خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۶۰
۱۔ ۱۰ فروری ۲۰۰۳ کو وگیان بھون (نئی دہلی) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کو بی جے پی کی یووا شاخ نے آرگنائز کیا تھا۔ اس کا موضوع تھا، ٹررزم۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور اسلام کے حوالہ سے بتایا کہ ٹررزم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ٹررزم انتہا پسندی کی ایک پیداوار ہے۔ وہ مذہب کی پیداوار نہیں۔
۲۔ ۱۰ فروری ۲۰۰۳ کو دور درشن کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ جدید دور میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام ابدی صداقتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے زمانہ میں خواہ کوئی بھی تبدیلی آئے اسلام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وقتی مسائل میں اسلام نے انسان کوپوری رعایت دی ہے۔
۳۔ ۱۲ فروری ۲۰۰۳ کو نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انکسی) میں ایک پروگرام ہوا۔ یہ ڈاکٹرمحمدیونس (مقیم کناڈا) کی کتاب Islam a Threat to Civilizations کے اجراء کے لیے تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں صدر کی حیثیت سے شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اسلام کسی بھی اعتبار سے تہذیب کے لیے یا انسانیت کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ اسلام دین رحمت ہے۔
۴۔ ۱۲ فروری ۲۰۰۳ کو اشوک ہوٹل (نئی دہلی) کے کنونشن ہال میں ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع تھا: What is Life۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلامی نقطۂ نظر سے لائف کے سوال پر تقریر کی۔ لائف سائنسز کے بارہ میں انہوں نے کہا کہ انسانی علم اور تجربہ سے جو چیز حقیقی طورپر مفید ہو وہ اسلام میں بھی جائز قرار پائے گی۔
۵۔ راشٹریہ سہارا کے لیے ۱۲ جون ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی سیاسی جماعت بنانا ایک ناکام تجربہ کو دہرانے کے ہم معنٰی ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈروں نے مسلمانوں کی علیٰحدہ سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی مگر وہ سرتاسر ناکام رہی۔ اب مسلمانوں میں ویسا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ایسی حالت میں اس قسم کی بات کہنا صرف اردو اخباروں کی ایک خبر ہے۔ اس سے زیادہ اس کی اور کوئی حقیقت نہیں۔ بنیادی کام مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانا ہے۔
۶۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۴ جون ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندستان میں مسلمانوں کا مستقبل ۵۷ مسلم ملکوں سے زیادہ روشن ہے۔ اس کا ایک اظہار یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا کاسب سے زیادہ دولت مند آدمی (عظیم ہاشم پریم جی)ہندستان میں ہے۔ پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد الکلام ہندستان میں ہے، وغیرہ۔ اسلام کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ اسلام موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے میں ناکام ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں جو مسلم رہنما اٹھے وہ سب ردّ عمل کی نفسیات کا شکار تھے۔ انہوں نے ہر چیز کی تعبیر منفی انداز میں کی۔ اس بنا پر موجودہ مسلمانوں کی سوچ منفی ہو گئی۔ مثلاً انہوں نے جدید مغربی تہذیب کو زہر بتایا۔ انہوں نے سیکولرزم کو لادینیت کہا، انہوں نے ڈیماکریسی کو طاغوتی نظام بتایا۔انہوں نے وطنی قومیت کو ’’تازہ خدا‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے جدید انڈسٹر ی کو مسلم دشمن قوموں کا سازشی جال بتایا، وغیرہ۔ اس بنا پر مسلمان مثبت سوچ سے محروم ہوئے اور موجودہ دور کے جدید مواقع کو استعمال نہ کرسکے۔
۷۔ گڑگاؤں (ہریانہ) میں جنگلات کے درمیان کئی بڑے بڑے رزورٹ بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک واٹر بینک رزورٹ ہے۔ یہاں ۲۸۔۲۹ جون ۲۰۰۳ کو الرسالہ کے کچھ قارئین کا ایک تربیتی کیمپ کیا گیا۔ اس میں دہلی کے تقریباً دس افراد شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکزنے لوگوں کو تربیتی انداز میں دین کی حقیقت سمجھائی۔ اس کا آغاز کلمۂ شہادت کی اجتماعی ادائیگی سے ہوا۔ اس کے بعد مختلف مجلسوں میں ذکر، عبادت، توحید، نبوت، آخرت، تفکر و تدبر اور تزکیہ جیسے موضوعات پر تربیتی انداز میں وضاحت کی گئی۔ اس کے شرکاء سب کے سب انگریزی تعلیم یافتہ لوگ تھے۔
۸۔ نئی دہلی میں شکتی مٹھ (عقب قطب مینار) میں ایک فنکشن ہوا۔ یہ فنکشن کیلاش مان سروور یاترا کو رخصت کرنے کے لیے تھا۔اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے یکم جولائی ۲۰۰۳ کی شام کو اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ ہم سب کو اتحاد اور محبت کے ساتھ مل جُل کر رہنا چاہئے۔ اسی میں اپنی ترقی ہے اور اسی میں ملک کی ترقی بھی۔
۹۔ نئی دہلی کے اردو میگزین عالمی سہارا کے نمائندہ مسٹر فاروق نے ۲ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کی بابری مسجد سے تھا۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ زیادہ گمبھیر ہوچکا ہے، وہ عام قانون کے تحت حل نہیں ہوسکتا۔ اب وہ قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت حل ہوگا۔ پہلا کام یہ ہے کہ حالات کے اعتبار سے قابلِ عمل فریم ورک دریافت کیا جائے۔
۱۰۔ ۶؍جولائی ۲۰۰۳ کو انٹگری ٹی وی (Integri TV) کے ڈائرکٹر سویساچی جین (Savyasaachi Jain) اپنی T.V. ٹیم کے ساتھ دفتر میں آئے اور صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ اس کاموضوع مذہب اور روحانیت تھا۔ یہ ویڈیو انٹرویو دور درشن (نئی دہلی) کے لیے ریکارڈ کیا گیا۔ مذہب اور روحانیت کے ہر پہلو پر اظہار خیال کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو انتہا پسند لیڈروں نے اپنی غلط رہنمائی سے انہیں ترقی کے راستہ سے ہٹادیا ہے۔ تاہم اب مسلمان ان لیڈروں کو چھوڑ کر اسلام کی سچی تعلیمات کی طرف آرہے ہیں۔
۱۱۔ دور درشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۷ جولائی ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس میں نئی دہلی کے چار ممتاز افراد شریک تھے۔ یہ انگریزی میں تھا اور اس کا موضوع تھا ڈائیلاگ امنگ سویلائزیشن (Dialogue among Civilizations) اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ دور جدید میں ترقی کی ایک دوڑ شروع ہوئی۔ اس میں کچھ قومیں آگے بڑھ گئیں اور کچھ قومیں آگے نہ بڑھ سکیں۔ یہ کلیش کامسئلہ نہیں ہے بلکہ پچھڑے پن کا مسئلہ ہے۔ جو لوگ شکایت کرتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ اس کے بجائے وہ اپنے پچھڑے پن کو دور کریں۔
۱۲۔ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ جتندر شرما نے ۱۹ جولائی ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ہنٹنگٹن کی کتاب تہذیبوں کا تصادم (Clash of Civilizations) سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ کتاب کوئی علمی کتاب نہیں۔ وہ سنسنی خیز صحافت کا ایک نمونہ ہے۔ اس قسم کی کتابیں زیادہ تر تجارتی نقطۂ نظر سے لکھی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد نہ اصلاح ہوتا ہے اور نہ واقعات کا بیان۔
۱۳۔ ماہنامہ طوبیٰ (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ظلّ الرحمن نے ۲۳ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے ساتھ ماہنامہ طوبیٰ کے ایڈیٹر مولانا محمد ارشد المدنی بھی موجود تھے۔ یہ ایک تفصیلی سوالنامہ کا جواب تھا جس کاتعلق زیادہ تر مسلمانان عالم کے جدید مسائل سے تھا۔ یہ انٹرویو طوبیٰ کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۳ میں چھپ چکا ہے۔
۱۴۔ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کے نمائندہ موہوا چٹر جی(Mohua Chatterjee) اور آنندبازار پتریکا کی نمائندہ جینتا گھوشل (Jayanta Ghosal) نے مشترک طور پر ۲۴ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کاتعلق زیادہ تر بابری مسجد او ر اجودھیا کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ گفت و شنید کے ذریعہ طے نہیں ہوسکتا۔ اس کو طے کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس کے بارے میں واضح فیصلہ دے۔ پلیسز آف ورشپ ایکٹ۱۹۹۱ میں یہ کہا گیا تھا کہ انڈیا کی تمام مسجدوں کو ان کی ۱۹۴۷ کی حالت پر برقرار رکھا جائے گا، ماسوا بابری مسجد۔ بابری مسجد کا معاملہ کورٹ کے فیصلہ سے طے ہوگا۔ بتایا گیا کہ اس معاملہ میں دو بنیادی نکات ہیں۔ اول یہ کہ گورنمنٹ اس بات کی باقاعدہ یقین دہانی کرائے کہ دوسری کسی بھی مسجد کو چھیڑا نہیں جائے گا اور یہ کہ بابری مسجد کا مسئلہ کور ٹ کے ذریعہ طے ہوگا۔ اس معاملہ کے حل کا یہی واحد عملی طریقہ ہے۔یہ انٹرویو ٹائمس آف انڈیا کے شمارہ ۲۵ جولائی ۲۰۰۳ میں صفحہ ۷ پر شائع ہوا ہے۔
۱۵۔ ای ٹی وی (Enadu TV) کی ٹیم نے ۲۵ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ کامن سول کوڈ ایک غیر عملی نظریہ ہے۔ اس پر قانون سازی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قانون سازی کے بعد بھی موجودہ صورت حال عملاً اُسی طرح باقی رہے گی جس طرح بہت سے دوسرے معاملات میں قانون سازی کے بعد بھی باقی ہے۔ مثلاً جہیز کے خلاف ایکٹ اور سول میریج ایکٹ، وغیرہ۔
۱۶۔ گجراتی روزنامہ دیبیہ بھاسکر کے نامہ نگار مسٹر پرمود کمار نے ۳ اگست ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ کے مسئلہ سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ ایک غیر فطری چیز ہے اور غیر دستوری بھی۔ کامن سول کوڈ پر عملاً اس سے پہلے قانون بن چکا ہے۔ یہ سِول میریج ایکٹ ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ سول میریج ایکٹ باقاعدہ قانون بننے کے باوجود ایک فیصد بھی عملاً رائج نہیں۔ پھر ایک اور قانون بنانے سے کیا فائدہ۔ یہ قانون بہرحال دستور کے تحت ہوگا اور دستور کے مطابق کامن سول کوڈ کو جبری طور پر لازم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا قانون بنے تو وہ سپریم کورٹ میں رد ہوجائے گا۔
۱۷۔ ہندی روزنامہ ویر ارجن (نئی دہلی) کے نمائندہ نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ کے مسئلہ سے تھا۔ یہ انٹرویو ویر ارجن کے شمارہ ۴ اگست ۲۰۰۳ کے صفحہ ۵ پر شائع ہوا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ کامن سول کوڈ کا نفاذ عملاً ممکن نہیں۔ ایسے مسئلہ پر قانون سازی کرنا جس کا نفاذ عملی طور پر ممکن نہ ہو وہ صرف قانون کا احترام ختم کرتا ہے۔ اس طرح کی قانون سازی ہندستان میں بار بار کی گئی ہے اور اس کا نتیجہ یہی ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کا احترام ختم ہوگیا ہے۔ مثال کے طورپر جہیز کے خلاف کئی قوانین بنائے گئے مگر وہ ایک فیصد بھی نافذ نہ ہوسکے۔ لوگ شادیوں میں نہایت اطمینان کے ساتھ بڑھ چڑھ کر جہیز دیتے ہیں جیسے کہ وہ سرے سے قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں۔
۱۸۔ پاکستان کا ایک خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:’’ ہم لوگ ایک عرصہ سے الرسالہ (بتوسُّط ’’تذکیر‘‘ لاہور) کے قاری ہیں۔ آپ کی فکر انگیز تحریروں نے ہمیں کامیابی اور پیش رفت کے حقیقی گُر ’’اِعراض‘‘ سے واقف کرایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لومۂ لائم سے بے پروا ہو کر سچ لکھنے پر اجر سے نوازیں۔ ہم قریب پانچ سال تک ’’تذکیر‘‘ لاہور (طابع و ناشر: محمد احسان صاحب تہامی) کے تیس پرچے منگواتے تھے، اب اِن شاء اللہ تعالیٰ ماہِ آئندہ مئی ۲۰۰۳ ء سے پچاس پرچے منگوانے لگیں گے۔ ہم سب لوگ آپ کے طرزِ فکر و تجزیہ کے مدّاح ہیں اور ایک دوسرے کی دست گیری کرکے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنے میں لگے ہیں۔ آپ کی گراں قدر کتابوں سے ہماری سوچ کی بہت اصلاح ہوئی ہے۔ آپ کی تازہ کتاب ’’دین و شریعت‘‘ تو ایک عہد ساز کتاب ہے‘‘۔ (محمد امتیاز اور احباب، راولپنڈی)