ایمان بالغیب

قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (2:3)۔ یعنی ہدایت یاب لوگ وہ ہیں جو غیب پرایمان رکھتے ہیں۔ غیب پر ایمان کا معاملہ سادہ طورپر صرف عقیدے کا معاملہ نہیں ہے، وہ براہِ راست طورپر ہدایت کے معاملے سے جڑا ہوا ہے۔ جس آدمی کے اندر ایمان بالغیب کی صفت ہو، اُسی کو ہدایت ملے گی۔ جو آدمی ایمان بالغیب کی صفت سے محروم ہو، اس کو کبھی ہدایت ملنے والی نہیں۔ جب تمام حقیقتیں غیب میں ہو ں تو اعلی حقیقت کی دریافت کا معاملہ اس سلسلے میں استثنا (exception) نہیں ہوسکتا۔

غیب کا لفظ عربی زبان میں صرف غیر مشہود (unseen)کے معنی میں نہیں ہے۔ غیب کا لفظ ایسی چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو اگرچہ غیر مشہود ہو، مگر وہ غیر موجود نہ ہو، یعنی جب ایک چیز موجود ہوتے ہوئے دکھائی نہ دے تو اس کے لیے غیب کا لفظ بولا جائے گا۔ اللہ کا معاملہ یہی ہے۔ اللہ اگر چہ بظاہر غیب میں ہے، مگر بہ اعتبار حقیقت، وہ تمام موجود چیزوں سے زیادہ موجود ہے۔ اِس آیت میں ایمان بالغیب سے اصلاً ایمان باللہ مراد ہے، مگر تبعاً اِس میں وہ تمام متعلقاتِ ایمان شامل ہیں جن پر ایک مومن کے لیے ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلاً وحی، ملائکہ، جنت اور جہنم، وغیرہ۔

اصل یہ ہے کہ ہم چیزوں کو دو طریقوں سے جانتے ہیں — ایک، مشاہدہ (observation)، اور دوسرا استنباط (inference)۔ سائنسی اعتبار سے، یہ دونوں طریقے یکساں طورپر معتبر ہیں۔ اعتباریت (validity) کے لحاظ سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

موجودہ زمانے میں سائنس کو علمی مطالعے کا ایک معتبر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنس کے دو حصے ہیں — ایک ہے، نظری سائنس (theoretical science)، اور دوسرا ہے، فنی سائنس (technical science)۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، فنی سائنس کا دائرہ بہت محدود ہے۔ فنی سائنس کے ذریعے چیزوں کے صرف ظواہر (appearance)کو دیکھا جاسکتا ہے، لیکن تمام چیزیں جو بظاہر دکھائی دیتی ہیں، وہ اپنے آخری تجزیے میں غیر مرئی (unseen) ہوجاتی ہیں۔ مثلاً آپ پھول کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن پھول کی خوشبو کو آپ نہیں دیکھ سکتے۔ پھول کی خوشبو کو کسی بھی خورد بین (microscope) یا دور بین (telescope) کے ذریعے دیکھنا ممکن نہیں۔ حالاں کہ جس طرح پھول کا وجود ہے، اِسی طرح پھول کی خوشبو کا بھی وجود ہے۔

سائنسی مطالعے کے مطابق، تمام چیزیں آخر کار ایٹم کا مجموعہ ہیں، اور ایٹم اپنے آخری تجزیے میں الیکٹران (electron) کا مجموعہ ہے۔ ایک سائنس داں نےاِس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پوری کائنات ناقابلِ مشاہدہ الیکٹران کا مجنونانہ رقص (mad dance of electrons) ہے۔ ایک اور سائنس داں نے کائنات کی ا ِسی غیر مرئی حیثیت کی بنا پر کائنات کو امکان کی لہروں (waves of probability) سے تعبیر کیا ہے۔

اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگاکہ صرف بظاہر غیر مشہود خالق (Creator) ہی غیب میں نہیں ہے، بلکہ بظاہر مشہود تخلیق (creature) بھی حالتِ غیب میں ہے۔ برٹش سائنس داں سرآرتھر ایڈنگٹن (وفات :1944) نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، اس کتاب کا نام یہ ہے:

Science and the Unseen World by A. S. Eddington, Macmillan, 1929, pages 91

حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہم جن چیزوں کو دیکھتے ہیں، ہم اُن کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں، چیزوں کی اصل حقیقت ہمارے لیے پھر بھی غیر مشہود رہتی ہے۔ یہی معاملہ خدا کا ہے۔ خدا اپنی ذات کے اعتبار سے، بظاہر غیر مشہود ہے، لیکن اپنی تخلیق کے اعتبار سے، خدا ہمارے لیے مشہود بن جاتا ہے۔ تخلیق کا موجود ہونااپنے آپ میں خالق کے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔ کائنات اتنی زیادہ بامعنی (meaningful) ہے کہ خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ سرے سے ممکن ہی نہیں۔

اللہ رب العالمین کا حالتِ غیب میں ہونا ایک اعتبار سے امتحان (test) کی مصلحت کی بنا پر ہے۔ اللہ اگر عیاناً دکھائی دے تو امتحان کی مصلحت ختم ہوجائے گی۔ اللہ غیب میں ہے، اِسی لیے اُس پر ایمان ہمارے لیے ایک امتحانی پرچہ (test paper) ہے۔ اللہ اگر شہود میں ہوتا تو اس پر ایمان لانا انسان کے لیے اس کے امتحان کا پرچہ نہ بنتا۔ اللہ کا اور اس سے متعلق ایمانیات کا غیب میں ہونا انسان کے لیے ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے انسان کے ذہن میں غور وفکر کا عمل (process of thinking)جاری ہوتا ہے۔ اِسی کی بنا پر ایسا ہے کہ ہمارے لیے تدبر کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا میدان موجود ہے۔ اِسی بنا پر ایسا ممکن ہوتا ہے کہ ہم اللہ کو دریافت (discovery) کے درجے میں پائیں۔ اِسی بنا پر یہ ممکن ہے کہ خدا کی معرفت ہمارے لیے ایک خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) ہو، اور بلاشبہ یہ ایک واقعہ ہے کہ خود دریافت کردہ حقیقت سے زیادہ بڑی کوئی اور چیز اِس دنیا میں نہیں۔ اللہ کا اور اُس سے متعلق ایمانیات کا انسان کے لیے غیب میں ہونا، انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ایک لامتناہی ذریعہ (endless source) کی حیثیت رکھتا ہے۔

ہدایت کے لیے ایمان بالغیب کی شرط کوئی تحکُّمی (arbitrary) شرط نہیں ہے، بلکہ وہ انسان جیسی مخلوق کے لیے ایک نہایت معقول شرط ہے۔ کسی بھی بڑی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ بیدار شعور (awakened mind) درکار ہوتا ہے۔ جس انسان کا شعور بیدار ہو، وہی اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑی حقیقت کو سمجھ سکے۔ خدا بلا شبہ سب سے بڑی حقیقت ہے، اِس لیے خدا پر ایمان یا خدا کی معرفت حقیقی طورپر صرف اُس انسان کو حاصل ہوگی جو مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعے اپنے شعور کو بیدار کرچکا ہو۔ جس انسان کا شعور بیدار نہ ہو، وہ گویا ذہنی اندھے پن (intellectual blindness)میں مبتلا ہے، اور بلا شبہ ذہنی اندھے پن کے ساتھ خداوند عالم کی معرفت کسی انسان کو نہیں مل سکتی۔

 

دنیا میں کامیابی فطرت کے مطابق عمل کا دوسرانام ہے۔ اس کے مقابلہ میں ناکامی یہ ہے کہ آدمی فطرت کے نظام سے مطابقت نہ کر سکے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom