خلاف ہنگامہ کر کے مسلمانوں نے پا یا کچھ نہیں ، البتہ انھوں نے ایک بہت بڑی چیز کھو دی اور جو چیز انھوں نے کھوئی وہ وہی چیز ہے جو اسلام میں سب سے زیادہ قابلِ لحاظ حیثیت رکھتی ہے اور وہ ہے دعوتِ اسلامی کے مواقع ۔

قدیم عرب میں جو "میڈیا "اہل کفر کے پاس تھا، وہی میڈیا اہل اسلام کے پاس بھی تھا۔ اس معاملے میں دونوں برابر تھے۔ موجودہ زمانے میں صورت حال بالکل مختلف ہو گئی ہے ۔ آج عالمی صحافت کا زمانہ ہے۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک بھی ایسا اخبار یا ایسا میگزین نہیں جو عالمی سطح پر پھیلے اور تمام قوموں کے درمیان پڑھا جائے۔ دوسری طرف غیرمسلم اقوام کا حال یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر عالمی صحافت پر قابض ہیں۔ ان کے پاس ایسے اخبارات ورسائل ہیں جو کروروں کی تعداد میں چھپتے ہیں اور ساری دنیا میں پڑھےجاتے ہیں۔

اس فرق نے بے حد نازک صورت حال پیدا کر دی ہے ۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کی بات صرف ان کے اپنے مقامی یا گروہی پرچوں میں چھپتی ہے، وہ اس کو خود ہی چھاپتے ہیں اور خود ہی پڑھتے ہیں۔ جبکہ فریق ثانی کا یہ حال ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف باتوں کو اپنے عالمی پر چوں میں چھاپتا ہے اور رات دن کے اندر ان کو ساری دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔

ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو نازک معاملات میں ہنگامہ آرائی کرنے سے انتہائی حد تک پر ہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ موجودہ حالت میں ان کی ہنگامہ آرائی کا کوئی مثبت فائدہ تو ان کو نہیں پہنچے گا، البتہ منفی نقصا ن ہوگا کہ غیر مسلم عالمی  صحافت اس کو شوشہ بنا کر ساری دنیا میں انہیں بد نام کرے گی۔ وہ بے بسی کے ساتھ اپنی اور اسلام کی بدنامی کو دیکھیں گےاور اس کے دفعیہ کے لیے کچھ نہ کر سکیں گے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom