قومیت کا مسئلہ
سید جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ میں پیدا ہوئے اور ۱۸۹۷ میں اُن کی وفات ہوئی۔ وہ اُس نظریہ کی ایک علامت ہیں جو ترکی کے سلطان عبدالحمید کی حمایت سے شروع ہوئی اور جس کو اتحادِاسلامی(پان اسلامزم) کہا جاتا ہے۔ سید جمال الدین افغانی کے زمانہ میں تقریباً پوری مسلم دنیا انگریزوں اور فرانسیسیوں کی سیاسی ماتحتی میں آگئی تھی۔ جمال الدین افغانی اس مغربی اقتدار کو ختم کرنے کے لیے اُٹھے۔ اس مقصد کو طاقت دینے کے لیے اُنہوں نے اتحادِ اسلامی کا نظریہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ تمام دنیا کے مسلمان، خواہ وہ اکثریتی ملک میں ہوں یا اقلیتی ملک میں، وہ سب کے سب ایک واحداُمّت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ سب کے سب ایک ہی سیاسی وحدت میں بندھے ہوئے ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسی نظریہ کے مطابق کہا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک انٹرنیشنل پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آیت اللہ خمینی اور دوسرے رہنماؤں نے اس کو الأمّہ(Ummah) کا لفظ دیا جو بہت جلد تمام دنیا کے مسلمانوں میں مقبول ہوگیا۔ اسی نظریہ کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
یہ بین اقوامی نظریہ نو آبادیاتی دور میں حالات سے متصادم نہیں معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت دنیا کے بیشتر ملک عملاً ایک ہی سیاسی نظام کے تحت تھے۔ تقریباً تمام مسلمان اس ایک سیاسی نظام کے شہری شمار ہوتے تھے۔ مگر جب نو آبادیاتی نظام ٹوٹا اور نیشنلزم کا دور آیا تو بہت سی الگ الگ سیاسی وحدتیں بن گئیں۔ پہلے اگر ایک ایمپائر کی وفاداری کا مسئلہ تھا تو اب ایک سو قومی وحدتوں کی الگ الگ وفاداری کا مسئلہ سامنے آگیا:
Pan-Islamism was the dominant ideology of the Muslim world of the 19th century before the rise of Nationalism. (7:719)
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا نقشہ بدلا تو مسلمان فکری اعتبار سے ایک پیچیدہ صورت حال میں مبتلا ہوگئے۔ جو لوگ عالمی قومیت کے ڈھانچہ میں اپنی سیاسی شناخت بنائے ہوئے تھے، اب اُن کو مقامی قومیت کے ڈھانچے میں دوبارہ اپنی سیاسی شناخت کو تلاش کرنا پڑا۔ اس نازک وقت میں، میرے علم کے مطابق، پوری مسلم دنیا میں صرف ایک عالم تھا جس نے اس سوال کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کی۔ یہ مولانا سید حسین احمد مدنی(۱۹۵۷۔۱۸۷۹) تھے۔ اُنہوں نے ۱۹۴۷ سے پہلے کی ہنگامی سیاست کے زمانہ میں یہ جرأتمندانہ اعلان کیا کہ: فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک اجتہادی رہنمائی تھی۔ مگر بد قسمتی سے مولانا موصوف کی وفات کے بعد خود دیوبند کے علماء نے یہ اعلان کرکے اُس کو کالعدم کردیا کہ: حضرت نے اس سلسلہ میں جو فرمایا وہ صرف ایک خبر تھی، وہ انشا نہ تھی۔
یہ معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ یہ بے حد نازک معاملہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اس معاملہ میں انتہائی غیر جانبدارانہ انداز کے ساتھ غور کیا جائے۔ مذکورہ اعلان کردہ موقف کی صورت میں نظری یا اعتقادی پوزیشن یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی قومیت (Nationality) اسلام ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مسلمانوں کی سیاسی وفاداری مشترک طورپر اُن کے مذہب کے ساتھ وابستہ ہے۔ اب جب کہ ہر ملک میں نیشنلٹی کو وطن (home-land) کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے تو یہ نظریہ ہر جگہ مقامی تقاضوں سے متصادم ہوگیا ہے۔
مثلاً امریکا یا برطانیہ یا انڈیا میں جدید تصورِ قومیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کی سیاسی وفاداریاں صرف اپنے وطن کے ساتھ وابستہ ہوں، اُن کی کوئی خارج از وطن سیاسی وفاداری (extra-terrestrial loyalty) نہ ہو۔ جب کہ الأمّہ کا نظریہ برعکس طورپر یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کی وفاداریاں بین اقوامی اسلام کے ساتھ ہونی چاہئیں، نہ کہ ملکی وطنیت کے ساتھ۔ اس تضاد نے ساری دنیا کے ہر اُس ملک میں مسلمانوں کی نیشنل وفاداری کو مشتبہ کردیا ہے جہاں مسلمان ایک اقلیت کے طورپر رہتے ہیں۔
