نیشنلزم اور حب الوطنی
1971 کے نصف اول کا واقعہ ہے۔ میں نے بذریعہ ٹرین پاکستان (لاہور اور فیصل آباد) کا سفرکیا ۔ جب میں ہندستانی سرحد پار کیا اور دوسری جانب پہنچا تو میر ے قلی نے ایک فوجی افسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ میجر صاحب آپ کو بلارہے ہیں۔ اس کے بعد قلی نے مجھے ایک بند فوجی خیمے کے اندر پہنچا دیا ۔ وہاں ایک پاکستانی فوجی افسر بیٹھا ہوا تھا ۔ اس خیمے میں صرف ہم دوآدمی تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ بنگلہ دیش کی جنگ کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ اس مسئلہ کی وجہ سے انڈیا اور پاکستان میں سخت تناؤپیداہو گیا تھا۔
اس خیمہ میں پاکستانی فوج کے افسر نے مجھ سے ایسی گفتگو شروع کی جو میرے نزدیک انڈیا کے نیشنل انٹرسٹ کے خلاف تھی۔ مثلاًباوَردی فوجی افسرنے مجھ سے کہا کہ انڈیا کے کچھ فوجی راز بتایئے ۔کچھ دیر تک میں برداشت کرتے ہوئے اس کی باتیں سنتا رہا۔پھرمیں نے کہا میجر صاحب ، آپ مجھ سے یہ سمجھ کر بات کیجئے کہ میں انڈیا کا ایک وفادار شہری ہوں۔اس کے بعد میں نے تقریباً پندرہ منٹ تک نہایت سخت اندا زمیں اس کے سامنے تقریر کی۔ میں جانتا تھا کہ اس وقت اگر وہ مجھے گولی مار دے تو یہاں مجھے کوئی بچانے والانہ ہوگا۔ مگر صورتِ حال کی نزاکت کی پرواکیے بغیر میں نے اس سے وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو ایک ہندستانی شہری کی حیثیت سے میں کہہ سکتاتھا۔
مذکورہ فوجی میجر سے جو باتیں میں نے کہی، ان میں سے ایک بات یہ تھی اگر انڈیا کے ساتھ آپ کی لڑائی کا انحصارہمارے جیسے لوگوں سے فوجی راز حاصل کرنے پر ہے تو آپ اپنی لڑائی جیت چکے ۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ میں جنگی راز اتنا ٹاپ سیکریٹ ہوتا ہے کہ بعض اوقات وزیر دفاع کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی ۔ تقریباً آدھ گھنٹہ تک میں اس قسم کی باتیں کرتارہا ۔ اس کے بعد سلام اور معذرت کیے بغیر خیمہ سے باہر نکل آیا ۔ مذکورہ میجر مکمل خاموشی کے ساتھ میری باتوں کو سنتا رہا ۔ جب میں باہر نکلا تو وہ بھی میرے پیچھے پیچھے باہر آگیا۔اس نے کہا—مولانا صاحب ، ہم کو آپ ہی جیسے لوگوں کی ضرورت ہے ۔
یہ بات میں نے پاکستان کی سرزمین پر ایک فوجی خیمے میں اس وقت کہی جب کہ اگر وہ فوجی افسر مجھے گولی مار دیتا تو شاید میر ی موت اس طرح واقع ہو جاتی کہ اس کی کوئی خبر بھی نہ بنتی ۔
جس وقت میں نے پاکستان کے فوجی افسر سے یہ باتیں کہیں اس وقت میرامذہب، میرالباس، میری بولی، میری خاندانی روایات، سب کچھ ایک عام ہندو سے مختلف تھیں۔مگر قومی احساس کے اعتبار سے اس وقت میرااحساس عین وہی تھا جو ایک دیش بھگت ہندوکااحساس ہوسکتا ہے۔
میری زندگی کے سیکڑوں واقعات میں سے یہ صرف چند واقعات ہیں جو بتاتے ہیں کہ مجھے اپنے وطن سے کتنا زیادہ لگاؤ ہے ۔ جو ہندو مجھے قریب سے جانتے ہیں ، مثلاً سوامی اوم پورن سوتنترا (نئی دہلی ) یا سوامی چیدانند(رشی کیش )،وغیرہ، وہ کہتے ہیں کہ آپ کے اندر جودیش بھکتی ہے اس کی مثال ہم نے مہاتماگاندھی کے بعد کسی او ر کے اندر نہیں دیکھی۔ میرے دل کی یہی تڑپ ہے جو مجھ کو مذکورہ قسم کی باتیں کہنے پر مجبور کرتی ہے ۔
اس نوعیت کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ 20 جنوری 1997 کو نئی دہلی میں پانیر ہاؤس میں ایک میٹنگ ہوئی ۔ اس میں شہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک تھے۔ اس میٹنگ کا موضوع تھا — کیا گاندھی آج کے ہندستان میں کامیاب ہوتے۔ میں نے اس موقع پر ایک لمبی تقریر کی۔ اس سلسلہ میں میں نے کہا کہ گاندھی پچھلے انڈیا میں بھی کامیاب نہیں ہوئے یہاں تک کہ 1947 میں انھیں خود یہ کہنا پڑا کہ:اب میری کون سنے گا ۔ پھر گاندھی جب پچھلے انڈیا میں کامیاب نہیں ہوئے تو آج کے انڈیا میں وہ کس طرح کامیاب ہوتے۔ ایک ہندو پروفیسر نے میری بات سن کر کسی قدر برہمی کے ساتھ کہا کہ آپ مہاتماگاندھی پر تنقید کررہے ہیں۔ یہ سن کر میر ا دل تڑپ اٹھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ میں نے درد بھرے لہجے میں کہا :
I love Gandhi, but I love India more than Gandhi
میری یہ بات سن کر پروفیسر صاحب خاموش ہوگئے ۔ اس کے بعد کسی نے بھی میری تنقیدی تقریر کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ میری یہ تقریر مکمل طورپر انگریزی اخبار پانیر (نئی دہلی ) کے شمارہ 26جنوری 1997 میں چھپ چکی ہے ۔
میری بعض تنقید وں کو سن کر ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ آپ ہمارے قومی لیڈروں کی اتنی سخت آلوچنا کرتے ہیں۔ آخر کس نے آپ کو اس کا ادھیکار دیا ہے ۔ میں نے جواب دیا کہ میری دیش بھکتی (حب الوطنی ) سے مجھ کو یہ ادھیکار پراپت ہواہے ۔ یہ سن کر وہ چپ ہوگئے ۔ (ہند - پاک ڈائری، صفحہ 30-32)