انسانی مصائب کیوں
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ انسان ہمیشہ مختلف قسم کی مصیبتوں (sufferings) سے دوچار رہتا ہے۔ کبھی کوئی بچہ ماں کے پیٹ سے ناقص الاعضاء پیدا ہوتا ہے۔ کبھی کسی حادثہ کی بنا پر کوئی شخص اپاہج ہوجاتا ہے۔ کبھی اور کسی قسم کی آفت میں مبتلا ہو کر وہ دکھ کا تجربہ کرتا ہے، ایسا کیوں ہے۔ مذہبی عقیدہ کے مطابق، خدا اگر تمام خوبیوں کا مالک ہے، اور وہ رحیم وکریم ہے تو وہ اپنے بندوں کو اس قسم کی مصیبتوں میں کیوں مبتلا کرتا ہے۔ معیاری کائنات میں یہ غیر معیاری واقعات کیوں۔
اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشہ کو سمجھا جائے۔ مصائب کا معاملہ انسان کی تخلیق کی مجموعی اسکیم کا ایک جزء ہے، اور جب تک مجموعی اسکیم کو نہ سمجھا جائے، جزء کے معاملہ کو سمجھنا ممکن نہیں۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد جانچ (test) ہے۔ یعنی مختلف حالات میں ڈال کر یہ دیکھنا کہ کون شخص اچھا ہے اور کون شخص برا۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے موت اور زندگی پیدا کی تاکہ لوگوں کو جانچ کر دیکھے کہ ان میں سے کون اچھے عمل والا ہے اور کون برے عمل والا (الملک ۲)
جانچ کے اس مقصد کے لئے ضروری تھاکہ انسان کو قول و عمل کی مکمل آزادی دی جائے۔ آزادی کے بغیر نہ کسی کو جانچنا ممکن ہے اور نہ یہ فیصلہ کرنا ممکن ہے کہ وہ کس سیرت و کردار کا آدمی ہے۔ اس آزادی کو قرآن میں امانت کہاگیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے۔ اورانسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم و جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کواور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں پر توجہ فرمائے۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (الاحزاب ۷۲۔ ۷۳)
یہ آزادی بے حد نازک چیز ہے،کیوں کہ یہ یقینی اندیشہ ہے کہ جب کسی مخلوق کو کام کی آزادی دی جائے تو وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے گا۔ اسی اندیشہ کا اظہار فرشتوں نے انسان کی پیدائش کے وقت کیا تھا۔ اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: اورجب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ (بااقتدار) بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جواس میں فساد کریں اور خون بہائیں اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (البقرہ ۳۰)
انسان کو آزادی دینے کے اسی منصوبہ کا وہ نتیجہ ہے جس کو فلاسفہ بُرائی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں۔ اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ یقینا ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے (البلد ۴)یہی بات قرآن میں ایک اور انداز سے اس طرح بیان ہوئی ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوروں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں (البقرہ ۱۵۵۔۱۵۶)
موجودہ دنیا میں جو مسائل یا مصائب نظر آتے ہیں وہ در حقیقت اسی تخلیقی نظام کا فطری نتیجہ ہیں۔ انسانی زندگی میں جب حقیقی معنوں میں آزادی کا ماحول قائم کیاجائے تو لازماً ایسا ہوگا کہ کبھی کوئی انسان آزادی کا غلط استعمال کرکے مسئلہ پیدا کرے گا۔ کبھی کوئی انسان اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا اور اسباب و علل کے نظام کی بنا پر اس کے انجام سے دوچار ہوگا۔ کبھی مسابقت اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں آگے بڑھ جانے کی دوڑ کے نتیجہ میں کوئی کھوئے گا اور کوئی پانے کا تجربہ کرے گا۔ اس قسم کے واقعات کا پیش آنا ضروری ہے۔ ان کے بغیر آزادی کاحقیقی ماحول قائم ہی نہیں ہوسکتا۔
تاہم خالق کی رحمت ہر ایک کے ساتھ ہے۔ آزادی کے اس ماحول کے نتیجہ میں جو لوگ بظاہر کامیاب ر ہیں وہ زیادہ سخت انداز میں جانچے جائیں گے اور جو لوگ بظاہر نقصان اٹھائیں ان کے ساتھ خصوصی رعایت کا معاملہ کیاجائے گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پہلے گروہ کے مقابلہ میں دوسرا گروہ زیادہ خوش قسمت نظر آتا ہے۔