ایک قدیم خط
محترمہ صدیقہ آپا السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط ملا۔ میری لڑکی بنت الاسلام کا انتقال میری زندگی کا پہلا واقعہ ہے جب کہ میں نے موت کے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ سانس اکھڑنا، آنکھ پتھرا جانا اورعالم نزع کی ہچکیاں یہ سب میرے لئے ابھی تک صرف الفاظ تھے جو میں نے کتابوں میں پڑھے تھے یا زبانوں سے سنے تھے۔ مگر اس مرتبہ بنت الاسلام کی موت میں ان الفاظ کو میں نے حقیقت بنتے ہوئے دیکھا۔جب آخر وقت ہوا تو پہلے اس کی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک شخص آخرت کی طرف جاتے ہوئے پیچھـے مڑ کر دنیا کو دیکھ رہا ہے۔ پھر اکھڑی اکھڑی سانسیں آنے لگیں جواس بات کی علامت تھی کہ جسم کا نظام اپنی صحیح حالت میں باقی نہیں رہا۔ اسی کے ساتھ اس کا بولنا بند ہوگیا۔ آخر میں ہچکی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی چراغ بجھنے کے وقت بھڑکنے لگتا ہے۔ یہ کیفیات چند گھنٹے تک باقی رہیں۔ بالآخر ۱۹؍ستمبر کو صبح آٹھ بجے ڈاکٹر کے کمرے میں اس کا انتقال ہوگیا۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔جس وقت میرے ساتھی محمد عبد الحئی صاحب اس کو کپڑے میں لپیٹ کر ڈاکٹر کے کمرے سے نکلے اور ہم رکشے میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا دنیا کی بساط لپیٹ دی گئی ہے اور فرشتے تمام انسانی روحوں کو لے کر خدا کے دربار کی طرف چلے جارہے ہیں۔ میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور میں نے کہا خدایا، میرے لئے بھی یہی دن آنے والا ہے۔ اس دن سے پہلے تو مجھے بخش دے ورنہ میرا کوئی انجام نہیں ہوسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر نصیحت لینا چاہے تو صرف موت کا واقعہ اس کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے۔ موت بچے کو بھی آتی ہے اور بڑے کو بھی۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ موت کا کوئی وقت نہیں۔ وہ عمر کے کسی بھی حصے میں آسکتی ہے۔ روس کے وزیر اعظم سٹالن اور امریکہ کے وزیر خارجہ ڈلیز بیمار ہو کر مرے اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی ایک سفر میں رات کو سوئی تو نیند ہی میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔اس سے معلوم ہوا کہ موت کبھی خبر دار کرکے آتی ہے اور کبھی اچانک آجاتی ہے۔ اس کی زد سے نہ امیر بچ سکتا ہے اور نہ غریب اور نہ کسی قسم کا علاج اسے روک سکتا ہے۔ یہ حقیقت اگر آدمی کے سامنے ہو تو دنیا کے تمام ہنگامے اسے بے معنٰی نظر آنے لگـتے ہیں۔ دنیا میں عزت اور خوش حالی حاصل کرنے کے لئے انسانوں کی تمام دوڑ بالکل احمقانہ حرکت معلوم ہوتی ہے۔ کسی مسافر کی ٹرین سامنے کھڑی ہو اور وہ اس میں سوار ہونے کے بجائے پلیٹ فارم کی بینچ پر جگہ حاصل کرنے کے لئے کش مکش شروع کردے توہر آدمی اس کو بے وقوف کہے گا۔ مگر آج ساری دنیا اسی نادانی میں مبتلا ہے۔ ہر روز لاکھوں آدمی مرکر ہم کو یہ بتاتے ہیں کہ تمہاری زندگی آخرت کا ایک سفر ہے اس کے لئے تیاری کر لو۔ مگر انسان دنیا کی دلچسپیوں میں اور دنیا میں عزت ڈھونڈنے میں اتنا گم ہے، وہ دنیوی مسائل میں اس قدر الجھا ہوا ہے کہ اسے کچھ احساس نہیں رہتا۔ اسی حال میں آدمی زندگی گزارتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اسے موت آتی ہے تو اچانک اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ایک گڑھے میں لا کر گرادیا ہے۔
رام پور، ۳۰ ستمر ۱۹۶۱ء دعا گو وحید الدین
نوٹ: یہ یادگار خط مرحومہ صدیقہ خانم کے صاحبزادے مسٹر حسین احمد خاں (مقیم بمبئی) کے ذریعہ حاصل ہوا۔
ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۲ نومبر ۲۰۰۱ء کو ٹیلی فون پر آپ سے گفتگو ہوئی۔ ۱۲ نومبر ہی کو ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) میں ایک بڑا اجتماع ہوا۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔ یہ جلسہ صرف میری تقریر کے لئے ہوا تھا۔ اس میں بولنے کے لئے مجھ کو جو عنوان دیا گیا تھا وہ یہ تھا: جہاد کا تصور اسلام میں۔حاضرین کی اکثریت نے میری تقریر کو بہت پسند کیا۔
جلسہ میں کچھ مسلم نوجوان بھی تھے جو اپنے آپ کو اسلام پسند کہتے ہیں۔ ان مسلم نوجوانوں نے تقریر کے بعد بہت سے سوالات کئے، تقریباً پچیس سوالات۔ یہ سوالات زیادہ تر مخالفانہ انداز میں تھے۔ میں نے اللہ کی توفیق سے ہر سوال کا واضح اور مدلّل جواب دیا۔ آخر میں، بظاہر سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت، ایک نوجوان نے نہایت جوش کے ساتھ یہ سوال کیا۔’’ آپ کہتے ہیں کہ جہاد کے لئے تیاری ضروری ہے۔ یہ بتائیے کہ غزوۂ بدر میں کون سی تیاری تھی، جب کہ ایک ہزار مشرکین کا مقابلہ صرف تین سو تیرہ مسلمانوں نے کیا اور فتح حاصل کی‘‘۔ اس سوال کے فورًا بعد مذکورہ نوجوانوں نے فاتحانہ انداز میں پُر شور تالیاں بجائیں۔ شاید ان کا خیال تھا کہ یہ سوال ایک ایٹم بم ہے اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔
میں نے سنجیدگی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا کہ غزوہ ٔ بدر کی تیاری تو اتنی بڑی تھی کہ اس کو سُپر تیاری کہا جاسکتا ہے۔ آپ قرآن میں سورہ الانفال کا پہلا رکوع پڑھیے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جب یہ اطلاع ملی کہ مسلح مشرکین ایک ہزار کی تعداد میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مقابلہ کے لئے نکلنے کا ارادہ کیا۔ مگر آپ کے اصحاب میں ایک فریق کا وہ حال تھا جس کو قرآن میں کار ھون سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ یہ بشارت دی کہ تم لوگ آگے بڑھو، ہم ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کریں گے۔
اس خدائی بشارت کے بعد لوگ آگے بڑھے اور بدرکے مقام پر اپنے مخالفوں کو شکست دی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ مسلمان بدر سے کامیاب ہو کر مدینہ واپس ہوئے تو شہر کے لوگوں نے ان کو مبارک باد دی۔ اس کے جواب میں ایک بدری صحابی نے کہا، تم ہمیں کس چیز کی مبارک باد دیتے ہو۔ خدا کی قسم، ہم جن سے ملے وہ توگویا کہ قربانی کے بندھے ہوئے اونٹ تھے جن کو ہم نے ذبح کردیا۔ (سیرت ابن ہشام، الجزء الثانی، صفحہ ۲۸۶)
میں نے کہا کہ آج جو لوگ تیاری کے بغیر جہاد کے لئے بدر کا حوالہ دیتے ہیں، کیا ان کے پاس اس قسم کی کوئی بشارت خدا کی طرف سے آئی ہے۔ اگر آپ کو ایسی خدائی بشارت حاصل ہو تو بے شک آپ جہاد کیجئے ورنہ اپنے خود ساختہ جہاد کے لئے ہر گز بدر کا حوالہ نہ دیجئے۔
عجیب بات ہے کہ ہماری قوم ڈیڑھ سو سال سے اسی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ ۱۸۵۷ میں ہندستان کے جن علماء نے انگریزوں کے خلاف مسلح جہاد کیا اس وقت ایک عالم نے ان سے کہا تھا کہ آپ کے پاس کوئی تیاری نہیں ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا طاقتور انگریز سے مسلح ٹکراؤ کرنا جائز نہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا ہمارے پاس اتنی بھی تیاری نہیں جتنی غزوہ ٔ بد ر کے موقع پر اس وقت کے اہل ایمان کو تھی۔ اسی غلط تصور کی بنا پر وہ لوگ انگریزوں سے لڑ گئے۔ اور زبردست نقصان اٹھا کر شکست کھائی۔
علمی اعتبار سے اس کا تجزیہ کیجئے تو یہ غلط تقابل (wrong comparison) کا ایک کیس ہے۔ بدر کے واقعہ کو یہ لوگ ایک ہزار اور ۳۱۳ کے درمیان ٹکراؤ کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ خدائی فوج اور انسانی فوج کے درمیان ٹکراؤ کا معاملہ ہے۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ان کے اندر صحتِ فکر (right thinking) کا کامل فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ غلطی کو وہ ڈیڑھ سو سال سے قولاً اور عملاً دہرا رہے ہیں۔ ابھی تک وہ شعوری طورپر یہ معلوم نہ کرسکے کہ اس مدت میں بار بار پیش آنے والے ناکام جہاد کا سبب کیا ہے۔ وہ ہے جہاد کو جاننا، مگر فکر جہاد سے مکمل طورپر بے خبر رہنا۔
۱۴نومبر ۲۰۰۱ء دعا گو وحید الدین
ایک خط
برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۳ مئی ۲۰۰۱ کو ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ میرے ایک بھائی اے ایم خان ہیں۔ انہوں نے ۱۹۵۵ میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، اب وہ فیض آباد میں رہتے ہیں۔ چند دن پہلے وہ دہلی آئے۔ ایک گفتگو کے دوران انہوں نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کیا۔
