دورِ شرک، دورِ الحاد
مذہبی نقطہ نظر سے تاریخ کے دو دور ہیں— دورِ شرک، دورِ الحاد۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ہزاروں سال تک دنیا میں شرک (polytheism) کا غلبہ تھا۔ موجودہ زمانہ عمومی تقسیم کے اعتبار سے، الحاد (atheism) کا زمانہ ہے۔ تاہم الحاد انکارِ مذہب کا نظریہ ہے، جب کہ سیکولرزم مذہب کے بارے میں عملاً ناطرف داری کا نظریہ۔
دورِ شرک اوردورِ الحاد کے درمیان ایک چیز مشترک ہے اور وہی چیز ہے جس کو قرآن کی درج ذیل آیت میں ’خَرص‘ کہاگیا ہے : وَقَالُوْا لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ ۭ مَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ۤ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ (43:20) یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم اُن کی عبادت نہ کرتے۔ اُن کو اِس کا کوئی علم نہیں، وہ محض اٹکل سے بات کررہے ہیں۔
’خرص‘ کا لفظی مطلب ہے اٹکل سے بات کرنا۔ اِس سے مراد دراصل چیزوں کی قیاسی تعبیر (speculative interpretation) ہے۔ قدیم زمانے میں مشرکین نے یہی غلطی کی تھی۔ انھوں نے یہ کیا کہ فطرت کا جو ظاہرہ اُن کو بڑا (great) نظر آیا، اس کو انھوں نے الٰہ (god) کادرجہ دے دیا۔ یہی چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: ہٰذَا رَبِّیْ ہٰذَآ اَکْبَرُ(6:78)۔یعنی یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔
موجودہ زمانے میں سائنس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے اِس قدیم متھ (myth) کو توڑ دیا۔ سائنس نے اپنے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ جن چیزوں کو انسان نے خدا سمجھ لیا تھا، اُن کے اندر کوئی خدائیت (divinity)نہیں ہے۔ تمام چیزیں صرف فطرت (nature) کے اجزا ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، کائنات کی تمام چیزیں صرف مخلوق ہیں، وہ کسی بھی درجے میں خالق نہیں۔ مشرکانہ کلچر کے نظریاتی خاتمے کا آخری دن 20 جولائی 1969 تھا، جب کہ امریکی ایسٹروناٹ نیل آرم اسٹرانگ (Neil Armstrong)چار روزہ خلائی سفر طے کرکے چاند تک پہنچا، اور چاند کی سطح پر اس نے اپنا قدم رکھ دیا۔
الحادکا دور
شرک کا مطلب ہے— کسی غیر خدا کو خدا کا شریک (partner) قرار دے کر اس کی تعظیم یا عبادت کرنا۔ موجودہ زمانے میں جب شرک کا دور ختم ہوا تو اس کے بعد یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا میں توحید کا دور آجائے، لیکن اُس وقت اہلِ مغرب دنیا کے فکری قائد بنے ہوئے تھے اور جیسا کہ معلوم ہے، قرونِ وسطی (middle ages) کے زمانے میں مغرب کے اہلِ علم اور چرچ کے درمیان شدید ٹکراؤ ہوا۔ اِس ٹکراؤ کی تفصیل جان ولیم ڈریپر (J. W. Draper)کی درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
History of the Conflict Between Religion and Science (1874)
قرون وسطی کے بعد یورپ میں انیسویں صدی میں جدید الحادی فکر کادور آیا۔ یہ دور کسی علمی تحقیق کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ تمام تر رد عمل (reaction) کے نتیجے میں پیش آیا۔ اِس زمانے میں علمی تحقیق کا معیار یہ قرار پایا کہ وہ تمام تر سیکولرانداز میں ہو، یعنی خدا کو حذف کرکے واقعات کی توجیہہ کرنا۔ اِس طرزِ فکر کے نتیجے میں وہ غیر مذہبی فلسفہ پیدا ہوا جس کو الحاد (atheism) کہاجاتا ہے۔
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation-seeking animal) ہے۔ قدیم مشرکانہ دور میں یہ توجیہہ قیاسی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ موجودہ ملحدانہ دور میں یہ توجیہہ علمی تحقیق کے نام پر کی جانے لگی۔ اِس نئے دور میں مغربی دنیا میں بہت سے مفکر پیدا ہوئے جو خدا کو حذف کرکے حیات اور کائنات کی توجیہہ کرتے تھے۔
اِس طریقِ تحقیق کے نتیجے میں ایک نیا دور پیدا ہوا۔ مزید یہ کہ اِسی دور میں پرنٹنگ پریس بھی وجود میں آیا۔ پہلے کتابیں محدود طورپر ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں، اب وہ چھپ کر عمومی طورپر پھیلنے لگیں۔ اِس طرح یہ ہوا کہ جدید الحاد مطبوعہ کتابوں میں منتقل ہو کر تمام دنیا کے فکر پر چھا گیا۔جدید ملحدانہ دور میں جو مفکرین پیدا ہوئے، اور ان کے ذریعے جو غیر مذہبی طرز فکر وجود میں آیا، اس کے پیچھے بہت سے ذہن کارفرما تھے۔ تاہم علامتی طورپر چار افراد کو اِس معاملے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اِن چار افراد نے انسانی تاریخ کو ایک نیا رخ یا الحادی رخ دیا۔ اُن کے نام یہ ہیں— آئزاک نیوٹن، چارلس ڈارون، سگمنڈ فرائڈ،کارل مارکس:
1. Isaac Newton: from divine interpretation to mechanical interpretation
2. Charles Darwin: from Special Creation to Natural Selection.
3. Sigmund Freud: from harnessing desires to following desires.
4. Karl Marx: from duty-conscious society to right-conscious society.
1- بر ٹش سائنس داں آئزاک نیوٹن (وفات1727) اصلاً صرف ایک سائنس داں تھا۔ اس کا موضوع تھا مادی دنیا میں حرکت (motion) کی توجیہہ کرنا۔ اس نے دریافت کیا کہ مادی دنیا میں حرکت کا نظام میکانکل قوانین (mechanical laws) کے تحت ہوتا ہے۔ مثلاً شمسی نظام میں سیاروں کی گردش کا قانون۔نیوٹن کی دریافت کا کوئی تعلق مذہبی عقائد سے نہ تھا، لیکن ملحد مفکرین نے اِس دریافت کو الحاد کے حق میں استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر واقعات فطری اسباب کے تحت پیش آتے ہیں تو وہ فوق الفطری سبب کے تحت نہیں ہوسکتے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہ استدلال بلا شبہ ایک غیر منطقی استدلال تھا، کیوں کہ نیوٹن کی تشریح جس چیز کو بتارہی تھی، وہ صرف ظاہری سبب تھا۔ اِس کے بعد بھی یہ سوال تھاکہ اسباب کے پیچھے مسبِّب (cause of the causes) کون ہے۔ اِس معاملے میں ملحدین کا استدلال تمام تر ایک مغالطے پر مبنی تھا، وہ کوئی سائنسی استدلال نہ تھا۔ لیکن ملحد مفکرین کی یہ توجیہہ وقت کے ذوق کے مطابق تھی، اِس لیے وہ عمومی طورپر پھیل گئی۔
2- چارلس ڈارون (وفات 1882) کا ارتقائی نظریہ بنیادی طورپر انتخابِ طبیعی (natural selection) کے اصول پر مبنی ہے۔ ڈارون نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ ارتقا (evolution) کا یہ نظریہ ایک سائنسی نظریہ ہے۔ مگر علمی تعریف (definition) کے مطابق، ارتقا کا نظریہ ہرگز سائنسی نظریہ (scientific theory) نہ تھا، وہ صرف ایک قیاسی نظریہ (speculative theory)کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر وقت کے عمومی ذوق کی بنا پر حیاتیاتی ارتقا کے اِس نظریے کو عام مقبولیت حاصل ہوگئی۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ کے لیے اب خالق کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، خالق کے وجود کو مانے بغیر تمام حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ ممکن ہے۔
مگر یہ صرف ایک مغالطہ تھا۔ سائنس کی مزید دریافتوں نے یہ ثابت کردیا کہ ارتقا کا یہ نظریہ علمی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہے۔ سائنس کی جدید دریافت بتاتی ہے کہ فطرت میں کامل درجے کی ذہین ڈزائن (intelligent design) ہے۔ اِس دریافت نے علمی طورپر نظریہ ارتقا کا خاتمہ کردیا ہے۔ کیوں کہ ذہین ڈزائن ایک ذہین ڈزائنر (intelligent designer) کی موجودگی کو ثابت کرتی ہے، وہ بے شعور قسم کے انتخابِ طبیعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔
3- سگمنڈ فرائڈ (وفات1939) کا نظریہ یہ تھا کہ انسان کی ذہنی ترقی اِس طرح ممکن ہے کہ اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی خواہشوں کو بے روک ٹوک پورا کرسکے۔ فرائڈ کے اِس نظریے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی تصور کے مطابق، حرام وحلال کی پابندیاں ختم ہوگئیں۔ انسان آزاد ہوگیا کہ وہ خود اپنی خواہش کے تحت جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے۔
لیکن بعد کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ فرائڈ کا یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ چناں چہ وہ انسان کی ذہنی ترقی میں مانع ہے، نہ کہ مدد گار۔نفسیات کا جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی ذہنی ترقی چیلنج کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ بے قید آزادی کے ذریعے۔ مذہب کی عائد کردہ اخلاقی پابندیاں ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِس چیلنج کے ذریعے انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا ہوتی ہے۔ اِس طرح انسان اپنی توانائی کے ضیاع سے بچتے ہوئے ذہنی ترقی کے راستے پر سفر کرتا رہتا ہے۔
4- کارل مارکس (وفات1883) نے زندگی کا جو فلسفہ دیا، وہ اپنی عملی تدبیر کے اعتبار سے یہ تھا کہ اقتصادی ذرائع کو انفرادی کنٹرول سے نکال کر سماجی کنٹرول میں دے دیا جائے۔ مارکس کے نزدیک انسانی حقوق کے تحفظ کا یہی واحد راستہ تھا۔ مگر عملی تجربے کے لحاظ سے اِس فلسفے کا مطلب یہ تھا کہ تمام اقتصادی ذرائع کو اسٹیٹ کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔ اِس نظریے کا مقصد بظاہر ایک غیرطبقاتی سماج (classless society)پیدا کرنا تھا، مگر عملاً اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو شدید قسم کے متحارب طبقے پیدا ہوگئے۔
اِس نظریے سے دو بڑی برائیاں پیدا ہوئیں — ایک، یہ کہ مسابقت (competition) کا ختم ہوجانا، جو کہ تمام ترقیوں کے لیے فطری محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری برائی جو اشتراکی نظریے کےتحت پیدا ہوئی، وہ یہ کہ لوگ عمومی طورپر رائٹ کانشس (right-conscious) بن گئے، جب کہ کسی سوسائٹی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس کے افراد ڈیوٹی کانشس (duty-conscious) ہوں۔ یہاں پہنچ کر طبقاتی کشمکش نے ایک ایسی صورت اختیار کرلی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ کیوں کہ زندگی میں ڈیوٹی کا تعین ہوسکتا ہے، لیکن رائٹ کا کوئی تعین نہیں۔
خلاصہ کلام
قدیم دورِ شرک کا بگاڑ یہ تھا کہ وہ خدا اور بندے کے درمیان تعلق کو صحیح بنیاد پر قائم کرنے میں مانع بن گیا۔ انسان کو یہ کرنا تھا کہ وہ اپنی سوچ کو اور محبت اور خوف کے جذبات کو مکمل طورپر خدا سے وابستہ کرے۔ اِسی کا نام توحید ہے اور اِسی توحید سے انسان کے اندر تمام اعلی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن مشرکانہ کلچر نے خدا کے شرکا (partners) قرار دے کر انسان کو اس کے مرکزِ اصلی سے ہٹا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اپنے مطلوب ارتقا سے محروم ہو کر رہ گیا۔
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک مرکز ِ وابستگی چاہتا ہے۔ انسان کی اِس فطری طلب کا مرجع صرف ایک ہے، اور وہ اس کا خالق ہے۔ بندے کا خالق سے تعلق قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے بجلی کے بلب کا پاور ہاؤس سے تعلق قائم ہونا۔ شرک کی برائی یہ تھی کہ اس نے انسان کی اِس طلب کے لیے اس کو ایک غیر واقعی بدل (false substitute) دے دیا۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ انسان کو اس کی فطری طلب کا مرکز نہیں ملا اور نتیجةً انسان اپنی شخصیت کے اُس ارتقا سے محروم ہوگیاجو اس کے لیے پیدائشی طور پر مقدر تھا۔
جدید الحاد کے دور میں دوبارہ انسان ایک اور اعتبار سے اِسی محرومی کا شکار ہوگیا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو علمِ قلیل دیاگیا ہے (الاسراء:85)۔ انسان کے لیے آزادی بہت اچھی چیز ہے، لیکن انسان اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے کامل آزادی کا تحمل نہیں کرسکتا۔ انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ وہ اپنی اِس محدودیت (limitation) کو جانے اور مقیّد آزادی (guided freedom) پر راضی ہوجائے۔ جدید الحاد نے آزادی کو خیر مطلق (summum bonum)قرار دے کر انسان کو اس کی فطرت کے راستے سے ہٹا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر ہر قسم کی ترقیوں کے باوجود انسان اُس اہم ترین چیز سے محروم ہوگیا جس کو ذہنی سکون (peace of mind) کہاجاتا ہے۔
سائنس کے میدان میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کی وجہ اگر مختصر طورپر بتانی ہو تو وہ صرف ایک ہوگی: مسلمانوں میں سائنسی شعور نہ ہونا۔ہندستان کا زمین دار طبقہ جدید تجارت میں پیچھے کیوں ہوگیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر تجارتی شعور موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ سائنس کے سلسلہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ ایک یا ایک سے زیادہ اسباب کی بنا پر مسلمانوں کے اندر جدید دور میں سائنسی شعور پیدا نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سائنس کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دی اور اگر توجہ دی بھی تو ادھوری شکل میں۔