دار الاسلام، دار الحرب
دار الاسلام اور دار الحرب کی اصطلاح زمانہ نبوت کے ڈیڑھ سو سال بعد عباسی دور میں بنی۔ یہ الفاظ قرآن اور حدیث میں استعمال نہیں ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ دونوں اصطلاحیں مبتدعانہ اصطلاحیں تھیں۔ ان کو قرآنی اصطلاح یا مسنون اصطلاح نہیں کہا جاسکتا۔
فقہاء کے نزدیک دار الاسلام سے مراد وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کو اسلام پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو۔ دار الحرب سے مراد وہ ملک ہے جو مسلمانوں کے لیے معاند ملک کی حیثیت رکھتا ہو، جس سے مسلمان امکانی طورپر جنگ (potentially at war) کی حالت میں ہوں۔ یہ دونوں اصطلاحیں ذاتی قیاس کے تحت بنائی گئیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ اتنی اہم اصطلاح خالص قرآن کی روشنی میں بنائی جائے۔
اس نظر سے قرآن کو دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ دو قسم کے علاقوں کے اس فرق کو بتانے کے لیے زیادہ درست الفاظ دوسرے ہیں۔ اور وہ دارالخوف اور دار الامن کے الفاظ ہیں۔ اس رائے کا مأخذ قرآن کی وہ آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں اقتدار دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اقتدار دیا تھا۔ اور ان کے لیے ان کے دین کو جما دے گا جس کو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن کی حالت سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی بھی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔ (النور۔۵۵)
قرآن کی اس آیت کے مطابق، دور اول کے مسلمان اپنے ابتدائی دو رمیں خوف کی حالت میں تھے۔ پھر اللہ نے ان کو امن کی حالت میں پہنچا دیا۔ یعنی وہ پہلے دار الخوف میں رہ رہے ـتھے، پھر اللہ نے ان کو دار الامن عطا فرمایا۔
وسیع تر تقسیم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دار الخوف سے مراد بنیادی طورپر وہ زمانہ ہے جس کو سیرت کی کتابوں میں مکی دور کہا جاتا ہے اور دار الامن سے مراد بنیادی طورپر وہ زمانہ ہے جس کو سیرت کی کتابوں میں مدنی دور کہا گیا ہے۔
گویا کہ وہ چیز جس کو بعد کے فقہاء نے دار الحرب سے تعبیر کیا، اس کو قرآن میں دار الخوف کہا گیا تھا۔ اس طرح ان فقہاء نے جس حالت کو دار الاسلام سے تعبیر کیا، اس کے لیے قرآن میں دارالامن کا لفظ استعمال کیا گیا۔
مذکورہ حالت اسلام کے ظہور کے تقریباً بیس سال بعد تک رہی۔ اُس کے بعد خدا کی مزید عنایت ہوئی۔ پیغمبر اسلام کے آخری زمانہ میں وہ اہم اعلان کیاگیا جو قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں موجود ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے:
آج انکار کرنے والے لوگ تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پس تم اُن سے نہ ڈرو، اور تم صرف مجھ سے ڈرو۔آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ (المائدہ ۳)
قرآن کی یہ آیت اس بات کا ایک خدائی اعلان ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل کے بعد دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا ہے جس نے ہمیشہ کے لیے اس امکان کو ختم کردیا ہے کہ زمین کا کوئی حصہ اہلِ اسلام کے لیے دوبارہ دار الخوف بن جائے۔ اب قیامت تک کے لیے اہل اسلام امن کے دو رمیں داخل ہوچکے ہیں۔ اب ساری دنیا میں اہلِ اسلام کے لیے ایک ایسا دور آچکا ہے جس میں اُن کے لیے خشیت انسانی کا مسئلہ باقی نہیں رہا۔ اب انسانی تاریخ خشیت الٰہی کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ گویا اب ساری دنیا ہمیشہ کے لیے دار الامن ہے، اب وہ اہل اسلام کے لیے کبھی دارا لخوف بننے والی نہیں۔ اب اہل اسلام کا کام یہ ہے کہ وہ حاصل شدہ مواقع کو استعمال کریں، نہ کہ وہ مفروضہ خوف کے نام پر اہل عالَم سے بے فائدہ لڑائی چھیڑ دیں۔
اب مسلمانوں کو یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ دار الاسلام یا دار الامن قائم کرنے کے نام پر غیر مسلم قوموں سے لڑائی کریں۔ اس کے برعکس اب اہل اسلام کو یہ کرنا ہے کہ وہ ہر حال میں دار الامن کے محافظ بنے رہیں۔ اب مسلمانوں کو اُس نادانی سے بچنا ہے جس کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
عن حذیفۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا ینبغی لمسلم ان یذل نفسہ، قیل و کیف یذل نفسہ قال یتعرض من البلاء لما لا یطیق (مسند احمد، ۵؍۴۰۵)
حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کسی مسلم کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ خود اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ پوچھا گیا کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرے گا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ایک ایسی بلا سے تعرض کرے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق، دنیا کا ہر ملک اب اہلِ اسلام کے لیے دار الامن بن چکا ہے۔ دار الامن سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پُرامن دینی عمل کے مواقع موجود ہوں۔ اب جب کہ خُدا نے تمام دنیا کو مسلمانوں کے لیے دار الامن بنا دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اہلِ اسلام کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنا ملّی اور دینی عمل مکمل طورپر امن کے حدود میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ اب اُن کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ پُر امن طریقِ کار کو چھوڑ کر پُر تشدد طریقِ کار اختیار کریں۔
پُر امن طریقِ کار کی یہ فرضیت صحیح البخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے کہا: ما خیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین الا اختار ایسرہما(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ مشکل طریقہ کو چھوڑ کر آسان طریقہ اختیار فرماتے)۔
اس حدیث کے مطابق، پُر تشدد طریقِ کار ایک مشکل طریقِ کار ہے اور پُر امن طریقِ کار ایک آسان طریقِ کار۔ اب سنّت رسول کی پیروی میں اہلِ اسلام کو یہ کرنا ہے کہ وہ پُر تشدد طریقِ کار سے مکمل طورپر بچیں، اور پُر امن طریقِ کار پر سختی کے ساتھ کار بند رہتے ہوئے اپنا دینی اور ملّی مقصد حاصل کریں۔ اب پُر تشدد طریقِ کار کواستعمال کرنا سنتِ رسول کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور جو لوگ سنّتِ رسول کی خلاف ورزی کریں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات حتمی طورپر واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو دوسری قوموں کی طرف سے جس متشددانہ سلوک کا تجربہ ہورہا ہے وہ دوسری قوموں کے ظلم کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اُس کا سبب تمام تر یہ ہے کہ مسلمانوں نے سنتِ رسول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کیا کہ اُنہوں نے پُر امن طریقِ کار کو چھوڑ کر پُر تشدد طریقِ کار کو اختیار کر لیا۔ اب وہ جس ہلاکت کا تجربہ کررہے ہیں اُس کا سبب خود اُن کا مسنون طریقِ کار سے انحراف ہے، نہ کہ کسی مفروضہ دشمن کی طرف سے سازش یا ظلم کا معاملہ۔