ہندویونیورسٹی میں ان کو لمڈی ہاسٹل (LIMDI Hostel) میں رکھاگیا۔ اس ہاسٹل کے ہر کمرے میں دو طالب علم کے رہنے کا انتظام تھا۔ ہمارے بھائی کا داخلہ ہوا تو وہاں کے وارڈن مسٹر وی۔ پی پانڈے (V.P. Panday) نے کہا کہ تم مسلمان ہو۔ تم کو نماز اور قرآن پڑھنا ہوگا اس لئے میں تم کو ایک غیر مشترک کمرہ دیتا ہوں، تاکہ تم کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ یونیورسٹی کے قاعدہ کے مطابق، صرف مانیٹر کو تنہا اورغیر مشترک کمرہ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ مسٹر پانڈے نے ہمارے بھائی کو مانیٹر بنا دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تو پڑھنے لکھنے والا آدمی ہوں، مانیٹری میں کیسے کروں گا۔ مسٹر پانڈے نے کہا تم کچھ مت کرنا،صرف رجسٹر پر دستخط کر دینا اور بس۔ بقیہ کام دوسرے لوگ کردیں گے۔چنانچہ ہمارے بھائی تعلیم کی پور ی مدت میں اس کمرہ میں غیر مشترک طورپر رہے۔
میرے بھائی نے بتایا کہ اس واقعہ کا ذکر انہوں نے یوپی کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے کیا۔ انہوں نے یہ بات سن کر میرے بھائی سے کہا کہ مسٹر خان، پانڈے نے نہایت ہوشیاری سے آپ کواچھوت بنا دیا۔
یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا عام مزاج ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر منفی مزاج (negative mentality) کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کو ہر واقعہ میں صرف منفی پہلو دکھائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ مثبت واقعات میں بھی وہ کوئی نہ کوئی منفی پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اوپر کا واقعہ ہے۔
یہ زوال یافتہ قوم کا حال ہے۔ مگر جب کوئی قوم عروج کی حالت میں ہو تو اس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس کو ہر واقعہ میں مثبت پہلو دکھائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ایجابی مزاج کی بنا پر اس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ منفی واقعہ میں بھی مثبت پہلو دریافت کرلے۔
دور اول کے مسلمانوں کے اندر یہ صفت کامل طورپر موجود تھی۔ اس کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ خلیفہ ٔ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں مسلم فوجیں ایران میں داخل ہوئیں۔ ان کے اقدامات اتنے کامیاب تھے کہ ایرانی فوجی اپنا حوصلہ کھو بیٹھے۔ وہ ان کے بارے میں کہنے لگے کہ دیواں آمدند، دیواں آمدند (دیو آگئے، دیو آگئے)۔ اس وقت ایرانی حکومت نے جنگ کو روک کر گفت وشنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران مسلم فوج کے کئی وفد ایرانیوں سے ملے۔ آخری وفد عاصم بن عمرو کا تھا۔ انہوں نے شاہ ایران یزدگرد کے دربار میں پہنچ کر جس بے باکی کا مظاہرہ کیا اس سے شاہ ایران غصہ ہوگیا۔ اس نے حکم دیا کہ مٹی کاایک ٹوکرا لایا جائے۔ اس کے بعد اس نے صحابی کے سرپر مٹی کا یہ ٹوکرا رکھوایا اور حکم دیا کہ ان کو اسی حال میں شہر کے باہر نکال دو۔
صحابی اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر واپس روانہ ہوئے۔ وہ اسلامی فوج کے سردار سعد بن ابی وقاص کے خیمہ میں پہنچے اور مٹی کا ٹوکرا ان کے سامنے رکھ کر پورا قصہ بتایا۔
شاہ ایران کا یہ سلوک بلاشبہہ سخت اشتعال انگیز تھا۔ مگر حضرت سعد غصہ نہیں ہوئے۔ اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ تم لوگوں کو خوش خبری ہو کیوں کہ خدا کی قسم انہوں نے اپنے ملک کی کنجیاں ہمارے حوالے کر دیں۔(مٹی کا ٹوکرا دینے سے انہوں نے یہ فال لیا کہ ایرانیوں نے خود ہی اپنا ملک ہمارے حوالہ کردیا ہے) البدایۃ والنہا یۃ ۷؍۳۸۔۳۹۔
اس تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ زوال کی نفسیات اور عروج کی نفسیات میں کیا فرق ہے۔ زوال کی نفسیات میں مبتلا لوگ محرومی کے احساس میں جیتے ہیں، چنانچہ وہ ہر واقعہ سے منفی غذا لینے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ عروج کی نفسیات میں جیتے ہوں، وہ ہر واقعہ سے مثبت غذ۱ لیتے ہیں۔ وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ انتہائی ناموافق حالات میں بھی موافق پہلو تلاش کرلیں، حتیٰ کہ اپنے minus کو بھی اپنے plus میں تبدیل کرلیں۔
۱۴ مئی ۲۰۰۱ دعا گو وحید الدین