سلطانی ماڈل، دعوتی ماڈل

موجودہ زمانہ کے مسلمان ساری دنیا میں تباہی اور ذلّت سے دوچار ہو رہے ہیں۔ تباہی کی یہ مدت پوری انیسویں صدی اور بیسویں صدی تک پھیلی ہوئی ہے۔ سلطان ٹیپو سے لے کر یاسر عرفات تک دو سو سال سے تباہی کا سلسلہ جاری ہے اور ابھی تک بظاہر اس کے خاتمہ کے کوئی آثار نہیں۔

مسلمانوں کی اس تباہی کا سبب بے عملی نہیں ہے بلکہ وہ مکمل طورپر ہنگامہ خیز عمل کے درمیان ہورہی ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ان دوسو سالوں میں دُنیا بھر کے مسلمانوں نے جان و مال کی جو قربانی دی ہے وہ مقدار کے اعتبار سے اسلام کی بقیہ پوری تاریخ کی قربانیوں سے بھی زیادہ ہے۔

کیا وجہ ہے کہ عمل اور قربانی کے مسلسل ہنگاموں کے باوجود مسلمان دور جدید میں عزت وغلبہ کا مقام حاصل نہ کرسکے۔ جب کہ قرآن و حدیث میں واضح یقین دہانیاں موجود ہیں کہ اہل ایمان کی کوششوں کواللہ ضائع نہیں کرے گا، اُن کے حریفوں کے مقابلہ میں ضرور اُنہیں سرفرازی عطا فرمائے گا۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم رہنماؤں نے اپنی کوششوں کے لیے غلط منہج اختیار کیا۔اُنہوں نے اپنی کوششوں کو اُس مطلوب طریقہ پر جاری ہی نہیں کیا جس کو اختیار کرکے خدا کی نصرت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور یقینا اس دنیا میں کامیابی اُس کے لیے ہے جس کو خدا اپنی نصرت سے نوازے۔اللہ کی نصرت کے بغیریہاں کامیابی ممکن نہیں۔

اصل یہ ہے کہ خدا نے اپنی نصرت کا وعدہ اُن لوگوں سے کیا ہے جو اپنی کوششوں کے لیے پیغمبرانہ ماڈل کو اختیار کریں۔ یہ پیغمبرانہ ماڈل وہی ہے جس کو ہم نے دعوتی ماڈل کا نام دیا ہے۔ اہل ایمان کی حقیقی کامیابی پیغمبر کے قائم کئے ہوئے اسی دعوتی ماڈل سے وابستہ ہے۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما بعد کے دور میں مسلم سلاطین کے قائم کئے ہوئے سلطانی ماڈل سے اتنا متاثر تھے کہ انہوں نے اپنی تمام تحریکیں اسی سلطانی ماڈل پر چلا دیں۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام تباہیوں کا اصل سبب یہی انحراف ہے۔

مسلم رہنماؤں نے دیکھا کہ بعد کے زمانہ میں مسلم سلاطین مسلّح فوجوں کو لے کر مختلف علاقوں میں گھس گئے۔ وہاں انہوں نے قائم شدہ حکومت کی فوجوں کو زیر کر کے اپنی حکومت قائم کر لی۔یہ سلطانی ماڈل اتنا زیادہ عام ہوا کہ بعد کے زمانہ میں لکھی جانے والی مسلم تاریخیں تقریباً سب کی سب اسی سلطانی ماڈل پر ڈھال دی گئیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلم رہنماؤں نے ان تاریخی کتابوں کو پڑھا اور یہ سمجھ لیا کہ اسلامی تحریک کا ماڈل بس یہی سلطانی ماڈل ہے۔ انہوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پراسی سلطانی ماڈل کو معیاری ماڈل سمجھا اور مسلّح جہاد کے نام پر اس کو ہر جگہ جاری کر دیا۔ یہی غلطی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی تباہی کا اصل سبب ہے۔

اسلامی عمل کا صحیح ماڈل وہ ہے جو پیغمبر اسلام نیز دوسرے پیغمبروں کی مثال سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ ماڈل دعوتی ماڈل ہے۔ دعوتی ماڈل سے مراد یہ ہے کہ اپنے عمل کی بنیاداسلام کی نظریاتی اشاعت پر رکھی جائے۔ اُس کو مخاطب کے معیار فہم کے مطابق مدلّل کرتے ہوئے پیش کیا جائے۔ تشدد سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے صرف پُر امن ذرائع سے کام کو آگے بڑھایا جائے۔ فریقِ ثانی اگر زیادتی کرے تب بھی یک طرفہ صبر کرتے ہوئے پُر امن اشاعتی مہم کو جاری رکھا جائے۔ ہر قیمت پر یہ کوشش کی جائے کہ داعی اور مدعو کے درمیان نفرت اور کشیدگی کا ماحول ہرگز قائم نہ ہونے پائے۔ معتدل ماحول ہمیشہ اسلام کے لیے مفید ہوتا ہے اور غیر معتدل ماحول ہمیشہ اسلام کے لئے غیرمفید۔ یہی دعوتی ماڈل ہے اور اسی طریقہ کو اختیار کرکے پیغمبر اسلام نے خدا کے دین کو عزت اور غلبہ کے مقام تک پہنچایا۔

پیغمبرانہ ماڈل میں اصل عمل دعوت کے اصول پر جاری ہوتا ہے۔ وہ آغاز میں بھی دعوت ہے اور آخر میں بھی دعوت۔ بعض اوقات بطور استثناء محدود طورپر کسی سے دفاعی ٹکراؤ پیش آسکتا ہے، وہ بھی اس وقت جب کہ اعراض کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہوں اور یک طرفہ جارحیت کی بنا پر اہل ایمان کو وقتی طورپر اپنے دفاع میں لڑنا پڑے۔اس وقتی دفاع کے پہلے بھی دعوت ہے اور اس کے بعد بھی دعوت۔ پیغمبرانہ ماڈل میں دعوت کی حیثیت اقدام کی ہے اور جنگ کی حیثیت محدود معنوں میں صرف وقتی دفاع کی۔

موجودہ زمانہ میں ساری دنیا میں نئے انقلابات ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں عالمی صورت حال مکمل طورپر بدل گئی ہے۔ ان تبدیلیوں نے مسلّح جنگ کو بالکل غیر ضروری قرار دے دیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ صرف دعوتی عمل کے ذریعہ وہ سب کچھ حاصل کر لیا جائے جو اسلام اور اہل اسلام کو عزت اور غلبہ کے مقام تک پہنچانے کے لیے درکار ہے۔

قدیم زمانہ میں اہل ایمان کو مذہبی جبر کے ماحول میں اپنا دعوتی کام کرنا پڑا تھا، اب یہ دعوتی کام پوری طرح مذہبی آزادی کے ماحول میں کیا جاسکتا ہے۔ پہلے زمانہ میں حق کی پیغام رسانی کے لیے داعی کو پُر مشقت سفر کرنا پڑتا تھا، اب جدید کمیونیکیشن نے اس کو ممکن بنا دیا ہے کہ خود دعوتی پیغام تیزی سے سفر کرکے دنیا بھر کے تمام لوگوں تک پہنچ سکے۔ قدیم زمانہ کے داعیوں کو مختلف قسم کے توہمات کا سامنا کرتے ہوئے حق کا پیغام پھیلانا پڑتا تھا، مگر اب سائنسی انقلاب نے توہمات کا تقریباً خاتمہ کر دیا ہے، اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کھلی ذہنی فضا میں حق کے پیغام کو عام بنایا جاسکے۔ پہلے زمانہ میں معیشت کا انحصار صرف زراعت پر تھا، اس لیے داعیوں کو بہت کم وسائل کے ساتھ اپنا مشن چلانا پڑتا تھا، اب صنعتی انقلاب کے بعد ساری دنیا میں اقتصادی انفجار(economic explosion) کا زمانہ آگیا ہے، اب وہ کام معاشی فراوانی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جو پچھلے لوگوں کو صرف معاشی تنگی کے ساتھ کرنا پڑا تھا،وغیرہ وغیرہ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید تبدیلیوں نے دعوتی ماڈل کی افادیت اور اہمیت کو بہت زیادہ بڑھا دیا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما صرف سلطانی ماڈل سے آشنا تھے، وہ دعوتی ماڈل کو یکسر فراموش کرچکے تھے۔انہوں نے انتہائی بے دانشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری ملت کو سلطانی ماڈل کے طریقہ پر ڈال دیا، اور پھر ملت کو بھی تباہ کیا اور خود اپنے آپ کو بھی۔

دوگونہ غلطی

جدید دور میں سلطانی ماڈل تباہ کن حد تک غیر مفید بن چکا تھا۔ مگر دو سو سال کا ناکام تجربہ بھی نااہل مسلم رہنماؤں کی بے خبری کو توڑنے والا ثابت نہ ہوسکا۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کو مکمل طورپر کھونے کے باوجود اکیسویں صدی میں بھی وہ سلطانی دور کے اس فرسودہ ماڈل ہی کو بظاہر معیاری ماڈل سمجھ رہے ہیں۔

