قرآن کی دو آیتیں

سورہ النساء قرآن کی چوتھی سورہ ہے۔ اِس سورہ کا ابتدائی حصہ غزوۂ احد کے فوراً بعد پیش آنے والے حالات کی نسبت سے نازل ہوا۔ غزوۂ احد 6 شوال 3ہجری کو مدینے کی سرحد پر پیش آیا تھا۔ اِس غزوہ میں 70مسلمان مارے گئے تھے۔ اِس کے نتیجے میں قدیم مدینہ کے معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا، اور وہ تھا بیواؤں اور یتیموں کا مسئلہ۔ یتیموں کے باپ اپنے بعد مال اور جائداد چھوڑ گئے تھے۔ اب سوال تھا کہ یہ مال اور جائداد کس طرح یتیم بچوں کے درمیان منصفانہ طورپر تقسیم ہو۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ خواتین جو اپنے شوہروں سے محروم ہوگئی ہیں، معاشرے میں اُن کا بندوبست (settlement) کس طرح کیا جائے۔سورہ النساء کی آیت نمبر 2 میں، پہلے مسئلے کا حل بتایا گیا ہے۔اور اس کی آیت نمبر 3 میں دوسرے مسئلے کا حل بیان ہوا ہے۔ آیت نمبر 2 کا ترجمہ یہ ہے:

’’اور یتیموں کا مال اُن کے حوالے کرو۔ اور برے مال کو اچھے مال سے نہ بدلو، اور اُن کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔ (النساء:2)۔ یعنی یتیم بچوں کے مال اور جائداد کے بارے میں انصاف اور خیر خواہی کا طریقہ اختیار کرو، تاکہ اُن کا حق درست طورپر ان کو پہنچ جائے۔

دوسرے مسئلے کے حل کے بارے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وإن خفتم ألا تُقسطوا فی الیتامیٰ فانکحوا ما طاب لکم من النساء مَثنیٰ، وثُلٰث، ورُبٰع (النساء: 3)۔ یعنی اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکوگے، تو عورتوں میں سے حسب حال، دو دو، تین تین، چار چار عورتوں سے نکاح کرلو۔

اِس آیت میں ’خفتم‘ کا خطاب قدیم مدینے کے سماج سے ہے، اور ’فانکحوا‘کا خطاب قدیم مدینے کے افراد سے۔ غزوۂ احد کے بعد مدینے میں یتیموں کا جو مسئلہ پیدا ہوا تھا، ابتداء ً اس کا تعلق پورے سماج سے تھا۔ سماج کے مختلف گھروں میں یتیم لڑکے اور لڑکیاں موجود تھے۔ یہ مسئلہ پورے سماج پر پھیلا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اس مسئلے کو افراد کے انٹرسٹ سے وابستہ کردیا جائے۔ سماجی مسئلہ ہونے کی بنا پر، کوئی شخص اس کو اپنا ذاتی مسئلہ نہیں سمجھ سکتا تھا اور نہ فطری طور پر کسی کو اس سے ذاتی تعلق ہوسکتا تھا۔ اِسی صورتِ حال کی طرف قرآن میں ’خفتم‘کے لفظ کے ذریعے اشارہ کیاگیا ہے، یعنی فطری طورپر یہ اندیشہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال کے رہتے ہوئے یہ مسئلہ لوگوں کے لیے انفرادی دلچسپی کا مسئلہ نہ بنے اور یتیم بچوں کو غیر ضروری مسائل کا سامنا کرنا پڑے، جیسا کہ عام طورپر سماج میں دیکھا گیا ہے۔

اس مسئلے کا حل قرآن میں یہ بتایا گیا کہ مدینے کے مختلف افر اد اپنے حالات کے لحاظ سے، بیوہ خواتین سے نکاح کرلیں۔ جس شخص کے لیے دو نکاح ممکن ہو، وہ دو نکاح کرلے، اور جس شخص کے لیے تین نکاح ممکن ہو، وہ تین نکاح کرلے، اور جس شخص کے لیے چار نکاح ممکن ہو، وہ چار نکاح کرلے۔ اِس طرح یہ ہوگا کہ بیوہ خواتین کے بچوں کو دوبارہ باپ جیسی سرپرستی حاصل ہوجائے گی۔ بیوہ خواتین کے شوہروں کو اِن خواتین کی اولاد کے ساتھ ذاتی تعلق ہوجائے گا، وہ براہِ راست ان کی ذاتی نگرانی میں آجائیں گے۔ اِ س طرح یہ ہوگا کہ جو مسئلہ سماج کی سطح پر عمومی انداز میں پیدا ہوا ہے،وہ افراد کی سطح پر تقسیم ہو کر فطری انداز میں حل ہوجائے گا۔

سورہ النساء کی آیت نمبر 3 میں نکاح کا جو حکم بیان ہوا ہے، وہ کوئی عمومی حکم نہیں ہے، بلکہ وہ اُس ہنگامی صورتِ حال کی نسبت سے ہے جو کہ مدینہ میں جنگ احد کے بعد پیدا ہوگئی تھی۔ عام حالات میں نکاح کی فطری صورت یہ ہے کہ ایک شخص ایک خاتون سے نکاح کرے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا کا تخلیقی نظام عورت اور مرد کی تعداد میں ہمیشہ ایک توازن (equilibrium) قائم رکھتا ہے۔ اِس لیے قانونِ فطرت کے مطابق، غیر محدود تعدّدِ ازواج عملاًممکن ہی نہیں۔

تعدّد ازواج (polygamy) کا حکم قرآن کی صرف اِسی ایک آیت میں آیا ہے، جو کہ غزوۂ احد کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی نسبت سے اتری تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کئی عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم لوگوں کو تفریح (entertainment) کا موقع دینے کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اُس صورتِ حال کے لیے ہے، جب کہ سماج میں کسی حادثے کی بنا پر عورتیں سرپلس (surplus) ہوجائیں۔ قرآن میں یہ حکم بیواؤں اور یتیم بچوں کے مسئلے کے فطری بندوبست کے لیے ہے، جیسا کہ آیت کے سیاق سے واضح ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom