دوسرا اخراج قریب آگیا
بیسویں صدی عیسوی کے آخر تک صنعتی ترقی کو صرف ایک مثبت ظاہرہ کے روپ میں دیکھا جاتا تھا۔ اکیسویں صدی عیسوی میں معلوم ہوا کہ صنعتی ترقی کے ساتھ ایک سنگین قسم کا منفی پہلو موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو کاربن ایمیشن (carbon emission) کہا جاتا ہے۔
صنعتی ترقی اپنے ساتھ، صنعتی کثافت (industrial polution) کا مسئلہ لائی ہے۔ اِس کثافت کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ (global warming) کا واقعہ پیش آیا ہے،یعنی موسم میں بگاڑ (weather chaos)، پانی کے ذخیروں کا پگھلنا، نازک حیوانات (fragile animals) کی موت، سمندر کے پانی کا آلودہ ہوجانا اور لائف سپورٹ سسٹم کا بگڑ جانا، وغیرہ۔
فطرت میں اِن تمام خرابیوں کی جڑ گلوبل وارمنگ ہے۔ اِس مسئلے پر ڈنمارک کی راجدھانی کوپن ہیگن میں 7-18 دسمبر 2009 کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر کے دو سو ملکوں کے ذمے داران شریک ہوئے۔ مگر یہ کانفرنس مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے اعلیٰ معیارِ زندگی کو ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتے تھے، اور زیر ترقی ممالک اعلیٰ معیارِ زندگی کی دوڑ میں کسی بھی حال میں کمی کرنے پر راضی نہ تھے۔
گلوبل وارمنگ کا اصل سبب لائف اسٹائل کا مسئلہ ہے۔ دنیا کے موجودہ ذرائع صرف یہ اجازت دیتے ہیں کہ انسان اپنی حقیقی ضرورت (real need) کے بقدر اس کو استعمال کرے، لیکن آج کے انسان کا نشانہ پُرتعیش لائف اسٹائل (luxurious life style) بن گیا ہے۔ انسان کا یہی غیرحقیقی گول ہے جس نے موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کا سنگین مسئلہ پیدا کیاہے۔ گلوبل وارمنگ گویا کہ فطرت کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ انسان کا یہ نشانہ موجودہ دنیا میں پورا ہونے والا نہیں، وہ فطرت کے خلاف ہے، اور جو منصوبہ فطرت کے خلاف ہو، اس کی تکمیل اِس دنیا میں ممکن ہی نہیں۔
یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ یہ براہِ راست طورپر خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan)سے جڑا ہوا ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان کو سمجھے بغیر اِس معاملے کا درست تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں انسان کا منصوبہ خالقِ فطرت کے منصوبہ سے ٹکرا رہا ہے، اور یہ ناممکن ہے کہ اِس دنیا میں خالقِ فطرت کے منصوبے کے خلاف کسی منصوبے کو کامیاب بنایا جاسکے۔
خدا نے انسان (آدم) کو اوران کی بیوی حوا کو پیدا کیا اور اُن کو جنت میں بسایا۔ خدا نے کہا کہ تم لوگ جنت میں آزادی کے ساتھ رہو، لیکن تم لوگ فلاں درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ جنت تم سے چھن جائے گی (البقرۃ: 35)، مگر آدم اور حوا اِس ہدایت پر قائم نہ رہ سکے۔ انھوں ے ممنوعہ درخت (forbidden tree) کا پھل کھایا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنت کا لباس اُن سے چھن گیا اور اُن کو جنت چھوڑ کر موجودہ زمین پر آنا پڑا۔
یہ دراصل اِسراف کا معاملہ تھا، یعنی حد سے تجاوز کرنا (to exceed one’s limit)۔ اِس اسراف کے نتیجے میں آدم کو پہلی بار جنت کو چھوڑنا پڑا۔ اسراف کا یہی معاملہ دوسری بار زیادہ بڑے پیمانے پر انسان کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ خدا نے انسان کو موجودہ دنیا میں آباد کیا تو دوبارہ اس کے لیے ایک حد مقرر کردی۔ وہ حد یہ کہ انسان موجودہ دنیا سے بقدر ضرورت فائدہ اٹھائے۔ وہ یہاں پُر تعیش زندگی حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔
جدید صنعتی ترقی سے پہلے انسان مجبورانہ طورپر اِس حدپر قائم تھا، لیکن جدید صنعتی ترقی کے بعد وہ اِس حد پر قائم نہ رہ سکا۔ وہ پُر تعیش زندگی کی طرف تیزی سے دوڑنے لگا۔ اکیسویں صدی عیسوی میں یہ دوڑ اپنی آخری حد پر پہنچ گئی ہے۔
اب خالق کا فیصلہ انسان کے خلاف ظاہر ہوچکا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کا لباس اس سے اتارا جارہا ہے۔ پر تعیش زندگی یہاں انسان کے لیے شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی، لیکن انسان اپنی بڑھی ہوئی خواہش کی بنا پر اپنی حد سے باہر چلا گیا۔
اب وہ وقت بہت قریب آچکا ہے جب کہ موجودہ دنیا سے اُسی طرح انسان کا اخراج کردیا جائے، جس طرح آدم کا اخراج جنت سے ہوا تھا۔ اِسی دوسرے اخراج کا نام قیامت ہے۔