یہ ایک بے حد سنگین مسئلہ ہے۔ خالص نظری طور پر مسلمانوں کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہے۔ یا تو وہ اپنے اعلان کردہ موقف کے مطابق، یہ کہیں کہ ہم عالمی اسلامی قومیت کے فرد ہیں، ہم مقامی قومیت کے قائل نہیں۔ وہ اس موقف کو اختیار کریں اور پھر اُس کی ہر قیمت کو دل کی آمادگی کے ساتھ ادا کریں۔ مثلاً اگر کسی ملک میں اُن کی وطنی وفاداری کو مشتبہ سمجھ کر اُنہیں ملکی فوج میں نہ لیا جائے، اُنہیں وزارت خارجہ میں شامل نہ کیا جائے، اُنہیں سفیر کا عہدہ نہ ملے، ملک کی بین اقوامی نمائندگی کے فورم میں اُن کو جگہ نہ دی جائے، اُن کو اپنے ملک میں درجہ دوم کا شہری سمجھا جائے تو اُنہیں چاہئے کہ وہ اُسے اپنے عقیدہ کی فطری قیمت سمجھ کر اُس کو قبول کریں۔
مسلمانوں کے لیے دوسرا چوائس یہ ہے کہ وہ کھُلے طورپر یہ اعلان کریں کہ الأمّہ کا مذکورہ بین اقوامی نظریہ کچھ مسلم رہنماؤں کا ذاتی نظریہ تھا جو اُنہوں نے مخصوص حالات کے رد عمل میں اختیار کیا اور اُس کو غلط طورپر اسلام کا نام دے دیا۔ اب ہم اس نظریہ کو رد کرتے ہیں اور جیسا کہ مولانا حسین احمد مدنی نے اعلان کیا تھا، ہم اس رائے کو اختیار کرتے ہیں کہ عقیدہ اور مذہب کے اعتبار سے بلا شبہہ تمام دنیا کے مسلمان ہم مذہب ہیں مگر جہاں تک قومیت (nationality) کا تعلق ہے، ہر مسلمان کی قومیت وہی ہے جو اُس کا وطن ہے۔ قومیت کا تعلق وطن سے ہے، نہ کہ مذہب سے۔ یہ اعلان اگر مسلمانوں کی طرف سے کھلے طورپر کر دیا جائے تو مذکورہ تضاد ختم ہوجائے گا اور پھرکسی کو یہ موقع نہ ہوگا کہ وہ اُن کی وطنی وفاداری پر شک کرے۔
مسلمان اگر ان دونوں میں سے کوئی موقف اختیار نہ کریں بلکہ وہ یہ کریں کہ موقف کے بارے میں کھُلے اعلان کے بغیر وہ اپنے اپنے ملک کی مادّی تقسیم میں اپنا حصہ لینے لگیں تو یہ ایک منافقانہ روش ہوگی۔ یعنی اپنے نظری یا اعتقادی موقف میں تبدیلی کا اعلان کیے بغیر خاموشی کے ساتھ اپنے عملی موقف کو بدل لینا۔ اس قسم کی روش ایک افادی(utilitarian) روش قرار پائے گی، نہ کہ کوئی اصولی روش۔
اس طرح دوعملی کی روش اختیار کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے نقصانات بے حد سنگین ہیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے اندر سے بااصُول کردار کا مزاج ختم ہوجائے گا۔ اُن کا روحانی ارتقاء(spiritual development) رک جائے گا۔ اُن کے اندر فکری عمل (intellectual process) جاری نہ ہوسکے گا۔ اُن کی شخصیت ارتقائی منازل طے کرنے سے محروم ہوجائے گی۔ وہ اُس عظیم نعمت سے لذت نا آشنا ہوجائیں گے جس کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (الفتح ۴) کہا گیا ہے۔ اس صورت حال کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ جمود ذہنی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔ وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ علم و فکر کے اعتبار سے دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر پیغمبر کی امت کو خدا کی طرف سے الگ الگ شریعت اور منہاج دیا گیا(المائدہ ۴۸)۔ یہ بات بظاہر امت کے حوالے سے کہی گئی ہے، مگر وہ حقیقۃً زمانہ کی نسبت سے مقصود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے لوگوں کو ان کے زمانی حالات کی نسبت سے انہیں شریعت اور منہاج عطا کیا گیا۔ اسی لیے فقہ میں یہ متفقہ مسئلہ بنا ہے کہ: تتغیر الاحکام بتغیر الزمان والمکان (زمانہ اور مقام کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں)۔
تشریع الٰہی کا یہ اصول صرف پیغمبر اسلام سے پہلے کے لوگوں کے لیے نہیں تھا۔ بلکہ وہ پیغمبراسلام کے بعد آپ کی امت کے لیے بھی اسی طرح مطلوب ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پچھلی امتوں کو براہ راست پیغمبر کے ذریعہ اس تبدیلیٔ حکم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اور اب ختم نبوت کے بعد علماء کے اجتہاد کے ذریعہ تبدیلی ٔ حکم کا یہ کام انجام پائے گا۔
اس تشریعی اصول کے مطابق، بجا طورپر کہا جاسکتا ہے کہ قومیت (nationality) کے معاملہ میں موجودہ زمانہ میں جو تصور عالمی سطح پر رائج اور مسلّم ہوگیا ہے اس کی روشنی میں اجتہاد کرکے دوبارہ اس معاملہ میں شریعت کا موقف متعین کیا جائے گا۔ اور یہ موقف وہی ہے جس کا اعلان ۱۹۴۷ سے پہلے کے زمانہ میں مولانا سید حسین احمد مدنی نے کیا تھا۔
یہ شرعی موقف یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان عقیدہ اور مذہب کے اعتبار سے بلا شبہہ ایک عقیدہ اور ایک مذہب رکھتے ہیں مگر جہاں تک قومیت کا تعلق ہے وہ ملک کی نسبت سے متعین ہوگی۔ یعنی ہر ملک کے مسلمانوں کی قومیت وہی قرار پائے گی جو اس ملک کے دوسرے گروہوں کی ہے۔