دور جدید میں ناکام سلطانی ماڈل کو دہرانے کی دو قسمیں ہیں۔ اس کی پہلی قسم ہے، حکمراں کے ذریعہ سلطانی ماڈل کواپنا نا اور اُس کی دوسری قسم ہے، غیر حکومتی افراد یا جماعتوں کے ذریعہ اس ماڈل پر عمل کرنا۔

سلطان ٹیپو پہلی قسم کی ایک مثال ہیں جنہوں نے حکمراں کی سطح پر اُسے ناکام طورپر دہرایا۔ وہ قدیم سلطانی ماڈل سے باہر آکرمعاملہ کو سمجھ نہ سکے۔ ۱۷۹۹ء میں وہ انگریزوں کے خلاف ایک نا عاقبت اندیشانہ جنگ لڑکر ہلاک ہوگئے۔ موجودہ زمانہ میں عراق کے صدر صدام حسین کی زندگی بھی اسی سلطانی ماڈل کو اختیار کرنے کی ایک ناکام مثال ہے۔

اس کے بعد اس سلطانی ماڈل کے نام پر تجربہ کی دوسری قسم شروع ہوتی ہے۔ یہ دوسری قسم وہ ہے جب کہ غیر حکومتی تنظیموں نے اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف لڑائی شروع کردی۔ دوسری قسم کی اس لڑائی کا غالباً پہلا واقعہ وہ ہے جو ۱۸۳۱ء میں پیش آیا۔ جب کہ مولانا سید احمد بریلوی اوراُن کے ساتھیوں کا قافلہ مہاراجہ رنجیت سے لڑکر بالا کوٹ میں تباہ ہوگیا۔

اس کے بعد ۱۸۵۷ء میں اس نوعیت کا دوسرا بڑا واقعہ وہ ہوا جب کہ علماء ہند کی جماعت نے انگریزوں کے خلاف مسلح جہاد شروع کیا۔ اس کے بعد غیر حکومتی تنظیموں کے ذریعہ سلطانی ماڈل کے ناکام تجربہ کا ایک طویل سلسلہ قائم ہوگیا جو تادمِ تحریر جاری ہے۔ فلسطین، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، فلپائن، اراکان اور دوسرے بہت سے مقامات پر جہاد کے نام پر جو تباہ کن مسلح ٹکراؤ ہورہا ہے وہ سب اسی دوسرے قسم کے تجربہ کی مثالیں ہیں۔

سلطانی ماڈل کے تجربہ کی دوسری قسم جو غیر حکومتی تنظیموں کے ذریعہ گوریلا وار، پراکسی وار، وغیرہ کی صورت میں شروع ہوئی، وہ پہلی قسم سے بھی زیادہ مہلک تھی۔ اس میں بیک وقت دو غلطیاں شامل ہوگئیں ــــــ دعوتی دور میں سلطانی ماڈل کے طریقے کو اختیار کرنے کی خلافِ زمانہ کوشش، دوسری اس سے زیادہ سنگین بات یہ کہ یہ طریقہ شرعی اعتبار سے سراسر غلط تھا۔

کیوں کہ ثابت شدہ طورپر مسلح جنگ صرف قائم شدہ حکومت کا حق ہے، غیر حکومتی تنظیموں کے لئے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ کسی کو دشمن بتا کر اُس کے خلاف مسلح ٹکراؤ شروع کردیں۔ پہلی قسم میں سلطانی ماڈل کا تجربہ اگر صرف نادانی تھا تو دوسری قسم میں سلطانی ماڈل کا تجربہ نادانی کے ساتھ شریعت سے انحراف کے ہم معنیٰ بن گیا۔

یہی وہ دو گونہ غلطی ہے جس نے موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں کے مسلّح جہاد کو سراسر ناکام بنادیا۔ اس کا سبب کسی غیر قوم کی سازش نہیں جیسا کہ اکثر علماء اور دانشور بے دلیل طورپر اعلان کرتے رہتے ہیں۔

سلطانی ماڈل ہر اعتبار سے دعوتی ماڈل سے مختلف ہے۔ دعوتی ماڈل مکمل طورپر اسلام کے موافق مزاج بناتا ہے۔ اس کے برعکس سلطانی ماڈل ایسا مزاج بناتا ہے جو ہر پہلو سے اسلامی تقاضوں کے بالکل خلاف ہو۔

