دورِ مواصلات
قرآن کی سورہ بنی اسرائیل میں ایک آیت آئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں : وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (17:70)۔ یعنی ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی، اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا۔اس دنیا میں موجود تمام حیوان اپنے پیروں کے ذریعہ سفر کرتے ہیں، چڑیا کا سفر اپنے پرکے ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ انسان کی ایک امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ خارجی سواری کے ذریعہ اپنا سفر کرسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں جدید مواصلات (modern communication) کی ایجاد نے سواری (transportation) کے تصور کو بہت بڑھادیا ہے۔ آج کے انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ جسمانی حمل ونقل (physical transportation)سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرے اور اِسی کے ساتھ افکار کے حمل ونقل (transportation of ideas)کو بھی نہایت سرعتِ رفتار سے انجام دے سکے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں براہِ راست طورپر صرف حیوانی مواصلات کا ذکر ہے، مگر بالواسطہ طورپر اس میں ہر قسم کے مواصلات بشمول مواصلات بذریعہ ٹکنالوجی کا اشارہ موجود ہے۔ آدمی اگر اس آیت کو اس کے توسیعی مفہوم (extended meaning) کے ساتھ پڑھے تو یہ آیت اس کے لیے کائناتی معرفت کا ذریعہ بن جائے گی۔ اِس آیت میں وہ اللہ کی کائناتی نعمت کو دریافت کرے گا۔ یہ ایک آیت اس کے لیے بلین ٹریلین سے بھی زیادہ معانی کا خزانہ بن جائے گی۔
قرآن معروف معنوں میں کوئی معلوماتی کتاب نہیں۔ لیکن قرآن کے اندر وہ تمام معلومات موجود ہیں، جن کا تعلق معرفت سے ہے۔ یہ معلومات زیادہ تر اشارات کی صورت میں ہیں۔ ان آیتوں پر غور کرکے ان کے اندر چھپے ہوئے معانی کو دریافت کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ تدبر اور تفکر ہے جس سے معرفت میں اضافہ ہوتاہے۔ یہی وہ چیزہے جو آدمی کے ایمان کو یقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تدبر کو نصیحت (ص:29)کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