اسلام اور دوسرے مذاہب
اسلام اور دوسرے مذہبوں کے درمیان یہ فرق نہیں ہے کہ اسلام افضل دین ہے اور دوسرے مذاہب غیر افضل دین یا اسلام کامل دین ہے اور دوسرے مذاہب غیر کامل دین۔اسلام اور دوسرے مذہبوں میں یہ ارتقائی فرق بھی نہیں ہے کہ اسلام مذہب کی اعلیٰ صورت (higher form) ہے اور دوسرے مذاہب اس کی ادنیٰ صورت(lower form)۔ اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان اس قسم کی تقسیم سراسر بے بنیاد ہے۔ اس کا ماخذ نہ قرآن و حدیث میں ہے اور نہ تاریخی ریکارڈمیں۔
اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان اصلی فرق یہ ہے کہ اسلام ایک محفوظ مذہب ہے اور دوسرے مذاہب غیر محفوظ مذہب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سائنٹفک ریکارڈ کے مطابق، اسلام کو تاریخی اعتباریت (historical credibility) حاصل ہے۔ جب کہ دوسرے مذاہب میں سے کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جس کو تاریخی اعتباریت کا درجہ حاصل ہو۔
اسلام اور دوسرے مذہبوں کا یہ فرق کسی پر اسرار عقیدہ پر قائم نہیں ہے بلکہ وہ خالص علمی طور پر قابل فہم ہے۔ وہ ایک واضح موضوعی حقیقت (objective fact) پر مبنی ہے۔اس معاملہ کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے۔ قرآن میں پچھلی الہامی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: بما استحفظوا من کتاب اللہ (المائدۃ۔۴۴) یعنی پچھلی کتابوں کے حاملین پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت کریں۔
For to them, was entrusted the protection of Allah’s Book.
قرآن کی اس آیت میں استحفاظ کا لفظ آیا ہے۔ استحفاظ باب استفعال سے ہے۔ عربی قاعدہ کے مطابق، با ب استفعال میں طلب کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے استحفاظ کا مطلب ہے، حفاظت چاہنا یا حفاظت طلب کرنا۔ عربی میں کہا جاتا ہے، استحفظ مالا۔ مال محفوظ رکھنے کو کہنا (سألہ أن یحفظہ)
اس وضاحت کے مطابق، مذکورہ قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی آسمانی کتابیں جن لوگوں کے اوپر اتاری گئیں ان سے کہا گیا تھا کہ ان کو خود ان کتابوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اُن کو انہیں نہ صرف پڑھنا ہے بلکہ ان کو محفوظ بھی رکھنا ہے۔
اس کے برعکس، جہاں قرآن کا ذکر ہے وہاں اس سے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے: انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر۔ ۹) یعنی اللہ نے قرآن کو اتارا ہے اور اللہ ہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے۔
It was We who revealed the Quran, and We will certainly preserve it.
اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں بنیادی فرق کیا تھا۔ وہ فرق یہ تھا کہ پچھلی آسمانی کتابوں کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری انسان کے اوپر تھی جب کہ قرآن کی حفاظت کا کام خود خدا نے اپنے ذمہ لے لیا۔ گویا قرآن اور اس سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں جو فرق تھا وہ تعلیمات کے اعتبار سے نہ تھا بلکہ یہ فرق حفاظت کی ذمہ داری کے اعتبارسے تھا۔
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ فرق کا یہ معاملہ کوئی پر اسرار معاملہ نہیں بلکہ وہ ایک معلوم تاریخی معاملہ ہے۔ اس کو خالص سائنٹفک مطالعہ کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ حفاظتِ کتاب کے اعتبار سے تاریخ کے دو دو رہیں۔ پہلا دور وہ ہے جب کہ کسی پیغام کی حفاظت کا معاملہ زیادہ ترانسان کے اوپر منحصر ہوتاتھا۔ کوئی پیغام عملاً انسان کی یاد داشت میں موجود رہتا تھا۔ انسان اگر اس کو بھول جائے یا وہ مرجائے تو اس کے ساتھ پیغام بھی معدوم ہوجاتا تھا۔ مزید یہ کہ انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق ہے۔ وہ اس پر قادر ہے کہ اس کے پاس جو پیغام ہے اس کو اس کی اصلی حالت پر باقی رکھے یا وہ اس کو بدل ڈالے۔
اس قدیم دور کو انسانی دور حفاظت کہا جاسکتا ہے، یعنی وہ دور جب کہ حفاظت کا کام تمام تر انسان کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا۔ قرآن سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں بنیادی طورپر اسی انسانی حفاظت کے دور میں آئیں۔ یہ عملی طور پر حفاظت کا ایک غیر یقینی ذریعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہ سکیں۔ انسان نے قصداً یا بلا قصد پچھلی تمام آسمانی کتابوں کو غیر محفوظ بنا دیا۔
پیغام کی حفاظت کا دوسرا دور وہ ہے جس کو میکنیکل حفاظت کا دور کہا جاسکتا ہے۔ یہ دور وہ ہے جب کہ کسی پیغام کی حفاظت کا کام زندہ انسان کے ہاتھ سے نکل کر جامد مادہ کے دائرہ میں آگیا۔ یعنی وہ دور جب کہ پیغام کو کاغذ پر لکھا جانے لگا اور چھاپ کر اس کی ہو بہو نقلیں (copies) انسانی حافظہ سے باہر تیار کی جانے لگیں۔ اس دوسرے دور میں پہنچ کر اس پیغام کی حفاظت کا معاملہ تغیر پذیر انسان کے تابع نہ رہابلکہ وہ غیر تغیر پذیر مادہ کے ہاتھ میں آگیا۔
قرآن اسی دوسرے دور حفاظت میں آیا۔ مذکورہ آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ یہ دوسرا دور جن فطری اسباب کے تحت ممکن ہوا ہے وہ تمام اسباب براہ راست طور پر خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس دوسرے دو ر کو خدا کی طرف منسوب کرکے کہاگیا کہ خدا خود قرآن کی حفاظت کرنے والا ہے۔
اس بات کو تاریخ کی اصطلاح میں کہنا ہو تو اُس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کتابوں کی حفاظت کے دور میں آیا۔ اس کے مقابلہ میں دوسری آسمانی کتابیں اُس دور میں آئیں جب کہ کتابوں کی حفاظت کے لیے ابھی تک کوئی یقینی انتظام موجود نہ تھا۔ دور کایہی وہ فرق ہے جس کوقرآن میں مخصوص خدائی اسلوب میں اُن دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے جن کو اوپر نقل کیا گیا۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابت(writing) کا کام قبل مسیح دور میں شروع ہوا۔اس زمانہ میں سادہ چیزوں پر لکھنے کا رواج تھا۔ مصر میں ایک پودا پایا جاتا تھا جس کا یونانی نام پیپرس (papuros) تھا۔ اس پودے کے اندر باریک پرت (layer) ہوتی تھی۔ اس پرت کو نکال کر عرصہ تک اس کو کاغذ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ اسی لیے کاغذکا نام پیپر (paper) پڑ گیا۔
دوسری صدی عیسوی میں چین میں لکڑی وغیرہ سے کاغذ بنایا جانے لگا۔ یہ کاغذ تاجروں کے ذریعہ مسلم دنیا میں آنے لگا۔ کاغذ بنانے کا فن ۷۵۱ میں سمرقند میں پہنچا اور ۷۹۳ میں بغداد میں ہارون رشید کے زمانہ میں پہلی بار کاغذ بنایا گیا۔ اس کے بعد کاغذ یہاں سے یوروپ تک پہنچا:
The art of paper making reached Samarkand, in central Asia in 751; and in 793 the first paper was made in Baghdad during the time of Harun-ar-Rashid, with the golden age of Islamic culture, that brought paper making to the frontiers of Europe. (13/966)
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی ۶۱۰ میں مکہ میں اتری اور ۶۳۲ء تک نجماً نجماً جاری رہی، جب کہ مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ ۲۳ سال کی اس مدت میں یہ طریقہ تھا کہ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ فرشتہ کے ذریعہ آپ تک پہنچتا، آپ اور آپ کے اصحاب اُس کو یاد کرلیتے۔ اُس زمانہ میں کثرت استعمال کی بنا پر لوگوں کے حافظے بہت اچھے ہوا کرتے تھے، اس لیے نازل شدہ حصۂ قرآن کو یاد کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ اسی کے ساتھ اُترنے کے بعد فوراً ہی اُس کو جھلّی وغیرہ پر لکھ لیاجاتا تھا۔
ڈاکٹر موریس بُکائی نے اس دو طرفہ طریقہ کو ڈبل چیکنگ کا طریقہ (double checking system) بتایا ہے۔ یعنی حافظہ کا تقابل تحریر سے کیا جائے اور تحریر کا تقابل حافظہ سے کیا جائے۔ اس طرح ایک کو دوسرے سے چیک کرتے ہوئے اُس کی صحت کا تیقن حاصل کیا جائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لا تکتبوا عنی غیر القرآن۔ یعنی تم لوگ صرف قرآن کو لکھو، تم میرے اپنے کلام کو نہ لکھو۔ پیغمبر اسلام کی یہ ہدایت صرف مذکورہ ۲۳ سال کے لیے تھی جب کہ قرآن اُتر رہا تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ قرآن اور کلامِ رسول دونوں ایک دوسرے میں مل نہ جائیں۔ آخری زمانہ میں جب کہ قرآن کا نزول تقریباً مکمل ہوگیا تو آپ نے کلامِ رسول کو لکھنے کی اجازت دے دی اور فرمایا: قیدوالعلم بالکتابۃ(علم کو تحریر کے ذریعہ محفوظ کرو)۔پیغمبر اسلام ﷺکی وفات ہوئی تو پورا قرآن ہزاروں لوگوں کے حافظوں میں محفوظ ہوچکا تھا۔ اسی کے ساتھ مدینہ میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے جھلّی اور دوسری چیزوں پر پورے قرآن کو لکھ لیا۔
خلیفۂ اول ابو بکر صدیق نے اپنے زمانہ میں اس معاملہ میں ایک اور کام کیا۔ اُس وقت زید بن ثابت انصاری موجود تھے جو کاتبِ وحی بھی تھے اور پورے قرآن کے اچھے حافظ بھی۔ اُنہوں نے زیدبن ثابت انصاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کی یاد داشت اور تحریری ذخیرہ کی مدد سے مکمل قرآن لکھیں۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک مہم کے طورپر کتابتِ قرآن کے کام کو شروع کیا اور اُس کو تکمیل تک پہنچایا۔ یہ کتابت غالباً قدیم زمانہ کے کاغذ پر کی گئی تـھی۔ یہ کاغذ وہی تھا جس کو مصر میں پیپرس (Papuros) نامی پودے کی فطری پرت (layer) کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا۔
زید بن ثابت انصاری نے کتابت کی تکمیل کے بعد اُس کے اوراق کو یکجا کرکے اُس کی جلد بنائی۔ یہ گویا مجلّد قرآن کا پہلا نسخہ تھا جو اپنی شکل کے اعتبار سے چوکور تھا۔چنانچہ اُس کو رَبعہ کہا جاتا تھا۔ خلیفہ اول نے قرآن کے اس نسخہ کو زوجۂ رسول حضرت حفصہ کے گھر پر رکھوا دیا۔ خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کا زمانہ آیا تو اُس وقت تک کاغذ اور بھی زیادہ عام ہوچکا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمان نے زید بن ثابت انصاری کے نسخہ کو لے کر اُس کی کئی نقلیں تیار کرائیں اور اُن نقلوں کو بڑے بڑے شہروں میں بھیج دیا تاکہ عمومی استفادہ کے لیے اُن کو شہر کی جامع مسجد میں رکھ دیا جائے۔
اس کے بعد کئی سو سال تک مسلم دنیا میں دو طریقے رائج رہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں میں قرآن کو حفظ کرنے کا عمومی رواج ہوگیا۔ نسل در نسل ایسے لوگ کثرت سے پیدا ہوتے رہے جن کو پورا قرآن اچھی طرح یاد تھا۔ اسی کے ساتھ قرآن کے عثمانی نسخہ کو لے کر لوگ اُس کی نقلیں تیار کرتے رہے۔ اس طرح قرآن کی نقلیں قدیم زمانہ کے کاغذ پر تیار ہو کر کثیر تعدادمیں گھر گھر پہنچ گئیں۔
اسی کے ساتھ قرآن کی حفاظت اور صحتِ تلاوت کے لیے دوسرے کئی کام مختلف لوگوں کے ذریعہ انجام پائے۔ مثلاً بنو امیہ کے زمانہ میں قرآن کی آیتوں پر اعراب لگائے گئے اور حروف پرنقطے لکھے گئے۔ یہ کام زیادہ تر حجاج بن یوسف کے ذریعہ انجام پایا۔ اس کے بعد عباسی خلافت کے زمانہ میں طرزِ کتابت میں مزید ترقی ہوئی اور خطِّ کوفی ایجاد ہوا۔ اس ایجاد نے قرآن کی کتابت میں حُسن کا پہلو پیدا کردیا۔ یہ کام زیادہ تر ابن مُقلہ کے ذریعہ انجام پایا۔
اس طرح قرآن کی کتابت اور حفاظت کا سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اٹھارویں صدی کا زمانہ آگیا۔ اس زمانہ میں اہلِ یورپ نے پرنٹنگ پریس ایجاد کیا۔ نپولین بونا پارٹ ۱۷۹۸میں مصر میں داخل ہوا۔نپولین پہلا شخص تھا جو مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس لے آیا۔ اُس وقت تک زیادہ بہتر قسم کا کاغذ عام ہوچکا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ قرآن پہلی بار پرنٹنگ پریس کے ذریعہ چھاپا گیا۔ اس کے بعد ساری مسلم دنیا میں قرآن کو چھاپنے کاعمل شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ اب یہ حالت ہے کہ تمام دنیا میں مسلمانوں کے گھر، مسجدیں اور مدرسے اور کتب خانے اور بازار قرآن کے مطبوعہ نسخوں سے بھر گئے ہیں۔ اس طرح اب قرآن کی حفاظت کا کام آخری طورپر مکمل ہوچکا ہے۔
قرآن مکمل طور پر ایک محفوظ کتاب ہے، یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس کا اعتراف عام طور پر اہل علم نے کیا ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں صرف ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے مشہور مذہبی لیڈر سوامی وویکا نند فروری ۱۸۹۱میں الور آئے۔ وہاں ہندو اور مسلمان دونوں نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے ایک مسلم عالم سے کہا کہ قرآن کی ایک امتیازی صفت یہ ہے کہ آج بھی وہ اسی اصل حالت میں موجود ہے جیسا کہ وہ گیارہ سو سال پہلے تھا۔ اس کتاب نے اپنی خالص حیثیت کوپوری طرح محفوظ رکھا ہے وہ کسی بھی ملاوٹ سے پوری طرح پاک ہے:
In Alwar, where Swamiji arrived one morning in the beginning of February 1891, he was cordially received by Hindus and Moslems alike. To a Moslem scholar he said: ‘There is one thing very remarkable about the Qur’an. Even to this day it exists as it was recorded eleven hundred years ago. The book has retained its original purity and is free from interpolation’.
Vivekananda: A Biography
by Swami Nikhilananda
Advaita Ashram, Calcutta, 2001, p. 102