اس معاملہ کی ایک مثال کشمیر اور پاکستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کا تصور مکمل طورپر سلطانی طرزِفکر کا نتیجہ تھا۔ پاکستانی لیڈروں کے ذہن میں اگر دعوتی ماڈل ہوتا تو وہ ہرگز جغرافی تقسیم کی بات نہ کرتے۔ ایسی صورت میں وہ اس کو خدا کی ایک رحمت سمجھتے کہ متحد ہندستان کی صورت میں ان کو گویا ایک پورا برّاعظم میدان کارکے طور پر مل رہا ہے۔ان کے ذہن میں ماضی کا سلطانی ماڈل بسا ہوا تھا۔ سلطانی ماڈل میں سارا فوکس صرف سیاسی اقتدار پر ہوتاہے، مواقع دعوت یا مواقع کار کی سلطانی ماڈل میں کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اس بے شعوری کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے تقسیم کی تحریک چلاکر سارے بر صغیر ہند میں نفرت (بالفاظ دیگر، مخالف دعوت) کا جنگل اگا دیا۔ سارے دعوتی امکانات مسدود ہو کر رہ گئے۔

اس غیر اسلامی اور غیر حکیمانہ سیاست کادوسرا دور ۱۹۴۷ء سے شروع ہوتا ہے۔ پندرہ اگست ۱۹۴۷ کو جب یہ علاقہ انگریزی اقتدار سے آزاد ہوا تو یہاں دو بڑے ریاستی مسئلے تھے۔ ایک حیدر آباد کا اور دوسرا کشمیر کا۔ ریاست حیدر آباد میں ہندو اکثریت تھی مگر حکمراں مسلمان تھا۔ اس کے برعکس ریاست کشمیر میں مسلم اکثریت تھی مگر حکمراں ہندو تھا۔ اب یہ سوال تھا کہ ان دونوں ریاستوں کا سیاسی مستقبل کیا ہو۔ حیدر آباد کے نواب نے اپنا رسمی الحاق پاکستان سے کرلیا اس کے برعکس کشمیر کے راجہ نے ہندستان کے ساتھ الحاق کے کاغذات پر دستخط کر دئے۔

اس نزاع کو ختم کرنے کے لیے نئی دہلی کی لیڈر شپ نے ایک حقیقت پسندانہ پیشکش کی۔ اُس نے پاکستانی لیڈروں سے کہا کہ تم حیدر آباد سے اپنا دعویٰ واپس لے لو اورہم کشمیر سے اپنا دعویٰ واپس لے لیں۔ اس طرح یہ نزاع ختم ہوجائے گی اور دونوں ملک معتدل انداز میں ترقی کے راستہ پر اپنا سفر شروع کردیں گے۔

ہندستانی لیڈروں کی اس پیش کش کی تائید میں قرآن میں یہ واضح ہدایت موجود تھی: وإن جنحوا للسلم فاجنح لھا (الأنفال ۶۱) یعنی اگر فریقِ ثانی صلح کی پیش کش کرے تو تم فوراً اس پیشکش کو قبول کرلو۔ مگر پاکستان کے لیڈر جو سلطانی ماڈل سے مسحور کن حد تک متاثر ہونے کی وجہ سے حاکمانہ نفسیات کا شکار تھے، وہ اس قیمتی پیشکش کو قبول نہ کرسکے۔ اس کے بعد جو بے پناہ تباہی آئی وہ ہر ایک کے لیے ایک معلوم واقعہ ہے۔

کشمیر کے بارے میں پاکستانی لیڈروں کی یہ ناقابلِ فہم نادانی تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے۔ اس معاملہ کو حسب ذیل کتابوں میں تفصیل کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے:

  1. Looking Back, by Mehrchand Mahajan
  2. Witness to an Era, by Frank Morris
  3. Emergence of Pakistan, by Chaudhary Mohd. Ali
  4. The Nation that Lost Its Soul, by Sardar Shaukat Hayat Khan

پاکستانی لیڈروں کی سلطانی نفسیات اس میں رکاوٹ بن گئی کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کو میز کی گفت وشنید کے ذریعہ حل کر سکیں۔ اس کے بعد انہوں نے شدید تر غلطی یہ کی کہ وہ فوجی طاقت کو استعمال کرکے اس مسئلہ کے حل کا خواب دیکھنے لگے۔ پہلے انہوں نے براہِ راست مسلح اقدام کے ذریعہ ہندستان سے فوجی ٹکراؤ کیا۔ مگر اس اقدام میں انہیں مکمل ناکامی ہوئی۔ اُن کی سلطانی نفسیات اب بھی حقیقت پسندی کا راستہ اختیار نہیں کرسکتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کشمیر میں ہندستان کے خلاف وہ خفیہ جنگ شروع کر دی جس کو پراکسی وار (proxy war) کہا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ پراکسی وار نہ صرف پاکستان اور کشمیر دونوں کی تباہی کا ذریعہ تھی بلکہ وہ اسلامی شریعت کے اعتبار سے یقینی طورپر ناجائز بھی تھی۔ کیوں کہ اسلام میں کسی کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے اعلان ضروری ہے: فانبذ الیھم علی سواء (الأنفال ۵۸)۔

ہندستان کے خلاف اس غیر اسلامی اور غیر دانش مندانہ جنگ کو درست ٹھہرانے کے لیے پاکستان نے دوسری بہت سی شدید ترغلطیاں کیں۔ مثلاً پاکستان نے اپنی خارجہ سیاست اور اپنے میڈیا کو مکمل طورپر ہندستان کو بدنام کرنے اوراُس کے خلاف نفرت پھیلانے کا کارخانہ بنا دیا۔ کشمیر کی گوریلاوار یا پراکسی وار میں پوری طرح شامل ہونے کے باوجود وہ مسلسل طورپر اس قول زور کا سہارا لیتا رہا کہ اس جنگجوئی سے ہمارا کوئی عملی تعلق نہیں۔ حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کشمیریوں کی جنگجوئی پوری طرح پاکستان کی مدد سے جاری ہے۔ اسی طرح ظاہری طورپر اپنے آپ کو پُرامن قوم بتانے کے لیے پاکستانی لیڈروں نے بار بار امن کے معاہدہ پر دستخط کئیــــــمعاہدۂ تاشقند (۱۹۶۵) معاہدۂ شملہ (۱۹۷۲) معاہدۂ لاہور (۱۹۹۸)۔

اس قسم کے تمام معاہدے اور اعلانات بھی پاکستانی لیڈروں کے غیر دعوتی ذہن کا شکار ہوتے رہے۔ کاغذ کے اوپر انہوں نے بار بار یہ لکھا کہ کشمیر کے مسئلہ کو جنگ کے بجائے پُر امن گفت وشنید کے ذریعہ حل کیا جائے۔ مگر یہ معاہدے غالباً دنیا کو دکھانے کے لیے تھے۔ کیوں کہ انہوں نے کسی بھی معاہدہ کے بعد اپنی خفیہ جنگی کارروائی کو بند نہیں کیا۔ حالانکہ قرآن کے مطابق، معاہدہ کی لفظی اور معنوی پابندی اہلِ اسلام کے لیے ضروری ہے: وأوفوا بالعہد إنّ العہد کان مسئولا (الإسراء ۳۴)

پاکستان کے لیڈر اگر اپنے سلطانی ماڈل سے باہر آئیں اور دعوتی ماڈل کو بنیاد بنا کر سوچیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ اُن کے لیے قرآن میں واضح رہنمائی موجودہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ دنیا میں بہر حال ہر فرد اور قوم کو مصیبت کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہاں انسان کھوتا بھی ہے اور پاتا بھی ہے۔ یہ دونوں قسم کے تجربے امتحان کے لئے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان کو کیا کرنا چاہئے اس کا جواب قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے: لکیلا تأسوا علی مافاتکم ولاتفرحوا بما اٰ ٰتکم (الحدید ۲۳)

قرآن کی اس آیت میں پاکستانی لیڈروں کے لیے یہ رہنمائی ہے کہ کشمیر کو وہ اُسی طرح اختیارانہ طورپر کھوئے ہوئے خانہ میں ڈال دیں، جس طرح وہ ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان کو مجبورانہ طورپر کھوئے ہوئے خانہ میں ڈال چکے ہیں۔ کشمیر میں وہ اپنی موجودہ مایوسانہ سیاست کو ختم کردیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ کشمیر کے معاملہ میں صورت موجودہ (status quo) کو مان کر ہندستان سے معتدل تعلقات قائم کرلیں اور منفی سیاست کا طریقہ چھوڑ کر مثبت سیاست کا طریقہ اختیار کریں۔ اس طرح ان کی ترقی کا وہ دروازہ کھُل جائے گا جوآدھی صدی سے بھی زیادہ مدت سے اُن کے اوپر بند پڑا ہوا ہے۔

خلاصۂ بحث

اکیسویں صدی میں پہنچ کر اب آخری وقت آگیا ہے کہ تمام مسلم رہنما توبہ کے شرعی اُصول پر عمل کریں۔ وہ اپنی دو سو سالہ غلطی کا کھلے طورپر اعتراف کریں۔ اور دعوتی ماڈل کے اصول پر اپنے اسلامی عمل کی از سرِ نو منصوبہ بندی کریں۔ اس اعتراف اور تصحیح عمل سے کم کوئی چیز موجودہ تباہ کن صورت حال کو بدلنے والی نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom