ربّانی تعقل

قرآن میں بنیادی طورپر دو قسم کی تعلیمات ہیں۔ ایک وہ جن کو احکام کہا جاتا ہے۔ اور دوسرے وہ جو تفکر اور تدبر سے تعلق رکھتی ہیں۔ اوّل الذکر کی حیثیت اگر عملی ہے تو ثانی الذکر کی حیثیت فکری۔

قرآن میں دونوں ہی قسم کی تعلیمات اجمالی انداز میں آئی ہیں۔ یہ کام علماء اسلام کا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی رہنمائی میں اس اجمال کی تفصیل کریں۔ جہاں تک احکام کا تعلق ہے، اُن کی تفصیل اور تدوین فقہ کی صورت میں کی گئی ہے۔ یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ اس کو بنیادی طورپر ایک کامیاب کوشش کہا جاسکتا ہے۔جہاں تک تفکر اور تدبر والے حصہ کاتعلق ہے، اُن کے سلسلہ میں بھی پچھلے ہزار سال کے دوران مقدار کے اعتبار سے کافی کام ہوا ہے۔مگر وہ بڑی حد تک غیر اطمینان بخش ہے۔ یہ کہنا غالباً درست ہوگا کہ اس پہلو سے جو لٹریچر تیار ہوا ہے وہ زمانی افکار سے اتنا زیادہ متاثر ہے کہ قرآن کی حقیقی روح اُس میں اوجھل ہوگئی ہے۔

اس موضوع پر کام کرنے والوں کا پہلا گروہ وہ ہے جن کو متکلمین کہا جاتا ہے۔ یہ گروہ ابتداء ً عباسی خلافت کے زمانہ میں پیدا ہوا۔ اس گروہ کے مشہور ناموں میں سے الفارابی (وفات ۹۵۰ ء) ابن رُشد (وفات ۱۱۹۸ء) الرازی (وفات ۱۲۱۰ء)، وغیرہ ہیں۔ متکلمین کے اس گروہ نے قرآنی تفکر اور تدبر کے اظہار کے لئے جس فکری ماڈل کو اپنایا، وہ یونانی فلسفہ کا ماڈل تھا۔ یہ فلسفہ قیاسی منطق کے اصول پر قائم تھا۔ اس لیے وہ بذات خود ایک غیر حقیقی ماڈل تھا۔ اس ماڈل پر قرآن کے فکری اجمال کی جو تفصیل کی گئی وہ بڑی حد تک من تمنطق تزندق کی مصداق تھی۔ اس پورے مجموعے پر فارسی شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے:

فلسفی سِرِّ حقیقت نتوانست کشود       گشت رازِ دِگر آں راز کہ افشامی کرد

اس سلسلہ کا دوسرا گروہ وہ ہے جس نے وحدتِ وجود کے تصور پر قرآنی عقلیت کو واضح کرنا چاہا۔ اس کو ایک لفظ میں وحدانی تعقل کہا جاسکتا ہے۔ اس طبقہ کی چند مشہور کتابیں یہ ہیں ــــابن العربی کی کتاب الفتوحات المکیۃ، مولاناروم کی مثنوی، علامہ اقبال کی تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ (Reconstruction of Religious Thought in Islam

یہ طریقہ جس کو ہم نے وحدانی تعقل کا نام دیا ہے، وہ اول الذکر یونانی تعقل سے بھی زیادہ غلط تھا۔ اوّل الذکر کو اگر عقلی چیستاں کہا جائے تو یہ دوسرا طریقہ کھلی ہوئی ذہنی گمراہی تھا۔ اس طریقہ میں توحید کے عقیدہ کو وحدتِ وجود (Monism)کے تصور پر ڈھال دیا گیا۔ جب کہ اسلام میں توحید کا عقیدہ وحدتِ خدا (monotheism)کے اصول پر قائم ہے۔ وحدت وجود کا نظریہ سراسر ضلالت ہے اور وحدتِ خدا کا نظریہ سراسر ہدایت۔

موجودہ زمانہ میں مسلم اہلِ قلم کا ایک اور گروہ پیدا ہوا جس نے اسلامی عقلیت کو سیاسی تعقل کے ہم معنٰی بنا دیا۔ اس گروہ نے اسلام کی تعلیمات کو سیاسی اصطلاحوں میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے لا الٰہ الا اللہ کو لا حاکم الا اللہ کے ہم معنٰی قرار دیا۔ اس گروہ میں مصر کے سید قطب اور پاکستان کے سید ابوالاعلیٰ مودودی، وغیرہ شامل ہیں۔

سیاسی تعقل کا یہ طریقہ، اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلامی تعقل کی تصغیر تھا۔ اس تشریح میں عقیدۂ اسلامی کی آفاقی وسعت سیاست کے محدود دائرہ میں سمٹ کر رہ گئی۔ اسلامی تعقل کی اس سیاسی تشریح کے نتیجہ میں ایک اور ہلاکت خیز انجام سامنے آیا۔ جو لوگ اس تشریح سے متاثر ہوئے انہیں کرنے کا کام صرف یہ نظر آیا کہ وہ وقت کے سیاسی ڈھانچہ کو توڑیں اور اس کی جگہ اپنے مزعومہ نقشہ کے مطابق، نیا نظام بنائیں۔ اس طرح اس سیاسی تشریح نے مسلم دنیا میں اُس تخریبی سیاست کومزید شدت کے ساتھ جنم دیا جس کا ایک نمونہ کمیونزم کو ماننے والوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔

قرآن کے مطابق، تفکر اور تدبر کی تشریح کا صحیح طریقہ وہ ہے جس کو ربانی تعقل کہا جاسکتا ہے۔ یعنی قرآن کے اشارات کو رہنمابنا کر تخلیق خدا وندی کا مطالعہ کرنا اور حقائق فطرت کی روشنی میں اُن کی تشریح و تفصیل کرنا۔ مطالعہ کا یہی اسلوب حقیقی اسلوب ہے۔ اس سے وہ اہل ایمان پیدا ہوتے ہیں جو معرفتِ الٰہی اور خشیتِ ربانی کی نعمت سے سرشار ہوں۔ قرآن کی سورہ آل عمران کے آخری رکوع میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی اس حقیقت کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ کی دو قرآنی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی اُتارا۔ پھر ہم نے اُس سے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کردیئے۔ اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ مختلف رنگوں کے ٹکڑے ہیں اور گہرے سیاہ بھی۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی مختلف رنگ کے ہیں۔ اللہ سے اُس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست ہے، بخشنے والا ہے (فاطر ۲۷۔۲۸)

ربانی تعقل کی تشریح کے لئے موجودہ زمانہ میں نئے وسیع امکانات کھل گئے ہیں۔ جدید سائنس کی تحقیقات نے موجودہ زمانہ میں فطرت کی جن چھپی ہوئی حقیقتوں کو دریافت کیا ہے وہ گویا اسی ربّانی تعقل کی تفصیل ہیں۔ ربانی تعقل کے ان جدید امکانات کو پیشگی طورپر قرآن میں بتادیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک متعلق آیت کا ترجمہ یہ ہے: ہم عنقریب اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اورخود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے (حٰم السجدہ آیت نمبر ۵۳)۔

احمد اور الترمذی نے حضرت انس بن مالک کے حوالہ سے ایک حدیث نقل کی ہے۔ اس کے مطابق، رسول اللہ نے فرمایا: مثل امتی مثل المطر، لا یُدریٰ اولہ خیرأم آخرہ (مشکوٰۃ المصابیح ۳؍ ۱۷۷۰)۔یعنی میری امت کی مثال بارش کی مانند ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کا اوّل بہتر ہوگا یا اُس کا آخر۔

بارش جب ہوتی ہے تو اُس کے ابتدائی دور میں بھی انسان کو بہت سی برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مگر بعد کے مرحلہ میں جب بارش سے سیراب ہو کر زمین سبزہ اور درخت اُگاتی ہے تو اس دوسرے مرحلہ میں اُس کی برکتیں اور زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اب فصل اور پھول اور پھل، وغیرہ پیدا ہوتے ہیں جو انسان کے لئے بے پناہ خیر وبرکت کا ذریعہ ہیں۔

یہی معاملہ دین محمدی کا ہے۔ دین محمدی کا ظہور ہوا تو اُس وقت دنیا اپنے روایتی دور میں تھی۔ اُس دور میں بھی اس دین کے پیروؤں کو اُس سے بے پایاں فائدے حاصل ہوئے۔ بعد کے زمانہ میں جب کہ دنیا سائنسی دو رمیں داخل ہوگی تو اُس وقت بھی اس دین کے پیروؤں کو نئے امکانات کے اعتبار سے عظیم فائدے حاصل ہوں گے۔ دین کی علمی و فکری عظمت از سرِ نو نئی شان کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں پر قائم ہوجائے گی۔اس حدیث میں امت کے دورِ آخر میں جس عظیم خیر کی پیشین گوئی کی گئی ہے اُس سے مراد غالباً وہی سائنسی حقیقتیں ہیں جنہوں نے نئے وسیع تر انداز میں اس امکان کا دروازہ کھول دیا کہ انسان اُن کواستعمال کرکے یقین کے اعلیٰ درجات حاصل کرے۔ اور اسلام کی صداقت کو نئے دلائل و براہین کے ذریعہ لوگوں کے اوپر ثابت شدہ بنائے۔

ایک سادہ مثال

مذکورہ حدیث میں جس حقیقت کو بتایا گیا ہے اُس کو اگرلفظ بدل کر کہا جائے تو وہ یہ ہوگی کہ انسانی تاریخ کے دو بڑے دور ہیں۔ ایک قبل از سائنس دور (pre-scientific period) اور دوسرا بعد ازسائنس دور (post-scientific period)۔اس تقسیم کے مطابق، پہلے دور کا انسان روایتی معلومات کی روشنی میں سوچتا تھا۔ اور دوسرے دور میں وہ سائنسی معلومات کی روشنی میں سوچنے لگا۔ اس حدیث کے مطابق، امت محمدی کے افراد کے لیے روایتی دور بھی ایمانی خوراک کا ذریعہ تھا۔ اسی طرح سائنسی دور میں بھی وہ اپنے ایمانی اضافہ کے لیے علمی خوراک حاصل کرتے رہیں گے۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک سادہ مثال درج کی جاتی ہے۔

قرآن میں بار بار زمین کی نعمتوں کا ذکر آیا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک قرآنی آیت یہ ہے: اللّٰہ الذی جعل لکم الأرض قراراً (المؤمن ۶۴) یعنی وہ اللہ ہے جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو ٹھہراؤ۔ اس آیت میں روایتی دور کے مؤمنین کو بھی ایمان کی غذا ملی تھی۔ یہ سوچ کر اُن کا سینہ شکر خداوندی کے جذبہ سے سرشار ہوگیا تھا کہ زمین کس طرح اُن کے لیے پر سکون جائے قیام بنی ہوئی ہے۔ اگر زمین ہلتی رہتی یا وہ ہچکولے کھاتی تو اس کے اوپر پُر سکون زندگی گذارنا کس قدر دشوار ہو جاتا۔

جدید سائنسی دور میں نئے ذرائع سے جو مطالعہ کیا گیا اس سے معلو م ہوا کہ زمین، سابق تصور کے خلاف ساکن اور بے حرکت نہیں ہے بلکہ وہ مسلسل حرکت میں ہے۔ نئی تحقیقات بتاتی ہیں کہ زمین بیک وقت دو طریقہ سے گردش کررہی ہے۔ ایک اپنے مدار (orbit)پر سورج کے گرد، اور دوسرے خود اپنے محور (axis) کے اوپر۔ اس نئی سائنسی تحقیق نے مذکورہ آیت کی معنویت کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ نئے حالات میں یہ آیت گویا مزید اضافہ کے ساتھ یہ کہہ رہی ہے کہ ـــــــــــکیسا مہربان ہے وہ اللہ جس نے زمین کو تمہارے لیے جائے سکون بنایا، باوجودیکہ زمین مسلسل طورپر دہرا حرکت کر رہی ہے:

It is Allah who made the earth a stable home for you.

(Inspite continous doulbe movement of the earth)

حدیث کی تمثیل کے مطابق، ’’بارش‘‘ کے پہلے دور میں اگر انسان سادہ طورپر یہ سمجھ کر زمین کو اپنے لیے خدا کی رحمت جانتا تھا کہ وہ اُس کے لیے پُر سکون جائے قیام بنی ہوئی ہے، تو اب بارش کے دوسرے دور میں وہ اس اضافہ کے ساتھ اس معاملہ میں خدا کا شکر کرے گا کہ دہرا طور پر مسلسل حرکت میں ہونے کے باوجود خدا نے زمین کو اُس کے لیے سکون کا مقام بنا دیا ہے۔

کائنات کا ابتدائی دھماکہ

ربانی تعقل کی ایک مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲۱ میں ایک کائناتی واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے۔

اس آیت میں رتق اورفتق کا لفظ ہے۔ رتق کے معنٰی ہیں کسی مجموعہ کا مخلوط یا منضم ہونا۔ اس سے مراد کائنات کا اصل مادّہ ہے جو ابتدائی وقت میں ایک منضم الاجزاء مجموعہ کی صورت میں تھا۔ پھر اس ابتدائی مجموعہ میں دھماکہ ہوا جس کے بعد اس کے اجزاء وسیع خلا میں بکھر گئے اور پھر ایک لمبے عمل کے بعد موجودہ کائنات بنی۔قرآن کی اس آیت کو قدیم مفسرین اس کے سادہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے لیتے تھے۔ اپنے سادہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے بھی یہ آیت اہل حق کے لئے عظیم ایمانی فائدے رکھتی ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں جو تحقیقات ہوئی ہیں ان سے قرآن کے اس مجمل بیان کی تفصیل سامنے آئی ہے جو گویا یقین اور معرفت کا نیا دروازہ کھولنے والی ہے۔

جدید فلکیاتی سائنس بتاتی ہے کہ تقریباً بیس بلین سال پہلے خلا میں ایک سپرایٹم تھا۔ اس میں اچانک دھماکہ ہوا۔ اس کے بعداس کے اجزاء وسیع خلا میں پھیل گئے اور آخر کار انہوں نے موجودہ کائنات کی صورت اختیار کی۔ اسی سے موجودہ تمام اجرام بنے جن میں سے ایک ہماری یہ زمین بھی ہے۔

دھماکہ (explosion) کی دو قسمیں ہیں ــــــمنصوبہ بند دھماکہ، اور منصوبہ کے بغیر خود بخود ہونے والا دھماکہ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ دونوں قسم کے دھماکوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ بلا منصوبہ جو دھماکے ہوتے ہیں وہ صرف تخریب کا سبب بنتے ہیں۔ مثلاً کسی بم یا بم کے ذخیرے کا اپنے آپ پھٹ جانا۔ اس قسم کا دھماکہ ہمیشہ تخریبی نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ دوسرا دھماکہ وہ ہے جو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کیا جائے۔ مثلاً پہاڑ کے درمیان سے سرنگ نکالنے کے لئے منصوبہ بند طورپر چٹانوں میں دھماکہ کرنا۔ اس دوسری قسم کا دھماکہ ہمیشہ مفید اور تعمیری نتیجہ پیدا کرتا ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے،کائنات کے آغاز میں، سائنس کی تحقیق کے مطابق،بگ بینگ (big bang) کی صورت میں جو دھماکہ ہوا، اس سے انتہائی مفید اور بامعنٰی نتائج پیدا ہوئے۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ یہ دھماکہ یقینی طورپر ایک منصوبہ بند دھماکہ تھا۔ ایک منصوبہ ساز ہستی نے اپنے متعین منصوبہ کے تحت اپنے نقشہ کے مطابق، بالقصد یہ دھماکہ کیا۔ چنانچہ اس سے عین وہی با معنٰی نتائج ظاہر ہوئے جو منصوبہ کے مطابق اس سے مطلوب تھے۔

اس جدید تشریح کے مطابق، مذکورہ آیت کے یہ الفاظ کہ کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا (أوَلَم یَرالذین کفروا) نہایت بامعنٰی ہو جاتے ہیں۔ کائنات کا یہ ثابت شدہ آغاز خالص علم انسانی کی سطح پر اس حقیقت کو ثابت کر رہا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ اس نے نہایت با معنیٰ منصوبہ کے تحت اس کائنات کو بنایا ہے۔ اس حقیقت کے ثابت ہونے کے بعدیہ بات اپنے آپ ثابت ہوجاتی ہے کہ انسان اور کائنات کی تخلیق بے مقصد نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا: ربنا ما خلقت ھذا باطلاً (آل عمران ۱۹۱)۔ اس کھلی حقیقت کے باوجود جو لوگ کائنات کی معنویت کاانکار کریں ان کے لئے اپنے اس انکار کی کوئی بھی معقول وجہ موجود نہیں۔

ربانی تعقل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ سائنس کے تمام مضامین قرآن میں موجود ہیں، یا یہ کہ ساری کی ساری سائنس خود قرآن سے أخذ کی گئی ہے۔ اس قسم کی باتیں اسلام اور سائنس دونوں سے بے خبری کا نتیجہ ہیں۔ اس قسم کی بات اصلاً قرآن کی تفسیر نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کے حوالہ سے اپنے قومی فخر کو ثابت کرنے کی ایک بے فائدہ کوشش ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی اور حیثیت نہیں۔

ربانی تعقل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے وہ بیانات جن کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعہ نئی حقیقتیں دریافت ہوئی ہیں، ان کی روشنی میں قرآن کے اشارات کو تفصیلی انداز میں بیان کرنا۔ یہ وہی چیز ہے جس کی بابت حدیث میں آیا ہے کہ: لا تنقضی عجائبہ۔یعنی قر آن کے عجائب (wonders)کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اس حدیث میں مستقبل کے بارے میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے ان میں سے ایک یقینی طورپر یہ بھی ہے کہ بعد کے زمانہ میں دریافت ہونے والے سائنسی حقائق قرآن کی معنویت کو مزید نمایاں کریں گے۔ اس طرح قرآن کے کمالات کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

زوجین کی مثال

قرآن کی سورہ نمبر ۵۱ میں ارشاد ہوا ہے: ومن کل شیٔ خلقنا زوجین لعکم تذکرون (الذاریات ۴۹) یعنی ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ قرآن کی اس آیت میں موجودہ دنیا کے ایک ظاہرہ کا ذکر کرکے انسان کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اس پر سوچے اور اس سے نصیحت حاصل کرے۔ اس ظاہرہ کی طرف قرآن میں زوجین کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے۔

اس آیت میں زوجین کی تفسیر پچھلے مفسرین نے مختلف انداز سے کی ہے۔ ان تفسیروں میں بہرحال نصیحت کا سامان ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں جو تحقیقات ہوئی ہیں ان کا اضافہ کرتے ہوئے اس آیت کا مطالعہ کیا جائے تو اس سے نیا یقین حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ آیت، قرآن کے الفاظ میں، ایمان کے ساتھ ایمان میں اضافہ (الفتح ۴) کا سبب بن جاتی ہے۔

جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ زوجین کا اصول جو انسانوں میں ہے وہی دنیا کی ہر چیز میں پایا جاتا ہے۔ ہر چیز اپنے زوج کے بغیر نامکمل ہے، وہ اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب کہ اس کے زوج کے ساتھ اس کو شامل کیا جائے ــــمادّی ایٹم میں منفی ذرّہ (negative particle) کے ساتھ مثبت ذرّہ (positive particle) کا ہونا۔ اسی طرح نباتات میں بھی زوجین یا نر اور مادہ کا اصول ہے۔ ان میں سے ایک کو میل فلاور (staminate flower) کہا جاتا ہے۔ اور دوسرے کو فیمیل فلاور (pistillate flower)۔اسی طرح حیوانات میں بھی جوڑے ہیں۔ ان میں سے نر کو ہی میل (he-male) اور مادہ کو شی میل(she-male) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح انسانوں میں بھی جوڑے ہیں جن کو ہم عورت اور مرد کے نام سے جانتے ہیں۔

زوجین کے اس عمومی اصول کو لے کر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عموم میں ایک استثناء ہے، اور وہ ہماری انسانی دنیا ہے۔ انسانی دنیا اپنے سارے ہنگاموں کے باوجود ایک نامکمل دنیا ہے۔ اس کی تکمیل کے لئے اس کا ایک جوڑا ( زوج)درکارہے۔ مگر یہ جوڑا موجودہ دنیا میں ملتا ہوا نظر نہیں آتا۔

تجربہ بتاتا ہے کہ موجودہ انسانی دنیا ایک مبنی بر مفاد دنیا ہے۔ یہاں سارے انسانی تعلقات مفاد کے اصول پر قائم ہیں۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک بااصول معیاری دنیا (ideal world) چاہتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں وسائل کی محدودیت اور انسان کی آزادی جیسے مختلف اسباب ہیں جو فیصلہ کن طور پر اس میں رکاوٹ ہیں کہ یہاں وہ معیاری دنیا بن سکے جو انسان اپنے فطری تقاضے کے تحت چاہتا ہے۔

اس کمی کا تقاضا ہے کہ موجودہ دنیا کا ایک جوڑا (زوج) ہو جو اس کی کمی کو پورا کرکے اس کی تکمیل کرے۔ موجودہ دنیا مبنی بر مفاد دنیا ہے۔ اب اس کا جوڑا (زوج) ایک ایسی دنیا ہے جو مبنی براقدار (value based) دنیا ہو۔ ایسی ایک دنیا ہی موجودہ دنیا کی کمی کی تلافی کرکے اس کی تکمیل کرسکتی ہے۔ اسی تکمیلی دنیا کا نام آخرت ہے۔ آخرت میں خدا نے جنت کی جو دنیا بنائی ہے وہ ہر قسم کی کمیوں اور محدودیتوں سے پاک ہے۔ وہ خوف اور حزن سے مکمل طور سے خالی ہے۔ وہاں وہ تمام اسباب کامل طورپر موجود ہیں جو انسان کو یہ موقع دیں کہ وہ بھر پور آسودگی (complete fulfillment) کے ساـتھ زندگی گزار سکے۔

موجودہ دنیا میں ہر چیز کا جوڑا ہونا اور صرف ایک چیز کا جوڑا نہ ہونا اس بات کا قرینہ ہے کہ یقینی طورپر اس کا بھی ایک جوڑا موجودہے۔ بقیہ چیزوں کے جوڑے کو موجودہ دکھائی دینے والی دنیا میں رکھ دیا گیا ہے مگر امتحان کی مصلحت کی بنا پر انسانی دنیا کے اس جوڑے کو نہ دکھائی دینے والی دنیا میں رکھا گیا ہے۔ مرنے کے بعد تمام انسان اسی اگلی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اور وہاں وہ اس جوڑے کو عملی طور پر پا لیتے ہیں۔

ربانی تعقل کا موضوع ایک بے حد وسیع موضوع ہے۔ اس کے مختلف پہلو ہیں۔ یہاں چندمثالیں صرف موضوع کی وضاحت کے طور پر درج کی گئی ہیں۔ ربانی تعقل کے موضوع پر راقم الحروف نے اپنی دوسری کتابوں میں اس کے دیگر پہلوؤں کی وضاحت کی کوشش کی ہے۔ وہاں اس موضوع کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom