سوال وجواب

سوال

میں نے آپ کی کچھ تحریریں پڑھی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ آپ اکثر صلح حدیبیہ کا ذکر کرتے ہیں۔صلح حدیبیہ تو قدیم زمانہ میں ایک خاص وقت کے لحاظ سے تھی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لئے اس کی مناسبت (relevance) کیا ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (خالد انصاری، نئی دہلی)

جواب

صلح حدیبیہ کوئی منفرد تاریخی واقعہ نہیں۔ وہ فطرت کا ایک عام اصول ہے۔ اس کا تعلق ہر زمانہ سے ہے۔ وہ فرد کی زندگی کے لئے بھی کار آمد ہے اور قوم کی زندگی کے لئے بھی۔

اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں اکثر دو فریقوں کے درمیان نزاع قائم ہو جاتی ہے۔ یہ نزاع بظاہر کسی حق یا کسی انصاف کے لیے ہوتی ہے۔ مگر زندگی کا قانون یہ ہے کہ آپ اپنا حق فریقِ ثانی سے نہیں لے سکتے۔ آپ کا مطلوب حق خود آپ کے تعمیری عمل کا نتیجہ ہوتا ہے، نہ کہ فریقِ ثانی سے ملا ہوا عطیہ۔ حدیبیہ پرنسپل یہ بتاتا ہے کہ جب کسی سے نزاع قائم ہو جائے تو نزاع کو حق یا انصاف کا سوال نہ بناؤ بلکہ اس کو امن کا سوال بناؤ۔ یعنی ہر قیمت پر جلد سے جلد نزاع کو ختم کردو۔ نزاع کو ختم کرنے کا مطلب حالات کو نارمل بنانا ہے۔ نزاع کے وقت یہ ہوتا ہے کہ آپ کی ساری طاقت فریقِ ثانی سے لڑنے میں ضائع ہونے لگتی ہے۔ عین اسی وقت آپ کے لئے مواقع کا ر موجود ہوتے ہیں۔ مگر آپ ان مواقع کو استعمال نہیں کر پاتے۔ جب کہ کامیابی ہمیشہ مواقع کو استعمال کرنے سے ملتی ہے، نہ کہ حقوق کی لڑائی لڑنے سے۔

حدیبیہ پرنسپل ایک ابدی پرنسپل ہے۔ یہ ایک حکیمانہ تدبیر ہے۔ اس تدبیر کا خلاصہ یہ ہے کہـــ ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے نارمل حالات پیدا کرو، تاکہ تمہیں موجود امکانات کواستعمال کرنے کا موقع مل جائے۔

نزاع کو غیر مشروط طورپر ختم کرنا بظاہر نقصان کاایک معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر نقصان کوئی مطلق چیز نہیں، نقصان ایک تقابلی چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نزاع کو باقی رکھنے میں بھی نقصان ہے اور نزاع کو ختم کرنے میں بھی نقصان۔ اب آپ کو یہ کرنا چاہئے کہ دونوں قسم کے نقصان کے درمیان موازنہ کریں۔ اگر آپ اس طرح موازنہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ نزاع کو باقی رکھنے میں زیادہ نقصان ہے اور نزاع کو ختم کرنے میں کم نقصان۔ ایسی حالت میں حدیبیہ پرنسپل کو اختیار کرنا گویا زیادہ نقصان کے مقابلہ میں کم نقصان کو اختیار کرنا ہے۔ اور بلا شبہہ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ نقصان والی صورت کوچھوڑ دیا جائے، اور کم نقصان والی صورت کو اختیار کر لیا جائے۔

مزید یہ کہ حدیبیہ اصول پر نزاع کو ختم کرنے والے لوگ اگر دانش مند ہوں تو یہ تدبیر ان کے لیے اس سے بھی زیادہ بڑے فائدہ کا باعث بن سکتی ہے۔ اور وہ ہے وقتی نقصان کو گوارا کرکے مستقبل کے عظیم تر فائدہ کو محفوظ کر لینا۔

سوال

اسلام کے مطابق، جنت اس کو ملے گی جو خدا کی شریعت پر عمل کرتاہو۔ مگر یہ نظریہ ایک محدود نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو خدا کی شریعت کی بات نہیں کرتے مگر وہ ایک با اخلاق زندگی گزارتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بولتے، وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے، وہ دوسروں کی خدمت کرتے ہیں، وغیرہ۔ اس قسم کے بہت سے اچھے لوگ ہیں۔ آخر وہ خدا کی جنت سے محروم کیوں رہیں گے۔ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ (رجت ملہوترا، نئی دہلی)

جواب

یہ صحیح ہے کہ غیر خدا ترس لوگوں میں بھی بظاہرکچھ اخلاقی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ لیکن گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو یہ صحیح معنوں میں اخلاق نہیں ہوتا۔ زیادہ درست طورپر اس کو سماجی برتاؤ (social manners) کہا جاسکتا ہے۔ کوئی آدمی اس قسم کی اخلاقی روش اس لئے اختیار کرتا ہے تاکہ سماج میں اس کو اچھا سمجھا جائے۔ یہ خود پرستی کی ایک صورت ہوتی ہے، نہ کہ حقیقۃ ًخدا پرستی کی صورت۔

اس سماجی اخلاق کی اصلیت اس وقت کھل جاتی ہے جب کہ کوئی حقیقی جانچ کا موقع آجائے، جب آدمی کو اپنا کوئی بڑا مفاد خطرہ میں جاتا ہوا نظر آئے، جب کسی اخلاقی تقاضہ کو پورا کرنے کے لئے اس کو اپنی انا کو قربان کر دینا پڑے۔ اس قسم کا اخلاق ذاتی انٹرسٹ کے تابع ہوتاہے، وہ مستقل اصول کے تابع نہیں ہوتا۔ کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں کہ اچھے لوگ بھی اس وقت بدل گئے جب کہ انہیں کسی کڑی اخلاقی جانچ سے گذرنا پڑا۔ ایسے موقع پر یہ بظاہر با اخلاق لوگ اچانک بے اخلاق بن جاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ خدا سے ڈرنے والا انسان ہی ہر حال میں اخلاقی اصول پر قائم رہ سکتا ہے۔ خدا کے سامنے حساب دینے کا اندیشہ خود انٹرسٹ کے تصور کو بدل دیتا ہے۔ اب انسان کا انٹرسٹ یہ بن جاتا ہے کہ وہ خدا کے سامنے اچھا انسان ٹھہرے، نہ یہ کہ دنیا کی زندگی میں وہ لوگوں کو ایک اچھا انسان دکھائی دے۔

سوال

خدا کے وجود کو ماننا بظاہر ایک معقول بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایک سوال یہ ہے کہ اگر اس دنیا کا ایک خداہے تو یہاں اتنی زیادہ مصیبتیں (sufferings) کیوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے انسان طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگر خدا ہی خالق ہے اور وہ خیر مطلق کی حیثیت رکھتا ہے تو دنیا میں پائی جانے والی مصیبتوں کی توجیہ کیا ہوگی۔ (پِریا ملک، نئی دہلی)

جواب

یہ سوال بہت پُرانا ہے۔ فلاسفہ اس کو بُرائی یا خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں۔ جو لوگ خدا کے وجود کو نہیں مانتے، ان کا خیال یہ ہے کہ ان کے نظریہ کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہی ہے۔ مگر یہ ایک مغالطہ ہے جوسطحی مطالعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے، اس کی کوئی گہری بنیاد نہیں۔

اس سوال کو وسیع تر تناظر میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ہماری دنیا کے دو حصے ہیں۔ ایک، انسانی دنیا جو مجموعی دنیا کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ دوسرے، وسیع خلا میں پھیلی ہوئی کائنات، یہ بقیہ کائنات اتنی زیادہ وسیع ہے کہ انسانی دنیا کمیت کے اعتبار سے اس کے مقابلہ میں کوئی نسبت نہیں رکھتی۔

مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں دنیائیں بنیادی طورپر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ وسیع کائنات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آخری حد تک ایک معیاری کائنات ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی کوئی خرابی یا نقص نہیں۔ مثال کے طورپر سورج کے گرد زمین کی گردش کو دیکھئے۔ یہ گردش بیک وقت دو انداز سے جاری ہے۔ ایک، خود اپنے محور (axis) پر۔ اور دوسرے، سورج کے گرد بیضوی شکل میں اپنے مدار (orbit) پر۔

زمین کی یہ دوطرفہ گردش اتنی زیادہ صحت کے ساتھ مسلسل ہورہی ہے کہ کروڑوں سال کے اندر بھی اس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ زمین گویا ایک بہت بڑا ہوائی جہاز ہے جو دوطرفہ اصول پر مسلسل گردش میں ہے۔ مگر ہم نہایت سکون کے ساتھ اس کے اوپر زندگی گذار رہے ہیں۔ اگر ہوائی جہاز کی مانند اس میں شور اور جنبش ہونے لگے تو زمین کے اوپر ہمارا رہنا محال ہو جائے۔

کچھ انتہا پسند منکرین خدا نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مادّی دنیا نقص سے خالی نہیں۔ مثلاً ان کے نزدیک، زمین کی کشش غیر متناسب طورپر زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے چند کلو کے وزن کی چیز ہاتھ میں لے کر چلنا بھی سخت مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر یہ نقص کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ توازن کا مسئلہ ہے۔ زمین میں کشش اگر کم ہوجائے تو بے شمار نا قابلِ حل مسئلے پیدا ہوجائیں گے۔ مثلاً انسان کا زمین پر ہموار انداز میں چلنا ممکن نہ رہے گا، زمین پر مکانات کھڑے کرنا سخت دشوار ہو جائے گا، وغیرہ۔

مادی کائنات انسان کے مقابلہ میں ناقابلِ قیاس حد تک بڑی ہے۔ اس کے مقابلہ میں انسانی دنیا اتنی زیادہ چھوٹی ہے کہ بقیہ کائنات سے اس کو کوئی نسبت نہیں۔ اب جب کہ ایسا ہے کہ خرابی کا مسئلہ صرف انسان کی محدود دنیا کے ایک چھوٹے سے حصہ میں ہے، اور وسیع کائنات خرابی سے مکمل طورپر پاک ہے تو یہ ماننا ہوگا کہ خرابی کا مسئلہ عموم میں استثناء کا مسئلہ ہے۔ اور جب ایسا ہے تو استثناء کی توجیہہ عموم کی روشنی میں کی جائے گی، نہ کہ عموم کی توجیہہ استثناء کی روشنی میں کی جانے لگے۔

اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی میں خرابی کا مسئلہ آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر پیدا ہوا ہے، نہ کہ تخلیق میں کسی نقص کی بنا پر۔ اگر وہ تخلیق میں نقص کی بنا پر ہوتا تو اس کی مثالیں وسیع کائنات میں ہر طرف موجود ہوتیں، نہ کہ وسیع کائنات کے صرف ایک بے حد چھوٹے حصہ میں۔

اصل یہ ہے کہ خالق نے اپنے تخلیقی نقشہ کے مطابق، وسیع کائنات کو جبری نظام (determinism) کے تحت براہِ راست اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔ اس لئے وہ کسی تبدیلی کے بغیر ایک مقرر حالت پر قائم رہتی ہے۔اس کے برعکس انسان کو امتحان کی مصلحت کے تحت آزادی دی گئی ہے۔ اسی فرق نے مذکورہ بالا مسئلہ پیدا کیا ہے۔ انسان اپنی آزادی کا بار بار غلط استعمال کرتا ہے۔ اسی غلط استعمال نے وہ مسائل پیدا کئے ہیں جن کو خرابی کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ انسان اگر اپنی آزادی کا غلط استعمال نہ کرے تو انسانی دنیا بھی اسی طرح بے نقص دنیا بن جائے گی جس طرح بقیہ کائنات بے نقص دنیا بنی ہوئی ہے۔

سوال

ایک صاحب نے لاہور کے ماہنامہ اشراق کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۱ میں شائع شدہ مضمون (مولانا وحید الدین کا اسلوب تنقید) کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس شائع شدہ مضمون کا ایک حصہ یہ ہے:

’’آج اس خطے کا کون سا مسلمان ایسا ہے جو شاہ ولی اللہ، شیخ احمد سرہندی، سید احمد شہید، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی، علامہ محمد اقبال، مولانا مودودی، ٹیپو سلطان، محمد علی جناح جیسی تمام شخصیات یا ان میں سے بہت سے لوگوں سے تعلق خاطر نہیں رکھتا یا ان کی فکر اور اخلاص کا مداح نہیں ہے؟ جب آپ ان سب پرایسے اسلوب میں تنقید کریں گے جن سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے تو پھر یہ لوگ آپ کے مخاطب کیسے بن سکتے ہیں۔

یہ واقعہ ہے کہ مولانا وحید الدین نے اپنے تنقیدی اسلوب کی بنا پر مسلمانوں کے قریباً تمام قابلِ ذکر طبقات میں اپنے لیے ایک ناپسندیدہ فضا پیدا کردی ہے۔ چنانچہ ان کے قلم سے نکلنے والی بہت سی مثبت اور قابل قدر باتیں بھی ان حلقوں میں نہیں پہنچ پاتیں اور یوں خود مولانا وحید الدین کا اپنا اسلوبِ تحریر ان کی دعوت کے فروغ کے راستے میں رکاوٹ بن گیاہے۔ اگر ہم مولانا وحید الدین کی ایسی تحریروں کے اقتباسات نقل کریں تو یہ مضمون غیر معمولی طورپر طویل ہوجائے گا…صرف ایک اقتباس یہاں درج کیا جارہا ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا قلم زورِ تنقید کے کیا نمونے پیش کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن زبیر نے یزید بن معاویہ کے عہد میں جو طرزِ عمل اختیار کیا، وہ مولانا کے تصور دین کے مطابق، چونکہ درست نہیں تھا، اس لیے دیکھیے کہ وہ ان کا اور ان کی والدہ کا ذکر کیسے کرتے ہیں:

’’میں اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک سے زیادہ ایسے افراد کو جانتا ہوں جو کم عمری میں ماں کی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوری زندگی بربادی کا نشان بن گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں کے روپ میں عورت کا رول انسانی زندگی میں بہت زیادہ ہے۔ عبد اللہ بن زبیر کی ماں (اسما) نے ان کو ایک بڑے اقدام پر ابھارا۔ چنانچہ ایک شخص جو اقدام کا ارادہ چھوڑ چکا تھا، وہ دوبارہ اقدام کے لیے آمادہ ہوگیا۔ شہنشاہِ اکبر کی ماں (مریم مکانی) نے اکبر کو ملا عبدالنبی کے خلاف کارروائی سے روکا۔ چنانچہ اکبر ان کے خلاف سخت کارروائی سے باز رہا، وغیرہ وغیرہ۔

راقم الحروف اگر بچپن میں ماں سے محروم ہوجاتا یا اگر مجھ کو ایسی ماں ملتی جو مجھے اپنے ’’دشمنوں ‘‘ کے خلاف لڑنے جھگڑنے پر اُکساتی رہتی تو یقینی طورپر میری زندگی کا رخ دوسرا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسے انجام سے بچایا اور مجھ کواپنی ایک صداقت کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔‘‘

مولانا وحید الدین کے نزدیک صحابہ پر تنقید کرنا جائز نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عبد اللہ ابن زبیر پر تنقید نہیں؟ کیا یہ حضرت اسما بنت ابی بکر پر تنقیدنہیں…؟ ہم اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ مولانا وحید الدین خاں کی رائے میں صحت کا امکان کتنا ہے، ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت اسما کا ذکر اس اسلوب میں اور اس تقابل کے ساتھ، کیا تنقید کا کوئی قابلِ تحسین اسلوب ہے؟‘‘ (ایک قاری الرسالہ، لاہور)

جواب

پاکستانی ماہنامہ کے مذکورہ مضمون میں جو بات کہی گئی ہے وہ بلاشبہہ غیر علمی بھی ہے اور غیر ذمہ دارانہ بھی۔ یہ اعتراض راقم الحروف کی کتاب (خاتونِ اسلام) کے ایک باب سے لیا گیا ہے۔کوئی بھی شخص اس باب کو غیر جانبدارانہ انداز سے پڑھے تو یقینا وہ جان لے گا کہ اس باب کا موضوع صحابہ یا صحابیہ کی روش پر تبصرہ نہیں ہے، جس کی ایک مثال ’’خلافت و ملوکیت‘‘ نامی کتاب ہے۔ میری کتاب کا موضوع اس کے برعکس صرف ایک مغربی پروپیگنڈہ کاجواب ہے۔ میں نے اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے خانہ نشین عورت بھی بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ جس کو مغربی لوگ صرف غیر خانہ نشین عورتوں کے لیے ممکن سمجھتے ہیں۔ اس نکتہ کو ثابت کرنے کے لئے میں نے کتاب میں تین خواتین کی مثالیں دی ہیں ــــحضرت اسماء، مریم زمانی، زیب النساء۔

میری کتاب کی مذکورہ عبارت میں نعوذ باللہ کسی صحابی یا صحابیہ پر تنقید ہر گز نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ اس میں سادہ طور پر، تین خواتین کا، خاتون کی حیثیت سے رول بتایا گیا ہے۔ عبارت کے مدعا کے مطابق، اس مثال میں مذکورہ خاتون کا صحابیہ ہونا ایک اتفاقی امر ہے۔

بلاغت کا مسلّم اصول ہے کہ تمثیل کے طریقہ میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ پیش نظر مثال کا متعلق پہلو ہی مقصود ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ دیگر پہلو وہاں غیر متعلق قرار پاتے ہیں۔

In employing the method of anology, it should always be possible to show that the resemblances noted bear relevance on the point to be established whereas the differences are irrelevant. (I/337)

مذکورہ تنقید میں دو واضح غلطیاں کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ناقد نے اس علمی نکتہ کو ملحوظ نہیں رکھا کہ اس مثال میں حضرت اسماء کا نام صحابیہ کی حیثیت سے مراد نہیں ہے بلکہ دوسری دو خواتین کی طرح، ان کا نام بھی یہاں ایک خانہ نشین خاتون کی حیثیت سے مراد ہے۔ دوسری بات یہ کہ میری کتاب میں ان خواتین کا نام تنقید کے مقصد سے نہیں لایا گیا ہے بلکہ ان کے تعریفی کارنامہ کی حیثیت سے لایا گیا ہے۔ مذکورہ ناقد نے اپنے ایک ذہنی تخیل کو شامل کرکے غیر ضروری طور پر اس کو قابل اعتراض بنانے کی کوشش کی ہے۔ اور اس طرح انہوں نے ایک تعریفی حوالہ کو خلاف واقعہ طورپر تنقیدی حوالہ بنادیا ہے۔

سوال

ہندستان کی کئی یونیورسٹیوں میں اور باہر کی کچھ یونیورسٹیوں میں بھی اسلامک اسٹڈیز کے نام سے شعبے قائم ہیں۔ ہمارے مدارس میں بھی اسلام کے مطالعہ کا انتظام ہے۔ یہ دونوں ایک ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے۔ سیکولر یونیورسٹیوں میں اور دینی مدارس میں اس اعتبار سے اگر کوئی فرق ہے تو وہ کیا ہے۔ (ندیم احمد سنابلی، دہلی)

جواب

سیکولر یونیورسٹیوں میں اسلام کے مطالعہ کا تصور اس سے مختلف ہے جو ہمارے دینی مدارس میں پایا جاتا ہے۔ دینی مدارس میں اسلام کا مطالعہ ایک مقدس الہامی مذہب کے طورپر کیا جاتاہے۔ جب کہ سیکولر یونیورسٹی میں اسلام یا کسی اور مذہب کا مطالعہ صرف اس لیے کیاجاتا ہے کہ وہ ایک تاریخی ظاہرہ یا ایک تاریخی واقعہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اصحاب مدارس کے مطالعہ کا طریقہ داخلی (subjective)ہے، اوراصحاب یونیورسٹی کا طریقہ خارجی (objective) ہے۔ اس کو ایک عملی مثال سے سمجھئے۔ مثلاً اسلام کے دور اول میں حسین ابن علی اور یزید ابن معاویہ کی فوجوں کے درمیان مسلح ٹکراؤ ہوا۔ یزید ابن معاویہ کی فوج نے حسین ابن علی کو شہیدکردیا۔ اس واقعہ کو اہل مدرسہ اس نظر سے دیکھیں گے کہ حسین ابن علی پیغمبر اسلام کے نواسے تھے اور پھر اسی جذباتی وابستگی کے تحت اپنی رائے قائم کریں گے۔ اس کے برعکس سیکولر ذہن کے لوگ اس کو سادہ طورپر صرف ایک تاریخی واقعہ کی حیثیت سے لیں گے اور بے لاگ خارجی معلومات کی روشنی میں اس کا اندازہ (assessment) کریں گے۔

اس فرق کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صاحب مدرسہ سارے معاملہ کو حسین کی معصومیت اور یزید کے ظلم کے نقطۂ نظر سے دیکھیں گے۔ اس کے برعکس یونیورسٹی کے لوگ خالص خارجی حقائق کی روشنی میں اس پر رائے قائم کریں گے۔ اس فرق کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل مدرسہ یہ کہیں گے کہ ’’یزید پلید کی فوجوں نے نواسۂ رسول کو مظلومانہ طورپر شہید کیا‘‘ اس کے برعکس دوسرا فریق یہ کہے گا کہ حسین ابن علی کے اقدام کی حیثیت دمشق کی خلافت کے نزدیک بغاوت کی تھی، اس لئے خلافتِ دمشق کی فوجوں نے حسین ابن علی کے خلاف جو اقدام کیا وہ وہی تھا جو ہر قائم شدہ حکومت کرتی ہے۔

سوال

اسلام چونکہ ایک دین فطرت ہے۔ اور رب العزت نے اس کو انسان کی طبیعت کے عین مطابق بنایا ہے۔ یہ دین باقی ماندہ ادیان پر غالب ہے۔ آپ متشددانہ طرز عمل کے خلاف ہیں۔ ایسی حالت میں چوری کرنے والے یا شراب پینے والے کو شرعی سزا کیسے دی جائے گی۔ (محمد ادریس ٹاک، کشمیر، پن 192 303)

جواب

اسلام بلاشبہہ دین فطرت ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ادیان خلافِ فطرت تھے۔ اصل یہ ہے کہ اللہ کا بھیجا ہوا ہر دین فطرت کے مطابق ہی تھا مگر بعد کی تحریفات نے اس کو بدل دیا۔ اسلام اور دوسرے آسمانی مذاہب میں جو فرق ہے وہ افضل اور غیر افضل کا نہیں ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ پچھلے آسمانی مذاہب تبدیلیوں کی بنا پر غیر مستند ہوگئے۔ جب کہ اسلام آج بھی اپنی ابتدائی حالت پر باقی ہے۔

مجرم کو شرعی سزا دینا عوام کا کام نہیں۔ یہ ایک قائم شدہ حکومت کا کام ہے جوحالات پر مکمل کنٹرول رکھتی ہو۔ عوام کے لیے پُر امن تبلیغ واصلاح ہے، نہ کہ شرعی قوانین کو طاقت کے ذریعہ نافذ کرنا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom