ایک خط
برادر محترم جناب ہارون شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کل شام کو جناب عبد السلام اکبانی صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ جنوبی کوریا سے ۱۷ اگست کو آتے ہوئے میں ممبئی کے راستہ سے واپس ہوسکتا تھا۔ اس طرح مجھے آپ کی والدہ محترمہ کی آخری رسوم میں شریک ہونے کی سعادت مل جاتی۔ مگر شاید ایسا ہونا مقدر نہ تھا۔
اسلام کی ایک عجیب تعلیم دعا ہے۔ دعا کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اگر عملی اعتبار سے کوتاہی ہوجائے تو انسان کو چاہئے کہ وہ اُس کے حق میں نیک دعائیں کرے۔ میں دعا کے ساتھ آپ کے جذبات میں شریک ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ اُن کے ساتھ ہمارے لیے بھی جنت میں داخلہ کی صورت پیدا فرمائے۔
ماں بلاشبہہ ہر مرد وعورت کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر غالباً ماں کی سب سے زیادہ انوکھی اور امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ انسان کے لیے رحمتِ خداوندی کا ایک عملی تعارف ہے۔ خدا تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحیم ہے۔ عام حالات میں یہ ایک نظری عقیدہ ہے مگر ماں کی صورت میں خدا نے اپنی اس صفت کو پیشگی طورپر دکھا دیا ہے۔ ماں کی شفقت اور محبت میں ہر بندۂ خداکے لیے اس امید کا سامان موجود ہے کہ اُس کا خدا اُس کے ساتھ یک طرفہ طورپر رحمت کا معاملہ فرمائے گا، جیسا کہ ماں ہر حال میں اپنی اولاد کے ساتھ یک طرفہ طورپر رحمت کا معاملہ کرتی ہے۔
ماں کی وفات عام طورپر اس وقت ہوتی ہے جب کہ اس کی اولاد ابھی دنیا میں زندہ رہتی ہے۔ ماں کی وفات کا یہ پہلو اپنے اندر ایک اور اہم نصیحت رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ ماں دنیا سے رخصت ہو کر اپنے پس ماندگان کو بتاتی ہے کہ اسی طرح تمہیں بھی رخصت ہونا ہے۔ ماں اپنی عمر پوری کرکے یہ پیغام دیتی ہے کہ اے زندہ رہنے والو، یاد رکھو کہ تمہارا بھی کاؤنٹ ڈاؤن ہورہا ہے۔ اس طرح تمہیں بھی ایک دن اپنی موت سے دوچار ہونا ہے۔
یہ یاددہانی کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ سوتے ہوئے انسان کو جگانے کے ہم معنٰی ہے۔ یہ غیرمتحرک لوگوں کو حرکت میں لانے کا ذریعہ ہے۔ یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اے لوگو، اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ بھر پور طورپر استعمال کرو، اس سے پہلے کہ اپنے وقت کو استعمال کرنے کا موقع ہی ختم ہوجائے۔
قرآن کے مطابق، موت ہر پیدا ہونے والے کے لیے مقدر ہے۔ موت بلا شبہہ ہر انسان کے لیے سب سے بڑا حادثہ ہے۔ مگر خدا نے حیرت انگیز طورپر اس کو ہمارے لیے رحمت کا سبب بنا دیا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب موت کا تجربہ پیش آئے تو پسماندگان کو چاہئے کہ وہ صبر کا طریقہ اختیار کریں۔ صبر کرنے والوں کے لیے عظیم انعام کی بشارت ہے۔
اس طرح کے معاملہ میں صبر کرنا کیوں خدائی انعام کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ صبر در اصل خدا کے فیصلہ پر راضی ہونے کے ہم معنٰی ہے۔ بلاشبہہ کسی بندہ کے لیے یہ سب سے بڑی سعادت ہے کہ خدا اُس کے لیے ایک ناپسندیدہ چیز کا فیصلہ کرے اور وہ اُس کو خدا کی طرف سے سمجھ کر اُس پر دل سے راضی ہوجائے۔ اس قسم کی موت اپنے پسماندگان کے لیے اسی عظیم خدائی انعام کا ذریعہ ہے۔
یہ بھی خدا کی ایک عجیب رحمت ہے کہ جانے والا تو چلا گیا۔ اُس کو اپنے مقرر وقت پر جانا ہی تھا۔ مگر اس واقعہ میں خدا نے اپنی رحمت سے یہ ناقابلِ بیان حد تک قیمتی پہلو رکھ دیا کہ پسماندگان اگر اُس کو خدائی فیصلہ سمجھ کر اُس پر راضی ہوجائیں تو خدا اُن کی اس رضا مندی کی اس طرح قدر دانی کرے گا کہ جو چیز اُنہوں نے کھوئی ہے وہ مزید اضافہ کے ساتھ اُنہیں واپس مل جائے۔
موت کا واقعہ بظاہر ایک حادثہ ہے مگر اس دنیا میں ہر مائنس کے ساتھ پلس موجود ہوتا ہے۔ اور بلا شبہہ موت کا واقعہ اس عام قانون سے مستثنیٰ نہیں۔
نئی دہلی ۲۳ اگست ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین